Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Sagheer Siddiqui's Photo'

احمد صغیر صدیقی

1938 | کراچی, پاکستان

احمد صغیر صدیقی کے اشعار

436
Favorite

باعتبار

کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم

آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں

زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں

ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں

یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں

یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے

سنتا ہے یہاں کون سمجھتا ہے یہاں کون

یہ شغل سخن وقت گزاری کے لیے ہے

کوئی تصویر بنا لے کہ تجھے یاد رہیں

تیز چلتی ہے ہوا رنگ اڑے جاتے ہیں

چاہے ہیں تماشا مرے اندر کئی موسم

لاؤ کوئی صحرا مری وحشت کے برابر

کسی صورت یہ نکتہ چینیاں کچھ رنگ تو لائیں

چلو یوں ہی سہی اب نام تو مشہور ہے میرا

یہ کیا کم ہے عمامہ باندھ کر نکلے نہیں ہم

اب اس سے بھی سوا ایمان داری کون کرتا

کہاں میں اور کہاں گوشہ نشینی کا یہ اعلان

یہ سارا سلسلہ مشہور ہونے کے لیے تھا

تھے یہاں سارے عمل رد عمل کے محتاج

زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے

پردہ جو اٹھا دیا گیا ہے

کیا تھا کہ چھپا دیا گیا ہے

کبھی نہ بدلے دل با صفا کے طور طریق

عدو ملا تو اسے بھی سلام کرتے رہے

آنا ذرا تفریح رہے گی

اک محفل صدمات کریں گے

اسی خاطر ہٹا لی ہے مسائل سے توجہ

انہیں تھوڑا سا میں گمبھیر کرنا چاہتا ہوں

چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف

بجھے بجھے ہیں تبھی آج بام و در میرے

اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ

تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا

جی بھر کے ستارے جگمگائیں

مہتاب بجھا دیا گیا ہے

کچھ دیر میں یہ دل کسی گنتی میں نہ ہوگا

بیتاب بہت رائے شماری کے لیے ہے

گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں

ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا

یہ کیا کہ عاشقی میں بھی فکر زیاں رہے

دامن کا چاک تا بہ جگر جانا چاہیے

ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر

مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی

کھولیں وہ در کسی نے بھی کھولا نہ ہو جسے

کوئی جدھر نہ جائے ادھر جانا چاہیے

ساری دنیا سے الگ وحشت دل ہے اپنی

یہ کہ لگتی ہے نہ گھر کی نہ بیاباں والی

تخلیق خود کیا تھا کل اپنے میں ایک گھر

اب گھر سے خلق چند مکیں کر رہے ہیں ہم

خود اپنی ذات سے اک مقتدی نکالتا ہوں

میں اپنا شوق امامت یوں ہی نکالتا ہوں

عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے

کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے