زوال کی آخری ہچکیاں
زوال کے آسمانوں میں لڑکھڑاتے
اندھیرے خلاؤں کی دنیاؤں میں معلق ہوتے
اندھیرے شہروں کے برجوں کی گمنام فصیلوں پر گرتے
تشدد سے آباد انسانی بستیوں کے چہروں سے لپٹتے
اور انسانی وجود کی دھجیاں دیکھ کر چیختے روتے
کتنے ہزار سال بیت گئے ہیں
کتنے ہزار سالوں سے زوال کی چیخوں کو سنتے سنتے
ساعتیں تھک گئی ہیں
ساعتیں از بس تھک گئی ہیں
جلی ہوئی اشتہاؤں کی قوسیں
زائچوں کے حروف دیکھتے دیکھتے دم توڑ چکی ہیں
خواہشوں کے بے پایاں ہجوم
حسرتوں کی سرخ محرابوں کے نیچے
صدیوں کی دبیز گرد کے اندر دھنستے چلے گئے ہیں
خاکستری ایام کی متورم دھول میں
بے انت متلاہٹوں کے وار سہتے سہتے
سب کچھ مدفون ہو گیا ہے
مگر اب یہ زوال کی آخری چیخ ہے
ساحلوں پر پرندوں کے نئے قافلوں کا شور ہے
اور بادبانوں پہ سرخ رنگوں کی پھڑپھڑاہٹ
گم گشتہ شہروں کی بے آباد فصیلوں کے برجوں پر
ہم زوال کی آخری ساعتوں کی
آخری ہچکیاں سن رہے ہیں
مأخذ:
Prindey,phool taalab (Pg. 624)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.