شہر ویراں کے مکینو
یہ سنو
تم فقط
نقش بہ دیوار رہے
مجھ کو دیکھو کہ میں
آئینہ بنا
دیکھ رہا ہوں کب سے
بہتے دریاؤں کے سینے پہ
جو ملاح ہیں کشتی میں سوار
آگ لینے کو
کئی بار گئے تھے لیکن
لوٹ آئے تھے لیے کوئلہ اور راکھ کا ڈھیر
طور سے آئی صدا
آج حیراں ہوں کہ جب
ان کی وہ کشتی ہوئی
گرداب کے ہاتھوں میں اسیر
ڈوبتے ڈوبتے
ابھرے ہیں وہ قندیل بہ کف
جس کے شعلے کی زباں پر ہے لکھا
میں اجالوں کا نقیب
مجھ کو تھامے
جو بڑھو گے
تو سنو
کل جہاں
دھوپ میں لپٹی تھی
شبوں کی رنگت
اور جہاں
خواب میں
دیواریں کیا کرتی تھیں
باتیں خود سے
وہیں
گونجے گی صدا کی خوشبو
قہقہے نور کے
بکھریں گے وہیں
آج پھر
طور سے آتی ہے صدا
شہر ویراں کو
جو گلزار بنانا ہے
تو پھر
ڈوب جانے دو انہیں
اپنے کاسے میں لیے
کوئلہ اور راکھ کا ڈھیر
اور اگر وہ جو کنارے سے لگے
کاٹ کر
شعلۂ افزوں کی زباں
پھر سے کر لیں گے
اجالوں کو اسیر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.