جی اے کلکرنی کے افسانے
سوامی
پیڑوں کی پھنگیوں میں اٹکتا ہوا سورج سامنے ٹیکری کے پیچھے چھپ گیا اور اچانک چاروں طرف ایک دھند سی چھا گئی۔ اس کے پیروں کے نیچے وہ پکڈنڈی کسی عظیم الجثہ اژدھے کی مانند بےحس و حرکت پڑی تھی۔ ساتھ ہی اسے احساس بھی ہو گیا کہ اس نے پیدل راستے سے آکر غلطی کی
پرساد
بائیں طرف نیل گری کے اونچے اور گھنے درختوں کے سایوں میں پچھلی شاہراہ سے وہ مندر کی سمت جانے والی پگڈنڈی پر مڑ گیا۔ اس وقت چاروں طرف گہری نیلی دھند پھیلی ہوئی تھی اور جگہ جگہ بکھری خود رو جھاڑیوں کے جھنڈ دھندلی پرچھائیوں کی طرح غیرواضح لگ رہے تھے۔ لیکن
مکتی
سامنے گہرے سبز رنگ کا پہاڑ گویا کسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔ پہاڑ سے اوپر کو جاتا راستہ یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی سفید سانپ لہراتا چلا جا رہا ہو۔ زخموں سے سلگتے ہوئے اپنے جسم کو اس نے ایک چٹان سے ٹکایا اور دل برداشتہ ساوہیں بیٹھ گیا۔ اتنا عرصہ ہوگیا
قاصد
شہر کی جانب آنے والی شاہراہ پر ایک رتھ برق رفتاری سے چلا آ رہا تھا۔ رتھ پر سمراٹ کا مخصوص نیلا پرچم لہرا رہا تھا۔ جس پر بڑے سے راج ہنس کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ دوارپال نے دور سے رتھ کو آتے ہوئے دیکھ لیا اور جلدی سے دروازے کا بڑا ساارگل ہٹا دیا۔ ارگل
سادھو
وہ تھکا ماندہ سادھو اس گاؤں میں پہلی بار داخل ہوا تھا۔ مگر اس نے گاؤں کی حدود میں اس اعتماد سے قدم رکھا جیسے گاؤں کے سارے گلی کوچے اس کے دیکھے بھالے ہوں۔ گاؤں کے کنارے بہت ساری عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ جن میں بوڑھی، جوان، سبھی شامل تھیں۔ ان مختلف