شاداب جاوید کا تعارف
آج غالب ہے مرے سر پر عشق
آج میں میرؔ ہوا چاہتا ہوں
شاداب رضا صدیقی ابن احمد جاوید صدیقی (جاوید گونڈوی) کا تعلق حیات گنج، ضلع گونڈہ، اتر پردیش سے ہے، جبکہ وہ اس وقت فیض اللہ گنج، لکھنؤ میں سکونت پذیر ہیں۔
ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے دادا حضور، علامہ صوفی عبدالوحید صاحب مدّ ظلہ العالی کی بارگاہ میں حاصل کی، جو کہ نعت گوئی میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ ان کے والد محترم احمد جاوید صدیقی بھی عالمی سطح پر بحیثیت اردو نعتیہ شاعر معروف ہیں۔ اسی علمی و ادبی ماحول نے شاداب رضا صدیقی کی طبیعت میں ادب اور شاعری کی محبت کو پروان چڑھایا، اور یہی ذوق آگے چل کر ان کی شاعری میں نمایاں نظر آیا۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انہیں دادا حضور کی قربت سے محروم ہونا پڑا، مگر علمی جستجو نے ان کے سفر کو جاری رکھا۔ 2014 میں انہوں نے جامعہ غوثیہ عربی کالج سے فارسی زبان میں گریجویشن اور مولانا کی سند حاصل کی۔ 2015 سے وہ اتر پردیش سرکار کے دفتر، وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
شاعری سے ان کا تعلق ابتدا ہی سے استوار رہا، اور نعتیہ شاعری ان کے تخلیقی سفر کا نقطۂ آغاز بنی۔ 2011 میں ان کا پہلا نعتیہ شعر منظر عام پر آیا:
یقیں ہے میری لحد میں حضور آئیں گے
اسی لئے ہے تمنا کہ جلد مر جاؤں
یہی والہانہ عقیدت اور عشقِ رسولؐ ان کی شاعری کی پہچان بنی۔ شاداب رضا صدیقی کی شاعری میں فکری گہرائی اور جذبے کی شدت نمایاں ہے، جو انہیں نوجوان نسل کی اردو شاعری کے ایک اہم شاعر کے طور پر متعارف کراتی ہے۔