Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

عزیز تمنائی

1926

عزیز تمنائی کے اشعار

336
Favorite

باعتبار

مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود سحر

شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو شام کے ساتھ

دہر میں اک ترے سوا کیا ہے

تو نہیں ہے تو پھر بھلا کیا ہے

یہ غم نہیں کہ مجھ کو جاگنا پڑا ہے عمر بھر

یہ رنج ہے کہ میرے سارے خواب کوئی لے گیا

ایک سناٹا تھا آواز نہ تھی اور نہ جواب

دل میں اتنے تھے سوالات کہ ہم سو نہ سکے

تھپکیاں دیتے رہے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے

اس قدر جل اٹھے جذبات کہ ہم سو نہ سکے

کچھ کام آ سکیں نہ یہاں بے گناہیاں

ہم پر لگا ہوا تھا وہ الزام عمر بھر

باقی ابھی قفس میں ہے اہل قفس کی یاد

بکھرے پڑے ہیں بال کہیں اور پر کہیں

ان کو ہے دعویٰ مسیحائی

جو نہیں جانتے شفا کیا ہے

ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے

ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید

وہ شے کہاں ہے پنہاں اے موج آب حیواں

جو وجۂ سر خوشی تھی برسوں کی تشنگی میں

ہمیں نے زیست کے ہر روپ کو سنوارا ہے

لٹا کے روشنئ طبع جلوہ گاہوں میں

جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے

ہم جہاں گشت ہیں اٹھے ہیں کمر باندھے ہوئے

وہیں بہار بکف قافلے لپک کے چلے

جہاں جہاں ترے نقش قدم ابھرتے رہے

اے موج خوش خرام ذرا تیز تیز چل

بنتی ہے سطح آب کنارہ کبھی کبھی

اب کون سی متاع سفر دل کے پاس ہے

اک روشنئ صبح تھی وہ بھی اداس ہے

ہم نے جو تمنائیؔ بیابان طلب میں

اک عمر گزاری ہے تو دو چار برس اور

Recitation

بولیے