الفت کی رسم و راہ سے اتنا وہ بے پروا نہ تھا
الفت کی رسم و راہ سے اتنا وہ بے پروا نہ تھا
کل اجنبی بن کر ملا پہلے تو وہ ایسا نہ تھا
اس سال کے سیلاب سے سارے کنارے کٹ گئے
دریا کے پیچ و تاب کا ساحل کو اندازہ نہ تھا
جب قربتوں کی چھاؤں میں اترے حیا کے قافلے
بڑھتے قدم خود رک گئے آگے کوئی رستہ نہ تھا
پلکوں کی چھاگل توڑ کر رزق زمیں بنتے رہے
ان آنسوؤں کے واسطے ترک وطن اچھا نہ تھا
کیا جبر فطرت کا گلہ جب عہد ہو نامہرباں
دریا میں باڑھ آئی وہاں بادل جہاں برسا نہ تھا
طالبؔ دریچہ ذہن کا جب ذات کے اندر کھلا
پلکیں ادھر جھک کر اٹھیں اور دور تک صحرا نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.