گل وہ کھلا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
گل وہ کھلا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
وہ دور جا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
اپنا کیا ہی سامنے آتا ہے ایک دن
وہ کیوں ستا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
کر کے لہولہان مرے جسم و جاں کو وہ
مرہم لگا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
میں صبح و شام جس کی عبادت میں محو ہوں
مجھ کو نچا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
سانسیں تو چل رہی ہیں مگر اس کی موت کا
فرمان آ رہا ہے مجھے علم ہو گیا
پونمؔ نہ کھیلے کھیل کوئی آج رات کو
وہ خوف کھا رہا ہے مجھے علم ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.