آتی جاتی رہ جاتی ہیں
سانسیں اٹکی رہ جاتی ہیں
آدمی کہیں چلے جاتے ہیں
باتیں باقی رہ جاتی ہیں
کام آغاز نہیں ہوتا ہے
عمریں آدھی رہ جاتی ہیں
جی بھر کے رو لینے سے بھی
آنکھیں پیاسی رہ جاتی ہیں
دیکھی ہوئی جگہیں بھی جیسے
کچھ ان دیکھی رہ جاتی ہیں
بھول بھی جاؤ پھر بھی یادیں
اچھی خاصی رہ جاتی ہیں
کچھ بھی نہیں خریدہ جاتا
جیبیں خالی رہ جاتی ہیں
باتیں ساری کہہ جاتا ہوں
پھر بھی کتنی رہ جاتی ہیں
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 214)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.