صلیب وقت
ایک گہری راز بھری چپ ہمیشہ اس کے چہرے پر کھیلتی رہتی جیسے خاموشی اس کے چہرے کا اہم حصہ ہو۔آنکھوں میں تا حدِ نظر سوچ کے دائرے ٹوٹتے پھیلتے اپنا گھر بناتے رہتے۔ماتھے پہ چند شکنیں وقت کے ساتھ گھٹتی بڑھتی رہتی تھی وہ بھی ضرورت کے تحت۔بہت کم لوگوں کو علم ہو پاتا کہ اب مزاج کے سمندر کی تہہ میں کون سا طوفان کروٹیں لے رہا ہے۔منجمد چہرے پر کئی کروٹیں کھلتی۔بندہ خواہ مخواہ پُراسرار سا لگنے لگتا۔مگر اس کے ساتھ یہ راز آج سے تو نہیں تھا۔شاید یہ اس کے پیدا ہونے سے اس کے ساتھ تھا۔دوست یار پوچھ پوچھ کر تھک ہار چکے تھے۔دوستی اور محبت کے دعوے کرنے میں وہ پوری طرح ناکام تھے۔وہ اپنے دوست کے چہرے کی شکنیں کبھی کم نہیں کر پائے۔ہمہ وقت چپ۔خوبصورت جاندار مردانہ ہونٹ۔دہکتے کوئلے۔جو کسی کو بھی جلا کر راکھ کر سکتے تھے۔مگر ان پر تو برف کے پہاڑ رکھے تھے۔شاید ہی کسی نے ان کو ہلتے دیکھا ہو گا۔بڑی بڑی مگر کسی گہری جھیل جیسی شربتی آنکھیں جو دنیا ڈبو دینے کوہمہ وقت تیار تھیں۔مگر وہ کسی ایک چیز پر اٹھتی تب تو کچھ ہوتا۔اوپر کو سلیقے سے جمے ہوئے بال،کسی لٹ کو ماتھے پرگستاخی کی اجازت نہیں تھی۔کوہ قراقرم سا اٹھا ہوا تیکھا ناک۔جو سانس لینے کے علاوہ رُعب ڈالنے کا کام بھی کرتا تھا۔صبیح پیشانی جس پرگویا سورج چمکتا تھا۔جیسے ا س سے شعاعیں پھوٹتی اور چہرے کا طواف کیے رکھتی۔ماتھے کی نمایاں رگ چہرے کو اور جلال بخش دیتی۔اس پراسرار چہرے میں کیا تھا۔تانبے اور سندور کا ملا جلادمکتا رنگ۔ جوانی بھی جیسے ٹوٹ کر برس رہی تھی۔چھ فٹ سے نکلتا قد اورتراشا ہوامجسمہ دیکھنے والے بُت بنے اس حُسن و جلال کے مجسمے کو دیکھتے۔ کیسے پڑھا؟کہاں رہا؟کیا کیا؟سب کچھ اک سر بستہ راز تھا۔نہ ماں کا پتہ نہ باپ کی خبر۔مگر چہرے سے خاندانی نجابت صاف اپنا پتہ دیتی تھی۔ کہ وہ کسی معمولی باپ کا بیٹا نہیں تھا۔کون تھا کہاں سے آیا،یہاں کب سے تھا،آگے پیچھے اس کے کون تھا۔ہر بندہ اس کی کھوج میں رہتا۔ دوست بھی جاسوس ہی بنے رہتے۔مگر ناکام۔وہ کیوں کھل کر کسی کو کچھ نہیں بتاتا تھا۔یوں یہ پتھر کبھی پگھلنے والا نہیں تھا۔وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کسی فائل کو دیکھ رہا تھا۔جب اچانک ملازم نے بتایا کہ ایک وزیر زادی اس علاقے کی سیر کوآئی ہے۔وہ یہاں کے نئے ڈپٹی کمشنر سے ملنا چاہتی ہے۔کچھ دیر کوبڑی بڑی آنکھیں اوپر کو اٹھیں۔ملازم گڑبڑا گیا۔وہ جانتا تھا کہ صاحب فالتو لوگوں سے نہیں ملتے۔وہ کان لپیٹ کر واپس پلٹ گیا۔صاحب ضروری کام میں مصروف ہیں۔وہ بعد میں ملیں گے۔ کیا؟وہ اتنی بلند آواز سے چیخی کہ اس کے گارڈ نے ملازم کا گریبان پکڑ لیا۔کیا ہوا؟ میڈم کیوں ناراض ہیں؟یہ کون ہے جو ہم سے ملنے نہیں آیا۔وہ ہمیں جانتا نہیں ،ہم کون ہیں۔یہ سراسر ہماری توہین ہے۔ وزیرزادی جو خود بھی سیاست میں قدم رکھ چکی تھی۔سخت خفا تھی۔کیا کہا ڈپٹی کمشنر صاحب نے۔وہ جانتے ہیں نہ کہ وہ ہمارے آبائی علاقے میں ہیں۔سرکاری ملازم ہونے سے پہلے لوگ ہمارے ملازم ہوتے ہیں۔اس علاقے میں وہ ہمارے ملازم ہیں۔وہ ہمیں ملنے سے کیسے منع کر سکتے ہیں۔انہیں کہیے وہ آ کر معافی مانگیں۔وہ سخت سیخ پا تھی۔ملازم ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا۔بی بی صاحبہ وہ ذرا مختلف طبیعت کے آدمی ہیں۔ وہ کم ہی ملتے ہیں لوگوں سے۔آ۔۔آپ خود ہی چلی جائیں۔صائمہ شیرازی کے ماتھے پر کئی بل پڑ گئے۔وہ جرات اور نخوت سے بولی۔تم یہیں ٹھہرو اس نے گارڈ سے کہا۔اور خود آفس کے اندر چلی گئی۔وہ دروازے کی طرف پیچھا کیے کسی فائل کو دیکھنے میں مصروف تھا۔وہ کچھ دیر کمرے کو دیکھتی رہی۔انتہائی سادہ اور کتابوں سے بھرا ہوا۔بھینی بھینی خوشبو بھی تھی۔ایک گمبھیر سی آواز کمرے میں گونجی اور اس کے حواسوں پر چھا گئی۔واٹ از یور پرابلم ۔ٹیل می۔(What is your problem tell me) اب کے آواز میں کچھ نرمی تھی۔کرسی نہیں گھومی۔وہ بدستور اس کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھا۔اچانک وہ اس سحر سے نکلی۔اور چیخ اٹھی۔آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں؟اتنا غرور کس بات پر ہے۔ہیں تو سرکاری ملازم۔میں خود ملنے آئی تھی۔مگر یہ عزت افزائی میں نہیں بھولوں گی۔آپ کو یہ تکبر مہنگا پڑ سکتا ہے۔وہ سر تاپا سلگ رہی تھی۔ شؤر(Sure)۔سوری میں ضرورکام میں مصروف ہوں۔اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ایک لحظہ کو آنکھیں صائمہ کے چہرے پر رُکی تھیں۔سوری کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔اور صائمہ اپنے حواس مجتمع کرتی رہی۔صرف ایک لمحہ۔اک انمٹ لمحہ۔ایک زندہ جاوید لمحہ۔اک لمحہ جو زندگی میں بنتا ہے اور شکار بھی کر لیتا ہے۔دو آنکھیں جو اس کے چہرے پرٹکی تھیں۔ دو آنکھیں جو اس وزیر زادی کو شکار کر گئیں۔وہ بے حس و حرکت کھڑی تھی۔۔سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ہو اکیا تھا؟ اچانک گارڈ اندر آیا۔میڈم چلیں۔صائمہ شیرازی نے سر جھٹکا۔طنطنہ تھا نہ غصہ۔ رُعب تھا نہ غرور۔نخوت تھی نہ کوئی طراری۔وہ تو کوئی لوٹی پُٹی مسافر تھی۔منزل کہاں تھی؟
چوکڑی بھرنا بھول گئی تھی یہ ہرنی۔کتنے ہی دن گم صم سی رہی۔ماں نے ہزار بار پوچھا۔باپ کی اکلوتی لاڈلی۔ہنستے ہنستے یکدم اسے چپ لگ گئی۔کبھی کسی کو کچھ بتاتی بھی نہیں تھی۔ماں نے کتنی دفعہ پوچھا تھا۔باپ الگ پریشان۔صائمہ کے بغیر توکوئی گھر میں کھانا نہیں کھاتا تھا۔یہ کیا ہو گیا تھا۔اچانک شیرازی صاحب کو یاد آیاکہ وہ اپنے آبائی علاقے کی سیر کو گئی تھی۔جب واپس آئی تو یہ حالت تھی۔وہ بصیر پور گئی تھی۔ ٹیلوں اور وادیوں کے درمیان خوبصورت دیہات،کہیں کہیں جنگل بھی تھا ا ور جنگلی جانور بھی ۔بہت حسین اور سرسبز علاقہ تھا۔لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے۔پہاڑیوں اور ٹیلوں کی وجہ سے علاقہ کافی مشکل بھی تھا۔بصیر پور چونکہ تحصیل تھی۔لہذا یہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کا آفس بھی تھا۔اور یہاں بازار بھی تھے۔ارد گرد کے دیہاتوں کے لوگوں کے کاروبار بھی تھے۔تھانہ بھی تھا۔سکول وکالج بھی تھے۔سڑکیں اور سیوریج کا نظام بھی تھا۔ سولہ لاکھ کی آبادی کا یہ شہر دوسرے بڑے شہروں سے کافی دور اور الگ تھلگ تھا۔اور اس علاقے سے منتخب ہونے والے ضمیر شیرازی ایم این اے اب وزیرِ آبپاشی تھے۔اور ان کی ایک ہی بیٹی تھی۔صائمہ شیرازی۔جس نے جرنلزم میں ایم اے کیا تھا۔اب ماس کمیونیکیشن میں کچھ اور کرنے کا ارادہ رکھتی تھی بلکہ سیاسیات بھی پڑھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔دو دن پہلے ہی وہ اپنی آبائی حویلی میں آئی تھی۔ٹیلوں اور ندی نالوں کی سیر کرتے کرتے وہ تحصیل ہیڈ کوارٹر کی طرف نکل آئی۔تو اسے پتہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے ہی ایک نئے ڈپٹی کمشنر صاحب آئے ہیں۔عجیب پراسرار سا بندہ ہے۔کسی سے بات نہیں کرتا۔احکامات بھی دیکھ کر صادر کرتا ہے۔اور صائمہ شیرازی دیکھ کر ہنس پڑی۔اچھا وہ کوئی خلائی مخلوق ہے۔جی ایسا ہی ہے۔ایک کلرک نے تمسخر اڑایا۔ہم سے تو آج تک بات نہیں کی صاحب نے۔وہ شاید اپنا کوئی غصہ نکال رہا تھا۔ صائمہ نے توجہ نہیں دی۔۔چلتے چلتے وہ ڈپٹی کمشنر کے آفس کے سامنے رُکی۔ہوں تو مل لیا جائے ان سے بھی،وہ بالکل نارمل تھی۔باہر چوکیدار بیٹھا تھا۔وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔میڈم آپ ! اسلام علیکم۔وہ ہاتھ ماتھے تک لے آیا۔اور پھر اس کے بعد وہ اپنی نہ رہی تھی۔ گارڈ نے ساری کہانی شیرازی صاحب کے گوش گذار کی۔ہوں۔وہ سوچنے والے انداز میں گویا ہوئے۔ویسے اس بندے کی پروفائل کیا ہے؟ پتہ کرو۔اس کی ساری تفصیل مجھے چاہیے۔پھر اسے بلواؤں گا۔
ملے ہو اس سے۔نہیں صاحب۔میں تو کمرے سے باہر تھا۔اچانک ایک لمبا جوان آدمی باہر نکلا۔سب لوگ اسے دیکھ کر اٹین شن ہو گئے۔ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا۔مگر صاحب بہت رُعب دار آدمی تھا۔ لوگ اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ہیں! تو پتہ کرو۔ایک ہفتے کے اندر اندر رپورٹ کرو۔وہ پُر سوچ انداز میں بیٹھے دور کی کوڑی لانے لگے۔ایسا کیا ہوا تھا،اس نے میری شہزادی سے کیا کہہ دیا کہ وہ چپ ہی ہو گئی۔اندر ہی اندر جلنے گھلنے لگی ہے۔اسے کچھ ہو نہ جائے۔میں اس بندے کو الٹا لٹکا دوں گا۔پریشانی کے عالم میں ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ نجانے کیا کیا سوچتے جا رہے تھے۔صا ئمہ ۔ اچانک ہی اس کی خالہ زاد نائمہ کی آواز سنائی دی۔بچپن ہی سے گہری سہلیاں تھیں۔ صائمہ کی والدہ نے خاص طور پر اسے کراچی سے بلوایا تھا۔صائمہ! اور صائمہ جلدی سے اٹھ بیٹھی۔نائمہ تم!وہ کچھ لمحوں کو خوش ہو گئی۔ارے یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے میری شہزادی نے۔اٹھو جلدی سے تیار ہو جاؤ۔چائنیز چلتے ہیں۔تمہارے ساتھ چائنیز کھائے مدت ہو گئی۔صائمہ کو عجیب سی کسلمندی کا احساس تو ہوا۔کم کھانے پینے کی وجہ سے ویسے بھی کافی کمزوری محسوس کر رہی تھی۔آنکھوں کے گرد حلقے بن گئے تھے۔لگتا ہے کوئی عشق وشق کا چکر ہے۔صائمہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی۔بڑا ہولناک،خطرناک اور خوفناک سا عشق لگتا ہے۔نائمہ چہکی۔جس نے زندگی سے بھر پور لڑکی کو یوں آدھ موا کر دیا ہے۔سارا وقت بولتے رہنے والی لڑکی کیسے چپ ہو گئی ہے۔وہ ہنس رہی تھی۔اور ادھر صائمہ کی آنکھیں ساون بھادوں بن گئیں۔وہ نائمہ کے کندھے پر سر رکھے ہچکیاں لے لے کر روتی رہی۔جب ذرا غبار کم ہوا تو نائمہ نے اسے پانی پلایا۔ ہُن۔ لگتا ہے معاملہ کافی سیریس ہے۔کچھ سوچنا پڑے گا۔چل باہر چلتے ہیں پھر اس بندے کا پروفائل بتا۔سیدھا کر دوں گی اسے۔ صائمہ جیسی حسین اور ذہین لڑکی کو دُکھ دینا ،زیر کرنا کوئی آسان کام ہے۔کچھ نہیں وہ آنسو صاف کرتی اٹھی۔واجبی سی تیاری کی۔ہلکی سی لپ سٹک لگائی۔چابی اٹھائی اور چل پڑی۔ڈرائیور جائے گا گاڑی لے کر۔والدہ صاحبہ نے کہا۔ٹھیک ہے خالہ۔زبیر! صائمہ اور نائمہ ۔بی بی کو لے جاؤ۔ساتھ رہنا۔جی بیگم صاحبہ۔وہ چائنیز ریسٹورنٹ میں بیٹھی سوپ پی رہی تھی۔جب صائمہ نے ساری سٹوری اس کے گوش گذار کی۔ ہن۔نائمہ نے پوری توجہ سے ساری بات سُنی۔حیرانی ہوئی ایسا رویہ۔غرور ہے بھی اور نہیں بھی۔عجیب سی بات ہے۔وہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔صرف اس نے ایک نظر تجھے دیکھا۔اور وہ آنکھیں تجھے بھولی نہیں۔جادو ہے ،سحریا کوئی طلسم۔ضمیر شیرازی صاحب نے ایک ہفتے کا وقت دیا تھااور آج ہفتہ پورا ہو گیا تھا۔سیکرٹری نے گارڈ کے آنے کی اطلاع دی۔اچھا تو تو ملے ہو اس ڈپٹی کمشنر سے؟جی سر۔ صرف دیکھنے کی حد تک میں ایک فائل پر دستخط کروانے کے بہانے گیا تھا۔سر۔بے بی صاحبہ سے بھی کوئی بات نہیں کی ہو گی اس نے۔کیوں؟ تم کیسے یہ کہہ سکتے ہو؟شیرازی صاحب کچھ برہم ہوئے۔سر۔وہ جھجکتا ہوا بولا۔ سروہ بندہ اتنا حسین اور رعب داب والا ہے کہ وہ نظر اٹھا کر دیکھ لے تو بندے کا پِتا پانی ہو جاتا ہے۔اور بے بی صاحبہ تو ٹھہریں نازک سی لڑکی۔بس انہوں نے غور سے دیکھ لیا ہو گا۔کیا بک رہے ہو؟ شیرازی صاحب جلال میں آ گئے۔کوئی آدمی محض ایسے جادو گر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دیکھ لے تو لوگ مرنے لگ جائیں۔کوئی اور بات اس کے بارے میں وہ دھاڑے۔صاحب وہ کسی دور دراز علاقے کا رہنے والا ہے۔لاہور سے مقابلے کا امتحان پاس کر کے پہلے کسی اور جگہ پہ رہا۔تھوڑا عرصہ ہوا ہے،بصیر پور تبادلہ کروایا ہے۔یہ جگہ اسے پسند ہے۔شاید اس جگہ سے اس کا کوئی تعلق ہو۔مگر ہمیں علم نہیں۔بس یہی سر۔کوئی آگے پیچھے۔شیرازی صاحب نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا۔نہیں سر کسی کو بھی کچھ پتہ نہیں ۔لگتا ہے خود ملنا پڑے گا اس سے۔میرے بصیر پور جانے کا بندوبست کرو اور ڈپٹی کمشنر صاحب کو بتا دو کہ میرے دورے کا انتظام کریں۔اب تم جا سکتے ہو۔
ڈھونڈ لیتا ہوں اس کی اوقات بھی، شیرازی صاحب منہ ہی منہ میں بڑبڑائے۔اگلے ہی ہفتے شیرازی صاحب بصیر پور میں تھے،اپنے آبائی حلقے میں۔چونکہ حلقہ میں کافی ترقیاتی کام کروائے تھے۔اس لیے لوگ انہیں پسند کرتے تھے۔جلسے کے سارے انتظامات مکمل تھے۔لوگ جوق در جوق آ رہے تھے۔شیرازی صاحب کی بے چینی دیدنی تھی۔وہ صرف ڈپٹی کمشنر کے منتظر تھے۔اچانک ایک کھلی جیپ رُکی،ایک لمبا جوان،شاندار آدمی اس میں سے اترا۔اس کی آنکھوں پر سیاہ گاگلز تھے۔ستواں ناک،صبیح پیشانی۔اس کی چال میں ایک وقار اور رُعب تھا۔سارے سیکرٹری اور کلرک اس کے پیچھے تھے۔شیرازی صاحب کے چہرے پرسوچ کی شکنیں پڑگئیں۔وہ سٹیج پر آیا تو شیرازی صاحب خود بخود کھڑے ہو گئے۔ہاتھ آگے بڑھایا۔ سجیل خان بھی اتنا بد اخلاق نہیں تھا۔جواباََ اس نے بھی ہاتھ ملایا۔اور سٹیج کی ایک طرف بیٹھ گیا۔شیرازی صاحب سوچ رہے تھے کہ وہ ان کمے قریب بیٹھے گا مگر وہ تو الگ تھلگ اپنی دنیا میں گم۔اچانک شیرازی صاحب کا سیکرٹری اس کے پاس آیا۔ضمیر شیرازی صاحب جلسے کے بعد آفس آئیں گے۔او۔کے۔اس نے کہا۔سیکرٹری واپس چلا گیا۔شیرازی صاحب جلسے سے تقریر کر رہے تھے۔انہیں پتہ ہی نہ چلاکہ وہ کب جلسہ چھوڑ کر وہاں سے جا چکا تھا۔دراصل سٹیج پر بیٹھتے ہی اس کی چھٹی حس نے اسے بتایاکہ کوئی اس کو دیکھ رہا ہے اس جلسے کی ایک طرف۔دو برقعہ پوش اس پر نظر جمائے ہوئے تھے۔کون ہو سکتے ہیں؟سجیل خان نے آنکھ کے اشارے سے اپنے پی۔اے کو بلایا اور ایک طرف اشارہ کیا۔پی ۔اے اشاروں کی زبان کافی سمجھنے لگا تھا۔وہ آہستہ خرامی سے جلسے کے ایک طرف بڑھنے لگاکہ آن واحد میں دونوں برقعہ پوش غائب ہو چکے تھے۔پی۔اے نے پھر بھی اپنی سی کوشش جاری رکھی۔اچانک گاڑیوں کی لمبی قطار میں سے ایک گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز سُن کروہ پلٹا۔شاندار لینڈ روور بیک کر رہی تھی۔برقعہ پوشوں کے ننگے چہرے دیکھ کر مسکرا دیا۔واپس آیا تو ڈپٹی کمشنر صاحب غائب۔وہ سیدھاآفس پہنچا۔سجیل خان آفس کی کھڑکی کے اس پارٹیلوں سے بھری زندگی دیکھ رہا تھا۔اس کی زندگی بھی تو کیل کانٹوں سے بھری پڑی تھی۔کسی نامعلوم آگ میں دہکتی بھڑکتی زندگی۔کچھ گمشدہ،کچھ لاپتہ،کتنے سوال ذہین کی چوکھٹ پر دستک دیتے تھک جاتے تھے۔ وہ اتنا تنہا،اکیلا اور سب سے الگ تھلگ کیوں تھا؟خاموشی اور لبوں کی چپ چہرے کی تہوں میں گھسی اداسی اور سنجیدگی کب اس کے چہرے کا حصہ بنی تھی۔کبھی کبھی اس کا دماغ تاریک غاروں میں کیوں بھٹکنے لگتا تھا۔ان غاروں میں کتنے ہی نامعلوم سائے ہاتھ پاؤں مارتے اسے پکڑنے کی سعی کرتے۔وہ جب بھی اس کے قریب ہوتے،یکدم روشنی کا جھناکا سا ہوتا۔اور وہ سائے دور کہیں ہوا میں تحلیل ہو جاتے۔اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر محض رنگ رہ جاتے۔بے اختیار ہو جانے والی نمی کو اس نے واپس آنکھ کے روزن میں دھکیل دیا۔میں جتنا پتھر نظر آتا ہوں،کیا دراصل میں اتنا ہی پتھر ہوں۔یہ کون سا راز ہے جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔کون سا تالا میرے شعور اور لاشعور کے درمیان پڑا ہوا ہے۔ان تاریک غاروں میں کن کے سائے ہیں جو مجھے پکڑنا چاہتے ہیں۔میں سب کچھ کیوں بھول چکا ہوں۔دُکھ اور اذیت نے اس کے چہرے کی شکنوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ماتھا پکڑے وہ کتنی ہی دیر وہاں کھڑا رہا۔یہ میرے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟
دروازہ کھلا ہونے کے باوجود ناک ہوا۔سر میں اندر آ جاؤں۔جی آئیے۔پی اے اندر آیا۔صاحب وہ۔ کیا؟ وہ صاحب زادی صاحبہ اور ان کی دوست تھیں۔لوگوں سے چھپ کر جلسے میں آئیں تھیں۔جیسے ہی انہوں نے مجھے آتے دیکھا،وہ چلی گئیں۔سجیل کے چہرے پر حیرت کروٹیں لے رہی تھی۔پتہ کرتے رہنا ان کا مسئلہ کیا ہے؟جی سر کولڈیا کافی ۔یس کافی۔وہ سیٹ پر بیٹھ کر آج کے جلسے کے بارے سوچنے لگا۔اس کی ساری کارکردگی پرفیکٹ تھی۔بصیر پور کے لوگ تھوڑے ہی عرصے میں نئے ڈپٹی کمشنر سے محبت کرنے لگے تھے۔یہ پُر اسرار سا شخص اندر سے کافی نرم دل تھا۔اس کے اندر کوئی ڈر نہیں تھابغیر کسی گارڈ کے وہ بصیر پور گھوم لیتا۔گھنٹوں ان ٹیلوں اور جنگلوں میں جا کروقت گذارتا۔ کسی کھوج میں رہتا۔مگر یہ تو من کی کھوج تھی،اندر وجود کی کھوج۔روح،دل ،دماغ،شعور،لاشعور،سوچ،مکان سے لامکانی کی سرحدوں تک اڑان،سمندر کی عمیق گم شدہ تاریک راہداریوں پر چہل قدمی۔بند آنکھوں کے پیچھے ہاتھ بڑھاتے سائے۔شعلوں کی سی لپکتی زبانیں۔ برفیلے منجمد اجسام۔آنکھیں ہی آنکھیں اپنی ساری وحشتوں کے ساتھ۔دم گھٹتی خوشبوؤں میں وہ تنہا گھرا زمانوں کے فاصلے طے کرتا۔ صدیاں اس کی پوروں میں سے ہو کر گذرتیں،لمحے کسی ریت کی ماند اس کے ننگے پیروں کو اپنا احساس کراتے گزرتے۔
عجب کشمکش تھی کہ اس سے رہائی ممکن نہیں تھی۔وہ روز ان خوفناک لمحوں کی صلیب پر لٹکتا۔اس بے پناہ اذیت سے ا س کا بدن چور چور ہوتا۔ مگر اسے دُکھ کی اس صلیب پر خود ہی لٹکنا تھا۔روز مرنا اور روز جینا تھا مگر کیوں؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔یہ ذہنیے کشمکش بڑھتی چلی جا رہی تھی۔اس سے پہلے کہ میں پاگل ہو جاؤں،مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔وہ ندی،نالوں،جنگلوں ،پہاڑوں کواپنی دستان سناتا مگر جواب کہیں سے بھی نہ آتا۔کچھ سرگوشیاں۔کچھ موہوم سی آوازیں جو اس کا تعاقب کرتی رہتی تھیں۔صاحب! چوکیدار اندر آیا۔صاحب ایک بات پوچھوں۔اس نے سرخ سُرخ آنکھوں سے اسے دیکھا تو اس نے فوراََ نگاہیں جھکا لیں۔اس میں سجیل کا یہ سجل روپ دیکھنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔کہو۔کمرے میں گہری سی کسی وادی میں اتری ہوئی آواز گونجی۔وہ بھول گیاکہ کیا پوچھنے آیا تھا۔کافی لے آؤں۔ یس۔ سجیل صاحب کے ساتھ رہتے ہوئے سال ہونے کو آیا تھامگر ابھی تک وہ ڈھنگ سے اس سے کوئی بات بھی نہیں کر سکا تھا۔ یہ اس کی شخصیت کا کون سا رنگ تھا کہ لوگ اس سے بات کرنا بھول جاتے تھے۔اور یہاں سجیل خان اپنے ہونے نہ ہونے،اپنے وجود،عدم وجوداپنی ہستی کی ہونی نہ ہونی میں پھنسا ہوا تھا۔
صاحب !وزیر صاحب آئے ہیں۔او کے۔وہ استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا۔منیر احمد دو کافی۔جی صاحب۔شیرازی صاحب اندر آئے۔ آئیے سر۔پلیز ٹیک آ سیٹ۔Please take a seatتھینکس۔آپکی کارکردگی بہت عمدہ ہے۔شیرازی صاحب نے سراہا۔ شکریہ سر۔کوشش ہے کہ لوگوں کی خدمت کر سکوں۔سجیل صاحب لوگ آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کی مانتے بھی ہیں۔مجھے ایسا ہی لگا۔وزیر صاحب نے بات آگے بڑھائی۔شکریہ۔بمشکل ہی اس نے کہا۔کہ اپنی ذات کی دنیا سے بیرون ذات کا سفر وہ صدیوں میں طے کرتا تھا۔کافی آگئی۔سجیل خان صاحب کچھ پرسنل پوچھ سکتا ہوں۔یکدم سجیل کا چہرہ متغیر ہوا۔وہ جز بز نظر آنے لگا۔ یہ کیسا سوال کیا تھاوزیر صاحب نے۔اک آہ سی کھینچ کر اس نے ہاں کہا۔وزیر صاحب اس کی اندرونی کیفیت سے ناواقف تھے کہ وہاں کیا اتھل پُتھل مچی ہوئی تھی۔کتنے نادیدہ ہاتھ اس کی شہ رگ پکڑے اسے کھینچ رہے تھے۔چہرے پر نہ نظر آنے والی اذیت رقص کر رہی تھی۔وہ آنکھیں جھکائے ماتھے کو مسل رہا تھا۔کچھ اپنے بارے میں بتائیے۔شیرازی صاحب نے سوا ل کیا۔تو سجیل خان سوال کی سان پر تل تل کر کے کٹنے لگا تھا۔میرا نام سجیل خان ہے۔سی ایس ایس کر کے ادھر آ نکلا ہوں۔آگے کہاں جانا ہے نہیں جانتا۔جب ہوش آیا تو ذہن کسی سلیٹ کی طرح صاف تھا۔لالہ زبیر الدین خان صاحب نے یہاں تک پہنچایا تھا۔ان کو کسی جنگل سے زخمی،نیم مردہ حالت میں ملا تھا۔کسی نے تشدد کیا تھا شاید۔وہ اتنا ہی جانتے تھے۔پچھلے سال ان کی وفات ہوئی۔انہوں نے پڑھا لکھا کر آفیسر بنایا۔اب تک کچھ یاد نہیں آ سکا۔اس کی انکھیں سُرخ انگارہو رہی تھیں۔جیسے ابھی لہو ٹپکے گا۔سجیل خان نے سر جھٹکا۔چہرے پر کرب کے آثار تھے۔پہلی مرتبہ کسی سے یوں بات کی تھی اپنے بارے۔شیرازی صاحب پتھر کا بُت بنے بیٹھے تھے۔جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔۔نہ جانے ان پر کیا اثر ہوا تھا۔وہ اٹھے اور سجیل خان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔سلامت رہو۔پھر بات کریں گے۔وہ اسے اذیت کے خوفناک دوراہے پر چھوڑ کر چلے گئے۔درصل انہیں خود ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس سے کیا کہیں۔بس ان کے اندر کہیں دور دُکھ کی اک تہہ سی اتر گئی تھی کہ اپنی بیٹی کا درد بھول گئے تھے وہ۔کتنے ہی دن وہ سجیل کے بارے سوچتے رہے۔ایسا بھی ہوتا ہے۔انہیں یوں لگا جیسے ایسی کہانی انہوں نے اپنے ارد گرد کسی سے پہلے بھی سُن رکھی ہے۔سنگلاخ پہاڑوں میں رہنے والے کسی درویش سے۔
بہت دنوں بعد شیرازی صاحب آفس آئے تو الجھے ہوئے سے تھے۔اک نئی مصیبت گلے ڈال چکے تھے۔ سجیل خان کون؟اب وہ اسی کھوج میں تھے۔اتنا شاندار آدمی اور اتنی اذیت میں۔بے نامی کے دُکھ میں مبتلا،اک بے نشان چٹان۔مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے میں اس واقعے سے واقف ہوں۔کہیں کسی سے سُنا تھا۔ناقابل یقین تھا۔وہ آفس میں سر پکڑے بیٹھے تھے۔باہر سائل آئے بیٹھے تھے اپنے اپنے علاقے کے مسائل لیے۔کلرک فائلیں لیے بیٹھے تھے۔سیکرٹری نے کئی جگہوں پر میٹنگز فکس کر رکھی تھیں۔مگر سب بے کار۔سر تو کسی اور ہی دنیا کی کھوج میں گم لگتے تھے۔
سوچتے سوچتے وہ اچانک چہک اٹھے تھے۔وہ درویش صبور خان تھے جو اننت ناگ جموو مقبوضہ کشمیر سے کسی طرح بچتے بچاتے آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا چند ماہ کا خوبصورت بچہ بھی تھا۔وہ بارڈر پار کر کے راستے کے مصائب اور مشکلات سہتے اسلام آباد پہنچے تھے۔ یہاں بھی رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔وہ ایک دوکان سے بمشکل ایک کپ دودھ لے پائے تھے کہ بچے کو پلا سکیں۔بچہ سہما ہوا اور چپ تھا۔ بچے کی قسمت تھی کہ شیرازی صاحب جو اس وقت وزیر نہیں بنے تھے،سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ان کی گاڑی اسی بازار میں اس دوکان کے سامنے رُکی تھی۔ایک بوڑھے غریب آدمی کے پاس اتنا خوبصورت بچہ،وہ حیران ہوئے۔بابا جی۔میری بات سُنئیے۔ شیرازی نے پکارا۔بابا نے بچے کو سینے سے بھینچ لیا جیسے کوئی چھیننے والا ہو۔جی سرکار کہیے۔گاڑی میں بیٹھے اور مجھے بتائیے کیا مسئلہ ہے؟ میں سرکاری آدمی ہوںآپ کی مدد کروں گا۔دراصل اتنا خوبصورت بچہ دیکھ کر حیران ہوں،یہ آپ کا تو نہیں لگتا،آپ بزرگ ہیں۔کسی نے یہ بچہ چھین لیا تو کیا ہو گا۔بابا صبور خان واقعی ڈر گئے اور اپنی ساری صعوبتیں شیرازی کے گوش گذار کیں۔دراصل یہ بچہ ایک کشمیری سردار کفیل احمد مہر کا ہے۔ سردار کفیل احمد کشمیر کے ایک بڑے وکیل تھے۔ان کی بیوی سعدیہ احمد مقامی کالج میں لیکچرار تھیں۔سردار کفیل احمد کا چھوٹا بھائی لئیق احمد یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اپنے دو ساتھیوں کی بھارتی فورسسز کے ہاتھوں موت پر،مجاہدین کے ایک گروپ میں شامل ہو گیا۔یہ سب کچھ سردار کفیل احمد کو تب پتہ چلا جب بھارتی فورسسز گھر کی تلاشی لینے آئیں۔سردار صاحب کی بہت عزت تھی،دبدبہ تھا۔مگر اس کاروائی سے وہ بہت پریشان ہوئے۔
لئیق احمد سے بہت رابط کیا مگر وہ نجانے کہاں گم تھا ۔جب سے یہ کنفرم ہوا تھا کہ وہ مجاہدین کے کسی گروپ میں شامل ہو چکا ہے اور بھارتی فورسسز کو کافی نقصان پہنچاتا ہے تو گھر پر چھاپوں میں تیزی آ گئی۔۔وکیل صاحب کے گھر کے ساتھ میری چھوٹی سی دودھ کی دُکان تھی وہ جب بھی آتے میری دُکان بھی الٹ پلٹ جاتے۔پھر ایک دن تو حد ہو گئی۔جب فورسسزکے کسی تازہ دم کمانڈر نے رات کے وقت چھاپا مارا۔میں خود اپنی دُکان سے اپنا خنجر لے کر وکیل صاحب کے گھر میں گھس گیا۔کہ وہ مجھے مار ڈالیں،چلو انہیں لاش چاہیے۔اور میں بھی چاہتا تھا کہ کسی کو تو جہنم واصل کروں گا ۔مگر انہوں نے توپہلے وکیل صاحب کی بوڑھی خالہ کوگولی ماردی۔پھر ان کی چھوٹی بہن مریم شفیق احمد کو پکڑ لیا۔اﷲ رسول کے واسطے کون سُنتا۔وکیل صاحب گھر سے باہر تھے۔ظالموں نے اس معصوم کی عزت برباد کی پھر اسے گولی مار دی۔وکیل صاحب کی اہلیہ چونکہ حاملہ تھیں وہ سوائے منتیں کرنے کے کچھ نہ کر سکیں اور بے ہوش ہو گئیں۔میں نے یہ سارا منظر دیکھا۔میں جانتا تھا کہ اب وکیل صاحب کی بیگم کی باری آئے گی،وہ پورے دنوں سے تھیں۔بھارتی درندے اپنا منہ کالا کر کے نکل گئے تھے۔لعنت ہو ان پر،سو بار لعنت ہو۔بابا صبور کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں جاری تھیں۔جیسے ہی فوجی باہر نکل گئے میں نے جلدی سے پانی لیا اور بیگم صاحبہ کے چہرے پر چھینٹے لگانے لگا۔وہ کچھ ہی دیر بعد ہوش میں آ گئیں۔مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔باہر کرفیو تھا۔سخت پہرہ تھا۔پھر بھی میں ہمت کر کے تھوڑی دور محلے کے دوسری طرف ایک دائی کو لینے چلا گیاچھپتا چھپاتا۔جب صغرا بی بی کو میں نے داستان سُنائی تو وہ ڈر گئی۔ نہ بابا میں نہیں جاتی۔دیکھو صغرا بہن وہ اپنا کام کر کے چلے گئے۔سردار کفیل احمد کی نسل ختم ہو جائے گی۔ان کے ہم پر احسان ہیں۔وکیل صاحب کے بیوی بچے کو بچا لو۔دیکھو صبور بھائی۔باہر کرفیو ہے ہم ویسے ہی مارے جائیں گے۔دیکھو بہن ایسے بھی مرنا ہے ویسے بھی۔کسی کی جان بچ جائے تو بُرا کیا ہے۔خیر بڑے ہی منتوں ترلوں کے بعد آدھی رات آگے پیچھے ہوئی تو ہم چھپتے چھپاتے کسی طر ح و کیل صاحب کے گھر کی پچھلی طرف سے اندر آئے۔وکیل صاحب کی بیوی درد سے تڑپ رہی تھی۔صغرا نے بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔میں جلدی سے دودھ گرم کر کے لے آیا۔سعدیہ بی بی نے بڑی مشکل اور اذیت سے بچے کو جنم دیا اور خود اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔صغرا نے لاشیں دیکھیں تو الٹے پاؤں بھاگنے لگی۔پتہ نہیں واپس پہنچی کہ نہیں۔اب بچے کو کیسے بچاؤں؟بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر میں اپنی دُوکان میں گھس گیا۔
کیسے بچاوٗں بچے کو باہر کرفیو ہے۔اس دن میری ہمت ٹوٹ گئی۔میں اتنا رویا اتنا رویا کہ بس۔لگا اپنے ہی آنسووٗں میں ڈوب کر مر جاوءں گا۔وکیل صاحب گھر نہ لوٹ سکے تھے۔صبح ہوئی تو ایک ہمسائے کو ساری بپتا سنائی۔تم کسی طرح بچے کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔اس نے کچھ روپے اور کچھ خشک میوے مجھے دےئے۔اک پانی کا برتن بھی اور ایک برقعہ بھی دیا۔یوں اﷲ کی مدد سے وہ اس بچے کو بچانا چاہتا تھا۔دس دن کی خواری کے بعد سرحد پرپہنچا۔دعائیں مانگتا روتا رہا رب کے سامنے فر یاد کی کہ میری مدد فرما۔اس کی مدد سے ہی ایک دن رات کے وقت خاردار تاروں کے نیچے سے پہلے بچے کو اور پھر خود رینگ رینگ کر باڑکو پار کیا۔کچھ دیر ایک کھڈے میں دبکا رہا پھر کھڈوں اور ٹیلوں کی آڑ لے کر ایک گاؤں میں پہنچا۔ایک دُکاندار کو اپنی بپتا سنائی۔وہ بولا یہاں جاسوس پھرتے ہیں تم پہلی بس پکڑو اور پاکستان کے کسی شہر یا گاؤں چلے جاؤ،محفوظ ہو جاؤ گے۔یوں اگلی ہی صبح منہ اندھیرے آزاد کشمیر کے مٹالی گاؤں سے بسیں بدلتا آج ہی اسلام آباد پہنچا ہوں۔ سوچ رہا تھا کہ کل کوئی کام کاج اور گھر کا بندوبست کروں گا کہ آپ مل گئے۔شیرازی نے ساری داستان سُنی۔اف اتنا ظلم۔میں ایک دوست کے گھر بھیج دیتا ہوں۔وہاں کام بھی مل جائے گا اور رہائش بھی۔بچے کو بھی آزادی سے سنبھال پاؤ گے۔یوں بچے کو ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا۔دوست کی بیوی کو بچہ اتنا اچھا لگا کہ اس نے اسے گود لے لیا۔یوں وہ بچہ ان کے بچوں کے ساتھ نہایت عمدہ پرورش پانے لگا۔ بابا صبور کبھی واپس نہ جا سکا ۔ نہیں جانتا کہ وکیل صاحب کا کیا بنا۔امید ہے کہ وہ بھی شہید ہو چکے ہیں۔ورنہ ان کی کوئی تو خبر ہوتی کہ بابا صبور نے بہت سے دوستوں کو فون کر کے ان کی بہت تلاش کی تھی مگر کوئی بھی نہ ملا۔لگتا ہے کہ یہ وہی بچہ ہے۔مگر پھر اس کے ساتھ کیا ہوا۔وہ یہ کہانی نہیں جانتے تھے۔ پتہ نہیں وہ بچہ کہاں گیا اور یہ بچہ کون ہے؟ کیسے کھوج لگایا جائے؟ وہ سوچوں کے گورکھ دھندے میں الجھتے گئے۔یہ کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟ اس کی یاداشت غائب ہے تو یہ یہاں ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک کیسے پہنچا؟ کتنے سوال تھے مگر جواب ندارد۔ شیرازی صاحب نے اپنے پرسنل سیکرٹری کو کمرے میں بلایا۔مراد علی۔ یہ ڈپٹی کمشنر کا پنگا حل نہیں ہو رہا کسی ایجنسی کی مدد لو۔اسے پتہ نہ چلے۔مجھے اس کے بارے معلومات چاہیے۔ساری کی ساری۔کون ہے ؟ کہاں سے آیا ہے؟اس کا خاندان کون اور کہاں سے آیا تھا۔ اس کی یاداشت واقعی جا چکی ہے یا کوئی بہت بڑا اداکار ہے۔ڈرامہ کر رہا ہے۔ڈپٹی کمشنر کیسے بنا؟اس کے اب تک تنہا ہونے کی وجہ کیا ہے؟یہ سات سوال ہیں اور ان کا جواب چاہیے۔پیسے کی پروا نہیں کرنا۔کہیں دور دراز بھی جانا پڑے تو جا کر کھوج لگانی ہے۔سر۔ چھوڑیں ٹھیک کام کر رہا ہے۔چپ کرو۔ شیرازی صاحب اس سوال پر غضبناک ہو گئے۔جی۔جی سر۔مراد علی کی گھگی بندھ گئی۔سوری سر آج ہی کام ہو جائے گا۔مراد علی نے وہاں سے ٹل جانے میں خیریت سمجھی۔صاحب کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
اپنی بیٹی کے حوالے سے وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اسے یہ چاند چاہیے کھیلنے کو۔ایک دنیا دیکھ رکھی تھی۔سب اونچ نیچ سمجھتے تھے۔بیٹی کی بیماری وہ پہلے جان چکے تھے۔اب تو وہ اس چاند کو ٹٹول کردیکھنا چاہتے تھے کہ خالی روشنی ہی ہے یا صرف روڑے پتھروں سے بھرا پڑا ہے۔ وہ خاندانی رئیس تھے۔اکلوتی بیٹی۔اور سب کچھ بیٹی کا تھا۔نائمہ کوشش کر کے بڑی حد تک صائمہ کو زندگی کی طرف لے آئی تھی۔دونوں شاپنگ کے لیے جاتیں سیرو سیاحت۔ہوٹلنگ بھی۔ناران کاغان تک سیر کر آئیں۔صائمہ نے اپنی ماس کمیونیکیشن کی کلاسسز لینا شروع کر دیں۔مگر وہ چُلبلا پن وہ نٹ کھٹ انداز رخصت ہو گئے تھے۔اب وہ کافی سنجیدہ،سوبر اور چپ رہنے لگی تھی۔گھنٹوں خود کو کتابوں میں ڈھونڈتی رہتی۔لائبریری ہی اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا۔
صائمہ۔صائمہ ڈیر۔نائمہ آوازیں دیتی لائبریری کی طرف آئی۔کیا ہے؟ کیوں شور کر رہی ہو؟لائبریری ہے یہ۔او ۔ سوری۔اچھا اٹھو میری بات سنو۔وہ پبلک لائبریری سے باہر آ گئیں۔ڈپٹی کمشنر کی خبر ہے۔وہ کیا؟ صائمہ یکدم پرجوش ہو گئی۔وہ نتھیا گلی جا رہا ہے۔ایک ہفتے کے لیے۔تمہیں کیسے پتہ صائمہ نے اسے گھورا۔تمہارے کام کی خبر لائی ہوں اور تم مجھے گھور رہی ہو۔دونوں ہنس پڑیں۔چلو نتھیا گلی چلتے ہیں۔ اس کا پتہ کرتے ہیں۔دیکھو نمی اسے پتہ چل تو بہت رسوائی ہو گی۔صائمہ فکر مندی سے بولی۔اتنی حسین لڑ کی د ادی اماں بنی اچھی نہیں لگتی۔ نائمہ نے اس کا ہاتھ دبایا۔صائمہ ہنس پڑی۔جانتی ہو ۔ نا ۔مجھے وہاں جانا کتنا پسند ہے؟I love Nathia Ghali وہ آنکھیں بند کر کے پوز بنا رہی تھی۔صائمہ نے اس کا کندھا ہلایا۔واپس آ جاؤ لڑکی۔ابھی ہم لاہور میں ہیں۔اچھا چلو جانے کا بندوبست کریں۔بابا اور اماں سے ملاقات کرنی ہے۔ڈرائیور کو کال کی۔وہ گاڑی لے کر پہنچ گیا۔سنو۔دی مال چلو۔کچھ شاپنگ کرنی ہے۔اچھا میڈم کس کے لیے۔نائمہ نے چھیڑا۔تم تو بس۔نتھیا گلی نہیں جانا۔اس نے معنی خیز انداز سے دیکھا۔
ہاں۔۔۔ایک لمبی ہاں کے بعد وہ اپنی لینڈ روور میں گھس گئیں ابھی گلابی گرمیوں کے دن تھے۔سورج چمکتا تھا مگر راتیں زرا آرام دہ ہو گئیں تھیں۔گرمی کی شدت کو ذرا سکون آ گیا تھا۔نتھیا گلی میں تو ذرا ٹھنڈک ہو گی۔ہوں نائمہ نے گمشدہ انداز میں جواب دیا۔
اچھا ہے مجھے سردی پسند ہے۔صائمہ نے باہر بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھتے ہوئے خیالات کا اظہار کیا۔دی مال۔ایک شاندار شاپنگ مال ہے۔سب چیزیں مل جاتی ہیں۔نائمہ مطمین انداز میں چیزوں کو دیکھتی ہوئی بولی۔شاپنگ کرتے ہوئے اچانک وہ مردانہ حصے کی طرف نکل آئیں۔واؤ۔بڑی ورائٹی ہے۔نائمہ شوخی سے بولی۔صائمہ زیر لب مسکراتی رہی۔اس کی آنکھوں میں یکدم اک چمک سی امڈ آئی۔یہ جیکٹس دیکھو کتنی شاندار ہیں۔مہنگی بھی ہیں۔ہاں ایسی جگہوں پر ایسے ہی ہوتا ہے۔وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔ادھر دیکھو۔صائمہ نے نمی کو دیکھا۔ یہ براؤن جیکٹ۔ہیں۔نمی نے دوبارہ صائمہ کو دیکھا۔تمہیں بڑی ہو گی یہ جیکٹ۔وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولی۔ویسے بھی یہ مردانہ جیکٹ ہے۔ صائمہ سر پیٹ کر رہ گئی۔الو کی پٹھی ادھر دیکھو۔وہ غصے میں آ گئی۔سجیل خان کو گفٹ بھیجوں تو کیسا رہے گا۔کیا؟ نمی نے اتنی زور سے کہا کہ لوگ ان کی طرف دیکھنے لگے۔مطلب گفٹ۔او۔مائی گاڈ۔ سُپرب آئیڈیا Superb Idea نمی نے نعرہ لگایا۔صائمہ جھینپ گئی۔ دونوں پورے خضوع و خشوع کے ساتھ جیکٹس الٹنے پلٹنے لگیں۔کافی تگ و داو کے بعد ایک سرخ براؤن جیکٹ انہیں پسند آئی۔ قیمت تو کافی تھی مگر وہ جیکٹ انہوں نے خرید لی۔ صائمہ بڑی مسرور تھی۔جو بھی ہو۔سجیل خان جیسا بھی ہے۔وہ اس سے محبت کرنے لگی تھی۔اور محبت اپنا اظہار بھی مانگتی تھی۔اسے خبر ہی نہ ہو اور وہ یہاں خاک ہو جائے،تو ایسی محبت کا کیا فائدہ۔سجیل خان کو پتہ ہونا چاہیے۔ بھیجنے کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔شاپنگ مکمل کر کے وہ ائیر پورٹ روانہ ہو گئیں۔
نتھیا گلی آئے ہوئے دو دن ہو گئے تھے۔وہ جنگلوں اور پا رکوں کی سیر کر کر کے تھک گئیں تھیں۔ہو سکتاا ہے وہ بندہ یہاں سے جا چکا ہو۔ ارے نہیں۔نمی نے اسے تسلی دی۔آخری خبریں آنے تک وہ یہیں کہیں ہے۔اس نے صائمہ کو تسلی دی۔چلو ادھر چل کے کافی پیتے ہیں۔ وہ گھنے جنگل میں بچھے کرسیاں میز دیکھ کر بولی۔ساتھ ہی ان کا ہوٹل بھی تھا۔اپنے ہی خیالوں میں وہ جنگل کے درخت گن رہی تھی کہ کسی کے قدموں کی آ ہٹ سنائی دی۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا عین اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔نمی سامنے ڈھابے سے پکوڑے خریدنے گئی ہوئی تھی۔صائمہ کا تو جیسے سانس ہی کہیں اٹک گیا تھا۔آپ میری جاسوسی کیوں کر رہی ہیں؟اب کے چپ رہنے کی باری صائمہ کی تھی۔ہم تو۔۔ صائمہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔الفاظ اس کے ہونٹوں پر ہی ٹھہر گئے۔وہ دشمنِ جاں انہی قاتلانہ آنکھوں کے ساتھ اس کی جان کھینچ رہا تھا۔ ہم ہم۔تو۔سیر۔یہ کیسا رعب تھا۔جلال تھا یا خوف تھا۔دو آنسو صائمہ کے سندوری گالوں ہر لڑھک گئے۔
اچانک سجیل خان کو بھی احساس ہوا کہ اس نے لڑک کو زیادہ ہی ڈرا دیا ہے۔سوری۔وہ غصے سے اسے دیکھتا ایک طرف جنگل میں اتر گیا۔جب تک نائمہ پہنچی،صائمہ ادھ موئی پڑی ہوئی تھی۔چہرے پر رنگ آ ،جا رہے تھے۔کیا ہوا صائمہ میری جان۔اس نے پکوڑے وہیں پھینک دئیے۔صائمہ زرد ہوتی جا رہی تھی۔اٹھو جلدی سے کمرے میں چلو۔شائد ٹھنڈ لگ گئی ہے۔
صائمہ بے دم سی اندر آئی اور بیڈ پر گر پڑی۔چوکیدار بھاگا ہوا آیا،میڈم کی طبعت ٹھیک نہیں۔ہمیں فوری اسلام آباد جانا ہے۔اس نے جلدی جلدی چیزیں بیگ میں ٹھونسیں۔صائمہ کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹا دیا۔وہ تو صائمہ کو ویسا ہی فریش بنانا چاہتی تھی۔مگر یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی تھی۔کیا ہوا تھا؟ صائمہ کچھ نہیں بتا سکی تھی۔دعائیں مانگتی وہ اسلا م آباد پہنچی۔فیملی ڈاکڑ پہنچ گئے۔چیک اپ کے بعد نیند کی دوا دے دی گئی۔
اس نے گارڈ کو طلب کیا۔تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟ نائمہ بی بی میں تو ادھر سامنے ہی تھا۔بے بی چائے پی رہی تھیں۔اچانک ایک لمبا جوان سا آدمی اوپر والی سڑک سے نیچے آیا۔وہ شاید ایک منٹ بھی نہیں رُکا اور نیچے کی طرف اتر گیا۔میں نے شکل نہیں دیکھی۔اتنی دیر میں آپ پہنچ گئے۔میں سامنے ہی تھا۔کہیں وہ سجیل خان ہی نہ ہو۔وہی تباہی کرتا ہے۔اب کے وہ مجھ سے نہیں بچے گا۔حد ہوتی ہے مغروری کی۔آخر اس کو تکلیف کیا ہے؟ نائمہ غصے سے بھر گئی۔مجھے بصیر پور جانا پڑے گا۔صائمہ کے لیے اس کا دل بہت گداز تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔شام تک ضمیر شیرازی صاحب بھی پہنچ گئے تھے۔انہیں کھد بُد لگ گئی۔ہنستی کھیلتی گئی تھیں۔وہاں کیا ہوا تھا؟انہوں نے اپنے سیکرٹری کو فون کیا۔پتہ کرو آج کل سجیل خان کدھر ہے؟ جی سر اسی وقت اس نے بصیر پور فون کیا۔تو پتہ چلا کہ سجیل خان اپنے گھر پہ ہے۔پچھلے دو چار دن وہ غائب رہا ہے۔کہاں گیا تھا۔سر یہ کسی کو پتہ نہیں۔ شیرازی صاحب بہت پریشان تھے۔اگلا پورا ہفتہ صائمہ بخار میں مبتلا رہی۔اور نائمہ سجیل سے دو دو ہاتھ کرنے کے منصوبے بنانے لگی۔
صائمہ اب ٹھیک تھی۔چلو لائبریری چلتے ہیں۔چلتے ہیں۔مگر پہلے مجھے یہ بتاؤ وہ اچانک کہیں سے نکلا،تمہارے سامنے آیا۔اس نے کچھ کہا اور تم مٹی کا مادھو کچھ کہہ بھی نہیں سکیں۔نائمہ غصے میں تھی۔پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔بس وہ سامنے آیا۔اس نے دیکھا اور کہا کہ میں اس کی جاسوسی کر رہی ہوں۔میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ یہ کہہ کر غائب ہو گیا۔اس نے میری بات سنی ہی نہیں۔دو موٹے موٹے آنسوصائمہ کے سندوری گالوں پرلرزنے لگے۔اچھا۔اسے تو میں دیکھ لوں گی۔یاد کرے گا۔نائمہ تم ایسا کچھ نہیں کرو گی۔۔صائمہ نے سختی سے کہا۔وہ بندہ ہتھے سے اکھڑ جائے گا اور پھر بابا کی عزت۔جو کچھ بھی ہو میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔اچھا جی۔تو اس کے سامنے آتے ہی دھڑام سے کیوں گر پڑتی ہو۔ثابت قدم رہ کراس سے بات کرو۔نائمہ نے ناحصانہ انداز میں اسے سمجھایا۔نہیں میں اسے اپنے دل سے نکال دوں گی۔یہ اتنا آسان نہیں ہے مائی ڈیر۔اتنا مشکل بھی نہیں۔صائمہ اک دُکھی مسکراہٹ سے بولی۔دیکھتے ہیں۔
کل ہوسٹل جانے کی تیاری کرنی ہے۔چلو اٹھو۔کلاسسز مس ہو رہی ہیں۔ماشا اﷲ میری بنو بڑی بہادر ہے۔نائمہ نے مذاق کیا۔ہاں ہوں نا۔صائمہ نے کہا۔اب وہ قدرے فریش لگ رہی تھی۔اگلے دو دن تیاری میں لگ گئے۔دونوں لاہور آئیں۔صائمہ تو سٹڈی میں لگ گئی۔نائمہ شاپنگ میں۔اسے جلدی کراچی واپس جانا تھا۔سکول کا بندوبست والدہ کے سپرد کر کے آئی تھی۔وہ بھی دیکھنا تھا۔اپنے ذاتی ہائی سکول و اکیڈمی کی پرنسپل تھی۔واپس تو جانا ہی تھا
سجیل تیزی سے پگڈنڈی پر چلنے لگا۔یہ لڑکی کیا چاہتی ہے؟ بار بار سامنے آ جاتی ہے۔وہ سوچتا چلا جارہا تھا۔میں تو خود تباہ حال،تباہ قسمت ہوں۔خود اپنی تلاش میں ہوں۔اپنی کھوج پہ نکلا ہوا ہوں۔اپنا پتہ نہیں ملتا۔کسی کو کیا راستہ دکھاؤں گا۔کاش کوئی سراغ ملتا۔میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں۔سجیل خان ہوں یا اور کچھ۔لوگ میری کھوج میں ہیں اور میں اپنی کھوج میں۔اب تک اپنا مسئلہ تو حل کر نہیں پایا۔یہ لڑکی۔لڑکی وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا۔وہ تو لگتا ہے بیمار سی ہے۔وہ پہلے دن والی تیزی طراری نہیں۔میں نے خواہ مخواہ اسے جاسوس کہہ دیا۔میرا رویہ با لکل ٹھیک نہیں تھا۔ہو سکتا ہے وہ وہاں ویسے ہی سیاحت کے لیے آئی ہواور میں اف،میں بھی کیا کروں۔اس نے سر پکڑ لیا۔ہر وقت دماغ گھوما رہتا ہے۔سمجھ تو کچھ آتی نہیں۔دماغ کے ان وحشی خیالوں سے کب نکلوں گا۔مجھے واپس جا کر اس لڑکی سے معذرت کرنی چاہیے۔یہی سوچ کر وہ واپس پلٹاتو سہی مگر یہ سوچ کر کہ لڑکی کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھے وہ واپس ہو لیا۔
ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کاکہہ کر وہ واش روم میں چلا گیا۔صاحب گاڑی تیار ہے۔وہ تیار ہو کرباہر نکل آیا۔دوست کا خوبصورت فلیٹ جہاں وہ اکثر رہتا تھااور سکون حاصل کرتا۔صاحب اتنی جلدی۔آپ تو ایک ہفتے کے لیے آئے تھے۔بس چلو۔اتنا کہہ کر وہ اپنی سفاری میں گھس گیا۔پتہ نہیں کیا ہوا تھا۔لڑکی کی بیمار سی رونی صورت سامنے آ جاتی تو اسے اپنی زیادتی کا احساس ہونے لگتا۔اس مرجھائے سے چہرے میں بھی بلا کی کشش اور حسن تھا۔دھلی ہوئی شفاف سیاہ آنکھیں،گولڈن براؤن خوبصورت تراش کے بال۔نازک سی ناک اور خوبصورت گلابی ہونٹ جن پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔سوگوار سا حسن اس کے ملیح چہرے پر جچ رہا تھا۔یہ میں نے کب اسے اتنی تفصیل سے دیکھا بھلا۔حیرت ہے۔وہ اتنی خوبصورت ہے۔میں نے تو کبھی عورتوں پر غور ہی نہیں کیا۔سوچ کی سمت مڑ گئی۔میں تو خود کے عذابوں سے آگے جاتا ہی نہیں۔
ایساکیا ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات الجھ کر رہ جاتی ہیں۔مقصد کسی کے ذہین پر بوجھ ڈالنا نہیں۔بس کچھ گرہیں کھولنا ہوتا ہے۔گرہیں کیسے کھلیں گی۔یہ زندگی جیسے گزر رہی ہے اسے ایسے ہی گزارا جائے یا ان منجمد حالات سے آگے بڑھا جائے،کہیں تو کوئی پگھلا ہوا پانی کا چشمہ ملے۔کہیں تو شفاف بہتی ندی میں اپنا چہرہ دیکھنے کو ملے،کہیں پر تو ہاتھوں پر لگی حالات کی ریت دھو پائیں۔کہیں تو اپنے پیروں سے وقت کی گرد جھاڑ کر اگلے پڑاؤ کی طرف بڑھ سکوں۔میرا چھپا ہوا ماضی ہی کیوں؟ساری تاریکیاں لے کر میرے پیچھے پڑا ہے۔وہ مجھے سکون سے جینے نہیں دیتا۔کیا کروں؟ سائیکاٹرسٹ بھی ہار گئے۔ڈاکڑوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔آخر یہ گتھی کیسے سلجھے گی۔میں زندگی میں کیسے آگے بڑھوں گا۔زندگی اس سے زیادہ اور کیا اذیت ناک ہو گی۔کہ اپنے ساتھ بھی وقت نہیں گزرتا۔زندگی کسی تاریک کمرے میں وحشتوں کی نظر ہو جاتی ہے۔میں زندگی کے سفر میں بھی کسی کو شامل نہیں کر سکتا۔اپنے دکھ کیسے دوں؟اپنی اذیت میں کیسے شامل کروں؟
سجیل سرپکڑے بیٹھا تھا۔وہیں ایک اداس،پژمردہ،گھبرایا ہوا چہرہ اس کی تاریکی میں جگمگانے لگا۔پھر اپنی زیادتی کے احساس نے اسے کچلنا شروع کر دیا۔مجھے اسے سوری کہنا پڑا گا ورنہ یہ مصیبت ٹلنے والی نہیں۔مگر یہ خوبصورت سی مصیبت بار بار آنکھوں کے آگے آنے لگتی تھی۔اپنا ہی تجزیہ کرتے تو عمر گزری تھی۔تنہائیوں کے آسیب نے یہی سب تو سکھایا تھا۔تو کیا وہ بد تمیز سی لڑکی مجھے اچھی لگی ہے۔کتنی اکھڑ اور مغرور۔ اسے یاد آیا توپھر نتھیا گلی میں وہ اتنی مختلف کیوں لگی۔کہیں وہ مجھ میں انوالو involve تو نہیں ہو گئی۔اکثر خواتین کو میں اچھا لگ جاتا ہوں۔ خانسامہ نے کھانے کو پوچھا۔کافی دے دو۔سر سینڈ وچ بنا دوں۔آپ کافی دیر سے صرف کافی پی رہے ہیں۔بھوک تو نہیں ہے پھر بھی لے آؤ۔خانسامہ جلدی سے پلٹ گیا۔پچھلے ایک سال سے وہ سجیل خان کے ساتھ تھاصاحب کی چپ سے وہ بڑا تنگ تھا۔آج خلاف توقع صاحب کا جواب سُن کر وہ خوش ہو گیا۔کسی تبدیلی کے نشان ہیں وہ سوچنے لگا۔اﷲ کرے۔صاحب کو ان کے گھر والے مل جائیں۔ خانسامہ اصغر یہی سوچ رہا تھا۔
اگلے دن وہ آفس پہنچا تو ڈھیر ساری فائلیں دیکھنی تھیں۔کچھ مقامی لوگوں سے میٹنگز بھی تھیں۔پی اے ڈائری لے کر آگیا۔سارا دن مصروفیت باہر جانے کا بھی وقت نہیں ملا۔دو دن اسی مصروفیت میں گزر گئے۔آج موسم میں کچھ خنکی تھی۔پھر بھی اچھا لگ رہا تھا۔آفس پہنچا تو ایک سرپرائز موجود تھا۔خوبصورت پیکنگ والا ایک گفٹ پیک۔
علی احمد یہ کیا ہے؟ چوکیدار کو بلایا۔سر ٹی سی ایس ہے۔کچھ دیر پہلے ہی آیا ہے۔چیک کرو۔کھولو اسے۔سر میں! علی احمد جھجک گیا۔کھولو۔اب کہ آواز میں جلال تھا۔جی جی سر۔اس نے ٹیبل سے کاغذ کاٹنے والی چھری اٹھائی اور بڑی احتیاط سے پیکٹ کھولنے لگا۔سجیل خان کھڑا دیکھ رہا تھا۔کھٹاک سے صائمہ شیرازی اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔وہ ایک لمحے میں ہی سمجھ گیاکہ یہ پیکٹ اسی نے ہی بھیجا ہے۔نہایت اعلیٰ پیکنگ میں ایک شاندارلائٹ براؤن مخملی جیکٹ تھی۔نہایت قیمتی اور سائز بھی پرفیکٹ۔سر میں جاؤں۔علی احمد نظریں جھکائے باہر نکل گیا۔اس کے لیے یہ گفٹ کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھا۔صاحب جیسی چپ شاہ شخصیت کے پتھر مزاج میں کسی نے کنکر تو پھینکا تھا۔اور یہ جرات وزیر صاحب کی بیٹی کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا تھا۔اب وہ سب جاننا چاہتے تھے کہ حالات کس رخ پہ جائیں گے۔ڈپٹی کمشنر صاحب وزیر صاحب سے پنگا لیں گے یا اس تحفے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔سارے سٹاف کو پتہ چل گیا تھا۔سارے اپنی اپنی جگہ پر بے چین تھے کہ اب کیا وقوع میں آتا ہے۔پتھر میں سیندھ لگ گئی تھی۔صاحب کیا کرے گا۔میڈم کا کیا رد عمل ہوگا سب منتظر تھے۔چوکیدار علی احمد کلرک نصر اﷲجان کے پاس کھڑا تھا۔پی اے نے اپنی ٹیبل سے جھانکا۔آنکھوں کے اشاروں سے کچھ بات ہوئی۔
سنو وہ پیکٹ میں کیا تھا۔نصر اﷲجان نے علی احمد سے پوچھا۔مروائے گا کیا؟چپ رہ علی احمد نے اشارہ کیا۔ویسے انفارمیشن کے لیے بتا دے آپس کی بات ہے۔پی اے باسط علی کی نظریں انہی پہ ٹکی ہوئی تھیں۔کسی نے بڑی قیمتی جیکٹ کا تحفہ بھیجا ہے صاحب کو۔اچھا۔ نصر اﷲ نے حیرت کا اظہار کیا۔یار ویسے صاحب ہے بڑا قسمت والا۔کہاں یار۔ علی احمد افسردہ سا ہو گیا۔وہ کیوں بھلا۔نصر اﷲ نے کریدا۔یار جس بندے کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو۔وہ خود بھول چکا ہو کہ وہ کون ہے۔ماں باپ کون تھے۔کس علاقے کا ہے۔اتنا اکیلا سارا دن کسی عذاب میں مبتلا رہتا ہے۔چپ چاپ،خاموش۔سوچتے رہنا۔اور پھر اس مرض کا علاج بھی کوئی نہیں۔ہاں یار یہ بات تو ہے۔نصر اﷲ بھی اداس ہو گیا۔یار اتنا شاندار آدمی۔خوبصورت،جوان پڑھا لکھا۔رُعب اتنا کہ شیرازی صاحب جیسے وزیر گھبرا کر بات کرے۔وہ بندہ ذہنی طور پر خود گمشدہ ہے۔یار ویسے دکھ تو بہت ہے۔لیکن ایک بات ہے علی احمد۔بندہ ہے بندے کا پتر۔اپنے کام میں ماہر۔کام سے کام۔اور لوگوں کو اس کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں۔کسی اچھے والدین کی اولاد ہے۔لکھ لو۔نصر اﷲ نے قطعی انداز میں کہا۔اچھا خون ہے تبھی نظر آتا ہے نا۔یہ تو ہے۔علی احمد نے ہاں میں ہاں ملائی۔
گھنٹی بجی۔علی احمد آفس کی طرف بھاگا۔نصر اﷲ اپنی کھد بدھ سمیٹتا کام میں لگ گیا۔یس سر۔علی احمد یہ پیکٹ سمیٹو اور الماری میں رکھ دو۔یس سر۔علی احمد نے پھر جیکٹ کو چھوا۔ویلوٹ کی جیکٹ جس پر غالباََ سونے کے بٹن تھے۔علی احمد کو ایسا ہی لگا تھا۔بڑے پیار سے بڑی احتیاط سے اس نے جیکٹ کوسمیٹ کر ڈبے کو و یسے ہی بند کیا۔اور اسے الماری میں رکھ دیا۔کوٹ باگھ کے پنچائیت والوں نے آنا تھا۔جیسے ہی پہنچیں مجھے فوراََ بتائیں۔وہ لوگ لیٹ ہو گئے ہیں سب کے لیے چائے پانی کا بندوبست کر لینا۔ہاں نصر اﷲ جان صاحب کو بھیج دیں۔ سر! کافی،چائے یا قہوہ پسند فرمائیں گے۔کیا ہونا چاہیے۔سجیل خا ن نے سوال کر دیا۔سرجو آپ پسند فرمائیں۔نہیں جو آپ پسند فرمائیں۔کیا کروں؟ وہ پریشان حال باہر نکلا۔صاحب بھی مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔دوسرے کلرک۔راجہ جوشی نے پوچھا۔کیا ہوا۔صاحب کو اس وقت کیا پلاؤں۔جانی واکر لے جا۔پی اے کی دور بیٹھے ہنسی نکل گئی۔بھائی میرے ۔صاحب جو پیتے ہیں یعنی کافی۔نہیں وہ میں پوچھ بیٹھا تھا کہ کافی ، چائے یا قہوہ۔انہوں نے کہا جو تم چاہو۔اور میں اب مصیبت میں پڑ گیا ہوں۔کیا لے کر جاؤں۔قہوہ لے جانا پی اے نے صلاح دی۔ٹھیک ہے۔
وقت گذرنے لگا تھا۔دو ہفتے بعد شیرازی صاحب کے آفس میں کافی گہما گہمی تھی۔ایک 93 سالہ بزرگ ان کے سامنے بیٹھا تھا۔یہ لالہ زبیر الدین خان کے ذاتی ملازم رہ چکے تھے۔بزرگی اور بیماری کے باعث کافی غائب دماغ ہو چکے تھے پھر بھی کھبی کبھی کام کی بات کر دیتے تھے۔سیکرٹری کو بلاؤ۔شیرازی صاحب نے گارڈسے کہا۔جی سر سیکرٹری بھاگا آیا۔آج کی تمام میٹنگز کینسل۔میں یہاں پر نہیں ہوں۔ کھانے کا آرڈر دے دو۔جی سر۔اور پھر وہ مکالمہ شروع ہوا جس نے سجیل خان کی راہیں متعین کرنی تھیں۔یہ لالہ زبیر الدین خان کون تھے؟ شیرازی صاحب نے بابا رحیم سلطان خان کو جوس کے دو گلاس پلانے کے بعد سوال کیا۔آپ نہیں جانتے بابا سلطان نے مصومیت سے سوال کیا۔نہیں ۔آپ بتائیں ان کے بارے میں،وہ ہمارے دور پار کے بزرگ تھے۔ان کے بارے جاننا چاہتا ہوں۔ شیرازی صاحب نے اپنے جذبات کو پوشیدہ رکھا۔بابا سلطان کافی د یر آنکھیں بند کیے سوچتے رہے۔جیسے وہ کچھ یا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اذیت ان کے چہرے پر پوری طرح عیاں تھی۔مدتوں پیچھے جانا آسان کام نہیں تھااور پھر وہ تو بزرگ تھے۔اتنی جلدی یاد آنا بھی شائد ممکن نہیں تھا۔شیرازی صاحب کو بہرحال انتظار کرنا تھا۔
لالہ زبیر الدین خان بہت بڑے زمیندار تھے۔ہرنائی کے گرد ونواح میں وہ بے تاج بادشاہ تھے۔آپ جانتے ہیں نا۔ہرنائی۔ بلوچستان کا شہر ہے۔اب تو ضلع کا نام بھی ہے۔بابا سلطان نے سمجھانے کے انداز میں بتایا۔اس کی تاریخ پتہ ہے آپکو۔بابا نے یکدم آنکھیں کھول کر شیرازی صاحب کو دیکھا۔وہ بوکھلا سے گئے۔بابا کا یہ انداز تو نیا سا تھا۔یوں لگا جیسے بابا کہیں بلوچستان میں گم ہو گئے ہیں۔بابا جی آپ لالہ زبیر الدین کے بارے میں بتائیں۔نہیں ۔بالکل نہیں۔بابا نے شیرازی کی بات کاٹ دی۔لالہ زبیر خود ایک تاریخ ہے۔تاریخ کے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔بابا نے کہا۔ٹھیک ہے بابا جی۔بتائیے۔شیرازی نے بور ہوتے ہوئے کہا۔اسے یہ تاریخ تو سُننی پڑے گی۔تاریخ بتاتی ہے، اشکوک اعظم کے بعد تقریباََ دو ہزار سال سے زائد عرصے تک یا تو برصغیر پر وسطی ایشیا،افغانستان،ایران ،عرب،یونان اور بعد کے زمانے میں برطانیہ سمیت دوسری یورپی اقوام حملہ آور ہوئیں اور اس وسیع رقبے کے ملک کو یا تو مستحکم کیا یا لوٹ مار کر کے رخصت ہو گئیں یعنی یہاں قومیں آتی رہیں اور ان علاقوں کو فتح کرتی رہیں۔پھر انگریز قابض ہو گئے۔انہوں نے کوئٹہ شہر بسایا۔سن کیا تھا یاد نہیں۔بابا ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا۔ہاں یا آیا غالباََ 1878 کا سن تھاپھر انگریزوں نے ہرنائی سے کوئٹہ تک ریلوے لائن بچھا دی۔کتنا اچھا کیا۔بابا سلطان خیالوں میں ہرنائی کے ریلوے اسٹیشن پر گھوم رہا تھا۔مگر بلوچ اور دیگر قبائل نے بڑا نقصان کیا۔ادھر مری اور بگٹی قبائل بہت تھے۔اب تو ریلوے لائن کو تباہ کر دیا ہے، ظالموں اورد ہشت گردوں نے۔یہاں ایک وولن مل ہوا کرتی تھی۔کیا اعلیٰ کام تھا۔میں بھی اوائل جوانی میں اس میں کام کرتا تھا۔ہماری بھیڑوں کی اون جاتی تھی کارخانے میں۔اب تو یہ مل بھی کھنڈرات میں بدل گئی ہے۔یہ مل1971کے قریب چلتی تھی۔بس دنیا چیزیں بناتی ہیں ہم تباہ کرتے ہیں۔بابا بہت غمزدہ ہو گئے تھے۔یہیں تھے لالہ۔ان کے والد کی بہت سی زمینیں تھیں۔ انگریز کی ریلوے لائن ان کی زمینوں میں سے گزری تھی۔لالہ زبیر الدین نے یہیں آنکھ کھولی تھی۔پانچ بہن بھائی۔لالہ سب سے چھوٹے۔ لالہ نے ہرنائی کے سکول اور کالج میں پڑھائی کی۔پھر اگے پڑھنے کے لیے کراچی چلے گئے۔لیکن ان کا دل توہرنائی اور زیارت میں ٹکا رہتا۔یہاں اسکے والد صاحب کی کانیں بھی تھی،کوئلے کی کانیں۔بس ہرنائی کے ساتھ بڑی بڑی زیادتیاں ہوتی رہیں۔ہرنائی بلوچستان کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔اور مشہور زمانہ زیارت کے قریب ہے۔صنوبر کے جنگلات ہیں اور زیتون کے جنگلات بھی ہیں۔آپکو پتہ ہے یہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے۔یہاں بہت سارے پھل بھی پیدا ہوتے ہیں۔بابا سلطان اپنی دھن میں بچے بن چکے تھے۔ بابا سلطان۔آپ تو ہرنائی صوبہ بلوچستان کی تاریخ بتاتے جا رہے ہیں۔مجھے لالہ کے بارے کچھ بتائیے۔دیکھو صاحب میں بھی پڑھا لکھا ہوں۔میڑک کیا تھاپھر گورنمنٹ کالج ہرنائی میں بھی داخلہ ہوا مگر ایف اے میں تھا جب والد صاحب،لالہ زبیر الدین کے والد صاحب کی کان میں اک تودہ گرنے کے باعث وفات پا گئے۔تب مجھے بابا کی جگہ کام مل گیا۔ان دنوں لالہ بھی وہاںآتے تھے۔ایک دن مجھے اپنے دفتر لے گئے اور اپنے کام پر رکھ لیا۔میں چونکہ پڑھا لکھا تھا ا س لئے حساب کتاب بھی دیکھنے لگا۔لالہ کی محبت نے مجھے وہاں سے کہیں جانے ہی نہیں دیا۔میں لالہ زبیر کا سایہ بن گیا۔ہم اکٹھے شکار کھیلنے جاتے۔مارخور کا شکار کرتے۔چکورکا بھی۔پھر ہم گرمیوں میں زیارت چلے جاتے۔وہ کیوں؟ شیرازی صاحب نے لقمہ دیا۔صاحب ہرنائی میں بہت گرمی پڑتی تھی۔حالانکہ دونوں علاقے قریب قریب ہیں پھر بھی ایک گرم اورسردہے۔بس زندگی یونہی گزرتی رہی۔لالہ نے اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بھی کافی کام کیا۔بہت سے سکول بنوائے۔لوگوں کوروزگا ردیا۔ایک اور بات بتاؤں۔جی ضرور۔وہاں قبائل کی لڑائیاں بہت ہوتی ر ہتی ہیں۔کسی نہ کسی بات پہ ہوتی رہتی ہیں۔یہ بلوچستان میں عام ہے۔لالہ کے بھی بہت سے دشمن تھے۔تودشمنیاں بھی چلتی رہتی تھیں۔کوئٹہ میں لالہ کے والد صغیرالدین خان صاحب کے ایک دوست اور دور کے عزیز تھے۔وہ بہت عرصہ سے کوئٹہ میں رہتے تھے۔ان کا بیٹا فوج میں چلا گیا تھا۔ان کی بھی بہت دشمنیاں تھیں۔ لیکن گل ضمیر چونکہ فوج کے میجر تھے اس لیے ان کا خاندان بچا رہتا تھا۔بابا سلطان آپ کدھر کو نکل گئے۔مجھے تو لالہ زبیر الدین اور سجیل خان کے بارے جاننا ہے۔وہی توبتا رہا ہوں۔لالہ زبیرالدین نے دو شادیاں کیں مگر اولاد سے محروم تھے۔ان کے باقی بھائیوں کی اولادیں تھیں۔
وہ اکثر کراچی جاتے رہتے تھے اور ان کے بہت گہرے دوست میجر گل ضمیربھی کراچی میں ہی رہتے تھے۔ان کی بیوی وہاں کے ایک سیٹھ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ان کا ایک بیٹا تھا۔آزان ضمیر۔ایک بدقسمت دن میجر کی فیملی لالہ کے ساتھ سمندر کنارے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔میں بھی لالہ کے ساتھ ہی تھا۔اچانک ایک ٹیکسی پر کچھ لوگ آئے،بندوقیں نکالیں اور ھڑادھڑ گولیاں چلا دیں۔چار گولیاں میجر کو لگیں۔خوف و ہراس پھیل گیا۔بھگدڑ مچ گئی۔لالہ نے اپنی تکلیف بھول کر جلدی سے میجر کو پکڑا۔سنو لالہ میرے بیٹے کو ساتھ لے جاؤ۔اور بچا لو۔اپنا بیٹا بنا لو۔وہ لوگ اسے بھی مار ڈالیں گے۔پولیس آئے تو کہنا تمہارا بیٹا ہے۔پھر پولیس،ہسپتال،دشمنی،بدلہ اور نجانے کیا کیا چلتا رہا۔لالہ کو بچے کی فکر تھی۔پہلے ماں اور پھر باپ دونوں دم توڑ گئے۔لالہ بھی ہسپتال میں تھے۔ان کے بازو کی گولی نکال دی گئی۔بچہ بُری طرح سہم چکا تھا۔اسکی آنکھوں کے سامنے ماں باپ تڑپتے رہے۔ان کا بہتا خون اس نے دیکھا۔وہ چیخنا چاہتا تھا۔بس اپنی چیخ اندر ہی دبا گیا۔بچے کو میں ہی سنبھالتا رہا۔سیٹھ نے بچے کو لینے کی بڑی کوشش کی۔میڈیا میں بھی شور مچایا۔مگر لالہ نے کسی کی بھی نہ چلنے دی۔ میجر کے آخری الفاظ اسے کبھی بھولے ہی نہیں۔وہ اسے بھی مار ڈالیں گے۔لالہ کے لیے اسے ہرنائی میں رکھنا مشکل تھا۔دشمنوں کو خبر تھی کہ لالہ زبیرالدین میجر گل ضمیر کا دوست ہے۔چونکہ لالہ کی حثیت مستحکم تھی لہذا وہ لالہ کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔لالہ نے بچے کے بارے خود فیصلہ کیا۔سیٹھ صاحب کو سمجھا دیا گیا تھا کہ بچے کی زندگی کو خطرہ ہے اس لیے چپ رہیں اور وہ چپ ہو گئے۔
بیٹھے بیٹھے ووپہر ہو گئی تھی۔صاحب مجھے تو بھوک لگ گئی۔اب نہیں بولا جاتا وہ بیٹھے بیٹھے ہانپ گئے۔گھنٹی بجی چوکیدار جلدی سے اندر گیا۔ کھانا لے آؤ۔کھانا لگ گیا۔بابا جی کھانا کھانے لگے۔آپ بھی کھائیں۔میں ذرا پرہیزی کھانا کھاتا ہوں۔ابھی آجائے آپ بسم اﷲ کریں۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟آپ کو لالہ سے کیا دلچسپی ہے؟بابا جی آپ پہلے ساری کہانی مجھے بتائیے پھر میں آپ کو کہانی سُناؤں گا۔ہاں ضرور پوچھیں۔لالہ تو کبھی مجھے بھولے ہی نہیں۔بس آج تو انہیں بہت یاد کر لیا ہے۔بہت دُکھی ہو گیا ہوں ۔لگتا ہے جیسے ابھی مجھے آواز دیں گے،سلطان! اور میں کہوں گا جی سلطان کی جان! اور وہ زور سے قہقہ لگائیں گیااور کہیں گے تم تو میری اماں جان بن جاتے ہو۔میری جان قربان لالہ۔اور وہ کہتے سلطان،میں اپنے بعد صرف تم پر بھروسہ کرتا ہوں۔بابا کی آنکوں میں آنسو آ گئے۔لالہ تم کہاں چلے گئے۔بابا سلطان باقاعدہ رونے لگے۔بابا سلطان حوصلہ کرو۔آپ نے تو عمر گذاری ہے ان کے ساتھ۔اس بچے کا پھر کیا بنا۔ شیرازی صاحب اصل موضوع کے قریب تھے۔انہوں نے کراچی میں ہی مجھے کہا تھا کہ اگلی فلائٹ سے بچے کو لاہور میرے دوست کے پاس لے جاؤ۔میں بعد میں آتا ہوں۔ہم چونکہ بچے سے اکثر و بیشتر ملتے رہتے تھے اس لیے بچہ ہمارے پاس گھبرایا تو نہیں بس چپ ہو گیا۔چپ شیرازی صاحب چونک گئے(سجیل خان)۔پھر! میں لالہ کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا مگر یہ کام بھی اہم تھا۔لالہ کے دو بھائی اور دو بہنیں ان کے پاس پہنچ گئے تھے۔بیویاں بھی آگئی تھیں۔میں اذان ضمیر کو لے کر لاہور آ گیا۔یہاں ڈاکڑ شہزاد اجمل لالہ کے یونیورسٹی کے وور کے گہرے دوست تھے میں ان کے گھر آیا۔ان کو ساری کہانی سنائی۔وہ بہت دُکھی ہوئے۔اپنی انیکسی ہمیں رہنے کو دے دی۔لالہ نے اخراجات کے لیے ایک بڑی رقم کا چیک مجھے دیا۔وہ بچے سے بہت پیار کرتے تھے۔آہستہ آہستہ بچہ ان سے کافی مل گیا۔ میں بچے کو روز سیر کروانے لے جاتا۔ڈاکڑ صاحب کے بچے بھی اس پیارے سے بچے کا بہت خیال رکھتے تھے ۔اپنے ساتھ خو د کھانا کھلاتے تھے۔کھیلتے۔سیر کے لیے لے جاتے۔لالہ روز ٹیلی فون کر کے اس کا حال پوچھتے۔لالہ نے مجھ سے کہا،لاہور میں کوئی اچھا سا گھر دیکھو۔اذان ضمیر کے نام سے خریدو۔ڈاکڑ کے گھر کے قریب ہی ایک خوبصورت گھر مل گیا۔لالہ خود آئے۔ڈاکڑ شہزاد کا شکریہ ادا کیا۔
لالہ میرا ایک مشورہ ہے۔ہاں کہو ڈاکڑ۔لالہ اگر تم اسے اپنا بیٹا بنا کرپالنا چاہتے ہو تو اس کو اپنا نام دو۔لالہ کچھ دیر سوچتے رہے۔اس کا نام اس کے حفاظتی نقطہ نظر سے تو تبدیل کر سکتا ہوں۔مگر وہ اپنے والدین کے بارے جانتا ہے۔اور پھر یہ میرے دوست کی اکلوتی نشانی ہے۔
ولدیت وہی رہے گی،نام بدل دیتا ہوں۔ہا ں چلو یہ ٹھیک ہے۔ڈاکڑ نے کہا۔یوں بچے کا نام اذان ضمیر سے سجیل خان ولد گل ضمیر خان ہو گیا تھا۔شیرازی نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔تو بلاآخر سجیل خان کا عقدہ حل ہو گیا۔وہ واقعی ایک بڑے خاندان کا چشم چراغ ہے، معمولی بچہ نہیں ہے۔شکر ہے خدا کا۔میری بیٹی کی پسند معمولی نہیں ہے۔اب میں بے فکر ہوں۔میری بیٹی اس کی وجہ سے کتنی اذیت میں رہتی ہے۔پھر کیا ہوا؟ شیرازی صاحب نے اب کے سکون سے پوچھا۔وہ بہر حال اس کے بارے جاننا چاہتے تھے۔کھانا پسند آیا۔ہاں ہاں بیٹے۔اب کے بابا جی کافی ریلیکس تھے۔
یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے۔آج سے 25 سال پہلے کی کہانی۔سجیل خان کو سب پیار سے سجو بابا کہتے تھے۔ان کو ڈاکڑ شہزاد کے بچوں کے ساتھ بڑے سکول میں داخل کروایا گیا۔ایک گارڈ اور ڈرائیور ہمیشہ سجو بابا کے ساتھ ہوتے۔لالہ زبیر ایک لمحے کی غفلت بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔لالہ کو کاروبار کی وجہ سے بلوچستان میں ہی رہنا پڑتا لیکن ان کا دل لاہور میں ہی لگا رہتا۔اپنی کوئی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ساری شفقت،محبت سجو بابا کے لیے تھی۔سجو بابا تھے تو بچے مگر ایک چپ نے انہیں جکڑ لیا تھا۔بہت کم ہنستے۔بہت کم کھیلتے۔بس چپ چاپ الگ تھلگ رہتے،سکول کا کام کرتے رہتے۔لالہ اسے دیکھ کر بہت دُکھی ہو جاتے۔کون سی نعمت تھی جو سجو کے لئے انہوں نے مہیا نہیں کی۔کچھ عرصے کے بعداپنی چھوٹی بیوی کو مستقل سجو کی دیکھ بھال کے لیے بھیج دیا۔
سجو کے لیے تو سب کچھ حاضر تھا۔پھر وقت گزرنے لگا۔میجر صاحب کے دشمن ان کے بیٹے کی تلا ش میں تھے۔یوں وہ لالہ زبیرالدین کا پیچھا بھی کرتے رہتے۔خاندانی اور زمینوں ،جائیدادوں کے جھگڑوں نے سینکڑوں لوگوں کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا تھا پھر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی تھی۔میجر گُل ضمیر کے دادا نے اپنے دادا کی زمین حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی چچاؤں اور ان کے بچوں کا خون بہایا۔پھر انہوں نے بھی ان کے بہت سے لوگوں کو مارا۔ایسی دشمنی لی جو جنگوں کی صورت اختیار کر جاتی۔نسلوں کی نسلیں بدلے کی آگ میں جلتی تھیں۔عورتیں بھی پس جاتیں۔عزت،غیرت بس نام کی رہ جاتی۔پولیس،پولیٹیکل ایجنٹ،حکومتی کارندے اس خونی جنگ کو رکوانے کی اپنی سی کوشش کرتے تھے۔جرگے بیٹھتے تھے مگر لاحاصل۔مقدمے بازیاں،گرفتاریاں،پھانسیاں،سزائیں،قبضے۔کچھ بھی نہ اس جنگ کو روک سکا۔کہیں نہ کہیں کوئی قاتل ضرور پلتا رہتا۔میجر کی نسل نے بھرپور کوشش کی کہ اس جنگ کو روکا جا سکے۔امن کی کوئی صورت پیدا ہو،اگلی نسلیں بچ جائیں ۔مگر وہ ناکام رہے۔حتیٰ کہ اپنا آبائی علاقہ بھی چھوڑ دیا اور کراچی شفٹ ہو گئے۔اپنی ساری زمین جائیداد بھی تایا زادوں اور چچاؤں کے نام کر دی۔مگر وہ نفرت کی اس آگ کو نہیں بجھا سکے جو اب تک سلگ رہی تھی۔یوں میجر گل ضمیر کو اپنے دادا کے گناہوں سزا بھگتنا پڑی۔مگر دشمنوں کے سینے میں لگی آگ ٹھنڈی نہ ہو سکی۔وہ جانتے تھے گل ضمیر کا ایک بیٹا بھی ہے۔وہ اس کا تخم ختم کر دینا چاہتے تھے۔مگر وہیں انہیں لالہ زبیر الدین جیسے ایک با اثر شخص سے واسطہ پڑا۔بچے کو لالہ سے چھین لینا آسان نہیں تھا۔پھر بھی وہ اپنی سی کوشش تو کرتے رہتے۔
سجو خان ایک بیبا بچا تھا۔ماں باپ کی خون میں لت پت لاشیں دیکھنے والا۔گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سننے والا۔انسانی بربریت کی نشانیاں اس کے دماغ میں تھیں۔بس وہ چپ رہتا۔جیسے وہ کچھ سوچتا رہتا۔کچھ کھوجتا رہتا۔اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ مر چکے ہیں۔اس کے ہر سال اول آنے پرلالہ جشن مناتا۔وہ گورنمنٹ کالج سے بی ایس سی کر رہا تھا جب خدا نے لالہ کی دُعا سُنی۔ اس کی چھوٹی بیوی ماں بننے والی تھی۔لالہ کی سجو سے محبت اور بڑھ گئی۔ادھیڑ عمر میں لالہ کا وارث آنے والا تھا۔جیسے ہی سجو کی فرسٹ ڈویثرن،سکالر شپ اورگولڈ میڈل ملنے کی خبر آئی۔وہیں لالہ کے گھر دو جڑواں بیٹے پیدا ہوئے تو سارے ہرنائی اور اردگرد میں بھر پور جشن منایا گیا۔غریبوں میں خیرات کی گئی۔لالہ کا بس نہ چلتا تھا کہ بچوں کو لاہور لے جاتا اور سجو سے ملواتا۔سجو بھی خوش تھا کہ بابازبیر الدین کی جھولی خدا نے بھر دی تھی۔اکٹھے دو بیٹوں کے ساتھ۔مگر سجو ہرنائی نہیں جا سکتا تھا۔کوئٹہ تو بالکل بھی نہیں۔ہرنائی میں جشن کے دوران ہی لاہور میں لالہ کے لے پالک بیٹے سجو کی خبریں بھی عوام میں پھیل گئیں۔دشمنوں تک بھی خبر پہنچی تو وہ تڑپ اٹھے۔تو میجر کا بیٹا لاہور میں ہے۔لاہور کون سا دُور ہے۔ ڈھونڈھ لیں گے۔تایا زاد کبیر گل نے نفرت سے کہا۔اپنے باپ اور بھائیوں کا بدلہ تو پورا کرنا ہے نا۔ ملازموں کوجاسوسی پر لگا دیا گیا۔
وہ باٹنی پڑھنا چاہتا تھا۔پھولوں،پودوں،درختوں سے اسے بچپن سے لگاؤ تھا۔وہ گھنٹوں درختوں کے پاس بیٹھا انہیں دیکھتا۔ان سے باتیں کرتا۔وہیں ایک دن گھر کے خوبصورت سے گارڈن میں ایک درخت سے باتیں کرتے اچانک ہی شہلا شہزاد اندر آئی۔سجو نے شہلا کی ہنسی سُنی تو یکدم پلٹ کر دیکھا۔اچھاتو جناب باٹنی پڑھیں گے۔ہُن۔میں بھی باٹنی میں ہی داخلہ لے رہی ہوں۔شہلا نے شوخی سے کہا۔وہ زندگی سے بھرپور،پیاری سی، نازک سی لڑکی تھی۔بچپن میں اکٹھے پڑھ کر جوان ہوئے تھے۔مگر سجو کی خاموش طبعت کی وجہ سے یہ گپ شپ صرف گھر تک محدود رہتی۔کبھی آگے بڑھ کر محبت تک نہیں پہنچی تھی۔حالانکہ شہلا ایک مدت سے سجو کو اندر ہی اندر پسندکرتی اور سراہتی بھی تھی۔ شہلا کے والدین بھی اس سلجھے ہوئے لڑکے کو پسند کرتے تھے۔شہلا کا بھائی ارمان بھی سجو کا اچھا دوست تھا۔ارمان سے چھوٹا احسان، سجوکا زیادہ دوست تھا۔یوں سجو کو فیملی کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئی۔اتنے چاہنے اور محبت کرنے والے لوگ اردگرد تھے۔مگر آپ تو سی ایس پی آفیسر بننا چاہتی تھیں۔بس موڈ بدل گیا۔بس اب پھولوں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔سجو نے چونک کر اسے دیکھا۔شہلا کی نیلی آنکھوں میں کچھ ایسا تھاجو پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔سجو کچھ دیر کو حیران ہوا۔عجیب سا گدگداتا ہوا جذبہ تھا۔
ہُن۔تو آپ اب پھولوں سے باتیں کریں گی۔ہاں تو۔وہ لاڈ سے بولی۔چہرے پر بلا کی رونق اور شرماہٹ تھی۔سجو کو پہلی مرتبہ شہلا بہت پیاری لگی۔شرماتی،گنگناتی رواں ندی کی مانند،جو اپنا احساس کروا کے گزر تی ہے۔وہ یہ کہہ کر بھاگ گئی۔سجو کتنی ہی دیر سوچتا رہا۔اسے پتہ چل گیا تھا کہ شہلا اسے پسند کرنے لگی ہے اور اب اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔(ناٹ بیڈ) اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ دونوں نے باٹنی میں سٹڈی شروع کر دی۔سارادن مشکل مشکل پودوں ،درختوں کے نام یاد کرنا۔ان کی کارکردگی،ان کی صفات،اجناس، عوامل،انسانی صحت پر ان کے اثرات،ان کی پیدائش،ان کی عمر،ملکوں ملکوں ان کے بڑھنے پھلنے پھولنے کے طریقے،مختلف آب و ہوا، مختلف قسم کی مٹی میں ان کی پیداوار،صدیوں ،سالوں پرانے درخت پودے،ان کی عمروں پر تحقیق۔اف توبہ۔Not a easy job آسان نہیں ہے۔ایک دن وہ ناشتہ کرتے ہوئے بولی،پتہ نہیں سجو کیسے کر لیتا ہے یہ سب۔اور ڈاکڑ صاحب نے بیٹی کی اس بے تکلفی پر غور کیا۔مسکرائے۔تو سجو سٹڈی میں تم سے بہتر ہے۔ہاں ڈیڈی۔شہلا نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔وہ تو گولڈ میڈلوں کے پیچھے پڑا ہے۔اسے تو تحفے میں درخت اور پودے ملنے چاہیے۔ ڈاکڑ صاحب ہنس پڑے۔جیلس نہیں بے بی۔خود بھی محنت کرو۔ہاں ڈیڈی کرتی تو ہوں۔دیکھ لویہ سبجیکٹ تم نے خود منتخب کیا ہے۔شائد سجو کو دیکھ کر۔او ڈیڈی ہر قسم کی پڑھائی مشکل ہے۔تو ابھی کچھ نہیں بگڑا،مضمون بدل لو۔ نہیں ڈیڈی۔ اب یہی پڑھوں گی۔ٹھیک ہے۔سجو سے ہیلپ لیا کرو۔ڈیڈی نے دیکھا۔سجو کے نام پر وہ مسکرائی تھی۔اس کی آنکھوں میں جو تھا وہ ڈیڈی کو پتہ چل گیا تھا۔تو یہ بات ہے۔سجو کو پسند کرنے لگی ہے۔پتہ نہیں سجو کا کیا رویہ ہے۔ہاں شہلا بیٹی۔سجو کو کہنا شام کا کھانا ہمارے ساتھ کھائے۔جی ڈیڈی۔وہ یکدم کھل سی گئی تھی۔بیٹی سے محبت بھی تو بہت تھی۔اس کے چہرے پر آزردگی کی لہر نہیں دیکھ سکتے تھے۔اور سجو کے ساتھ تو عمر گزری تھی۔بُرا نہیں۔اگر سجو اس گھر کا داماد بن جائے تو۔وہ تو دور تک سوچتے ہوئے بیگ پکڑے ہاسپٹل روانہ ہو گئے۔
وقت اپنی رفتار سے چلنے لگا۔دونوں اکثر اسائنمنٹ سنبھالے جناح گارڈن کے بوٹینیکل گارڈن میں درختوں سے چپکے پائے جاتے۔انہی درختوں میں چلتے ان پودوں سے باتیں کرتے۔وہ دونوں اپنی باتیں کرنے لگے تھے۔شہلا جتنی شوخ تھی سجو اتنا ہی خاموش اور سنجیدہ مگر جوڑی بڑی شاندار تھی۔لالہ اس مرتبہ کافی دیر کے بعد لاہور آئے تو بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے۔سجو خوش ہو گیا۔وہیں ڈاکڑ صا حب نے لالہ سے کھانے پر گپ شپ کرتے سجو کی شادی کے بارے بات چھیڑ دی۔سجو کی شادی! یار ابھی اسے جاب کرنے دو۔او ۔لالہ یار جاب ہی کرنی ہے ساری زندگی۔پتہ نہیں ابھی اس کا کیا موڈ ہے؟ لالہ تھوڑے تذبذب سے گویا ہوئے۔پوچھ لیتے ہیں۔ڈاکڑ نے جلدی سے کہا۔ ڈاکڑ میں جانتا ہوں رشتہ تمہارے گھر میں ہے۔ہے نا۔دونوں زور سے قہقہ لگا کرہنس پڑے۔لو جی پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔پھر بھی میں سجو سے بات کر لوں۔پھر۔ہاں کروں گا۔میں اس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتا۔لالہ نے کہا۔ٹھیک ہے لالہ۔ایسا ہی ہونا چاہیے۔ویسے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔میں اور میری بیوی دونوں خوش ہیں۔تو میں بھی خوش ہوں۔بس سجو کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ چلو بات کر کے پھر کوئی فنکشن رکھتے ہیں ان کے لیے۔ٹھیک ہے۔لالہ زبیر الدین خوش ہو گئے۔دن بھر سیرو سیاحت،ہوٹلنگ،شاپنگ۔لالہ کے بچے ظہیر اور سمیر تو سجو کے پکے دوست بن گئے تھے۔وہ اس کے کمرے میں گھستے اور اس کے کان کھاتے رہتے۔وہ بھی کچھ دیر کو سارا ماضی بھول جاتا اور بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتا۔بچے اسے سجو بھائی جان کہتے تو لالہ کا سیروں خون بڑھ جاتا۔تم میرے بڑے بیٹے ہو۔لالہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔پہاڑوں میں رہنے والے محبت میں بھی انتہا کر دیتے ہیں۔اور یہ محبت تو بلوچستان کے پہاڑوں سے بھی بلند اورگوادر کے سمندر سے گہری تھی۔وقت کا گھوڑا دُلکی چال چلتا رہا۔سجیل خان آج آپ سے کچھ خاص بات کرنی ہے۔وقت ہو تو کہیں بیٹھ کر بات کریں۔جی با با۔ضرور۔دونوں چائے کے کپ لے کر آم کے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ارے کافی بُور پڑا ہے۔ہاں با با۔پچھلے سال بھی اچھا پھل لگا تھا۔با با ہرنائی ادر زیارت دیکھنے کو دل کرتا ہے۔کیا میں وہاں کبھی نہیں جا سکتا۔سجیل نے اتنی حسرت سے کہا کہ با با کا دل کٹ کر رہ گیا۔تم پہاڑوں کے بیٹے ہو،تم جانتے ہو کہ وہاں تمہاری جان کے دشمن تمہاری گھات میں ہیں تمہای زندگی اور حفاظت کی خاطر تمہیں یہاں روک رکھا ہے ،کوشش کروں گا کسی وقت تمہیں وہاں لے جا سکوں۔بابا وہاں آ پ کی کوئلہ کی کانیں ہیں ۔میں انہیں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ہاں ضرور۔جب آپ کی مرضی ہوئی۔اچھا اب ایک خاص بات سنو۔تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے۔اس نے حیرت سے بابا کی طرف دیکھا۔ لڑکی۔یکدم شہلا چھلانگ لگا کر اس کی آنکھوں میں اتر آئی۔بابا آپ کیوں پوچھ رہے ہیں۔تمہاری شادی کے بارے سوچ رہا ہوں۔ شادی۔بابا ابھی تو میں پڑھ رہا ہوں۔جاب کرنی ہے۔تو پڑھتے رہو۔نوکری کا بھی سوچ لیں گے۔ابھی تو ہم منگنی کرنا چاہتے ہیں۔ہم۔ ہاں میں او ر ڈاکڑ شہزاد۔تو آپ پہلے سے فیصلہ کر چکے ہیں۔تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔تم اگر انکار کر دو تو ہمیں سب منظور ہو گا۔بابا آپ جانتے ہیں کہ میں انکار نہیں کر سکتا۔جیسے آپ کی خوشی۔میرا بیٹا۔بابا نے سجیل کا ماتھا چوم لیا۔
بابا ایک بات ہے۔کہ امتحان قریب ہیں یہ تقریب امتحانوں کے بعد رکھیں تو بہتر ہے۔جیسے تمہاری خوشی۔جب کہو گے تب۔ڈاکڑ شہزاد بھی خوش ہو گئے۔طے پایا کہ پیپر ختم ہونے کے بعددھوم دھام سے منگنی کی رسم ادا کی جائے گی سجیل تو نارمل ہی تھامگر شہلا کے تو پاؤں زمین پر نہ ٹک رہے تھے۔فوراََ ہی اس کا فون آ گیا۔مبارک ہو سجیل خان۔سُنا ہے تم نے ہاں کر دی ہے۔شہلا شرارت سے گنگنائی۔تو آپ اس محاذ پر کامیاب ہو گئیں۔تم خوش نہیں ہو۔شہلا یکدم اداس ہو گئی ۔ارے میں نے ایسا کب کہا۔تم لڑکیاں بھی نا بس۔ تم خوش تو میں خوش۔اب خوش۔ شہلا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔تم زندگی سے بھری ہوئی ہو اور مجھے زندگی کی طرف لے آئی ہو۔تمہارا شکریہ۔لو ۔یو۔ ڈئیر۔بس یونہی میری زندگی میں شامل رہو۔او کے۔او کے۔
پیپرز سر پر آ گئے ہیں۔باقی سب باتیں اس کے بعد۔او ۔کے باس۔شہلا نے مسکرا کر فون بند کر دیا۔پیپرز ہو گئے۔کتنے ہی دن تو جاگتے رہنے کی تھکن اتارنی تھی۔لالہ واپس جا چکے تھے۔ شہلا کو جب بھی موقع ملتا سجو سے ملنے آ جاتی۔ مسٹر سجیل خان۔ وہ سٹڈی میں کسی کتاب میں گم تھا۔وہ آوازیں دیتی اندر آئی۔اف یہ کتابیں،یہ درخت۔میں کہیں ہوں آپ کی زندگی میں کہ نہیں۔وہ شکوہ کرتی سامنے بیٹھ گئی۔ آپ کہاں کتابوں اور درختوں سے باتیں کرنے دیتی ہیں۔جب دیکھو آفت بنی آپ ہمارے حواسوں پرنازل ہوئی رہتی ہیں۔آپ تو مڑ، بینگن ،شلجم،گاجر،پیپل،چیڑ،پڑتل،دیار،صنوبر،گلاب چنبیلی میںآپ کی ہی صورت آویزاں رہتی ہے۔اف یہ باٹنی ۔شہلا نے منہ بسورا۔ چلو میں کچھ بنا کر لاتی ہوں۔وہ آنکھیں بند کئے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھاجب ایک نرم سے ہاتھ نے اس کے خوبصورت بالوں کو چھوا۔ سجیل نے اس کے کندھے سے ٹکا دیا۔شہلا کے نرم ہاتھ اس کے بالوں کا مساج کر رہے تھے۔سجیل جیسے کسی دوسری دنیا میں تھا۔ نرم بادلوں پر اڑتا ہوا۔چہرے پر سانسوں کی گرمی بکھری تو سجیل نے آنکھیں کھول دیں۔شہلا کا چہرہ اس کے اوپر تھاعجیب خمار تھا ان نیلی آنکھوں میں۔لرزتے ہونٹ جل رہے تھے۔اس سے پہلے کہ یہ آگ سجیل کے ہونٹوں تک پہنچتی۔سجیل نے شہلا کا ہاتھ پکڑا۔بیٹھو۔سجیل کیا ہوا وہ خمار آلودہ آواز میں بولی۔صرف ایک Kiss کرنے دو،ترس رہی ہوں۔جانتا ہوں۔بس ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔بیٹھو ادھر۔ سجیل نے اس کا نرم سا ہاتھ پیار سے دبایااس کے خوبصورت بالوں کو چھوا۔آؤ چائے پئیں۔تم بہت اچھی چائے بناتی ہو۔ یہ دیکھو مجھے کتنی عمدہ کتاب ملی ہے۔شہلا بہت سنجیدہ تھی۔کیا ہوا۔ اتنی چپ۔سجو خان کبھی کبھی لگتا ہے جیسے ہم کبھی مل نہیں پائیں گے۔اک فرشتہ اس کوشش کے درمیان جگہ بناتا رہتا ہے ۔شہلا ڈئیر! تم تو بچپن سے جانتی ہو میری ٹریجڈی کو۔میں تمہیں اپنی ٹریجڈی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔لیکن تمہاری محبت اور خوشی کے آگے ہار گیا ہوں۔اور یہ کہ سارے خدشات کے باوجود تم مجھے اچھی لگتی ہو۔تمہارے لیے ڈرتا تو ہوں پر کیا کروں؟ بہت مطلب پرست ہوں۔اک زخمی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی ۔شہلا اٹھی اور بھاگ کر اس کے بازؤں میں سما گئی۔میری زندگی بھی تمہیں لگ جائے سجیل۔خوبصورت آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھی۔سجیل نے اس کے نازک ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔ایسا نہ کہو۔تم لمبی زندگی جیو میری جان۔ماحول مکد رہو گیا۔دونوں نے اداسی سے چائے پی۔سجیل بہت اداس تھا۔والدین کے مقتول ہیولے اس کے سامنے رقص کرنے لگتے اور وہ ڈر کر منہ چھپانے لگتا آج پچیس سال بعد بھی وہ زخم تازہ تھے۔ منہ پر کپڑا لپیٹے لوگ آج بھی خوابوں میں اسے ڈراتے تھے۔کتنی ہی دیر وہ اپنے مستقبل کی باتیں کرتے رہے۔شہلا کب کی جا چکی تھی مگر اس کے اندر ایک مستقل خوف جگا گئی تھی۔اسے اپنی نہیں شہلا کی فکر تھی یہ نازک سی لڑکی کہیں دُکھوں میں نہ گھِرجائے۔میری زندگی کا کیا بھروسہ کب دشمن آجائے ۔وہ ڈرپوک نہیں تھا۔بس محبت سے بھرے رشتوں کو اپنی ذات سے دُکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔خوابوں کی دنیا بھی کتنی خوفناک تھی۔خوف لفظ بن کر اس کی سوچوں میں اترنے لگے تھے۔وہ شام کے جھٹپٹے میں آئے ہیں۔ان کے سائے خوفناک اور لمبے ہیں وہ ہڈیوں سے ماس الگ کرتے ہیں۔ان کے ہاتھوں میں شعلے ہیں۔ وہ درختوں کو جڑوں سے کھودتے اور آگ لگاتے ہیں۔وہ اس کی ازل اور ابد کا فیصلہ کرتے ہیں۔انسان ہو کر خدا کا کام کرتے ہیں۔
صبح ہی صبح فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ رابعہ دیکھو کون ہے؟ لالہ نے بیوی کو آواز دی۔دیکھتی ہوں۔فون اٹھایا تو سجیل خان کا تھا۔سجیل خان ہے۔ بات کرنا چاہتاہے آ پ سے۔کوئی خاص بات لگتی ہے۔رابعہ فون لے کر لالہ کے کمرے میں چلی آئی۔اچھا جاتُو۔چائے لے آ۔ہاں میرے بچے، لالہ کی محبت میں ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔بابا کیسے ہیںآپ ؟ کیا بات ہے سجیل بیٹا۔پریشان لگتے ہو۔بابا مجھے بُرے بُرے خواب آتے ہیں۔شہلا کل آئی تھی وہ بھی پریشان تھی۔کہتی تھی کچھ ہونے والا ہے۔بابا آپ خبر رکھیں۔مجھے اپنی فکر نہیں۔میں نہیں چاہتا میری وجہ سے میرے پیاروں کو دُکھ ملے۔کیا مطلب؟ لالہ پریشان ہو اٹھے۔تم یہ آج کیسی باتیں کررہے ہو؟بابا دشمنوں کا کیا بھروسہ ان کا اگلا شکار تو میں ہوں نا۔سجیل روہانسا ہو گیا۔ان دشمنوں کی ماں کی۔۔۔ ایسی کی تیسی ان کی۔اب انہوں نے کچھ کیا توان کو کوئلے کی کانوں میں دفن کر دوں گا۔لالہ غصے میں آگئے۔تم فکر نہ کرو۔پہلے وہ میری لاش سے گزریں گے۔فضول باتیں نہ سوچو۔شہلا کو منگنی کی شاپنگ کرواؤ۔اس کی پسند کی چیزیں لینا ۔ ہم جلد آ کر تیاری شروع کرتے ہیں۔میرا بچہ فکر نہ کرو۔میں نے بھی جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں۔کوئٹہ میں ان کے گھر میں میرا بندہ ان کا ملازم ہے۔آزادی سے رہا کرو۔آگے گارڈز کو بٹھایا کرو۔خود پچھلی سیٹ پر بیٹھا کرو۔میں آتا ہوں چند دنوں تک۔لالہ نے سجیل کا کتھارسس کیا۔ڈرو مت میرے بچے زندگی اﷲکے ہاتھ میں ہے۔تم بہادر باپ کی بہادر اولاد ہو۔بہادر موت سے نہیں ڈرتے۔موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو تو وہ تم سے ڈرے گی۔بابا میں نہیں ڈرتا۔بس میری وجہ سے آپ لوگوں کو کوئی دُکھ نہ ملے۔تم ہماری خوشی ہو لالہ نے کہا۔میں جلد ہی آکر منگنی کی تاریخ طے کرتا ہوں۔انجوائے کرو میری جان۔لالہ نے اسے بہادر بنانے کی بہت باتیں کیں۔اس کا ڈر دور کرنا چاہا مگر اپنے اندر وہ ہل کر رہ گئے۔ یہ اچھا شگون نہیں۔کیسے جئیں گے اگر یہ لوگ خوفزدہ رہے توشہلا کا کیا قصوروہ تو محبت کے اندھے راستوں پربغیر کچھ دیکھے بھاگنے لگ تھی۔
موبائل بج رہا تھا۔زور آور خان نے مڑ کر دیکھا۔قادر خان کا فون تھا۔لالہ کی کال تھی۔ جی بھائی۔ہاں جی۔جلد آنے کی کوشش کروں گا۔ ہاں ٹھیک ہے۔اچھا اسے تسلی دو میں ادھر بھلا چنگا ہوں۔زور آورخان کا نوکر ہوں مذاق نہیں ہے۔زور آور خان نے اپنا نام سُنا تو مونچھوں کو تاؤ دینے لگا۔اچھا اب نکل کر گاڑی نکال۔محسن سائیں سے ملنے جانا ہے۔جی خان جی۔زور آور خان کے ساتھ محسن سائیں کی مصروفیت کچھ زیادہ ہی تھی۔وہ اسے مشورے دیا کرتا تھا۔
محسن سائیں کا ڈیرہ بھی کمال کی جگہ تھی۔کنالوں پر پھیلا ڈیرہ جہاں جنگل ہی جنگل تھا۔جنگلی جھنڈ،بیریاں اور قسم قسم کی بوٹیاں وافر تھیں۔ ایک طرف بڑا سا ہال تھاجس میں دور دراز سے آنے والے عقیدت مند ٹھہرے۔پیر سائیں سے دُعا کروانے آتے۔یوں اپنے کم عقیدہ ہونے اور طرح طرح کے وہموں کا شکارتعویز گنڈوں پر اعتماد،قبر پرستی،پیر پرستی،مزار پرستی اور ہر طرح کے دھاگے،پُھل،پتے ،تالے، ڈوپٹے درختوں سے باندھنا یعنی اپنے عقیدے کو اپنے یقین کو کسی مزار کے درخت یا دیوار کے ساتھ باندھ دینا۔اور پھر اسی یقین کے سہارے من کی مرادوں کی امید رکھنا۔محسن سائیں ساڑھے چھ فٹ کا لمبا تڑنگا، گورا چٹا،نیلی آنکھوں والا پٹھان۔پتہ نہیں اس پر کب یہ منکشف ہواتھا کہ اس کے اند کوئی روحانی شخص ہے۔جو دُنیا کے مسائل حل کر سکتا ہے۔کب اس کے وجدان نے اسے غیب کا علم عطا کیا۔ کب اس کی کایا پلٹ گئی اسے خود علم نہ ہو سکا۔بس نویں کلاس میں لڑکوں نے بتایا کہ تم جو کہتے ہو وہ پورا ہو جاتا ہے۔آہستہ آہستہ وہ محسوس کرنے لگا کہ واقعی مجھے کوئی اضافی خوبیاں عطا کی گئی ہیں۔میں عام انسانوں سے افضل ہوں۔تب ہی اس کے ا ندر کسی بزرگ کا ظہور ہونے لگا۔تو وہ مسجد کے قریب چٹائی ڈال کر بیٹھ گیا۔اور ایک پیرو مرشد کا شاگرد ہو گیا۔دن رات وضیفے پڑھتا اور اپنی بزرگی میں پختہ ہوتا گیا۔کشف و کرامات کے دروازے کھلتے گئے۔اور وہ سائیں بن گیا۔لوگوں کے دُکھ دورکرنے لگا۔پتہ نہیں لوگوں کو اس سے کچھ فائدہ پہنچا کہ نہیں مگر محسن سائیں کو بڑا فائدہ ہوا۔علاقے کے بڑے خان نے اپنی ایکڑوں پر پھیلی ریتلی،پتھریلی زمین کو کارآمد بنانے کے لیے اس پر ڈیرہ بنا دیا۔محسن سائیں اب باقاعدہ پیر صاحب کا درجہ پا چکا تھا۔کم عقیدہ لوگ ،کمزور ایمان والے ہرجگہ پائے جاتے ہیں۔سبی،لورا لائی، جیکب آباد او ر دیگر علاقوں میں اس کی بڑی شہرت تھی۔زور آور خان کا وہ خاص دوست اور دستِ راست تھا۔
ہر قسم کا مشورہ وہ اپنے کراماتی انداز میں دیتا۔زور آور خان کو اسں کے مشوروں پر بھروسہ رہتا تھا۔اور آج بھی قادر کے ساتھ وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے آیا تھا۔دونوں کھسر پھسر کر رہے تھے۔قادر کو کسی خطرے کا احساس ہو رہاتھا۔یقیناًان کی صلاح ٹھیک نہیں تھی۔وہ اچانک اٹھا اور باہرگیا۔دو ٹھنڈی بوتلیں لے آیا۔تاکہ ان کے قریب ہو سکے۔حملہ تو ہم آج کر دیں وہ مسئلہ نہیں وہ لڑکا تو ہمارے نشانے پر ہے مگر ایک قباحت ہے کہ نئے بندے کے ساتھ دشمنی شروع ہو جائے گی۔وہ بڑا بااثر بندہ ہے۔مگر اپنے دشمن کو یونہی کھلا چھوڑ دینا بھی ہماری غیرت کے خلاف ہے۔قادر نے آتے ہوئے یہ ساری باتیں سن لی تھیں۔یار محسن باقی لوگ حملے کے حق میں ہیں۔دشمن دار لوگ ہیں ہار نہیں مانتے۔قادر نے باتلیں تھمائیں تو کچھ دیر کو وہ خاموش ہو گئے۔محسن سائیں کو اس کا آنا قدرے ناگوار گذرا۔وہ اپنی فوم کی گدی پر یوں جز بز ہوا جیسے کانٹے چبھ گئے ہوں۔
زور آور خان تم نے ملازموں کو سر چڑھا رکھا ہے۔ارے ایسی بات نہیں زور آور خان ہنس پڑا۔یہ سب اپنے لوگ ہیں۔جی دار ہیں۔ گردن کٹوانے کو تیار رہتے ہیں۔بے فکر و جاؤ۔قادر نے کام کی باتیں سُن لی تھیں۔اسے اب کوئی فکر نہیں تھی۔وہ آرام سے ڈیرے سے باہر نکل آیا۔اور لالہ کو ساری بات بتا دی۔اور لالہ کے بدن میں تویوں کہ کاٹو تو لہو نہیں۔حالات پر نظر رکھو اور مجھے بتاؤ۔لالہ سائیں! جان حاضر۔
ابھی صبح ہی تو وہ سجیل خان کو تسلیاں دے رہا تھا۔اور یہاں تو خوفناک پروگرام کی تیاریاں جاری تھیں۔لالہ نے کچھ خفیہ گارڈز کی خدمات حاصل کیں۔ان کو ٹاسک دیا کہ وہ سجیل خان کی حفاظت کریں۔کوئی میلی آنکھ نظر آئے تو اسے نکال دیں۔ہرنائی اور کوئٹہ میں بھی اپنے جاسوس بڑھا دئیے۔۔لالہ سوچ رہے تھے کہ شہلا اور سجیل کے خیالات کتنے درست تھے۔واقعی یوں لگا جیسے کچھ ہونے والا ہے۔لالہ سارے انتظام کر کے اپنی تسلی کر کے لاہور آگئے۔ان کا خیال تھا کہ وہ خود سجیل کے پاس رہیں گے توکچھ نہیں ہو گا۔ہفتے کے اندر وہ سارے انتظامات کر کے لاہور آ گئے۔سجیل نے غور کیا تھا بابا پہلے سے کچھ زیادہ فکر مند نظر آتے تھے ۔ہر فون کال پر چونک جاتے۔اِدھر ادھر دیکھنے لگتے۔ بابا کو کیا ہوا ہے؟و ہ تو ہمیشہ بڑے پُر اعتماد رہتے ہیں پھر اب کیوں؟ہر وقت کھوئے کھوئے سے رہتے۔فون پرچپکے چپکے کسی سے باتیں کرتے جیسے اگلے قدم کی فکر کررہے ہوں۔کچھ ہی دنوں میں ڈاکڑ صاحب سے مل کر منگنی کی تاریخ طے ہو گئی۔تو دونوں اطراف سے تیاری زور و شور سے ہونے لگی۔فائیو سٹار ہوٹل میں یہ فنکشن ہونا تھا۔شہلا اور اس کا پورا خاندان بہت خوش تھا۔چونکہ ڈاکڑ شہزاد کے تقریباََ سبھی دوست اور دور و نزدیک کے رشتہ دار سجیل خان اور اس کے خاندان سے واقف ہو چکے تھے۔اور اس کے باپ کے بارے بھی جو خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔یوں کسی کو اس رشتہ پر اعتراض تو نہیں تھا۔بس تھوڑا سا خدشہ کچھ قریبی دوستوں کو پھر بھی تھاکہ کوئی مزید نہ اٹھ کھڑا ہو اور اپنے خاندان کے آخری وارث کا خاتمہ کر کے اکیلے وارث بن جائیں۔یہاں تو ذرا ذرا سی بات پر گردن اتر جاتی تھی۔یہاں تو کروڑوں کی جائیداد اور خاندانی دشمنیاں اور غصے الگ۔آرمی نے بے شک اپنے حاصر سروس میجر کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا کر یا تھا۔ عنقریب ان کو پھانسیاں بھی دے دی گئیں مگر نسلوں کی آبیاری کرنے والا غصہ اور نفرت کیسے ختم ہو گا۔اس کے بارے سوچنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔
قادر کا فون تھا ۔لالہ جی وہ تیاری کر رہے ہیں۔کب،کہاں،کیسے؟ یہ کوئی نہیں جانتا اور حیرت اور صدمے کی بات یہ ہے کہ وہ سجیل خان کے بارے سب کچھ جانتے ہیں۔یہی تو تشویش کی بات ہے قادرے۔میں کہاں چھپاؤں اس لڑکے کو۔اسے پتہ چل گیا تو بپھر جائے گا۔جوان خون ہے۔تم بس مجھے آگاہ کرتے رہو۔او کے سائیں۔
دونوں گھر جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔برقی قمقموں کی روشنیوں نے چار سو چاندنی بکھیر رکھی تھی۔بے شک منگنی کی رسم کی تقریب تو مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں ہونا تھی مگر گھروں میں خوشی کا منظر دیدنی تھا۔شہلا تو صبح سے ہی شہر کے ایک مہنگے بیوٹی پارلر میں مہندی لگوانے اور تیار ہونے گئی ہوئی تھی۔سجیل خان بھی دوستوں کے نرغے میں تھا۔بے شک کم گو تھا مگر آج وہ بھی خوب چہک رہا تھا۔تیار ہو کر باہر نکلا تو لڑکیوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔کوئی مرد اتنا وجہہ،اتنا حسین،اتنا پرکشش بھی ہو سکتا ہے۔ماشا اﷲ۔ماشااﷲ۔اﷲ نظر بد سے بچائے۔تمام رشتہ دار بلائیں لے رہے تھے۔کالا ٹیکا لگاؤ بھی،چھوٹے چچا صغیر نے چھیڑا۔آپ بھی لگوا لیں۔چچی قریب سے بولیں۔ہائے اﷲ۔آپ بھی ۔دیور نے آواز لگائی۔تو وہ شرما گئیں۔
زرق برق لباسوں میں آج تو ساری خواتین اپسرائیں بنی گھوم رہی ہیں۔ارے کس کس پر بجلیاں گرانے کا ارادہ ہے۔شہلا کی سہلیوں کو کمنٹس مل رہے تھے ا ور ایسی چھوٹی چھوٹی چہلوں کوسب انجوائے کر رہے تھے۔ہار،پھول،خوشبوئیں،رنگ و نور ہر طرف چھایا ہوا تھا۔ ہلکے بسکٹ کلر میں سیاہ واسکٹ پہنے اپنی سنہری سندوری دمکتی رنگت لیے باوقار چال چلتا ہوا سجیل لالہ کے پاس آیا اور ان کے گلے سے لگ گیا۔سسکیاں اس کے سینے میں دم توڑنے لگیں۔لالہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔سجیل خان میری عمر بھی تمہیں لگ جائے۔میری زندگی کا مقصد ہی تمہاری خوشی ہے۔اگر تم خوش نہیں تو میری ساری دنیا،ساری کائنات پہ خاک۔میری زندگی،میری دولت پہ خاک۔نہیں بابا نہیں پلیز۔ سجیل نے جلدی سے اپنا ہاتھ بابا کے منہ پر رکھ دیا۔میری ساری زمین،میری ساری کائنات،میری ساری دولت،ساری زندگی،ساری خوشی صرف آپ ہیں،صرف آپ۔آپ خوش تو میں خوش۔ڈبڈبائی شیشے جیسی چمکتی آنکھوں میں محبت کی لو تھی۔لالہ نے اس کی پیٹھ تھپکی۔تو چلو آج یہ کام بھی کر گذریں۔چلیں۔دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے باہر آئے۔گاڑیاں تیا رتھیں۔
میجر کا بیٹا اتنا خوبصورت ہے۔اتنا جوان ہے۔آج یہ کوئٹہ اپنے گھر میں ہوتاتو ہماری سمر کا نکاح اس سے ہوتا۔زور آور خان کے بیٹے دلبر خان نے دور ایک درخت کی اوٹ سے اس کو دیکھ کر سوچا۔وہ موقع کی تلا ش میں تھے کہ کیسے سجو خان کو مارنا ہے؟ مگر آج ممکن نہیں تھا۔ایک حملہ کرتے تو جواب میں سبھی مارے جاتے۔یوں ان کو خوشیاں منانے کے لیے جانے دیا گیا۔ہوٹل پہنچے توبہت شاندار استقبال کے بعد مطلوبہ ہال میں پہنچے۔شاہانہ طرز کے سٹیج پر،آج کی تقریب کے دلہا صاحب پہنچے۔لالہ کی نظریں چارں طرف گھوم رہی تھیں۔بہت سخت سیکیورٹی تھی۔کچھ ہی دیر میں شہلا بھی شہزادی بنی پہنچ گئی۔شرماتی ،لجاتی،اتنی نازک،اتنی حسین کہ نظر نہ ٹھہرتی تھی۔اس نے بھی ہلکے بسکٹ اور لائٹ فیروزی کلر کی فراک جس پر موتیوں کا اتنا شاندارکام تھا کہ ہر کوئی بس اس کی نظر اتارنے میں مگن تھا۔چاند سورج کی جوڑی ہے۔رابعہ بیگم اتراتی پھر رہی تھیں۔بے شک سجیل ان کی کوکھ سے پیدا نہیں ہوا تھامگر اس کی اک ماں کی طرح پرورش ،میں ان کا بھی حصہ تھاتو مان کرنا تو بنتا تھا ۔شہلا نے سٹیج پر بیٹھتے ہی سجیل کو بھرپور نظر سے دیکھا۔وہ پتہ نہیں کن خیالوں میں گم تھا۔مگر اتنا خوبصورت کہ اس کا دل مٹھی میں آگیا۔ ہاؤ لکی آئی ایم؟ اس نے سوچا۔لڑکیاں رشک سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔شہلا نے سجیل کو کہیں جانے ہی نہیں دیا۔بہت ساری لڑکیوں نے سوچا۔ پھر بھی کیا فرق پڑتا ہے۔دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔کتنی قسمت والے ہیں۔اِسی رشک اور حسد کے ملے جلے ماحول میں منگنی کی رسم ہوئی۔ہیرے کی بڑی انگوٹھی شہلا کی انگلی میں جگمگانے لگی تو جواباََبھی ہیرے کی انگوٹھی سجیل کو بھی پہنائی گئی تھی۔ سا ا را ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔تحائف کا انبار لگ گیا۔فوٹو گرافر اور فلم بنانے والے ہر ہر پوز کوکیمروں میں مقید کر رہے تھے۔
لالہ سٹیج پر آئے۔سب لوگ ان کو دیکھنے لگے۔ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا۔بھئی مائک ادھر لائیں۔بڑے تایا نے زور سے پکارا۔ مائیک آگیا۔شبیر خان نے مائیک آگے کیا۔لالہ اب اس میں بولیں اچھا اچھا۔جی بچوں کے لیے کراچی سے ایک تحفہ آیا ہے ابھی کچھ دیر میں وہ بچوں کو دیا جائے گا۔سب چپ ہو کر دیکھنے لگے۔دیکھیں تو بھئی کیا تحفہ ہے؟لالہ کی بیگم آگے آئیں۔بیگ کو کھولا تو زیورات کے ڈبے اور لباسوں نے چکا چوند کر دی۔سونے اور ہیروں کے جڑاؤ زیورات کے سات ڈبے دلہن کے لیے تھے۔دس عدد قیمتی لباس، ساڑھیاں،شالیں،جوتے ،پرس۔ایسے ہی سجیل کے لیے بہت قیمتی گھڑی،سوٹ،ٹائیاں،قیمتی شوز اور ایک چیک بک جس پر صرف سائن تھے۔وہ جب چاہے،جتنی چاہے رقم نکال سکتا اور خرچ کر سکتا ہے۔یہ کس کا تحفہ ہے بھئی،ڈاکڑ شہزاد کے بڑے بھائی بیرسڑ اقبال حیرت سے بولے۔بڑے قیمتی بچے ہیں جن پر ہُن برس رہا ہے۔یہ تحفہ سجیل خان کے نانا سیٹھ وقار احمد کی طرف سے اپنے ناتی کی شادی پر تحفہ ہے۔وہ بیمار ہونے کی وجہ سے خود نہیں آ سکے۔سجیل خان کی والدہ ثریا وقار احمد صاحبہ ان کی اکلوتی اولاد تھیں اور جو کچھ ان کے ساتھ پیش آیا وہ تقریباََ سبھی جانتے تھے۔سجیل خان ان کے خاندان کے واحدفرد ہیں۔انہوں نے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔خدا کرے کہ وہ سب سجو کی شادی پر خود آ سکیں۔ڈاکڑ شہزاد آگے آئے اور سجیل خان کا ماتھا چوم لیا۔بیٹے سب کچھ تمہارا ہے۔تم خو ش رہو۔ہمیں اپنے والدین کی جگہ سمجھو۔بے شک ہم ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ہم خو ش ہیں کہ تم ایک بہادر لڑکے ہو۔سبھی آنکھیں نم تھیں۔ماحول یکدم افسردہ ہو گیا تھا۔ ایک ایسا لڑکا جس کا اپنا یہاں کوئی نہیں تھا۔والد کا خاندان جان کا دشمن اور ماں کے خاندان میں صرف ایک نانا،جو خود بیمار اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔اور جن سے حفاظت کے پیش نظر آج تک ملاقات ہی نہ ہو سکی۔لیکن فون پر بات ہو جاتی تھی۔ایک تسلی تو تھی کہ کوئی تو اپنا ہے۔یوں وقت آج اسے اس نئے موڑ پر لے آیا تھا۔آج شہلا شیرازی اس کی زندگی میں شامل ہو گئی تھی۔کوئی کسی دوست کے لیے اتنا بھی کرتا ہے۔دنیا آج یہ دیکھ رہی تھی اور حیران تھی۔کہ کیسے غیر اپنے ہو جاتے ہیں۔لو جی کھانا تیار ہے بسم اﷲ کیجیے۔اچانک یہ اعلان،امرتی بن کر کانوں میں ٹکا تو لوگ سب کچھ بھول کر ساتھ والے ایک مہمان خانے کی طرف کوچ کر گئے۔نہایت اعلیٰ قسم کے کھانوں کی انتہا انگیز خوشبوؤں نے ماحول خوشگوار کر دیا تھا۔سب چہروں پر ہنسی اور خوشی تھی۔سجیل اور شہلا بھی مہمانوں میں گھل مل گئے۔ہر طرف ان پر تعریف کے ڈونگرے برس رہے تھے۔
لو جی! بس مولوی صاحب کی کسر رہ گئی ہے۔ورنہ تو پوری شادی ہو گئی ہے۔اکثر کے منہ پر یہی الفاظ تھے۔شہلا یہ سوچ سوچ کر ہی دوہری ہوئی جاتی تھی کہ سجیل اس کا شوہر بنے گا۔اس کے جسم وجاں کا مالک،اس کی روح کا مالک،اس کے ہر لمحے کا مالک۔اف! یہ تصور ہی کتنا رومانٹک اور کرشماتی تھا۔اس کی سانسیں بھاری ہونے لگیں۔یوں جیسے اس کے بازؤوں میں ہے۔اس کی گرم سانسوں نے اس کے تن بدن میں آگ لگا رکھی ہے۔ہ دنیا جہان بھول کرصرف سجیل کے تصور میں اڑ رہی تھی۔نرم نرم بادلوں کے رتھ پر سوار وہ خوشبو بھری ہواؤں میں سبک سر سی کہیں کسی رنگ میں معدوم ہو رہی تھی۔ہوش و ہواس پر تو اس دشمن جاں کا قبضہ تھا۔زمین پر ہوتے ہوئے بھی وہ زمین پر کہاں تھی۔اچانک کسی نے شرارت سے اسے پکاراتو وہ آسمان سے زمین پر آ گئی۔آنکھیں تو بن پےئے نشیلی ہو رہی تھیں۔دمکتے ہوئے رخساراور ہولے ہولے کانپتے عنابی ہونٹ۔سانس بھی سینے میں کہاں ٹک رہی تھی۔کاش آج نکاح بھی ہو جاتا۔شہلا نے سوچا اور خود ہی مسکرا اٹھی۔ سجیل کو پانے کی کتنی جلدی ہے نا۔ناجیہ نے ٹہوکا دیا۔تو اس نے خوابناک آنکھوں سے اسے دیکھا۔اے کاش! آج ہی اس کی کایا کلپ ہو جاتی۔دوسری نے قہقہ لگایاتو وہ دوھری ہو گئی۔کنوارے جذبے مچل مچل گئے۔سمی آج ہی نکاح ہو جاتا۔ثمرہ نے گرہ لگائی۔اچھا بس کرو۔بد تمیزو۔کوئی سن لے گا۔کوئی نہیں سن رہا۔سارہ منمنائی۔سجیل اپنے دوست اختر اور سعید کے پاس کھڑا تھا۔وہ بھی اس کی چٹکیاں لے رہے تھے۔اسے مبارک دے رہے تھے۔کبھی کبھی وہ آنکھ اٹھا کر شہلا کو دیکھ لیتا۔شہلا آج کی ساری کاروائی سے تھک گئی تھی۔ایک صوفے پر بیٹھ کر ٹیک لگائی۔آنکھیں بند کیے آج کے بارے سوچ رہی تھی کہ اچانک ایک گرم سا ہاتھ اس کے ماتھے پر آیا۔بدن کانپ کر رہ گیا۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھولیں تو سامنے وہ دشمنِ جاں پلیٹ میں مٹھائی لیے کھڑا تھا۔مبارک ہو۔ آپ کو بھی۔آنکھیں بند ہونے کو تھیں۔وہ ہلکے سے مسکرائی۔منگنی پر یہ حال ہے تو شادی