خورشید حیات کے افسانے
پہاڑ، ندی، عورت
سامنے والی برتھ پر بیٹھی وہ، اپنی انگلیوں میں پھنسے برش سے، کینوس پر اتر آئے الگ الگ رنگوں میں بہت پیچھے کی طرف چھوٹتی ہوئی زندگی کے ان گلیاروں کو ڈھونڈ رہی تھی جہاں اٹکن چٹکن دہی چٹاکن کا کھیل تو تھا مگر لکیریں نہیں تھیں۔ بےچینی کے عالم میں اس نے HA-1
خبر ہونے تک
میں نے جب کبھی حقیقت کا سامنا کرنا چاہا ہے تو خود کو اپاہج محسوس کیا ہے۔ انسان، کتنا بے بس ہے، وقت کے ہاتھوں کا کھلونا، اس پر یہ تیور کہ میں انقلاب لا سکتا ہوں۔ زندگی تیز رفتار سے چلتی رہتی ہے اور انسان خواب اور حقیقت کے دو راہے سے گذرتا رہتا ہے۔ کبھی
پانچ انگلیاں
میری بیٹیاں بغل میں لیٹی ہیں، خوبصورت سی، پیاری پیاری۔ نرم ہتھیلیاں، چھوٹی بڑی انگلیاں۔ بیٹیاں گھروں میں چڑیوں کی طرح چہکتی ہیں۔ ان کی دلکش آوازیں گاؤں میں ندیوں کی طرح بہتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ رحمن ان ہاتھوں کوڈاکٹر کے ہاتھ
سورج ابھی جاگ رہا ہے
اکتوبر کی ایک شام تھی۔ میں دفتر سے چھوٹتے ہی گھر جانے کے لئے باہر نکلا ہی تھا کہ تیز آندھی چلنے لگی۔ آندھی کیوں آتی ہے نغمہ؟ آندھی کا اس زمین سے کیا رشتہ ہے؟ تم بھی کیسے آدمی ہو؟ زندگی کی اتنی منزلیں طے کر چکے اور اس طرح کا سوال پوچھتے ہو۔ اس
تتلی سہیلی حویلی
روح کی انگنائی میں/حنائی رنگ ساعتوں میں/نرم انگلیوں کے پوروں پر/پھول– خوشبو منظر لکھ/ پھر سے اڑ گئی تتلی۔ پہلی بار جب اس نے اسے دیکھا تھا تو ایک خواب نے پرندوں کی طرح اپنے پر پھیلائے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ اب وہ زندگی کی راہ کے آخری چھْور تک صرف اسی کا
آدم خور
کہانی تو ہم سب کے اندر سمندر کی لہروں کی طرح ابھرتی ڈوبتی رہتی ہے۔ سمندر میں میں ہوں/مجھ میں سمندر/بارش کی بوندیں سمندر میں/اور سمندر بارش کی بوندوں میں/مجھے قریب سے دیکھو/پہچانو/ابھرتی ڈوبتی لہریں تم سے کیا کہہ رہی ہیں؟ آدمی، سانپ سے بھی زہریلا
چھالیا
۔۔۔۔ خورشید حیات ۔۔۔۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک کے دھواں دھواں منظر کو دیکھ جب وہ مضطرب ہو جاتی اور رات ایک انجانے خوف سے سہمے ہوئے گزر جاتی۔ تب ہوتا یہ تھا کہ اس کی بوجھل آنکھوں میں صبح کی سپیدی اتر آتی تھی اور شام اْداس اداس سی سیاہ رنگت لئے رات