احمد صغیر صدیقی کے اشعار
زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں
ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں
یہ کیا کم ہے عمامہ باندھ کر نکلے نہیں ہم
اب اس سے بھی سوا ایمان داری کون کرتا
کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم
آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں
سنتا ہے یہاں کون سمجھتا ہے یہاں کون
یہ شغل سخن وقت گزاری کے لیے ہے
تھے یہاں سارے عمل رد عمل کے محتاج
زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے
یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں
یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے
کہاں میں اور کہاں گوشہ نشینی کا یہ اعلان
یہ سارا سلسلہ مشہور ہونے کے لیے تھا
کوئی تصویر بنا لے کہ تجھے یاد رہیں
تیز چلتی ہے ہوا رنگ اڑے جاتے ہیں
پردہ جو اٹھا دیا گیا ہے
کیا تھا کہ چھپا دیا گیا ہے
کسی صورت یہ نکتہ چینیاں کچھ رنگ تو لائیں
چلو یوں ہی سہی اب نام تو مشہور ہے میرا
چاہے ہیں تماشا مرے اندر کئی موسم
لاؤ کوئی صحرا مری وحشت کے برابر
ساری دنیا سے الگ وحشت دل ہے اپنی
یہ کہ لگتی ہے نہ گھر کی نہ بیاباں والی
کھولیں وہ در کسی نے بھی کھولا نہ ہو جسے
کوئی جدھر نہ جائے ادھر جانا چاہیے
اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ
تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا
کبھی نہ بدلے دل با صفا کے طور طریق
عدو ملا تو اسے بھی سلام کرتے رہے
چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف
بجھے بجھے ہیں تبھی آج بام و در میرے
اسی خاطر ہٹا لی ہے مسائل سے توجہ
انہیں تھوڑا سا میں گمبھیر کرنا چاہتا ہوں
گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں
ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا
تخلیق خود کیا تھا کل اپنے میں ایک گھر
اب گھر سے خلق چند مکیں کر رہے ہیں ہم
یہ کیا کہ عاشقی میں بھی فکر زیاں رہے
دامن کا چاک تا بہ جگر جانا چاہیے
ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر
مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی
عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے
کچھ دیر میں یہ دل کسی گنتی میں نہ ہوگا
بیتاب بہت رائے شماری کے لیے ہے
خود اپنی ذات سے اک مقتدی نکالتا ہوں
میں اپنا شوق امامت یوں ہی نکالتا ہوں