Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بساط

MORE BYشہلا کلیم

    اک بساط وجود و بدن کے تحت

    سالہا سال تک

    ہم سے عریانیت کا عجب کھیل کھیلا گیا

    ہم شکستہ رہے

    تم ازل سے غلط چال چلتے رہے

    ہم تمہاری ذہانت سراہا کیے

    تم ہمارے سبھی فلسفے جسم کے زاویوں پر پرکھتے رہے

    تم تو دست ہنر کا تراشیدہ فن چھوڑ کر

    اس کی انگشت مخروط کے خال و خط سے الجھتے رہے

    اور خیالات کے پوروں سے لپٹا بے بس قلم

    چیختا رہ گیا

    ابن آدم کی یہ فطری مجبوریاں

    آپسی رنجشوں کے تئیں

    بیچ بازار میں اپنی ماؤں کو تم نے برہنہ کیا

    اپنی بہنوں کے سر سے ردا نوچ لی

    اور جیون کے کمزور لمحات میں

    جو قبائیں تمہارے لیے آسرا تھیں وہ سب

    کچھ کھنکتے ہوئے قہقہوں کے عوض

    چائے خانوں کی میزوں پہ نیلام کیں

    راہ چلتے غلاظت بھرے فقرے کستے رہے

    معتبر بیٹھکوں میں نجاست پروسی گئی

    ہم کو نا کردگی کی سزا دی گئی

    اور تمہاری تلافی کو جرگے بلائے گئے

    آخرش

    تیرگی جب اجالے نگلنے لگی

    طاقچوں میں سجے

    پھر تمہارے ودیعت شدہ

    یہ نزاکت کے سارے دئیے

    اپنے سینے کی آتش سے روشن کیے

    اور تمہارے تقاضوں کے مد نظر

    ہم نے بستر کی شکنوں سے مصرعے چنے

    دیکھو یہ کھیل کی آخری چال ہے

    حرف کو جسم بنتے ہوئے دیکھ لو

    میری نظموں کی دوشیزگی کی قسم

    ان میں موجود لفظوں کا عریاں بدن

    دسترس سے پرے

    اور دست تخیل سے بھی دور ہے

    سو تمہاری یہ ذلت بھری بے بسی دیکھ کر

    انتقامی بدن کا ہر اک ریشہ ریشہ بڑی زور سے

    قہقہے مار کے ہنس پڑا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے