راغب دہلوی کے اشعار
بیٹھے گا تو رک جائے گی یہ گردش دوراں
تو خوں کی طرح جسم میں پھرنے کی ادا سیکھ
قطروں سے سمندر کا بنانا نہیں مشکل
قطرے میں سمندر کو سمونے کی ادا سیکھ
یہ سب ماہ و انجم مرے واسطے ہیں
مگر اس زمیں پر میں قید جہاں ہوں
اب دل میں آرزوئے چمن ہی نہیں رہی
قصے سنے جو ہم نے قفس میں بہار کے
اگر چلتا سہاروں پر ہی راغبؔ
تو چلنے کے کبھی قابل نہ ہوتا
خیال و وہم ہے منزل یہاں ملی ہے کسے
چلا ہے جو بھی اسی رہ گزر میں رہتا ہے
اور بڑھ جاتا ہے دل میں مرے شوق منزل
جب پریشان سی یہ گرد سفر ہوتی ہے