Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

یہ بستی میری بستی ہے

عشرت آفریں

یہ بستی میری بستی ہے

عشرت آفریں

MORE BYعشرت آفریں

    جہاں میں ہوں

    یہاں جب رات ہوتی ہے

    تو اس ساحل پہ سورج نور برساتا ہے

    جس کی ایک اک موج رواں کے ساتھ

    میرا دل دھڑکتا تھا دھڑکتا ہے

    یہ میرا شہر یہ میری گلی میرا محلہ ہے

    جو میرا بس چلے

    میں اس گلی کی دھول پلکوں سے اٹھا لوں

    چوم لوں اس میں نہا لوں

    اوڑھ لوں اس کو بچھا لوں

    اور اس میں دفن ہو جاؤں

    یہ اجلی دھول جس میں میری یادوں کے

    ہزاروں رنگ رقصاں ہیں

    جہاں اب بھی مرا بچپن

    سنہری تعزیوں کے پنیوں سے

    اور رواسن کے درختوں سے

    مجھے آواز دیتا ہے

    وہ کہتا ہے یہاں آؤ ادھر دیکھو

    ابھی تک یہ محلہ پہلے جیسا ہے

    یہاں رنگین تہواروں کے پیراہن میں

    انسانی تعلق کے سبھی جذبے

    توازن سے ابھی تک ایک سے موسم میں ٹھہرے ہیں

    یہاں پر گیارہویں کے چاند کی اب بھی وہی رونق ہے

    رنگیں شامیانوں اور چٹی چاندنی پر دور تک

    قوالیوں کی روح افزا لہر کی وہ عطر سامانی ابھی بھی ہے

    وہی ڈھلتی ہوئی شب اور وہی باد صبا کے دوش پر

    خواجہ کے دیوانوں کی آوازوں کی سرمستی

    وہی خواجہ مرے خواجہ معین الدین کی گردان

    اسی گردان میں اللہ جانے کیسا جادو تھا

    کہ اب تک حافظے سے اس کی شیرینی نہیں جاتی

    یہاں ماہ محرم کی نموداری پہ یکساں جوش سے

    فاروق و حیدر عائشہ و فاطمہ مل کر

    سبیلیں اب بھی ننھے منے ہاتھوں سے لگاتے ہیں

    وہ مٹی کے گھڑوں پر سرخ گابس مل کے

    ان کو رہ گزر پر ایک سی ترتیب سے اب بھی سجاتے ہیں

    سبیلیں سرخ کپڑوں سے مزین جگمگاتی ہیں

    ہر اک پیاسے کو رستہ روک کر پانی پلاتی ہیں

    یہاں عثمان بابا والا اونچا تعزیہ اب بھی کھڑا ہوتا ہے

    جس کی جھلملاہٹ میرے اندر ایسے رقصاں ہے

    کہ اس کی خیرگی سے روح تک میری منور ہے

    مرے اندر جو ہے اک درد کی ننھی سی لو روشن

    اسی آواز کی بالیدگی کا ایک پرتو ہے

    مرے عثمان بابا کی وہ اشکوں سے دھلی آواز

    نو کی رات کو جو وہ شہادت نامہ پڑھتا تھا

    غم شبیر کا یہ سوز اس پر ختم تھا گویا

    عجب کردار تھا عثمان بابا کا

    ہر اک بچہ تھا اس کا سر چڑھا وہ چاہے جس کا ہو

    سکینہ ماروی سے لے کے

    وہ گلیوں میں جھاڑو دینے والے

    اپنے جوزف داس کا لڑکا تلک اس کا چہیتا تھا

    عجب فہرست تھی اس کی کہ اس فہرست میں کوئی

    نہ گورا تھا نہ کالا تھا نہ اونچا تھا نہ نیچا تھا

    ہمارے اس محلے میں

    خدا کے فضل سے ہر سمت ڈھیروں ڈھیر بچے تھے

    کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ سب عثمان بابا پر

    اچانک ساتھ ہی یلغار کرتے تھے

    مگر پھر بھی برابر سے

    نہ جانے کس طرح ہم سب میں وہ جنگل جلیبی بانٹ دیتا تھا

    ہمارے اس محلے میں کئی کردار تھے جن میں

    وہ گہری گہری کالی آنکھوں اور شیشے کی جھلمل اوڑھنی والی

    سکینہ ماروی میری سہیلی تھی

    وہ ماں کے ساتھ پٹری پار سے پینے کا پانی لینے آتی تھی

    ہمارے گھر کے اور مالیر کے اس کھیت کے مابین

    یہ اک ریل کی پٹری خط تنسیخ تھی گویا

    سکینہ ماروی بھی کیا عجب لڑکی تھی

    جو میری زباں سے اور میں جس کی زباں سے نا بلد تھی

    پھر بھی جانے کس طرح شیر و شکر تھے ہم

    ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہر طور ہم آہنگ تھیں اتنی

    بظاہر تو ہمارے درمیاں

    ماحول نے اک بے ضرورت حد فاصل کھینچ رکھی تھی

    مگر پھر بھی نہ جانے کیا کشش تھی

    کھڑکیوں کے اس طرف سے جھلملاتی

    ماروی کی کالی آنکھوں میں

    نہ جانے کون سا جادو تھا ان ظالم دوپہروں میں

    جو کچی نیند سوتا چھوڑ کر ماں کو دبے قدموں

    میں آ چھپتی تھی پیڑوں میں

    عجب بے خوف موسم تھے

    ہم اکثر باغ سے اک ساتھ ہی

    امرود کی چوری میں پکڑے جا چکے تھے پر

    سمجھ میں یہ نہیں آتا

    کہ مالی کی ہر اک گالی ہر اک پتھر

    اکیلی ماروی ہی کے لیے مخصوص تھا کیوں کر

    ہمارے اس محلے کے سرے پر آخری گھر مائے کا تھا

    یوں تو کہلاتی تھی مائے بوہڑ والی

    لیکن اس کے گھر کے آنگن میں فقط اک نیم ہوتا تھا

    کوئی جب پوچھتا مائے سے وجہ تسمیہ اس نام کی

    تو وہ بہت دھیرے سے ہنستی اور کہتی تھی

    اجی وہ بڑ کا اونچا پیڑ تو میں ہوں

    کبھی ہنستی ہوئی آنکھوں میں اس کی جھانک کر دیکھو

    تو لگتا تھا چھلک اٹھیں گی پر اتنا ہی کہتی تھی

    کبھی لاہور دیکھا ہے

    میاں والی سے گزرے ہو

    نہیں دیکھے اگر یہ شہر تو کیا خاک دیکھا تم نے دنیا میں

    کبھی لاہور سے گزرو تو تھوڑی دیر کو رک کر

    محلہ بوہڑ والا چوک میں میرا کسی سے نام لے دینا

    میاں والی کو جانا ہو

    تو واں دیوار پر بیٹھے ہوئے کاگا سے

    میری ماں کا اور پیو کا ذرا احوال لے لینا

    وہ پھر سے ہنسنے لگتی تھی

    جگت ماں تھی وہ

    سو چھوٹا بڑا ہر کوئی اس کو مائے ہی کہہ کر بلاتا تھا

    سویرے ہی سویرے مائے کے ہاتھوں کے

    ان مولی بھرے خستہ پراٹھوں کے بنا

    کب سردیوں کا لطف آتا تھا

    گلابی جاڑے آتے ہی

    چھتوں پر مختلف دالوں کی بڑیاں سوکھنے لگتیں

    ذرا خنکی بڑھی اور تل کے لڈو لے کے مائے آ پہنچتی تھی

    حقیقت میں وہ بڑ کا پیڑ تھی جس کی گھنی چھایا

    تھی سب کے واسطے یکساں

    مرا بچپن بلاتا ہے تو مجھ کو یاد آتا ہے

    اس آبادی میں اور اس ریل کی پٹری میں جو بھی فاصلہ تھا

    اس کو خود رو جھاڑیوں نے ڈھانپ رکھا تھا

    مگر اکثر یہاں پر سال پیچھے ایسا ہوتا تھا

    کہ ہم اسکول جانے کو سویرے گھر سے نکلے تو

    ٹھٹک جاتے تھے پل بھر کو

    ہم آنکھیں مل کے پھر سے دیکھتے جنگل میں منگل ہے

    وہ خود رو جھاڑیاں ہم جن میں تتلی بھی پکڑنے کو اگر جاتے

    تو زخمی ہو کے آتے تھے

    وہ راتوں رات چھت کے طور اور دیوار کی صورت

    کھڑی دکھلائی دیتی تھیں

    یہ سب بنجاروں کے ہی کھردرے ہاتھوں کی برکت تھی

    کہ خار و خس کو بھی چھو لیں تو وہ اس کو چمن کر دیں

    جہاں گردوں کے چھوٹے چھوٹے یہ ٹولے

    ہزاروں سال سے گردش میں ہیں

    اور کتنی تہذیبوں کے جنگل سے یہ گزرے ہیں

    مگر اپنی الگ تاریخ اور تہذیب رکھتے ہیں

    یہ اپنے نین اپنے نقش اور آواز کا جادو

    نہ جانے کون سا قانون ہے جس کے تحت

    نسلوں کی اور تہذیب کی یلغار سے یکسر بچائے ہیں

    جو ان میں جھانک کر دیکھو تو تہہ در تہہ

    ہزاروں رنگ تھے چھوٹی سی دنیا میں

    مرا معمول تھا اسکول سے آتے ہوئے اکثر

    ٹھہر کر دیکھتی تھی اس نئی دنیا کے ہنگامے

    سنہری جھاڑیوں کے بیچ پیلے پھول ہنستے تھے

    وہ چھوٹے چھوٹے سے

    بکری کے بچوں کے گلے میں گھنٹیوں کا شور

    اور وہ مرغیوں کا اور بطوں کا

    پروں کو پھڑپھڑانا ایسا لگتا تھا

    فرشتے بات کرتے ہیں

    حسیں آنکھوں سنہری چوٹیوں والی

    یہاں چھوٹی سی جگنی کھیلنے کی عمر میں

    مٹی کے ہاتھی اور گھوڑے میں

    جو محنت کے انوکھے رنگ بھرتی تھی

    مری آنکھوں نے پھر ویسے کھلونے ہی نہیں دیکھے

    وہ گاتی تھی تو لگتا تھا کوئی دل کھینچے لیتا ہے

    وہ ماں کے ساتھ ہم آواز ہوتی تھی

    بلا لو یا رسول اللہ

    ہمیں بھی اپنے روزے پر بلا لو یا رسول اللہ

    وہ سر تا پا فقط آواز تھی یا بانسری کوئی

    یہ چھوٹا سا محلہ کیا تھا اک رنگین دنیا تھی

    جہاں پر موسموں کی سختیوں میں بھی انوکھا حسن ہوتا تھا

    ہمیشہ سردیوں کی رات میں

    سوندھی سنہری مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کے ٹھیلے تک

    خرد گل خیر کی آواز ہم کو بستروں سے کھینچ لاتی تھی

    گلابوں میں بسی وہ ریوڑیاں

    اور بھوبھل میں دبی میٹھی شکر قندی

    شکرقندی تو از خود ہے شکرقندی

    مگر وہ شے کہ جس کو ذائقہ کہتے ہیں

    وہ دراصل تھی تاثیر مٹی کی

    وہ سائیں اللہ ڈینو کے ہرے امرود

    لالہ شیام کی قلفی ملائی

    اور ڈیرے والیوں کے مٹیوں کے ہاتھی گھوڑے

    ڈگڈگی پنکھے کھلونے اور غبارے

    سبھی میں رنگ تھے کتنے

    یہاں مٹی کے چھوٹے سے کھلونے میں بھی

    ننھا سا ہمکتا دل دھڑکتا تھا

    یہاں کاٹھی کے گھوڑے کی اڑانیں آسماں تک تھیں

    مجھے جب یاد آتی ہے

    تو دیوانہ سا کر دیتی ہے وہ خوشبو رواسن کی

    وہی مالیر کے کھیتوں کی البیلی ہوا

    امرود اور شہتوت کے پیڑوں کی وہ شاخیں

    کہ جن پر میرے بچپن کا بسیرا تھا

    وہ کانٹوں کی سنہری جھاڑیاں

    میں جن میں اکثر اپنی آنکھیں بھول آتی تھی

    وہ مسجد جس کی چھوٹی چھوٹی دیواروں پہ

    بچے دوڑے پھرتے تھے

    جس کے فرش پر تڑکے کے جیسا نور تھا

    ٹھنڈک تھی اور آسودگی ہر سو

    جہاں در پر کھڑے چھتنار گولر پر

    روپہلی چمپئی اور کاسنی پریاں اترتی تھیں

    کبھی قرآن پڑھتے پڑھتے ہم گولر کی پریوں کے تصور میں

    ذرا سا رحل پر بس ایک جھپکی لے کے

    پریوں سے گلے مل کے

    پلٹ آتے تھے واپس مولوی صاحب کی قمچی سے

    مسلسل تعزیوں کی پنیوں سے اور مسجد کی منڈیروں سے

    مسلسل حیدر و فاروق کی رنگیں سبیلوں سے

    سکینہ ماروی کی اوڑھنی میں جھلملاتے ننھے شیشوں سے

    وہ جگنی والے چھوٹے لال مٹی کے کھلونوں سے

    رواسن کے درختوں سے

    مرا بچپن مجھے آواز دیتا ہے

    وہ کہتا ہے ابھی تک یہ محلہ پہلے جیسا ہے

    یہ ممکن ہے میں اس کی مان بھی لیتی

    مگر میں نے ابھی جو ہوش کی آنکھوں سے دیکھا ہے

    وہ منظر اور ہی کچھ کہہ رہا ہے ماجرا کیا ہے

    وہی کردار ہیں سارے وہی میرا محلہ ہے

    وہی ہیں میرے ہمجولی ہر اک مانوس چہرہ ہے

    مگر جو ہے وہ سہما ہے

    یہ پیڑوں کے بجائے خوف کے سائے میں بیٹھے ہیں

    یہ بچے کیسے بچے ہیں

    مسلسل گفتگو کا ان کے محور صرف گولی ہے

    مگر گولی کے پیچھے اختر و انور بھی لڑتے تھے

    مجھے بھی اچھے لگتے تھے بہت یہ خوش نما کنچے

    کہ جب رکھ کر ہتھیلی پر اسے اک آنکھ سے دیکھو

    تو کھنچ آتے تھے کتنے رنگ اس ننھے سے کنچے میں

    کبھی محسوس ہوتا تھا

    کہ ہم نے اک ہتھیلی پر اٹھا رکھی ہے یہ دنیا

    یہ سارے بر اعظم بحر اعظم اب ہماری دسترس میں ہیں

    عجب قدرت عجب تسکین کا احساس ہوتا تھا

    مگر یہ میرے ہمجولی

    یہ جس گولی کی باتیں کر رہے ہیں

    اس میں چنگاری ہے اور بارود کی بو ہے

    ابھی بالکل ابھی میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے

    کہ منظر کیسے بدلا ہے

    وہی مسجد کا دروازہ وہی ہے پیڑ گولر کا

    اور اس گولر کے نیچے

    اک حسیں آنکھوں سنہری چوٹیوں والی

    وہ لڑکی میری جگنی تھی

    ابھی بالکل ابھی میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے

    کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر کیسے بکھرا ہے

    مگر پھیلے ہوئے ہاتھوں میں اک روٹی کا ٹکڑا ہے

    وہ مسجد کا مقدس فرش اس کے خوں سے بھیگا ہے

    وہ گولر جس پہ میرے خواب کی پریوں کا ڈیرا تھا

    فقط آسیب لگتا ہے

    دکھائی کچھ نہیں دیتا

    لہو میں شور برپا ہے

    سنائی کچھ نہیں دیتا

    جو دل پر ہاتھ رکھو تو

    فقط اتنا ہی کہتا ہے

    وہ عیسیٰ چوک ہو یا داس منزل کا کوئی مندر

    لوہاری گیٹ ہو یا گوٹھ قاسم کی کوئی بستی

    وہ باب العلم ہو یا مسجد صدیق اکبر ہو

    حسین آباد ہو یا وہ مری فاروق نگری ہو

    جہاں بھی گولیاں چلتی ہیں میرے دل پہ لگتی ہیں

    ہر اک وہ گھر جہاں ماتم بپا ہے میرا اپنا ہے

    یہ جتنا خون بھی اب تک بہا ہے میرا اپنا ہے

    مقدس خاک پر بکھرے ہوئے ادھڑے ہوئے اعضا

    جنوں کی آگ میں جھلسا ہوا ہر لاش کا چہرہ

    اگر پہچان مشکل ہو تو میرا نام لکھ دینا

    یہ اعضا میرے اعضا ہیں

    یہ چہرہ میرا چہرہ ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے