سنجیونی
بے سبب جانے کیوں اس روز طبیعت تھی اداس
سرمئی شام تھی دل کش تھی شفق کی لالی
خوش نوا شوخ پرندوں کی بھی سرگوشی تھی
نکہتیں سبزہ نوخیز پہ تھیں مست خرام
رقص آمادہ تھے سرمست ہوا کے جھونکے
اور دریا کی خوش آہنگ مچلتی موجیں
خنک وادی میں ترنم ہو رمیدہ جیسے
ہر طرف حسن طرب خیز کا عالم تھا مگر
جانے کیا بات تھی اس روز طبیعت تھی اداس
شام ڈھلنے کو تھی بیٹھا تھا میں ساحل کے قریب
منہمک کپڑے بدلنے میں تھی وہ غسل کے بعد
تر بہ تر بھیگی ہوئی ساری میں بدمست شباب
گورے گدرائے ہوئے سینوں کا بھرپور گداز
ابھرے ابھرے سے کٹوروں کے کتھئی بوٹے
اطلسی گالوں پہ پانی کے سیم گوں قطرے
نرگسی آنکھوں کے پیالوں میں شراب احمر
شوخ یاقوت فام ہونٹ کمال آذر
پنڈلیاں کولہے کمر ناف الٰہی توبہ
کاسنی دھوپ کے پرتو میں دم انگڑائی
ایسی اوسان ربا سانولی وینس کہ جسے
شیخ بھی دیکھ لے اک بار تو تقویٰ بھولے
دیکھتے دیکھتے نبضوں میں حرارت پھوٹی
تھا جو اعصاب پہ یک بارگی ٹوٹا وہ جمود
سر اٹھانے لگے بے باک سرپھرے جذبات
اس طرح دل میں سلگنے لگے خواہش کے الاؤ
جیسے شریانوں میں رقصاں کوئی چنگاری ہو
جیسے سنجیونی بوٹی کی سحر کاری ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.