Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Meem Maroof Ashraf's Photo'

میم معروف اشرف

1999 | رام پور, انڈیا

میم معروف اشرف کے اشعار

108
Favorite

باعتبار

ابھی آغاز الفت ہے چلو اک کام کرتے ہیں

بچھڑ کر دیکھ لیتے ہیں بچھڑ کر کیسا لگتا ہے

بنت حوا کو بھول جائیں ہم

یہ نہیں آتا ابن آدم کو

آج تصویر اس کی دیکھی ہے

آج پھر نیند کا زیاں ہوگا

کسی کے یاد کرنے کا اگر ہوتی سبب ہچکی

مرا محبوب ہو کر کے پریشاں مر گیا ہوتا

جب بھی چوما ہے ترے ہونٹوں کو

جسم سے ان کو جدا جانا ہے

اول اول جو دیکھتی تھیں تم

وہ ہی درکار ہے نظر ہم کو

سوچتا ہوں کیا مرا بنتا خدا کے سامنے

گر نہ ہوتا یا رسول اللہ سہارا آپ کا

بات آتی ہے دوستوں کی جب

مجھ کو دشمن عزیز لگتے ہیں

بہت آسان لفظوں میں یہ اس نے کہہ دیا ہم سے

نہیں تم سے محبت جاؤ جو کرنا ہے سو کر لو

ترے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے

چبایا ہے کسی عاشق کا دل ہندہ مزاجی سے

ابھی تو اور بڑھے گی یہ تشنگی دل کی

ابھی تو اور بھی زیادہ وہ یاد آئیں گے

لڑی ہے آنکھ مری جب سے تیری آنکھوں سے

سوائے تیرے مجھے کچھ نظر نہیں آتا

اسے بھی تھا مجھے برباد کرنا

مجھے بھی اک فسانہ چاہیے تھا

مزے جو تیری قربت کے تھے سارے بھول بیٹھے ہیں

مزا فرقت میں تیری ہم کو اتنا آ گیا جاناں

افسوس مجھ کو چھوڑ کے جانے سے پیشتر

وہ جا چکا تھا مجھ کو خبر بعد میں ہوئی

عقل کہتی ہے کہ سودا ہے زیاں کا

اور تجھے دل بے تحاشا چاہتا ہے

ایک بس ہم نے تجھ کو چاہا تھا

اور کیا ہم نے تجھ سے چاہا تھا

تم کو پانا نہیں مرا مقصد

اب فقط تم کو بھول جانا ہے

گذشتہ سال بھی اشرفؔ یہی امید تھی ہم کو

کہ یہ جو سال آیا ہے خوشی کی گھڑیاں لائے گا

تمہیں کو چاہیں گے زندگی بھر کسی سے الفت نہیں کریں گے

جو کہہ دیا ہے سو کہہ دیا ہے نئی محبت نہیں کریں گے

ایک ہی شخص ابتدا ہے مری

ایک ہی شخص اختتام مرا

دوریاں قربتوں کا باعث ہیں

قربتیں دوریاں بڑھاتی ہیں

مجھ سے کہتی ہے آج تم شاعر

ہو اگر تو مری بدولت ہو

دیکھو مرے شریر میں کچھ بھی نہیں رہا

دیکھو تمہارا عشق مرا کھا گیا بدن

دیکھا جمال یار تو مخمور ہو گئے

بے خود ہیں بے پیے ہی یہ ایسی شراب ہے

میں تم سے دور رہ کر کس طرح یہ تم کو سمجھاؤں

کہ مجھ سے دور رہ کر کس قدر ہو تم اکیلی

وہی سب لوگ اشرفؔ آستیں کے سانپ نکلے ہیں

جنہیں شامل سمجھتے تھے تم اپنے خیر خواہوں میں

جتنا جاتے ہیں دور وہ مجھ سے

اور اتنا قریب ہوتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ وہیں ہیں کہ جہاں بچھڑے تھے

ایک تو ہے کہ کبھی یاں تو وہاں ہوتا ہے

بڑھتے ہی جا رہے ہیں طوفان خواہشوں کے

ہوتی ہی جا رہی ہے مجھ میں کمی تمہاری

کل ابن آدم ان پہ قربان ہو نہ جائیں

توبہ وہ ان کے جلوے اللہ وہ نظارے

اول اول تو بہت عقل سے الجھے گا دل

بعد پھر آپ ہی دل آپ کو سمجھائے گا

تب جا کے کہیں ضابط و مضبوط ہوئے ہیں

ہم سال کئی آتش دوزخ میں جلے ہیں

اور تو قاصد نہیں کچھ ان سے کہنے کے لئے

ان سے بس تو اتنا کہنا یاد آنا چھوڑ دیں

ارادہ پھر کسی سے کر لیا اس نے محبت کا

سو اب یہ دیکھنا ہے کون ہے زد میں تباہی کے

سر کٹا کر ہی سرخ روئی ہے

عشق بھی کربلا کا میداں ہے

یہ کس طرح کا ستم ہے خدا ترا مجھ پر

مرے نصیب کوئی حادثہ نہیں رکھا

کب خبر تھی کہ حیات اشرفؔ

تیری زلفوں میں الجھ جائے گی

دیں گے یہ اہل جرم کو راحت

بے قصوروں کو پھانسیاں دیں گے

Recitation

بولیے