Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Sagheer Siddiqui's Photo'

احمد صغیر صدیقی

1938 | کراچی, پاکستان

احمد صغیر صدیقی کے اشعار

599
Favorite

باعتبار

زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں

ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں

یہ کیا کم ہے عمامہ باندھ کر نکلے نہیں ہم

اب اس سے بھی سوا ایمان داری کون کرتا

کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم

آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں

سنتا ہے یہاں کون سمجھتا ہے یہاں کون

یہ شغل سخن وقت گزاری کے لیے ہے

تھے یہاں سارے عمل رد عمل کے محتاج

زندگی بھی ہمیں درکار تھی مرنے کے لیے

یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں

یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے

کہاں میں اور کہاں گوشہ نشینی کا یہ اعلان

یہ سارا سلسلہ مشہور ہونے کے لیے تھا

کوئی تصویر بنا لے کہ تجھے یاد رہیں

تیز چلتی ہے ہوا رنگ اڑے جاتے ہیں

پردہ جو اٹھا دیا گیا ہے

کیا تھا کہ چھپا دیا گیا ہے

کسی صورت یہ نکتہ چینیاں کچھ رنگ تو لائیں

چلو یوں ہی سہی اب نام تو مشہور ہے میرا

چاہے ہیں تماشا مرے اندر کئی موسم

لاؤ کوئی صحرا مری وحشت کے برابر

ساری دنیا سے الگ وحشت دل ہے اپنی

یہ کہ لگتی ہے نہ گھر کی نہ بیاباں والی

کھولیں وہ در کسی نے بھی کھولا نہ ہو جسے

کوئی جدھر نہ جائے ادھر جانا چاہیے

اس عشق میں نہ پوچھو حال دل دریدہ

تم نے سنا تو ہوگا وہ شعر مصحفیؔ کا

آنا ذرا تفریح رہے گی

اک محفل صدمات کریں گے

کبھی نہ بدلے دل با صفا کے طور طریق

عدو ملا تو اسے بھی سلام کرتے رہے

چراغ ان پہ جلے تھے بہت ہوا کے خلاف

بجھے بجھے ہیں تبھی آج بام و در میرے

اسی خاطر ہٹا لی ہے مسائل سے توجہ

انہیں تھوڑا سا میں گمبھیر کرنا چاہتا ہوں

گرد کی طرح سر راہ گزر بیٹھے ہیں

ان دنوں اور ہی انداز سفر ہے اپنا

جی بھر کے ستارے جگمگائیں

مہتاب بجھا دیا گیا ہے

تخلیق خود کیا تھا کل اپنے میں ایک گھر

اب گھر سے خلق چند مکیں کر رہے ہیں ہم

یہ کیا کہ عاشقی میں بھی فکر زیاں رہے

دامن کا چاک تا بہ جگر جانا چاہیے

ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر

مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی

عشق اک مشغلۂ جاں بھی تو ہو سکتا ہے

کیا ضروری ہے کہ آزار کیا جائے اسے

کچھ دیر میں یہ دل کسی گنتی میں نہ ہوگا

بیتاب بہت رائے شماری کے لیے ہے

خود اپنی ذات سے اک مقتدی نکالتا ہوں

میں اپنا شوق امامت یوں ہی نکالتا ہوں

Recitation

بولیے