اس کی سرد حویلی تک دھوپ کا تپتا صحرا تھا
اس کی سرد حویلی تک دھوپ کا تپتا صحرا تھا
اوٹ میں سوکھی جھاڑی کے سایہ چھپ کر بیٹھا تھا
گونج رہی تھی جب یہ صدا اسما کی تشریح کرو
بول رہا تھا صرف انساں چار طرف سناٹا تھا
ماہی گیر اکیلا تھا لوٹ کے کیسے گھر آتا
ناؤ کے چپو ٹوٹے تھے اور سمندر گہرا تھا
ہم نے جو گھر بار تجا ایک ستارے کی خاطر
ان دیکھی دنیاؤں سے ایسا کون سا رشتہ تھا
فطرت کی بے ظرفی بھی کیا کیا روپ بدلتی ہے
آگ لگی تھی جب گھر میں ٹوٹ کے بادل برسا تھا
سایہ بانٹنے والا خود سائے سے محروم رہے
قسمت نے ان پیڑوں کو دھوپ میں جلنا لکھا تھا
کوزہ گروں کی بستی میں مٹی کی کم یابی سے
کوزے کتنے مہنگے تھے پانی کتنا سستا تھا
اک موہوم نشانی پر طالبؔ ہم نے کوچ کیا
منزل بھی انجانی تھی رستہ بھی ان دیکھا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.