رات اندھیری ہے اور کوئی جگنو نہیں مل رہا
رات اندھیری ہے اور کوئی جگنو نہیں مل رہا
دشت کیسا ہے یہ جس میں آہو نہیں مل رہا
جس سے ظاہر ہو اس کو خبر ہے مرے حال کی
بات میں کوئی بھی ایسا پہلو نہیں مل رہا
کیا کہیں اور بھی کتنی چیزوں سے محروم ہوں
صرف اتنا نہیں ہے کہ بس تو نہیں مل رہا
ایک ہاری ہوئی اپنی ہمت کی ہے جستجو
اور کھویا ہوا زور بازو نہیں مل رہا
اس ملاقات میں ایک ہونے کی خواہش نہ تھی
اس جدائی میں رونے کو آنسو نہیں مل رہا
کیا ہوا تھی کہ لوگوں کو پتے سے بکھرا گئی
سب پریشان ہیں کوئی یکسو نہیں مل رہا
اس قدر شیون و شور کچھ بے سبب تو نہیں
کوئی دکھ ہے کہیں جس کا دارو نہیں مل رہا
زندگی ہے سمندر کے رحم و کرم پر ظفرؔ
کیسی کشتی ہے یہ جس کو چپو نہیں مل رہا
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 201)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.