قرب عباس کے افسانے
چاکلیٹ
گلیوں میں رات اترتے ہی ہم تو گہری نیند سو جاتے ہیں۔۔۔ ہم۔۔۔ ہم بیچارے تھکن سے چور نیند کے مارے، بے خبر اور بہرے کچھ نہیں جانتے، یہ بھی نہیں کہ۔۔۔ اس رات کے سناٹے میں کتنی کہانیاں سسکیاں بھرتی ہیں۔ میں اپنے اندھیرے کمرے میں لیٹا ہوا تھا، لائٹ نہ
رابو کی ڈائری
شادی کے ایک مہینہ بعدہی ارشد دوبئی چلا گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد سیما کو تھک کر سونا ہی بھلا لگتا تھا، ویسے نیند کہا ں آتی تھی۔ وہ سارا دن خو د کو گھر کے کاموں میں الجھائے رکھتی، کھانا پکانا، صفائی ستھرائی، اور دوسرے چھوٹے موٹے کاموں میں دن کہاں گیا
ادھوری
اتوار کی ٹھنڈی اور مہکتی صبح تھی۔۔۔ صحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں نصب شیشے کے سامنے ایک بلبل مسلسل اپنے پھیکے عکس سے لڑ رہی تھی۔ چونچ اور شیشے کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی آواز کے سبب جویریا کی آنکھ کھلی تو اس نے موبائل پر وقت دیکھا۔ ابھی تو صرف سات
پھانسی
یہ کہانی دھند نے لکھی ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ دھند ہمیشہ ظالم کہانیاں لکھتی ہے۔ جو ابھی ابھی سفید گاڑی یہاں سے گزری ہے، اس میں سوار تین لوگ اس کوشش میں ہیں کہ صبح ہونے سے پہلے سپریم کورٹ تک پہنچ جائیں۔ دورانِ سفر جرم اور مجرم انکا موضوع ہے۔۔۔
بارگاہ خداوند
گاؤں کی دهند میں لپٹی سسکتی رات بےکسی کا لحاف اوڑهے سو رہی تھی اور ‘سونا’ بڑهاپے کے اندھیروں میں گم ہوتی بےثمر زندگی کا آخری کنارہ تهامے اپنے جائز ناجائز ہونے کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پڑوسیوں کا لڑکا حسب معمول اپنے گهر سے لایا کھانا