عثمان مینائی کے اشعار
غموں پر اس کے کبھی اعتبار مت کرنا
وہ پیاز کاٹ کے آنسو نکال لیتا ہے
غزلوں کے شعر لکھنے سے پہلے ہزار بار
ہم دیکھتے ہیں آپ کی تصویر کی طرف
نشاں کیوں ڈھونڈھتے ہو انگلیوں کے
قضا آئی تھی دستانے پہن کر
دیا بجھانے کی فطرت بدل بھی سکتی ہے
کوئی چراغ ہوا پر دباؤ تو ڈالے
استاد محترم نے کی اصلاح شعر کی
لیکن ہلاک شعر کا مفہوم کر دیا
تمہارے چہرے کی ساری نسیں تنی ہوئی ہیں
تمہارے ہاتھ میں کیا آئنہ دیا گیا ہے
قبضہ کسی کا پانی پہ جاری نہ رہ سکا
لیکن ہمارا پیاس پہ قبضہ ابھی بھی ہے
کفایت سے تمہیں ہم سوچتے ہیں
رقم یادوں کی اب تک چل رہی ہے
کوئی بشر کبھی پانی بنا نہیں سکتا
خدا کے ہونے کا پہلا ثبوت پانی ہے
دیدار کے سکے جو ذرا بھیکھ میں مانگے
تو اس نے کہا جاؤ جمعرات کو آنا
نیزے کی نوک تیرا تہ دل سے شکریہ
اب تک گرا نہیں ہے مرا سر زمین پر