آفرین فہیم آفی کے اشعار
مرنے کے لیے آئے تھے ہم دشت بلا میں
جینے کی دعا دے گیا درویش ہمیں کیوں
آرزوئے دل بیتاب مکمل کر دے
خواہش دید صنم چشم میں بل کھاتی ہے
یہ اور بات مسلسل ہرا رہا لیکن
درخت دل پہ کبھی موسمی ثمر نہ لگے
دل لطف انتظار کا امیدوار تھا
وہ دستیاب ہو گیا تاخیر کے بغیر