سراجؔ عالم زخمی کے اشعار
کیا ہمسری کی ہم سے تمنا کرے کوئی
ہم خود بھی اپنے قد کے برابر نہ ہو سکے
کوئی شکوہ کوئی گلہ دے دے
مجھ کو جینے کا حوصلہ دے دے
بے وفائی کا مجھے الزام دیتا تھا وہ شخص
میں نے بھی اتنا کیا بس اس کو سچا کر دیا
توڑے بغیر سنگ تراشے نہ جائیں گے
وہ دل ہی کیا جو ٹوٹ کے پتھر نہ ہو سکے
وہ اتنی شدتوں سے سوچتا ہے
کہ جیسے میں بھی کوئی مسئلہ ہوں
دل میں رہ رہ کے شور اٹھتا ہے
کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا
بکھرتے ٹوٹتے لمحوں میں ایسا لگتا ہے
مرا گمان ہے تو اور ترا قیاس ہوں میں
دل میں طوفان نہیں آنکھ میں سیلاب نہیں
ایسے جینے سے تو بہتر تھا کہ مر ہی جاتے
صدائے دل کو کہیں باریاب ہونا تھا
مرے سوال کا کچھ تو جواب ہونا تھا
اتنا نہ دور جاؤ کہ جینا محال ہو
یوں بھی نہ پاس آؤ کہ دم ہی نکل پڑے
خود کو بچاؤں جسم سنبھالوں کہ روح کو
بکھرا ہوا ہے درد یہاں سے وہاں تلک