Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

مخمور سعیدی

وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

مخمور سعیدی

MORE BYمخمور سعیدی

    وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

    وہ سرد ریتیلے راستے

    آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں

    جہاں گھنے جھنڈ ہیں درختوں کے

    شاخساروں میں چہچہاتے ہوئے پرندوں کی ٹولیاں ہیں

    جہاں پہاڑوں کی سرمئی چوٹیوں پر آوارہ بادلوں نے

    نشیمن اپنے بنا رکھے ہیں

    ندی کے پانی میں

    سبز پرچھائیوں کی پریوں کا ہے بسیرا

    شریر جھونکے ہوا کے جن کا سجل بدن گدگدا رہے ہیں

    فضا میں وہ تازگی و تابندگی جہاں مسکرا رہی ہے

    ہوا ہو صدیوں کے بعد جیسے زمیں پہ پہلے پہل سویرا

    کیا ہو سورج نے جیسے صدیوں کے بعد اس خاکداں کا پھیرا

    وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

    وہ سارے منظر ابھی انہیں چوکھٹوں میں جیسے جڑے ہوئے ہیں

    گئے زمانے بھی جیسے آنکھوں کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں

    وہی گلابی سی دھوپ دیوار و در کو رنگیں بنا رہی ہے

    کھلی چھتوں پر

    وہی رو پہلی سی چاندنی گیت گا رہی ہے

    کشادہ دل آنگنوں میں اب بھی

    نشاط احساس کے شگوفے چٹک رہے ہیں

    کہیں سجی ہے خود اپنے ہی سائباں کے نیچے

    قرار قلب و نظر کی محفل

    کہیں پڑوسی کے گھر کا نغمہ سکوں کی سوغات بانٹتا ہے

    کہیں جھروکوں سے جھانکتا ہے کسی کا پندار خودنمائی

    کہیں منڈیریں پھلانگتا ہے کسی کا احساس نارسائی

    وہی جھروکے وہی منڈیریں بلند و بالا وہی منارے

    اور ان مناروں پہ پر سکھاتے

    کبوتران حرم وہی ہیں

    اذاں کی آواز سن کے مسجد کی سمت اٹھتے قدم وہی ہیں

    ابھی وہی آسمان ان کی زمیں پہ سایہ کیے ہوئے ہے

    ابھی وہاں اپنے نیک بندوں کی قسمتوں کی

    خدا ضمانت لیے ہوئے ہے

    وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

    وہ لوگ اب بھی اسی طرح

    ایک دوسرے کے غموں سے واقف مسرتوں سے بھی باخبر ہیں

    وہ آشنا منزلوں کے راہی ہیں

    جادۂ شب پہ صدیوں سے ہم سفر ہیں

    وہ جانتے ہیں

    کہ اس شب و روز کی مسافت کا مدعا کیا مآل کیا ہے

    وہ جانتے ہیں

    کہ کون کس مرحلے پہ کیا سوچتا ہے

    کس کا خیال کیا ہے

    وہ خود کو پہچانتے ہیں

    اپنی حدوں کو بھی جانتے ہیں

    اپنی حدوں میں رہ کر ہی جی رہے ہیں

    جنم جنم سے سکھی رہے ہیں

    کبھی وہ مجھ سے بھی آشنا تھے مجھے بھی پہچانتے تھے لیکن

    میں ایک لمبے سفر پہ نکلا

    دہکتی لوہے کی پٹریاں میرے آگے پیچھے رہیں لپکتی بہت دنوں تک

    اور آج برسوں کے بعد لوٹا تو میں نے دیکھا

    میں وہ نہیں ہوں

    جسے وہ سب الوداع کہتے ہوئے کسی روز رو پڑے تھے

    میں وہ نہیں ہوں

    جو ان سے رخصت کے وقت شاید اداس بھی تھا ملول بھی تھا

    میں ان سے کہتا ہوں میں وہی ہوں

    تو میری آواز خود مجھے اجنبی سی لگتی ہے

    جیسے کہتا ہو کوئی تم جھوٹ بولتے ہو

    تو کیا یہ سچ ہے کہ دو رخی مجھ میں آ گئی ہے

    وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

    وہ سرد ریتیلے راستے

    آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں

    وہ سارے منظر ابھی انہی چوکھٹوں میں جیسے جڑے ہوئے ہیں

    وہ لوگ اب بھی اسی طرح

    ایک دوسرے کے غموں سے واقف

    مسرتوں سے بھی باخبر ہیں

    مگر اب ان میں مجھے کوئی جانتا نہیں ہے

    میں دور کا اجنبی مسافر نہیں کوئی مانتا نہیں ہے

    مأخذ:

    1970کی منتخب شاعری (Pg. 21)

      • ناشر: پی. کے۔ پبلیکشنز، دہلی
      • سن اشاعت: 1971

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے