امید فردا
ہم نے لاکھوں شعر کہے ہیں
صدیوں سے اور قرنوں سے
ان میں ہم نے انسانوں کو الفت کا پیغام دیا
گیت محبت کے گائے
بھائی چارہ کا درس دیا
مانوتا کا سبق دیا سارے وحشی انسانوں کو
گیت ہمارے بھٹک رہے ہیں نفرت کے صحراؤں میں
لاش پڑی ہے مانوتا کی دنیا کے چوراہے پر
تہذیب کے ایوانوں میں ہر سو شور بپا ہے ماتم کا
ننگی ہو کر ناچ رہی ہے بربریت کاشانوں میں
ایک نئی دنیا کے سپنے دیکھ رہے ہیں صدیوں سے
ایسی دنیا جس میں کسی کو کوئی غم و آلام نہ ہوں
آس کے ہر سو پھول کھلیں اور پاس کا کوئی خار نہ ہو
میٹھی میٹھی دھوپ ہو پھیلی چاروں اور امیدوں کی
سکھوں کی ہر سو بارش ہو دکھوں کا کوئی سیلاب نہ ہو
لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں
خواب ہمارے ٹوٹ رہے ہیں
پاس کی تاریکی اب ہر سو گہری ہوتی جاتی ہے
رنگ ملا جاتا ہے لہو کا اب اپنے ان سپنوں میں
سوچ رہے ہیں شعروں کا لکھنا ہم کیوں نہ بند کریں
گیتوں کو الجھائیں کب تک نا فہمی کے خاروں میں
ان کے کومل بدنوں کو کیوں ٹکرائیں چٹانوں سے
ہم تو یہ سوچ رہے ہیں قرنوں تک خاموش رہیں
ایسی صداؤں سے حاصل کیا جو ہو کر آوارہ بھٹکیں
ٹکرا کر چاروں سمتوں سے لوٹیں زخمی ہو ہو کر
ذہن ہمارے گھرے ہوئے ہیں یاس کی گہری تاریکی میں
دور دور تک تاریکی ہے مایوسی کی تاریکی
دور دور تک خون کے دریا
دور دور تک لاشیں ہیں
لاشیں اپنی امیدوں کی
لاشیں اپنے خوابوں کی
لاشیں ان آدرشوں کی
جن کی ہم نے پوجا کی ہے صدیوں سے
پھر بھی جنہیں اپنا نہ سکے ہم
لوح و قلم بھی ڈوب چکے ہیں ایسی ہی تاریکی میں
ان کی آنکھیں چیر رہی ہیں سینہ اس تاریکی کا
دیکھ رہی ہیں اس دنیا کو جو اس تاریکی سے پرے ہے
اس دنیا کو جس کے سپنے ہم دیکھ رہے ہیں صدیوں سے
دل اپنے مایوس ہیں لیکن لوح و قلم مایوس نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.