آخری دن
ہجر سے پریشاں ہم
زندگی سے گھبرا کر
خامشی کی چادر میں
دور تک چلے آئے
شور میں نکل آئے
شور نے سلیقے سے
دھیمے دھیمے سمجھایا
زندگی خموشی سے
آگے کی کہانی ہے
چائے کی دکانوں میں
سرمئی گلاسوں کی
کھڑکھڑاہٹیں اکثر
کتنا لطف دیتی ہیں
شور ہی تو ہے یہ بھی
چوک پہ کھڑے لڑکے
جب کسی لطیفے پہ
قہقہے لگاتے ہیں
تالیاں بجاتے ہیں
تالیوں کی آوازیں
شور ہی تو کرتی ہیں
آنکھ باتیں کرتی ہیں
دل صدائیں دیتا ہے
سانس آتی جاتی ہے
اک ردم سا بنتا ہے
مختلف دھنیں بھی تو
شور کی زبانیں ہیں
اب سمجھ میں آیا ہے
یہ اداس سناٹا
شور ہی کا حصہ ہے
خامشی یا تنہائی
مختصر سا قصہ ہے
سو یہی کیا ہے طے
ہجر کا ترے جاناں
آج آخری دن ہے
کل سے اس خرابے میں
شور کے دو آبے میں
نوکری کریں گے ہم
عاشقی کریں گے ہم
شاعری کریں گے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.