ابر کو روکتے ہیں آب طلب کرتے ہیں
ابر کو روکتے ہیں آب طلب کرتے ہیں
دشت سادہ ہیں کہ تالاب طلب کرتے ہیں
مسخرے پن کی بھی حد ہوتی ہے کوئی یعنی
لوگ دریاؤں سے سیلاب طلب کرتے ہیں
ان کو ہے اپنے نظاروں کی سجاوٹ سے غرض
کھڑکیوں والے تو مہتاب طلب کرتے ہیں
ہم کہ کر لیتے ہیں سوراخ سفینے میں خود
ہم کہ خود بحر میں گرداب طلب کرتے ہیں
ان کو مغموم تنفس میں سکوں ملتا ہے
اہل دل خود دل بے تاب طلب کرتے ہیں
کل تلک سبز نظاروں میں نمایاں تھے میاں
ہم جو اب دیدۂ خوں ناب طلب کرتے ہیں
اب تھکن جان کنی کے ہے مماثل ٹھہری
اب ترا لمس یہ اعصاب طلب کرتے ہیں
اس میں اب زرد زمانوں کا دھواں اڑتا ہے
آپ جس دل سے تب و تاب طلب کرتے ہیں
ہاتھ ملتے ہیں حیاؔ آنکھ کی عریانی پر
ہم جو ہر شب سے نیا خواب طلب کرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.