Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاید مٹی مجھے پھر پکارے

سارا شگفتہ

شاید مٹی مجھے پھر پکارے

سارا شگفتہ

MORE BYسارا شگفتہ

    سن

    دریا اپنی مٹھی کھول رہا ہے

    سن

    کچھ پتے اور پتوں کے ساتھ کچھ ہوا اکھڑ گئی ہے

    جنگل کے پیڑ ارادے

    زمین کو بوسہ دے رہے ہیں

    چاہتے ہیں دریا کو مٹھی کا جال لگائیں

    آنکھیں منظر تہہ کرتی جا رہی ہیں

    سمندر مٹی کو چوکور کر نہیں پا رہے سن

    گلی لے پہ پھنکار رہی ہے

    اس میں جلے ہوئے کپڑے پھینک

    زینے گلیوں میں دھنسے جا رہے ہیں

    جسموں سے آنکھیں باندھ دی گئی ہیں

    بہتے ستارے تجھے عکس کر رہے ہیں

    تیرے پاس کوئی چہرہ نہیں

    بتا

    جنگل سے لوٹنے والوں کے پاس

    میرے لفظ تھے یا مورت

    کئی جنم بعد بات دہرائی ہے

    میری بات میں جال مت لگا میری بات بتا

    بتا

    بوجھل سائے پہ کتنا وزن رکھا گیا تھا

    سن

    موت کی چادر تمہاری آنکھیں ناپنا چاہتی ہے

    کنچے اس چادر کو چھید چھید کر دیں گے

    چادر میں پہلے ہی سی کر لائی تھی

    کیا پیمانہ زنگ آلود تھا

    یہ چادر تمہیں مٹی سے دور رکھے گی

    ایسی حد ایسی حد سے میرا وجود انکار کرتا ہے

    تمہارا وجود تو پرندے رٹ چکے

    تمہاری زبان کہیں تمہاری محتاج تو نہیں

    میرے اعضا پر اعتبار کر

    میں حیرتوں کا انکار ہوں

    مختلف رنگ کے چراغ

    اور پانیوں کی زبانیں

    آدمی انسان ہونے چلا تھا کہ کنواں سوکھ گیا

    کیا آدمی نے کنوئیں میں نفرت پھینک دی تھی

    نہیں

    وہ صدا گنبد کو توڑتی ہوئی

    تھوڑا سا آسمان بھی توڑ لائی تھی

    چادر اور آواز کو تہہ کر کے رکھ دو

    لوٹنے تک میری آواز دھرتی پہ گونجتی رہے

    جیسے جیسے تم جاؤ گے

    ختم ہوتے جاؤ گے

    تم دو آنکھیں رکھنا مگر فاصلے کو بیدار مت کرنا

    آنکھوں کی ٹک ٹک سارا جنگل جانتا ہے

    تم خاموش رہنا

    اور ہاں زبان کا علم اپنے ساتھ لیتے جاؤ

    تم پیڑوں اور چڑیوں کی گفتگو سننا

    آبشاروں کے وار سہنا

    میں یہ ٹکڑا آسمان کو رنگنے جا رہی ہوں

    رخصت ہو رہی ہو

    آنے کا وعدہ ہے

    وعدے چوکھٹ گھڑیاں جوڑ جوڑ کر بنائے گئے ہیں

    وعدے کو کھڑاؤں مت پہناؤ

    چاپ کا اقرار دیکھ میرے قدم کی رکھوالی کرتی ہے

    میں اپنے چراغ کی لو سے

    تمہاری جھونپڑی باندھے جاتی ہوں

    لو اور یہ جھونپڑی

    جس وقت اپنا اپنا دم توڑ دیں

    تو سمجھ لینا

    میں کوئی زندہ نہیں رہی ہوں گی

    دیا تاریکیوں کو چوکنا رکھے گا

    سانس تپ چکے

    اور مٹی مجھے بلا رہی ہے

    اچھا چراغ اور چادر کو باندھ دو

    حیرت ہے

    تم حقیقت کی تیسری شکل نہیں دیکھنا چاہتے

    آگ کو کوزے میں بند کر دو

    اور

    یہ رہا چراغ اور چادر

    یہ تو راکھ ہے

    یہ راکھ نہیں میرے سفر کی گواہی ہے

    مأخذ:

    AN EVENING OF CAGED BEASTS (Pg. 162)

    • مصنف: Asif Farrukhi
      • اشاعت: 1999
      • ناشر: Ameena Saiyid, Oxford University
      • سن اشاعت: 1999

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے