شاعر کی تمنائیں
اگر اے شمع دل جلنا ہی تھا تجھ کو تو جلنا تھا
کسی بیکس کی تربت پر چراغ نیم جاں ہو کر
یہ حسرت تھی کہ موجوں کے تلاطم میں بہا جاتا
میں اپنی کشتیٔ بے بادباں کا پاسباں ہو کر
بتاتا حالت رفتار شب صحرا نشینوں کو
نجوم چرخ بن کر کارواں در کارواں ہو کر
تھکے ماندے مسافر کو سلا دیتا لب دریا
ہوائے سرو بن کر موجۂ عنبر فشاں ہو کر
گزر جاتا فغاں کرتا ہوا سنسان وادی سے
فضاؤں کو جگا دیتا درائے کارواں ہو کر
امید و بیم کے جھگڑے مٹا دیتا زمانے سے
خودی کا دیوتا بن کر خدا کا ترجماں ہو کر
فریب حسن دیتا دیدۂ کور تمنا کو
نگاہ دل نشیں بن کر ادائے دلستاں ہو کر
کسی کی آرزو کرنی ہی تھی تو عمر بھر کرتا
جوانی میں ہوس بن کر بڑھاپے میں جواں ہو کر
ترقی منحصر عصیاں پہ ہے مقصود فطرت کی
تڑپتا سینہ ہائے شوق میں راز زیاں ہو کر
یہ حسرت تھی کہ عالمگیر ہوتی روشنی دل کی
یہ حسرت تھی کہ چھا جاتا زمیں پر آسماں ہو کر
مگر کیا کیجئے جب فیصلہ یہ ہے مشیت کا
کہ میں فطرت کی آنکھوں سے گروں اشک رواں ہو کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.