امید کے کرشمے
جب کوئی ناؤ ڈگمگاتی ہے
آس جب دل کی ٹوٹ جاتی ہے
سب خدائی نظر پھراتی ہے
صرف امید کام آتی ہے
یہ اگر دل سے کوچ کر جائے
آدمی تلملا کے مر جائے
زندگی کی بہار ہے امید
آتما کی پکار ہے امید
ہمدم و غم گسار ہے امید
جان و دل کا ابھار ہے امید
من میں آشا گزر جو کرتی ہے
ڈوبتی نبض بھی ابھرتی ہے
زندگی کا ہے آسرا امید
ایک جیون ہے خوش نما امید
کامیابی کا راستہ امید
مر گیا وہ ہوا جو نا امید
آس رکھنا ہی دور بینی ہے
رات کے بعد دن یقینی ہے
آس جب دل کو گدگداتی ہے
روح کو نیند سے جگاتی ہے
جھونپڑوں کو محل بناتی ہے
جنگلوں میں بہار لاتی ہے
آدمی کو یہ زندگانی ہے
زندگانی کی یہ جوانی ہے
صرف امید کے بھروسے پر
چل رہا ہے حیات کا چکر
بیٹھ رہتے ہیں لوگ جب تھک کر
یہ بڑھاتی ہے ہمتیں اکثر
قوتوں پر شباب آتا ہے
ضعف تھرا کے بھاگ جاتا ہے
لے کے امید کا دیا مالی
باغ کی کر رہا ہے رکھوالی
گرچہ پھولوں سے ہے چمن خالی
آس نے جی میں جان ہے ڈالی
گرم جھونکے جو دل جلاتے ہیں
پھول آشا کے من لبھاتے ہیں
دھوپ میں ایک غم زدہ مزدور
بیلچہ ہاتھ میں تھکن سے چور
اپنی محنت سے ہے بہت مسرور
ہے سہانی امنگ سے بھرپور
مسکراتا ہے بار بار ایسے
لہلہاتی ہیں کھیتیاں جیسے
تھک کے ہوتا ہے پست جب ناچار
بیٹھ جاتا ہے ہانپ کر اک بار
آس کہتی ہے یوں نا ہمت ہار
ہاں کمر کس کے جلد ہوشیار
اٹھ کے وہ پونچھ کر پسینے کو
تان لیتا ہے اپنے سینے کو
ایک دکھیا غریب دکھیاری
جاتی ہے اپنے لال پر واری
چکیاں پیس کر بہ دشواری
پالتی ہے اسے وہ بیچاری
اس کی آشا ہے نونہال اس کا
موتیوں سے سوا ہے لال اس کا
ایک بوڑھا مریض ہے لاچار
پھر بھی وہ جان سے نہیں بیزار
آس ہمت بندھاتی ہے ہر بار
کھول دیتا ہے آنکھ وہ بیمار
زندگی جب جواب دیتی ہے
آس فوراً سنبھال لیتی ہے
الغرض سب کی ہے نئی امید
آدمی کی ہے زندگی امید
زندہ دل وہ ہے جس نے کی امید
جی کی ساتھی ہے واقعی امید
یہ اگر زندگی میں کھو جائے
مرنا جینا عذاب ہو جائے
اس سے تو ایک دل نہیں خالی
سب کے جی میں بسی ہے متوالی
ہے یہ فطرت کی گود کی پالی
کامیابی کے پیڑ کی ڈالی
دل کے آکاش کا ستارا ہے
سب کے جیون کا یہ سہارا ہے
اس کو ہے آن بان کی امید
اس کو شاہی نشان کی امید
کچھ انوکھی جوان کی امید
سب سے پیاری کسان کی امید
آس میں دکھ پہ دکھ اٹھاتا ہے
گیت گا گا کے ہل چلاتا ہے
خشک ہوں جبکہ ندیاں نالے
ہوں ہرے کھیت سوکھنے والے
دھوپ میں ہوتے ہوں ہرن کالے
بلکہ پڑ جائیں جان کے لالے
ٹوٹتی ہے جہان کی امید
پر بندھی ہے کسان کی امید
اس کی آشا بہار کی امید
بادلوں کے نکھار کی امید
موسم خوش گوار کی امید
ہلکی ہلکی پھہار کی امید
اس کی آشا پہ کھیتیاں قائم
اس کی امید پر جہاں قائم
غم کرے کس لئے اداس ہمیں
کامیابی کی جب ہے آس ہمیں
محنتوں سے نہیں ہراس ہمیں
اپنی امید کا ہے پاس ہمیں
کتنی سندر ہے کیا سہانی ہے
دل کی ملکہ ہے من کی رانی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.