اجلی خوشبو
سوچ کے لمحے پیار کے قصے مدت پہلے
میں نے تم نے
بسر کئے تھے
کل کی بات یہ کیوں لگتی ہے
اب تک یاد ہے سب کچھ مجھ کو
آنکھوں پر ہاتھوں کو رکھ کر قسمیں کھایا کرتی
تجھ کو دیکھا جس صورت میں
غیر نہ دیکھوں گی
اندھیارے میں روشن سایا
ڈالی بن کے لہراتی رنگ سمیٹے آتی
میرا شانہ تیری شامیں
سارے گاؤں میں ایک دیا تھا
جس کی اوٹ میں دونوں سائے
بڑھتے رہتے
یاد ہے مجھ کو کرمو بابا
زندہ تھا
سیڑھی اٹھائے
تیل کا ڈبہ مانگی ماچس
اس کو دیکھ کے کہتا
شام و سحر ہے کرمو بابا
یاد ہے تجھ کو
کتنے گھروں میں گھرے دو گھر تھے
کچے کچے
اور وہ کھمبا جس کے نیچے گاؤں والے ماچا بچھائے
چوسر جمتی قہقہے لگتے
سب سے چوری تو نے میں نے کتنے
رنگیں سپنے بنے تھے
وہ لمحہ بھی یاد ہے مجھ کو کرمو بابا سیڑھی اٹھائے
ساتھ کے گاؤں چلا گیا
اس دن کتنی خوش تھی
گلی ہے روشن
تیرا سایا میرا سایہ پھیل گیا
گاؤں کی سچی دیواروں نے منہ کھولے پلٹ کے تو نے دیکھا
ترے لبوں پر چھاپ لگی
چیخ رہی تھی
پکڑو اس کو پتھر مارو
رنگ دو ماتھا کیوں پھرتا ہے
میرا پیچھا کرتا ہے
ذہن کا عیسیٰ بنتا ہے
سوچ رہا ہوں تیری بستی کیوں آیا ہوں
اب بھی کھمبا وہیں ہے لیکن
شہر میں کوئی دیا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.