رنگوں کا تمنائی نہ سودائی ہوں رس کا
رنگوں کا تمنائی نہ سودائی ہوں رس کا
نشہ ہے مرے خوں میں ابھی موت کے مس کا
بیٹھا ہوں کسی اور صدا کے لئے ورنہ
گزرا ہے مرے سر سے بھی آوازہ جرس کا
ہے روح کا شب شور تلاطم تو بڑی چیز
یہ جسم کا جوہڑ ہی نہیں ہے مرے بس کا
بہتا ہوا پتہ تھا کوئی موج رواں پر
چڑھتا ہوا سر میں کوئی دریا تھا ہوس کا
نکلا ہوں نیا ہو کے سمندر کے سفر پر
پیشانی سے ہر داغ دھلا پچھلے برس کا
اس طرح ظفرؔ سب کو ہوا قید کرے گی
دے گا نہ دکھائی کہیں دروازہ قفس کا
- کتاب : غزل کا شور (Pg. 45)
- Author : ظفر اقبال
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.