فوزیہ رباب کے اشعار
دیکھ سقراط نے بس زہر پیا تھا لیکن
زندگی میں تو تجھے گھول کے پی جاؤں گی
کچھ اس لیے بھی مجھے کامیابی ملتی ہے
میں اپنے بابا کے نقش قدم پہ چلتی ہوں
تمہاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں
تمہارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے
میرے خوابوں میں روز آتی ہیں
اپنی آنکھیں سنبھال کر رکھیے
مجھ کو ہر لمحہ مری ماں سے محبت ہے ربابؔ
میں کسی روز بھلا دوں اسے ممکن ہی نہیں
میری بینائی کم نہیں ہوگی
میری آنکھوں میں ماں کا چہرہ ہے
کہا اس نے بتاؤ میرے بن یہ زندگی کیا ہے
کہا میں نے وہی جو پانیوں میں جھاگ ہوتے ہیں
مجھ سے پوچھا جو کسی نے تری پہچان بتا
میں پکاری میں تمہاری میں تمہاری مولا
تیرگی جو بڑھتی ہے اک دیا جلاتی ہوں
یوں بھی اپنی ہستی کو آئنہ بناتی ہوں