Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زوال عہد تمنا

شفیق فاطمہ شعریٰ

زوال عہد تمنا

شفیق فاطمہ شعریٰ

MORE BYشفیق فاطمہ شعریٰ

    ہوا میں اڑتا ہے کاجل فضا ہے حزن سے بوجھل

    ہر ایک کنج کی ہلچل کہر میں ڈوب چلی ہے

    وہ کہکشاں ہے وہ اس پر سحاب نور کا باراں

    یہ اپنا خاک بسر گھر یہ اپنی تیرہ گلی ہے

    وہ ماہ نکلا پہ اس کا فروغ بحر فلک ہے

    نصیب ارض تو شاید تکدر ازلی ہے

    نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے

    وہ اک سکھی جو نزاکت میں موتیا کی کلی ہے

    نہ پھول بالوں میں گوندھے نہ گھر میں دیپ جلایا

    شریک غم نے منایا مگر نہ ان سے منی وہ

    وہ تھک کے لیٹ گئے خواب کے نگر کو سدھارے

    مگر دریچے میں اپنے کھڑی سسکتی رہی وہ

    ستارے کرتے رہے چشمکیں تو کچھ بھی نہ بولی

    کہ ایک شاخ تھی غنچوں کے خوں میں ڈوبی ہوئی وہ

    نہ جانے دانش و دین و ہنر کا نرخ ہو اب کیا

    رواں پاک کی قیمت تو جگ میں ہار گئی وہ

    نہ ڈھونڈ پائی مداوائے زخم زار تمنا

    سمجھ سکی نہ تقاضائے عہد طفل کشی وہ

    افق سے تا بہ افق زرد نا مراد بگولے

    افق سے تا بہ افق اک مہیب سوگ ہے طاری

    افق سے تا بہ افق سنگ دل کٹھور چٹانیں

    ہر ایک سحر ہے صیاد ہر طلسم شکاری

    ہر ایک جادہ میں بوسیدہ استخوانوں کے ٹکڑے

    کہیں ہے سوختہ محمل کہیں شکستہ عماری

    نہ جہل سے کوئی ڈھارس نہ آگہی سے تسلی

    نہ وقت نالہ و زاری نہ ہوش زخم شماری

    نہ کوئی نند انہیں اپنی جھونپڑی میں پناہ دے

    جو شیام لاڈلے کل تھے وہ آج سب پہ ہیں بھاری

    نہ ان کی آگ سے گلشن کوئی ظہور میں آئے

    نہ ان کے پاؤں رگڑنے سے رود آب ہو جاری

    نہ ان کو تیرہ کنویں سے نکالیں قافلے والے

    نہ نیل وقت کی موجوں کو ان کی جان ہو پیاری

    نہ ان کے دامن عصمت کو تھام لینے سے چھائیں

    گھٹائیں تشنہ دہن بانجھ وادیوں پہ ہماری

    نہ ان کی چشم کرم صرصر و سموم میں گھولے

    صفائے باد سحر دم سرور باد بہاری

    ہر اک امنگ کی تتلی نے جیسے جوگ لیا ہے

    ہر اک امید کے جگنو نے تن پہ راکھ ملی ہے

    ہزار سالہ مسافت خیال و وہم و گماں کی

    اور اس کے بعد بھی پنہاں شعاع لم یزلی ہے

    جو آس تیرہ گپھاؤں میں جنگلوں میں تھی رہبر

    وہ جگمگاتی ہوئی نگریوں میں روٹھ چلی ہے

    یہ مامتا ہے کہ شعلوں میں کوئی پھول کی پتی

    حیات ہے کہ ابھاگن یہ کوئی کوکھ جلی ہے

    یہ کائنات ہے کتنی عظیم کتنی کشادہ

    مگر ہمارے تصور کے تنگنا میں ڈھلی ہے

    نہ جانے کب سے خیالوں میں اپنے محو کھڑی ہے

    وہ اک سکھی جو نزاکت میں موتیا کی کلی ہے

    مأخذ:

    سلسلۂ مکالمات (Pg. 321)

    • مصنف: شفیق فاطمہ شعریٰ
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے