مصطفیٰ راہی کے اشعار
اللہ تیرے ہاتھ ہے خودداریوں کی لاج
دانستہ حادثات سے ٹکرا گیا ہوں میں
دل دھڑکتا ہے ستاروں کا یہاں
اف یہ دنیا کس قدر تاریک ہے
خواہش سکون کی ہے نہ اب اضطراب کی
اللہ رے ضدیں دل خانہ خراب کی
بے خودی میں شان خودداری بھی ہے
خواب میں احساس بیداری بھی ہے
اے دل نہ کر قبول مرے دل نہ کر قبول
منزل شکست شوق ہے منزل نہ کر قبول
کیا خبر تھی اس قدر پر کیف نغمے ہیں نہاں
زندگی کو ایک ساز بے صدا سمجھا تھا میں
شاید ہی راس آئے مجھے عیش مرگ بھی
راہیؔ غم حیات کا مارا ہوا ہوں میں
لاکھ بھاگے زد پہ جب آ جائے گی
زندگی تیری قضا کھا جائے گی
دیکھیے کب تک یہی حالت یہی عالم رہے
دل کی ہر دھڑکن یہ کہتی ہے کہ وہ آنے کو ہیں
دھوکا تھا جس پہ موج نسیم بہار کا
اک سیل بے پناہ تھا برق و شرار کا
خودداریوں پہ عشق کی الزام آ گیا
کیوں بے خودی میں لب پہ ترا نام آ گیا