صغیر افراہیم کے افسانے
بڑھتے قدم
جاوید کے بلند حوصلوں کے سہارے فاخرہؔ نے چاند کو چھولینے کی تمنا کی تھی مگر اس کی تمنّاؤں کا محل یکایک چکنار ہو گیا تھا۔ اس نے جن مضبوط بانہوں کے دائرے میں سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا تھا، وہ سہارا بچھڑ چکاتھا۔ عزیز و اقارب جاوید کی لاش کو گھرسے
ایسی بلندی
عامرؔ کو ایم۔ اے۔ کیے ہوئے، دو سال ہو چکے تھے، بہت بھاگ دوڑ کے بعد بھی جب اسے من پسند نوکری نہ ملی تو اس نے دلی جاکر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ بابوجی اس سے کئی بار اپنے دوست سیٹھ بہاری لال کی دوکان پر بیٹھنے کو کہہ چکے تھے جہاں اسے بارہ سوروپیے
گھر جنت
امتیاز کو یونیورسٹی میں لکچرار ہوئے دوسال بیت گئے تھے۔ ہوسٹل کا کمرہ چھوڑکر اس نے یونیورسٹی کیمپس سے ملحق آبادی والے علاقے میں ایک چھوٹا ساگھر کرائے پرلے لیاتھا۔ اسے مستقل تقرری کا پروانہ بھی مل چکا تھا۔ نوکری ملنے کے بعد ضرورت بیوی کی ہوتی ہے۔ جس کا
سفرہے شرط۔۔۔
بشارت حسین کا ریٹائرمنٹ پچھلے کئی ہفتوں سے موضوعِ بحث بناہواتھا وہ خود بھی کئی دنوں سے اپنی سبکدوشی کے بارے میں ہنس ہنس کر بڑے حوصلے کا اظہار کررہا تھا مگر اندر ہی اندر ایک اُداسی اور بوجھل پن کااحساس تھا ۔ اللہ اللہ کرکے وہ دن آہی گیا جب بشارت حسین
منزل
وہ سوچتا ہے ’’میں اپنی زندگی کا مالک ہوں۔ جب چاہوں اسے مٹا سکتا ہوں‘‘ لے۔۔۔ کن۔۔۔ لیکن وہ کون ہے میرے اندر جو اس عمل کو کرنے سے روکتا ہے۔۔۔کیا یہ زندگی سے پیار ہے۔۔۔ یا بیرونی کوئی دباؤ۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں شاید۔۔۔ ہماری سرشت میں داخل وہ علم۔۔۔ کہ زندگی تمہاری
انجان رشتے
ابو سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے ہمیشہ دورے پر رہتے تھے۔ گھر میں ڈھیرسارے نوکر چاکر تھے جو مجھ پر جان چھڑ کتے تھے۔ ان کے درمیان میں نے کبھی اکیلا محسوس نہیں کیا کیونکہ دیکھا گیا ہے جیب سے کنگال لوگ دل سے خوش حال ہوتے ہیں چونکہ ان کے پاس پریم اور ممتا
کڑی دھوپ کا سفر
سبھی کے دل دھڑک رہے تھے۔ برات آنے میں دو گھنٹے باقی تھے۔ دادی نے تمام رات مصلے پر گزار دی تھی۔ امی کو کسی بات کی سدھ بدھ نہ تھی۔ ابو اور اشرف کے ہاتھ پاؤ ں پھولے ہوئے تھے۔ سب کام میں مصروف تھے مگر سب کے دل سہمے ہوئے تھے۔ خدا کر ے سب ٹھیک رہے اور حمیراخوشی
ننگا بادشاہ
بیوی کسی مرد کے ساتھ بھاگ گئی تو چھوٹے میاں اپنا شہر اور خاندان چھوڑ کر ہمارے شہر چلے آئے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ یہ خبر عام تھی، خبر پردار ہو یا بےپر بہرحال ہمارے کانوں تک آ گئی۔ ان کی شخصیت رنگارنگ اور دلچسپ ہونے کے مختلف پہلوؤں کی معلومات ان
وہ خواب
ایسا محسوس ہوا کہ پہاڑ کی بلندی سے اسے کسی نے نیچے ڈھکیل دیا ہو۔ وہ گرتی چلی جا رہی تھی۔ زمین پر لگنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔ اپنے بھاری پپوٹوں کو دھیرے دھیرے کھولتے ہوئے اس نے دیکھنے کی کوشش کی۔ چاروں طرف گہرا اندھیرا تھا۔ کچھ دکھائی نہیں دے
وہی فاصلہ ہے کہ جو تھا
اشرف جب بھی رسول آباد کی حویلی کا ذکر کرتا ایمن ہمہ تن گوش ہوجاتی اور اشرف کی آنکھوں میں اِس طرح جھانکنے لگتی جیسے حویلی کے دُھندلے نقش و نگار اُس کے اندر چھُپے ہیں جنھیں وہ کھوجنے کی کوشش کر رہی ہو۔ کھوجنے کی اس ادا سے اشرف لطف اندوز ہوتا اور بتاتا
رام دین
وصیت کے مطابق زنگ آلود صندوق کوٹھری کے باہر لایا جا چکا تھا۔ ستار تالا کھولنے کے لئے موجود تھا۔ پتن ٹیلر کفن لا چکے تھے۔ کاٹھی باندھنے والا بھی موجود تھا۔ مردہ جسم پر کئی لوٹے پانی ڈالا گیا اور اسے جہاز پر چت ڈال کر باندھ دیا گیا۔ مجمع حیرت واستعجاب
حمیدہ
حبو میاں رنگارنگ طبیعت کے مالک تھے۔ کالا رنگ، کسرتی بدن، گھونگرالے بال، اونچی ستواں ناک اور ہر پل لبوں پر رقص کرتا ہوا تبسم ان کی شخصیت میں عجیب نکھار پیدا کرتا تھا۔ وہ ساٹھ کے لپیٹے میں تھے مگر لگتے چالیس کے تھے۔ والدین کا انتقال ان کے بچپن میں ہی ہو