Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھٹا دریا

فکر تونسوی

چھٹا دریا

فکر تونسوی

MORE BYفکر تونسوی

    ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء

    کل رات پھر ریڈیو چیختا چلاتا رہا۔ آزادی! آزادی! آزادی! آج ہم فرنگی سامراج کی قید سے آزاد ہیں۔ ممتاز خوش ہے کہ ہماری سیاست کا اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھا۔ میں صبح صبح اپنے چہرے کو مجسم کرب اور غم بنائے ہوئے اسی کے کمرے میں داخل ہوا۔ ممتاز! سنا تم نے، رات کے ۱۲بج کر ایک منٹ کے بعد ہم آزاد ہوگئے ہیں اور رات بھر گولیاں چلتی رہیں۔ اللہ اکبر، ہر ہر مہادیو، اور ست سری کال، ابھی تک قید میں ہیں اور رات بھر گونج گونج کر چیخ چیخ کر اچھل اچھل کر احتجاج کرتے رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔ تم نے ہمیں کیوں آزاد کردیا۔ ہم آزاد ہونا نہیں چاہتے۔ ہمارا کوئی جرم نہیں ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں آزاد ہوکر ہم مرجائیں گے!‘‘

    میری حالت کچھ ایسی تھی جیسے میں رات بھر کسی زہر کے تالاب میں ڈبکیاں لگاتا رہا ہوں۔ طنز اور وحشت اورطنفرت اور دیوانگی میرے جسم کے ہر حصہ سے تیکھی تیکھی چنگاریوں کی طرح پھوٹی پڑتی تھی اور میں ایک مصرع گنگنا رہا تھا،

    یہ کون سامقام ہے کہاں ٹھہر گئی ہے تو؟

    ممتاز نے مجھ سے کہا، ’’تمہیں آزادی سے دکھ ہوا ہے؟‘ لیکن میں بدستور گنگنائے جارہا تھا۔۔۔ ’’آؤ ہم سب مل کر آزادی کا استقبال کریں۔‘‘ اس نے جیسے خلوص کے ساتھ مجھے کھوکھلی ڈھارس دینے کی کوشش کی۔

    ہاں ہاں!سچ کہتے ہو ممتاز! ہمیں مل کر اس اپسرا کا استقبال کرنا چاہیے۔ ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں کی لاشوں کے انباروں سے، بموں کے ہولناک دھماکوں سے، جلتی ہوئی خوبصورت عمارتوں سے ہمیں اس کا سواگت کرنا چاہیے۔ تم نے سنا نہیں؟ دہلی اور کراچی رات بھر دلہن بنے رہے ہیں۔ نقارے، شہنائیاں اور رقص اور شراب سے اپنا بیاہ رچاتے رہے ہیں۔ یہ ان کی سہاگ رات تھی۔ شب عروسی تھی اور ان نو عروسوں کی سہاگ رات میں، اس اسم مبارک پر ہم نے، ہمارے پنجاب نے، ہمارے لاہور نے، سوہنی کے گھڑے نے، ہیر کی چوڑیوں نے، لہلہاتے ہوئے کھیتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور اپنے معصوم بچوں، اپنی جوان کنواریوں، اپنے سپید سپید بوڑھوں اور کڑیل جوانوں کے تحائف پیش کیے تھے۔ اور جواہر لال نہرو نے لال قلعہ پر ترنگا جھنڈا لہراتے ہوئے اور قائد اعظم نے ہلالی پرچم بلند کرتے ہوئے راوی اور چناب کی طرف مسکراکر دیکھا تھا۔ شاباش بہادرو! شاباش، قربانیاں کیے جاؤ۔ قربانیوں سے ہی قوم کی تاریخ گلرنگ ہوتی ہے۔ اپنے خون کی سرخی سے اس شفاف اور محبوب دھرتی کو لہولہان کردو۔ شاباش! شاباش! شاباش!

    ’’تم چائے پیوگے؟‘‘ وہ میری جذباتی تقریر سے تنگ آکر کہنے لگا۔ اس کی آنکھیں جیسے کہہ رہی تھیں کہ اس شخص کے اندر یہ زہر کہاں سے آگیا؟ یہ حقیقت کو جذباتیت کے پردے میں کیوں چھپا رہا ہے؟ حقیقت یہی ہے۔ اس حقیقت کو اس کے چمکیلے آنسو فنا نہیں کرسکتے۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ سکریٹریٹ پر ہلالی پرچم لہراتے ہوئے نوجوان کو جو مسرت حاصل ہوئی ہوگی یہ اس مسرت سے نفرت کرتا ہے اور اس کی یہ نفرت۔۔۔؟ نہیں نہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ شاید ایسا نہ ہو۔ شاید یہ اس مسرت سے نفرت نہ کرتا ہو۔۔۔ بلکہ۔۔۔ بلکہ۔۔۔

    شاید اس کا دماغ پھر الجھ گیا تھا وہ میری اس نفرت کا تجزیہ کیوں نہیں کرسکتا؟ وہ جو نفسیات کا ماہر ہے وہ جو انسانی دلوں کے راز جانتا ہے مجھے کیوں نہیں سمجھ سکتا۔ اسے یقین ہوتا جارہا تھا کہ میں ضرور بیوقوف ہوں۔

    بے وقوف، میں کتنا بے وقوف ہوں ممتاز! سارا ہندوستان ناچ رہا ہے۔ طرب اور نشاط کے نغموں سے جھوم رہا ہے لیکن نشاط کی وہ لہریں میرے اندر کیوں مرگئی ہیں؟ مجھے ان لہروں کی موت کے اسباب بتاؤ

    ممتاز۔۔۔! میں چھت کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھتا جارہا تھا۔

    مگر۔۔۔ بھلا وہ کیوں کر میری ان لہروں کی موت کا راز جان سکتا تھا۔ یہ راز آسمان میں نہیں زمین میں پیوست ہے میں نے باتوں میں کل اسے بتایا تھا کہ میں نے اچھرہ کی طرف آنے والی سڑک پر ایک لرزہ خیز منظر دیکھا تھا۔ مشتعل ہجوم لاٹھیاں لیے ہوئے ایک عبادت گاہ کے سامنے جمع تھا۔ عبادت گاہ کے باہر ایک ملٹری ٹرک پر پجاریوں کی جلی ہوئی کالی سیاہ لاشوں کے ڈھانچے لادے جارہے تھے۔

    عبادت گاہ رات بھر جلائی جاتی رہی تھی اور پجاری اس کے اندر بھنتے رہے تھے۔ ان کی آہوتیاں دی گئی تھیں اور صبح قنوج کے گرانڈیل بہادروں نے آکر ان کی لاشوں کو بچالیا تھا اور اب ان لاشوں کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اور اب وہ عمارت میں سے نکالے جارہے تھے اور ٹرک پر پھینکے جارہے تھے۔ جلے بُسے سڑے ہوئے لاشے، گڑ کی بوریاں۔۔۔ اور ہجوم نعرے لگا رہا تھا۔ ’’اللہ اکبر‘‘! اور ہر نعرے کے ساتھ ایک لاش نکال کر ٹرک میں بڑے توازن اور لہراؤ اور نغمگی کے ساتھ پھینک دی جاتی تھی۔ راز فاش ہو رہا تھا اور ممتاز گھر میں تھا۔

    میں اور ممتاز آج آزادی کے دن گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ ہم اپنے کمرے ہی میں قید رہے۔ اور میرے گلے میں کوئی چیز بار بار آکر اٹک جاتی تھی۔ ہم دن بھر چائے پیتے رہے، پان کھاتے رہے، سگریٹ یتے رہے۔۔۔ اور باتیں کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ممتاز کہتا رہا آؤ ذرا باہر گھوم آئیں۔ آج تمام عمارتوں پر قومی جھنڈے لہرا رہے ہوں گے، یونین جیک اتار دیے گئے ہوں گے۔ لوگ آزادی کی خوشی میں متوالے ہو رہے ہوں گے۔۔۔ لیکن میرے قدموں کو جیسے چلنا بھول گیا تھا۔ میری آنکھیں بوجھل ہوئی جارہی ہیں۔

    مجھ سے یہ متوالا پن نہیں دیکھا جاتا تھا۔ یہ میرا حسد تھا اور میں اسی حسد سے محبت کرتا تھا۔ یہ کیسا متوالا پن ہے جس میں مستی نام کو نہیں۔ یہ کیسی شراب ہے جس میں سرور کی کوئی موج ہی نہیں۔ یہ کیسا نغمہ ہے، جو آنسوؤں سے لبریز ہوکر باہر نکل رہا ہے۔۔۔ اس نغمے کو بند کردو! اس بربط کو مت چھیڑو۔ اور تم سوجاؤ۔۔۔ سوجاؤ۔۔۔ آنکھیں میچ لو۔۔۔ اور جائنٹ ڈیفنس کونسل کو اپنا دربان بناکر کھڑا کردو! باؤنڈری کمیشن کو جاگ جاگ کر پہرہ دینے دو! تاکہ جب تمہاری آنکھ کھلے تو نوے لاکھ آدمیوں کو آگ اور خون میں شرابور دیکھو۔۔۔ اجڑی ہوئی بستیاں، مسمار شدہ شہر، جلتی ہوئی کھیتیاں، اور سوکھی ہوئی ندیاں ہماری بیداری کا استقبال کریں گی اور محافظ جاچکے ہوں گے۔ ہماری آنکھ کھلنے کے بعد محافظوں کو تکلیف دینے کی بھلا کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔

    مکان کی نچلی منزل سے دہاڑیں مارنے کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ ممتاز نے مجھے بتایا کہ امرتسر سے ایک خاندان آیا ہے پانچ پانچ سال کے دو بچے، تیس سال کی ایک ادھیڑ عورت اور ایک بوڑھا سسر۔۔۔ پندرہ آدمیوں کے کنبے میں صرف یہی بچ کر آئے ہیں۔

    ’’اوہ! میرے خدا!‘‘

    ۱۷/ اگست

    دودن سے بڑی ہولناک اور وحشت انگیز خبریں آرہی ہیں۔ آزادی ملنے کے بعد ہم توقع اور امید کے خلاف چین سے نہیں بیٹھ سکے۔ لاہور اور امرتسر نے اپنی آگ کے شعلوں کو مشرق اور مغرب میں دونوں طرف بڑی دور دور تک پھیلادیا ہے۔ پنجاب کے بارہ ضلعوں کو فساد زدہ علاقہ قرار دے کر انہیں انگریز کپتان کی حفاظت میں دے دیا گیا ہے۔ اور اس لیے دے دیا گیا ہے کہ آزاد حکومتوں کے شہنشاہوں کو جشن نشاط منانے سے فرصت نہیں ملتی۔ انہیں اب انگریز کی دیانت پر کوئی شک و شبہ نہیں رہا جو قوم ہندوستان جیسی سونے کی چڑیا کو لوٹا سکتی ہے، اس سے اخلاقی بددیانتی کی امید رکھنے والے شرارت پسند ہیں۔ انگریز کپتان پنجاب کی مشترکہ تہذیب کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے اس نے ہندو اکثریت والے ضلعوں میں مسلمان ملٹری اور مسلم اکثریت والے ضلعوں میں ہندوسکھ ملٹری تعینات کردی ہے تاکہ آزاد ملک کی یہ آزاد فوج آزادی کے ساتھ اپنے عمل کو سرانجام دے سکے۔۔۔ لیکن اس پرخلوص اور دیانت دارانہ عمل کے باوجود ہولناک اور وحشت ناک خبریں آرہی ہیں۔۔۔ لاشیں آتی ہیں، زخمیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ آتے ہیں، روتے چیختے ہوئے لوگ آتے ہیں۔ یہ لاشیں یہ زخمی، یہ چیخ چلاہٹ کیوں ہے؟

    کہتے ہیں کہ فوجی سپاہی غنڈوں کو تہس نہس کر رہے ہیں لیکن غنڈوں کی لاشیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس غارنگری کی ذمہ داری ہندوسکھوں پر عائد ہوتی ہے اور ہندوسکھ مدبروں کا خیال ہے کہ یہ قتل و غارت تباہی اور بربریت کے ذمہ دار مسلمان غنڈے ہیں۔۔۔ چنانچہ دونوں طرف سے ذمہ داریاں بڑھتی جارہی ہیں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لاشوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم پتھر اور دھات کے زمانے میں پہنچ چکے ہیں۔ انگریز سیاست داں اور مدبروں کا مشورہ ہے کہ جب تک آپ حضرات پتھر اور دھات کے زمانے کا رخ نہیں کریں گے آپ کو نروان، یعنی نجات یعنی آزادی کا صحیح لطف حاصل نہیں ہوسکتا۔

    آج صبح اور دوپہر کے ریڈیو نے مژدہ جانفزا نہیں سنایا جس کے لیے سارا پنجاب لڑتا، مرتا، کٹتا ہوا پنجاب گوش برآواز تھا۔ ریڈ کلف کا فیصلہ ابھی تک محفوظ تھا۔ اس فیصلے میں وہ لکیر پنہاں تھی، وہ سانپ پوشیدہ تھا، جو کالی داس کی بھادوں، وارث شاہ کی ہیر، ٹیگور کی گیتانجلی، اقبال کی خودی اور غالب اور میر کی غزلوں کے درمیان اپنے پتلے، لمبے اور زہریلے جسم کو پھیلادے گا۔ اور انہیں کہے گا، ’’اپنا اپنا منہ ادھر کرلو، اُدھر دیکھو، ادھر دیکھو، کتو! تمہارے حصہ کی بوٹی ادھر پڑی ہے اور تمہارے حصہ کی ادھر، اپنی اپنی بوٹی پہچان لو اور انہیں نوچ کھاؤ۔۔۔! اور بھوک کے مارے ہوئے کتے انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن سانپ ریڈ کلف کی پہاڑی میں بند تھا۔

    یہ سانپ کہاں سے آیا تھا؟ تمہیں معلوم ہے ممتاز! تم نے چرچل کی وہ تقریر سنی تھی جو اس نے ہندوستان کی طرف آزادی کی دوبوٹیاں پھینکے جانے پر مداریوں کی رقص گاہ میں کی تھی۔ ’’لیبر گورنمنٹ کا یہ اقدام تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔‘‘ اور یہ تقریر سن کر میرے سامنے چرچل کا ماضی پھیلنے لگا تھا۔ اندھیرا! اندھیرا! اندھیرا۔۔۔! اطلانتک چارٹر! اطلانتک چارٹر۔ اور اس اندھیرے میں چرچل خوش تھا۔ جواہر لال خوش تھا۔ جناح خوش تھا اور گاندھی کلکتہ میں بیٹھا ہوا امن کی بھیک مانگ رہا تھا۔ لیکن بھیک دینے والے ان داتا، پنجاب کے ایک ایک شہر، ایک ایک قصبے اور ایک ایک گاؤں میں پھیل گئے تھے اور بے وقوف غلاموں کوسنگینوں کی نوکیں چبھو چبھو کر، ان کی جھونپڑیوں کو جلا جلا کر، انہیں اپنے کھیتوں، گھروں اور گلیوں سے باہر نکال کر آزادی کا احساس دلا رہے تھے۔

    میں اور ممتاز اکتا کر گھر سے باہر نکل آئے۔ سڑکوں پر اور مکانوں پر آزاد ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آسمان کی طرف منہ اٹھائے فریاد کر رہے ہوں۔ جھنڈوں کی پھڑپھڑاہٹ میں وہ نشاطیہ آہنگ نہیں تھا، وہ مدہوش کن اور لاابالیانہ پرواز نہیں تھی جو یونین جیک میں ہوا کرتی تھی۔ لوگ سڑکوں پر کھڑے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بناکر سرگوشیاں کر رہے تھے۔ ان سرگوشیوں میں شکستگی تھی، اداسی تھی اور تھکن۔ جیسے ان کے لٹکتے ہوئے چہرے کہہ رہے ہوں کیا فائدہ ہے؟ کیا فائدہ ہے۔۔۔؟ چھوٹے چھوٹے لڑکے، چھوٹے چھوٹے سرسبز جھنڈے لیے کہہ رہے تھے، ’’ایک آنہ بابوجی! ایک جھنڈے کا ایک آنہ۔‘‘ ’’میرا جھنڈا اچھا ہے بابوجی۔‘‘ ’’نہیں میرا‘‘ ’’نہیں میرا۔۔۔‘‘ لڑکوں کا ایک ہجوم ہمارے گرد جمع ہوگیا تھا۔

    ممتاز نے لپک کر ایک جھنڈا خرید لیا میں نے کہا کیا فائدہ ہے؟ کہنے لگا، اس طرح ہم مستند ہوجائیں گے۔ مستند مسلمان! سمجھے کسی غنڈے کو ہم پر شبہ نہیں گزرے گا۔ ’’ٹھیک ہے! ٹھیک ہے میں بڑبڑایا اور جھنڈی والا لڑکا ایک آنہ لے کر بیڑی والی دکان کی طرف لپکا۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔

    ٹھیک ہے میں پھر بڑبڑایا۔۔۔ آزاد ملک کا آزاد لڑکا۔۔۔ ایک جھنڈا۔ بیڑی کا بنڈل، ایک جھنڈا۔ اسلامی مہر تصدیق۔۔۔ تو کیا یہ جھنڈا اسلامی مہر تھا؟ یہ جھنڈا۔۔۔؟ میں نے سائیکل پر لہراتے ہوئے جھنڈے پر پیارے ہاتھ پھیرتے ہوئے ممتاز سے کہا، ممتاز! میں پاکستان کا وفادار شہری بنوں گا، ہے نا۔۔۔؟ اور سنا تم نے؟ امرتسر کی ڈسٹرکٹ کورٹ پر ترنگا جھنڈا نہیں لہرانے دیا گیا۔ کیوں کہ اس سے گورونانک کی توہین ہوتی تھی۔ گوروکی نگری میں گورو کا ہی جھنڈا لہرایا جانا چاہیے۔ ترنگا تو ہندوؤں، مسلمانوں، اچھوتوں، عیسائیوں اور نہ جانے کتنی الم غلم قوموں کا جھنڈا تھا لیکن گورو کا جھنڈا ان سب سے الگ تھا۔ سب سے بلند۔۔۔! دھرم کا جھنڈا۔ مذہب کا جھنڈا۔ ہندو کا جھنڈا۔ اسلام کا جھنڈا۔ سکھ کا جھنڈا۔

    انارکلی ایک لاش کی طرح محسوس ہو رہی تھی اور ایک بے حس اور بے جان مردے کی طرح لیٹی ہوئی تھی۔ اداس اور غم ناک اور حزیں۔۔۔ ایک بلڈنگ ابھی تک جل رہی تھی۔ کہتے ہیں اس بلڈنگ میں لاکھوں کا مال تھا۔ ایک بہت بڑے ہندو سوداگر کا۔ اس کے بالکل سامنے ایک مسلمان سوداگر کی عظیم الشان دوکان راکھ کا ڈھیر بنی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں اس مسلمان سوداگر نے جنگ میں لاکھوں روپے بلیک مارکیٹ میں کمائے تھے اب اس عمارت کی جلی ہوئی دیوار پر پوسٹر چسپاں تھا۔ ’’اب یہ پاکستان کی دولت ہے۔‘‘

    ایک پان والے کی دوکان پر ٹیڑھی ٹوپی سر پر جمائے ایک غنڈہ ہمیں مشتبہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ’’السلام علیکم!‘‘ ممتاز نے پنواڑی کی دوکان کے قریب جاکر کہا۔ ’’ایک پان لگادیجیے قبلہ!‘‘ اور ٹیڑھی ٹوپی نے ہمیں مایوس کن نگاہوں سے دیکھا اور چھڑی ہلاتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ ہم بھی آگے بڑھ گئے۔ انار کلی چوک کی گھڑی سات بج کر چھ منٹ پر ٹھہر گئی تھی۔ وقت تھم گیا تھا، اس کے پاؤں جامد ہوگئے تھے۔ پنڈولم خاموش تھا، گم سم، شاید وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ شاید وہ سوچ رہاتھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ صدیوں کے قیدیوں کی ہتھکڑیاں کیوں کر ٹوٹ گئی ہیں! وہ آزاد ہوکر خونیں ناچ اور آتشیں راگ رنگ میں مصروف ہیں۔ وہ محوحیرت تھا۔ آخر یہ کیوں کر ہوسکتا ہے؟ شاید تاریخ نے غلطی کھائی ہے شاید وق اپنی رفتار کا توازن قائم نہیں رکھ سکا اور بے اختیار آگے بڑھ گیا۔

    چوک کے ساتھ کا عظیم الشان مندر جل رہا تھا، بے دھڑک کھلے بندوں اور اسے کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ دھوئیں کے غبار اٹھ اٹھ کر فضا میں پھیل رہے تھے۔ اس مندر میں بیسیوں دیوتا قید تھے کرشن، رام، شوجی، پاربتی، ہنومان اور سبھی جل گئے تھے۔ منوسمرتی، رامائن، رگ وید، شاستر، گیتا سب جل گئے تے۔ سب قفس عنصری کے قید مکان سے آزاد ہوگئے تھے۔ اور بڑا پجاری بھاگ گیا تھا اور اس کے ساتھ اس کی محبوبائیں بھی اس کی دیوداسیاں بھی۔ ہنومان کی ایک بڑی سی مورتی مندر کے صحن میں چار ٹکڑے ہوکر پڑی تھی۔

    کتنا جری اور بہادر تھا ہنومان! کہتے ہیں بچپن میں وہ ایک مرتبہ ہوائی جہاز سے گرکر ایک بہت بڑے بھاری پتھر پر آپڑا تھا لیکن اس سخت جان اور شیردل کو ذرا بھی آنچ نہیں آئی تھی۔ کتنا کڑا کلیجہ تھا اس کا۔ کتنا دلیر سپوت تھا مندر کے صحن میں چارٹکڑے ہوکر پڑا ہوا تھا۔ اٹھتے ہوئے دھوئیں میں چندن اور صندل کی خوشبو ملی ہوئی تھی۔ آج انسانوں کے یگیہ میں دیوتاؤں کی آہوتیاں دینے کا مبارک دن تھا۔

    میں نے مندر کے دروازے پر اونگھتے ہوئے ایک بلوچ سپاہی سے پوچھا کیوں جی! اس مندر کا پجاری اب کبھی نہیں آئے گا؟ سپاہی کا منہ فرطِ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ’’بابوجی! مذاق مت کیجیے اللہ کا نام لیجیے۔۔۔‘‘ اور میں اور ممتاز اللہ کا نام لینے کے لیے سگریٹ سلگاکر پینے لگے۔

    اور مندر سے آگے سڑک پر مکانوں کی ایک طویل قطار، بھڑ بھڑاتی ہوئی آگ میں رقص کر رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اب مکانوں کو جلنے کی عادت سی ہوگئی ہے، جیسے یہ ان کے روزمرہ کے فرائض میں داخل ہوچکا ہے۔ اب تو جلتے ہوئے مکانوں کو دیکھ کر ایک مختصر سا کلمۂ تاسف بھی منہ سے نہیں نکلتا۔ ممتاز! اگر مکانوں کو جلنا ہی ہے تو دوسرے تیسرے روز جلا کریں۔ ہفتہ میں دوبار جلاکریں۔ ہر روز جلنا۔۔۔ ہر روز جلنا۔ کچھ چارم نہیں رہتا۔ اس طرح!

    اور ممتاز میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا مجھے آگے لے گیا۔ اس نے میرے اندر چھپے ہوے زہریلے آنسو دیکھ لیے تھے۔ اور وہ میری خیر منانے کی فکر میں تھا۔ اسے یقین سا ہوچلا تھا کہ اگر یہ زہر اس کے اندر پھیلتا گیا تو ایک دن۔۔۔ ایک دن۔۔۔

    ممتاز نے جاتی مرتبہ ایک آنے کا جھنڈا خریدا۔ جان کی خیر منانا نہایت ضروری تھا۔

    ۱۹/اگست

    ریڈکلف نے اپنا ایوارڈ شائع کردیا۔ بنگال کا تمدن، آرٹ رقص اور موسیقی تقسیم کردی گئی۔ پنجاب کے ہل، کھیتیاں، نغمہ اور رومانس بانٹ دیے گئے۔ اس بانٹ کا ایک پہلو نہایت عجیب تھا کہ مسلمان اور ہندو دونوں اس سے غیرمطمئن تھے لیکن ان کی غیر اطمینانی سے کیا ہوتا ہے؟ یہ تو تقدیر کا فیصلہ تھا۔ اور تقدیر ریڈ کلف کی پٹاڑی میں بند تھی۔ بعض سنجیدہ مزاج اصحاب اس جذباتی بے اطمینانی کو مہمل ٹھہرا رہے تھے کیوں کہ ان کے نقطہ نگاہ سے لیڈروں نے یہ فیصلہ ہونے سے پہلے ہی اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کا عہد کرلیا تھا۔

    ممتاز بازار سے ایک نقشہ خرید لایا تھا، پنجاب کانقشہ۔ اور ریڈیو پر فیصلہ سنتے سنتے وہ نقشہ پر پینسل سے لکیر کھینچتا جارہا تھا۔ سانپ بناتا جارہا تھا، کئی ہزار میل لمبا سانپ اور سانپ نے اس کی جنم بھومی بٹالہ کو ہندوستان میں پھینک دیا تھا اور میری جنم بھومی تونسہ کو پاکستان میں اور ممتاز کا چہرہ تمتما رہا تھا۔

    مجھے اس تمتمائے ہوئے چہرے میں لاکھوں تمتمائے ہوئے چہرے دکھائی دے رہے تھے جو احتجاج کر رہے تھے، جو چیخ رہے تھے۔ ہماری جنم بھومی پاکستان میں کیوں شامل نہیں کی گئی۔ ہماری جنم بھومی کو ہندوستان میں آنا چاہیے تھا۔ لاکھوں چہرے تمتما رہے تھے، جھلملا رہے تھے، مایوس ہو رہے تھے۔ لیکن سانپ تو برہما جی نے بھیجا تھا اور برہما جی کو نہ مفتی سے غرض تھی نہ بٹالہ سے۔ اسے تو حکم الٰہی پر عمل کرنا تھا۔ ’’یہ بہت بڑی شرارت ہے۔‘‘ جیسے ممتاز کے گلے میں آنسوؤں کی ایک بوچھار سی باہر نکل آیا چاہتی تھی اور وہ چیخ چیخ کر گلا پھاڑ پھاڑ کر محلے کے دوسرے بابوؤں کے فیصلے کی تفصیل اور اس کے نتائج بتا رہا تھا اور دل ہی میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بٹالہ میں اسی فیصدی مسلمانوں کی آبادی ہے۔ وہ ہندوستان میں کیوں کر جاسکتا ہے؟ یہ ناانصافی ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ فن کار ممتاز کی رگیں تن گئیں تھیں، وہ کسمسا رہا تھا۔

    مجھے اس کی صورت دیکھ کر نہ جانے کیوں خوف کا ایک عجیب و غریب احساس ہونے لگا تھا۔ میں اسے متوازن کرنے کے وسائل سوچ رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے اس چھوٹے سے مسئلے سے اٹھاکر بین الاقوامی دنیا میں لے آؤں۔ دیکھو۔ دیکھو ممتاز! ذرا اپنے بٹالے کے خون سے باہر نکل آؤ! یہ اجتماعی غم ہے۔ تم کہ ایک انفرادیت پسند آرٹسٹ ہو۔ لیکن انفرادیت کی کون پرواہ کرتا ہے۔

    دنیا تیزی کے ساتھ دو محاذوں میں ر تقسیم ہوتی جارہی ہے۔ زمین کا سیارہ گھومتے گھومتے ایک ایسے مقام پر آگیا ہے جسے دوراہا کہتے ہیں اور سیاروں کے ماہرین تاک لگائے اس کی چال دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان توایسی چال کا ایک جزو ہیں۔ ممتاز! تم کیا ہو؟ تمہارا اسلام کیا ہے؟ میرا ہندوازم کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم تو مہرے ہیں مہرے۔ کھلاڑی ہمیں جہاں چاہتا ہے رکھ دیتا ہے۔ بٹالے کو ہندوستان میں رکھ دیتا ہے، ننکانہ صاحب کو پاکستان میں لے آتا ہے اور دونوں مہرے چیخ رہے ہیں، ’’ہم یہ بساط الٹا لیں گے، ہم یہ کھیل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ لیکن کھیل ہو رہا ہے۔ یہ بازی تو اب ختم ہوکر رہے گی ممتاز!

    کاش! ہمارے سامنے ہمارے سینے میں وہ چنگاری ہوتی، وہ شعلہ جو عرب اور ہمالہ کو چین اور مصر کو بٹالہ اور ننکانہ صاحب کو ایک روشنی عطا کردیتا ہے۔ ایک سوز، ایک خلش! اور ہم پھر دیکھتے کہ اس الجھی ہوئی تاریکی میں اس پھیلے بڑھتے ہوئے اندھیرے میں ہمیں کس طرح لوٹا جارہا ہے۔

    لیکن ممتاز نیچے اتر گیا تھا۔ اس کے اضطراب اور کرب میں دماغ کو پاش پاش کردینے والی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔

    میں اسے پکارتا رہا، پکارتا رہا۔ ممتاز! تم ٹھنڈے ٹھنڈے پانی کے نل کے نیچے بیٹھ جاؤ اور نہالو، نہاتے رہو، نہاتے رہو۔ نہیں تو تم پاگل ہوجاؤگے۔ آج کل پاگل پن کا دورہ ہے۔ دیوانگی اور وحشت اپنے پنکھ پھیلائے فضاؤں میں منڈلاتی پھر رہی ہے۔ دیکھو! اگر تمہارے کلیجہ کا ٹکڑا ’’اچھا‘‘ اور تمہیں جنم دینے والی ماں اور تمہارا سارا خاندان بٹالے میں ہے اور بٹالہ ہندوستان کے چنگل میں پھنس گیا ہے اور ہندوستان میں وحشی سکھوں اور غنڈوں اور درندوں کا راج ہے تو تم کیا کرسکتے ہو؟

    میری بچی اور میری بیوی بھی تو پاکستان میں ہیں۔ کیا ہوا اگر پاکستان کے دیوتاؤں نے میری بیوی اور بچی کی موت سے لذت حاصل کرلی ہوگی۔ کیا ہوا؟ کیا ہوا آخر؟ مجھے دیکھو! میں کس چین اور اطمینان سے بیٹھا ہوا ہوں۔ اور ریڈیو سن رہا ہوں۔ اقبال پڑھ رہا ہوں۔ گوئٹے کامطالعہ کر رہا ہوں اور میرے دماغ کی کھوپڑی پھٹنے کے قریب ہے۔ میرے اعصاب میں ہلچل مچی ہوئی ہے لیکن میں مطمئن ہوں۔ مجھے تو ریڈ کلف میں بددیانتی اور شرارت کا کوئی عنصر دکھائی نہیں دیتا۔ تمہارا پیارا اور لاڈلا ’’اچھا‘‘ تمہیں ضرور مل جائے گا اگر تمہیں محبت کے خلوص اور تقدس پر یقین ہے تو تمہیں تمہارا پیارا ’’اچھا‘‘ ضرور ملے گا، ضرور ملے گا۔ لیکن ممتاز جاچکا تھا اور خلاء کی طرف گھور گھور کر جیسے تقریر کر رہا تھا۔ نوکر نے آکر مجھے بتایا کہ ممتاز صاحب ٹرک کی تلاش میں گئے ہیں۔۔۔ نہ جانے اب کیا ہوگا؟ نہ جانے اب کیا ہوگا بابوجی! ممتاز صاحب تو جیسے دیوانے ہو رہے ہیں۔

    ممتاز شام تک نہیں آیا۔ اور میری گھبراہٹ بڑھ رہی ہے۔ کبھی ہنستا ہوں، کبھی مسکراتا ہوں کبھی رونے کی ناکام کوشش کرتا ہوں اور کبھی اچانک خامش ہوجاتا ہوں۔ خاموشی کے پھیلتے ہوئے سمندر میں میں دور دور تک چلا جاتا ہوں لیکن کنارہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

    دور دور تک ایک ہنگامہ اور طوفان اور لڑائی دکھائی دے رہی ہے۔ خون خون، آگ آگ اور یہ آگ پھیل کر کہاں سے کہاں پہنچ گی ہے۔ شہروں سے گزر کر دیہاتوں میں، چوپالوں پر کھیتوں پر، جھونپڑیوں تک اس کی لپک اور جھپٹ دکھائی دے رہی ہے۔ سارا پنجاب جلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بٹالے میں ’’اچھا‘‘ کی پیشانی تک آگ کا شعلہ جاپہنچا ہے!

    تونسہ میں میری بیوی کی ساڑھی کا پلو اس بھڑبڑھراتی ہوئی آگ میں جھلس رہا ہے۔ میں کہاں آپہنچا ہوں۔ میں اپنے گاؤں میں آگیا ہوں۔ میری بچی کھیلتے کھیلتے محلے کے علی محمد بٹ کے گھر چلی گئی ہے۔ اور علی محمد نے اسے اٹھا کر زور کے ساتھ زمین پر پٹخ دیا ہے اور اس کی نرم نرم ہڈیاں چکنا چور ہوگئی ہیں۔ علی محمد میرے بچپن کا ساتھی دوست ہے۔۔۔ ہم محلے میں ایک ساتھ گلی ڈنڈا کھیلا کرتے تھے۔ اب وہ گاؤں کا ایک بڑا زمیندار ہے اور مجھے محبت بھری چھٹیاں لکھا کرتا ہے۔ اور وہ میری مردہ بچی کو اٹھاکر میرے گھر میں لے آیا ہے۔ معاف کردو دوست! یہ ٹہنی میں نے نہیں توڑی۔

    ہوا کا ایک سخت اور زوردار جھونکا آیا۔ اور یہ ٹہنی تڑاخ سے ٹوٹ کر میرے صحن میں آگری۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہیں۔ اور گاؤں بھر میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ ٹھائیں! ٹھائیں! ٹھائیں! شاید مسعودی قبائل نے ہمیشہ کی طرح پھر گاؤں پر حملہ کردیا ہے اور ہندو مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہندو سکھ ملٹری نے مسلمانوں کو بھوننا شروع کردیا ہے اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو بھوننا شروع کردیا ہے۔ اور میری بچی زمین پر مری پڑی ہے اور علی محمد اپنے چھ سالہ ننھے منے بچے رشید کو میرے ہاتھوں میں دے رہا ہے۔ ’’پٹخ دو اسے فکر بھائی! اسے زور کے ساتھ زمین پر پٹخ دو! میرا گناہ بھی معاف ہوگا! میرا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہوگا۔ میرے جرم کی بھی تلافی ہوگی۔ پٹخ دو! پٹخ دو دوست۔۔۔! اور میں نے رشید کو کلیجے سے لگالیا۔ ’’جاؤ جاؤ‘‘! علی محمد! تم دیوانے ہو! جاکر علاج کیوں نہیں کراتے۔ جاؤ۔ جاؤ! میں رشید کو تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ رشید میرا بیٹا ہے!

    ۲۵/ اگست!

    گذشتہ چار پانچ دنوں سے میں جیسے ہوا میں معلق رہا ہوں۔ جیسے کوئی خواب میں زندگی گزارتا ہے۔ اتنی جھنجھوڑ دینے والی شدید ترین اور سنگین حقیقتیں چاروں جانب سے نمودار ہو رہی ہیں، لیکن میری نیند نہیں کھلتی۔ ممتاز مجھے چار دنوں سے نہیں ملا۔ میں اندھیرے میں بھٹک رہا ہوں۔ ممتاز اندھیرے میں بھٹک رہا ہے۔ ساری کائنات اتھاہ اور پھیلی ہوئی ظلمت میں بگولوں کی طرح چکراتی پھرتی ہے۔ میں لاکھ اپنے آپ کو ایک خاص نقطۂ نظر پر مرکوز کرنے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن ہر چیز میرے ہاتھ سے پھسل کر نکل جاتی ہے۔ کوئی چیز گرفت میں نہیں آتی۔

    میرے پاس ہوائی جہاز ہوتے تو میں ان سکھ غنڈوں اور درندوں پر تابڑ توڑ بم برسانا شروع کردیتا جو معصوم اور بے گناہ لوگوں کو گاڑیوں میں ہلاک کر رہے ہیں اور پھر وہ لہولہان گاڑیاں لاہور ریلوے اسٹیشن پر آتی ہیں اور پلیٹ فارم پر لاشوں کے انبار لگ جاتے ہیں اور پھر امرتسر کے، جالندھر کے، لدھیانہ کے پلیٹ فارموں کو خون سے شفق رنگ کرنے کے لیے مسلمان مجاہدوں کی ٹولیاں پاکستان سے گزرنے والی ہندو سکھ گاڑیوں پر جھپٹ پڑتے ہیں تاکہ ہندوستان کے لوگ انہیں بزدل اور بے غیرت نہ سمجھنے لگیں۔۔۔ غیرت اور دلیری کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔

    یہ کیسی دیوانگی ہے؟ اُف میری نیند کھل کیوں نہیں جاتی؟ ممتاز کی نیند کیوں نہیں کھلتی؟ جواہر اور جناح کی پکیں کیوں بوجھل ہیں؟ اب تو پاکستان اور ہندوستان کی دو آزاد حکومتیں بن گئی ہیں۔ اور اب عوام ان حکومتوں کی بقا چاہتے ہیں اور عوام اپنے لیڈروں کے ساتھ ہیں۔ ان کے حکم پر گردنیں کٹوانے کو تیار ہیں۔ پھر یہ عوام، یہ جتنا لیڈروں کے حکم کے بغیر کیوں گردنیں کٹوا رہی ہے؟ لیڈروں نے تو انہیں یہ حکم نہیں دیا کہ کٹ مرو۔ اپنی بستیاں اجاڑ دو۔ ہندو کو پاکستان سے نکال دو۔ مسلمان کو ہندوستان میں نہ رہنے دو۔۔۔! نعرے کا یہ روپ کہاں سے آیا ہے؟ اس کے نقش و نگار مانوس تو نہیں ہوتے۔ پھر؟ پھر۔۔۔؟ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ کیا صرف لڑنا؟ بغیر مقصد کے لڑنا؟ آزادی ملے دس دن ہونے کو آئے لیکن آزادی ملنے کے بعد یہ کیسی لڑائی لڑی جارہی ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ نفرت کا ایک مبہم سا غیر واضح سا سیلاب ہے جس میں ہم سب بہے چلے جارہے ہیں۔ ایک جنون ہے جو لہکتا، جھپٹا ہوا ہر ایک کے سر میں سمایا جارہا ہے۔

    ممتاز ہر روز صبح سے گھر سے نکل جاتا ہے۔ اسے ایک ایسی لاری کی تلاش ہے جو اس کے پیارے ’’اچھے‘‘ کو اور ماں اور بہنوں اور رشتہ داروں کو بٹالہ سے لاہور لے آئے۔ لیکن ہر شام کو وہ منہ لٹکائے ناکام لوٹ آتا ہے۔ کیوں کہ لاری کا پٹھان مالک ایک ہزار روپیہ مانگتا ہے۔ ایک ہزار روپیہ روزانہ اور ممتاز کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ اور اس کا اچھا بٹالہ میں اس کی راہ دیکھ رہا ہے۔ ’’اچھا‘‘ جو اس کی پرانی محبت کی یادگار ہے، اور یہ یادگار خطرے میں ہے۔ اس کا تاج محل خطرے میں ہے اور ممتاز اسے نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ محبت منڈی ایک جنس بن چکی ہے۔ اور منڈی کے سوداگر اس جنس سے ہر روز ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔ وہ محبتوں کو بازار میں لا لاکر فروخت کرتے ہیں۔

    ممتاز ہر روز اسی بازار میں جاکر گھومتا رہتا ہے۔ اس کی محبت ایک پٹھان کی لاری میں محبوس ہے اور پٹھان جیسے ہر روز اسے دکھا دکھا کر چڑاتا ہے، ’’محبت خریدوگے۔ لاؤ نکالو دام! خریدوگے لیکن تمہارے پاس ہے کیا؟ افسانوں کی ایک کتاب؟ جنسی نفسیات کا ایک ہجوم۔۔۔ فرائڈ اور ایڈلر کی تحلیل نفسی۔ آرٹ برائے زندگی۔۔۔ ہنھ! یہ تو نہیں چلے گا۔۔۔ ان کھوٹے سکوں کو کون لے گا یہاں۔‘‘ اور ممتازہر روز منہ لٹکائے ہوئے گھر آجاتا ہے۔

    میں ٹکٹکی باندھے ہوئے، سامنے کی چھت پر بیٹھی ہوئی ایک نحیف و نزار بڑھیا کو دیکھتا رہتا ہوں جو دور سے مجھے ایک بت معلوم ہوتی ہے۔ یہ بت ہر روز صبح آکر چھت پر نصب ہوجاتا ہے اور شام تک آسمان کی طرف خلا میں گھورتا رہتا ہے۔ ممتاز نے مجھے بتایا تھا کہ ایک ہفتہ پیشتر اس بت میں جان بھی تھی۔ اس کا سانس بھی چلتا تھا۔ بولتا تھا، ہنستا تھا۔ چلتا پھرتا تھا۔ لیکن سنا ہے کہ اچانک ایک دن آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا۔۔۔ اور اس کی آنکھیں چندھیاگئیں، سانس رک گئی۔

    بڑھیا کا خیال ہے وہ ستارہ اس کے کلیجے کا ٹکڑا تھا لیکن سکھ غنڈے کا خیال ہے کہ سالا مسلمان تھا اور گردن زدنی تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس بت کو یہاں بھیج دیا تاکہ وہ یہاں مسلمان کے اس ملک میں جاکر اپنے اس ستارے کو ڈھونڈے اور وہ صبح سے شام تک آسمان کی طرف گھور گھور کر اپنی بے رونق، بے بنیاد اور سرد آنکھوں سے اسے ڈھونڈتی رہتی ہے۔

    آہ میں کیا کروں ممتاز! تم فسادات کی خبروں پر تبصرہ مت کیا کرو! مجھ میں سننے کی تاب نہیں رہی۔ تمہارے تبصرے میں ایک خلا ہوتا ہے اور وہ خلا صرف ’’اچھا‘‘ ہی پورا کرسکتا ہے۔۔۔ اور تمہارا ’’اچھا‘‘ تمہیں مل جائے گا۔ تم کہتے ہو کہ میں تمہیں کھوکھلی تسلیاں دے رہا ہوں۔ میرے دوست! تم میں ایک حیرت ناک تبدیلی آرہی ہے۔ ہمارے اندر کا افلاطون مرگیا ہے۔ تم ایک تڑپتا ہوا پارہ بنے ہوئے ہو۔ تم کو اپنے اوپر اعتماد نہیں رہا۔ میں محبتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہوجاتے ہو۔ تم مجھے بھی پاگل کردوگے اور اپنے آپ کو بھی۔ لیکن میں پاگل نہیں ہونا چاہتا۔ میں چلاجاؤں گا؟ میں تمہارے ہاں سے چلاؤں گا ممتاز؟؟

    آج شام کو میں قتیل کے یہاں گیا تھا۔ اس رومانوی شاعر کے ماتھے پر ایک شکن بھی نہیں آئی تھی۔ بلکہ اس کے گھنگھریالے بالوں میں ایک تازہ اور نیا نیا سا نکھار پیدا ہوگیا تھا۔ چہرے پر ایک نئی تابندگی کی لہریں دمک رہی تھیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنی ہندو ایکٹریس دوست کے ساتھ آج شادی کرلی ہے۔ محلے کی مسجد میں مولوی نے پانچ روپے لے کر نکاح پڑھادیا تھا اور کہا تھا اگر اب کلمہ شریف پڑھنے کے بعد بھی کوئی اس کو ہندو لڑکی سمجھ کر قتل کرنا چاہے تو مجھے خبر کردینا۔ میں انہیں ٹھیک کردوں گا۔۔۔ میں نے کہا قتیل! مولوی کی بات چھوڑو، تم نے پانچ روپے میں ایک انسان کی جان بچالی۔ میرے لیے یہی احساس مسرت کافی ہے۔۔۔ ہاں! یہ بتاؤ تمہارے چہرے پر یہ جلال کیسا ہے؟ ’’رومانس کی تکمیل!‘‘ قتیل نے آسمان کی طرف سگریٹ کے مرغولے اچھالتے ہوئے جواب دیا۔

    قتیل کو اب ایک نئے مکان کی تلاش تھی کیونکہ مسلمان مالک مکان نے اسے کہا تھا کہ تم ایک ہندولڑکی کے ساتھ بیاہ کرکے، اس مکان میں نہیں رہ سکتے، ورنہ غنڈے میرے مکان کو بھی فلیتہ دکھادیں گے۔

    ۲۹/اگست

    مجھ سے بیٹھا نہیں جاتا تھا۔ یہ بت تویونہی خلا میں گھورتا رہے گا۔ اور ستاروں کی تلاش کرتا رہے گا۔۔۔ لیکن اب ٹوٹا ہوا ستارہ اسے کہاں ملے گا؟ میں ایک بے چینی کے عالم میں گھر سے باہر نکل کھڑا ہوا۔ گردوپیش کی زندگی میں ابھی تک وہی جمود اور وہی ٹھہراؤ تھا۔ لیکن اس ٹھہراؤ میں ایک نئی قسم کی چہل پہل نے جنم ضرور لے لیا تھا۔

    اس چہل پہل میں ایک پیچیدگی ایک تھکن سی تھی۔ وائنٹن اسکول میں پناہ گزینوں کے لیے ایک کیمپ کھل گیا تھا۔ اور کیمپ کھلنے سے ایک نیا ہنگامہ سا برپا ہوگیا تھا۔ لوگ آرہے تھے، جا رہے تھے۔ لاشوں سے بھری ہوئی کئی لاریاں میرے سامنے سے گزریں جو خون سے لت پت تھیں۔ یہ لاشیں ہندوستان والوں نے پاکستان والوں کی طرف آزادی کی سوعات کے طور پر بھیجی تھی اور سوغات قبول کرنے والے خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ ان میں ایک چہل پہل سی بیدار ہو رہی تھی۔۔۔ جیسے ان کے چہرے کہہ رہے ہوں ہم اپنے دوستوں کے گھر میں اس سے بھی عمدہ اور عظیم سوغات بھیجیں گے تاکہ برادری میں ناک نہ کٹ جائے۔ محبت کا ایک بیکراں دریا امنڈتا ہوا بڑھ رہا تھا۔۔۔ یہ محبت کس قدر خوفناک تھی۔ اس کی لہروں میں رقص اور آہنگ کا توازن نہیں تھا۔ جیسے زور زور سے کوئی کسی کے کندھے جھنجھوڑ دے اور کہے مجھ سے محبت نہیں کروگے تو چھرا گھونپ دوں گا۔

    میں بڑھتا گیا، چلتا گیا، دیکھتا گیا اور نگاہوں کو اپنے محبوب اور آشنا لاہور سے کئی مرتبہ پھر مانوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ یہ عمارتیں کس شہر کی ہیں؟ یہ سڑکیں کہاں سے لائی گئی ہیں، یہ آدمی کدھر سے گھس آئے ہیں؟ جی چاہتا ہے چوراہے پر کھڑا ہوکر زور زور سے چلانا شروع کردوں بھائیو! وحشیو! میرے شہر سے نکل جاؤ! اور اپنے آبا و اجداد کے جنگلوں میں جاکر بس جاؤ۔۔۔ تمہیں شہر میں آنے کے لیے کس نے کہا تھا۔ جنگلیو! جاؤ جہاں سے آئے ہو وہیں چلے جاؤ کہ تمہیں انسان بننا ابھی میسر نہیں آیا۔

    لیکن میں چوراہے پر زور زور سے نہ چلا سکا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ اب لاہور میں ایک بھی ہندو سکھ نہیں رہ سکتا۔۔۔ کیوں؟ آخر کیوں؟ میرے دماغ پر ایک ضرب سی پڑی۔ کیوں۔ آخر میں یہاں کیوں نہیں رہ سکتا۔۔۔ میں، کہ ان گلیوں میں گھوما ہوں۔ ان سڑکوں پر اپنے نغموں کے نقوش ثبت کیے ہیں۔ ان عمارتوں کی چوٹیوں میں میرے آنسوؤں کی چمک، میرے قہقہوں کی گوجیں، میری مسکراہٹوں کے پھول پوشیدہ ہیں۔

    مجھے یہاں رہنے سے کون روک سکتا ہے؟ نہیں، نہیں، میں نہیں جاؤں گا۔ پاگلو! میں اسٹیٹ کی ذمہ داری تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ میں نے یہاں ذہنی ریاضت کی ہے میں نے یہاں کے در و دیوار میں اپنے زنگ بھرے ہیں۔ یہ میرا شہر ہے میرا۔ تم کیا جانو؟ کسی کا شہر کیسا ہوتا ہے؟ جاکر جواہر اور جناح سے پوچھو تو سہی کہ انھوں نے کبھی میری طرح ان سڑکوں کی اینٹوں کا لمس محسوس کیا ہے؟ کبھی تو ان کی نظریں اس چوراہے کے زاویوں اور موڑوں سے ٹکرائی ہیں! ان سے مانوس اور محبوب لذت اخذ کی ہے۔۔۔؟ اگر نہیں تو انہیں کیا حق ہے کہ مجھے یہاں سے نکل جانے کا حکم دے سکیں۔

    مال روڈ پر ایک کونے پر سستاتے ہوئے تانگہ بان سے میں نے پوچھا، ’’بابوجی اسٹیشن چلوگے؟‘‘ تانگہ بان مسلمان تھا، لیکن اگر وہ مسلمان تھا تو مجھے دیکھ کر اس نے چھرا کیوں نہیں بھونکا۔ نہیں، نہیں یہ مسلمان کبھی نہیں ہوسکتا۔۔۔ میں حیرت کے ساتھ اچک کر تانگہ پر سوار ہوگیا۔ تانگہ اسٹیشن کی طرف چلنے لگا۔ وہی راستہ تھا، وہی سڑک تھی، وہی خم تھے اور وہی موڑ۔۔۔ کہیں بھی ہندو یا سکھ کا نشان نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ اتنی بڑی مخلوق کہاں سماگئی آخر؟؟ کہتے ہیں چار لاکھ کے قریب ہندو سکھ اس شہر میں رہتے تھے۔ چار لاکھ! وہ کدھر گئے؟ اور تانگے والے نے بھی یقین اور اعتماد کے ساتھ بتایا کہ وہ سارے کافر کیمپوں میں چلے گئے ہیں۔

    اسٹیشن۔۔۔ لاہور کا عظیم الشان اسٹیشن گنگ بنا ہوا تھا۔ جیسے کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو۔ خاموش صُمٌّ بُکمٌ۔ ہزاروں آدمیوں کے شور وغل سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ لیکن یہ نیا اور اجنبی شور و غل اسٹیشن کی خاموشی کو ختم نہیں کرسکا تھا۔ اسٹیشن کے اردگرد نئی قسم کی آہنی باڑھ لگادی گئی تھی اور اس پر ملٹری کا پہرہ تھا۔ اور لوگ پلیٹ فارم سے زخمیوں کو لارہے تھے۔ چیخ رہے تھے، آنسو بہا رہے تھے۔ آہ و بکا اور کراہوں سے اسٹیشن ماتم کدہ معلوم ہوتا تھا۔ ریلیف کیمپ بھی لگا ہوا تھا اور والنٹیر لاریوں میں بھر بھر کر زخمیوں کو لے جارہے تھے۔

    میں نے سر کو ایک زور کا جھٹکا دیا جیسے کوئی گرد و غبار کو جھٹکتا ہے اور پھر بڑے اطمینان کے ساتھ معمولی اور روزمرہ کی سی کیفیت اپنے اوپر طاری کرکے میں بکنگ آفس کی طرف بڑھا۔ بکنگ پر کوئی غیرمعمولی تعینات تھا، کوئی فوجی تھا شاید۔

    ’’ملتان کا ایک ٹکٹ۔۔۔‘‘ اور فوجی کلرک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میری طرف متحیر نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ شاید وہ سوچ رہا تھا کہ اس شخص کو اتنا بھی علم نہیں کہ آج دُنیا وہ نہیں رہی جو کل تھی۔

    ’’گاڑیاں بند ہوچکی ہیں!‘‘ اسے اپنے جواب کی صداقت پر کتنا بھروسہ تھا۔

    میں پھر مال روڈ پر آگیا۔ کافی ہاؤس بند تھا۔ چائنا لنچ ہوم بھی اور سامنے کی سڑک سنت نگر کو جاتی تھی، جہاں میرا گھر تھا۔ نہ جانے کیوں لمحہ بھر کے لیے آج مجھے اس سڑک کی اجنبیت کا احساس ہوا اور پھر جی کڑا کر کے میں اس طرف ہولیا۔ سنت نگر کی ساری آبادی میں ویرانی تھی۔ ایک متنفس بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ایک سانس بھی چلتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہر ایک مکان تالوں سے آراستہ ہوچکا ہے، میں نے کئی مکانوں کے دروازے کھٹکھٹائے لیکن سوائے کوؤں کائیں، کائیں اور بھوکے پیاسے پرندوں کی چیخوں کے مجھے کوئی جواب نہ ملا۔

    سب لوگ چلے گئے تھے۔ یہ سب لوگ کتنے بے رحم تھے، اپنی گلیوں کو سونا کر گئے تھے۔ یہاں پان والے کی دکان تھی، یہاں ہسپتال تھا۔ یہاں ایک بڑھیا بیٹھ کر چرخا کاتا کرتی تھی۔ یہاں بوڑھا موچی پھٹے پرانے جوتوں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ وہ سب چلے گئے، سب کے سب۔ گلیوں کے نل ابھی تک پانی کی دھاریں چھوڑ رہے تھے جیسے مجھ سے پوچھ رہے ہوں، شاعر! ہمارا یہ اُجلا اُجلا شفاف پانی بے کار جارہا ہے، اس دیس کے وہ پیاسے کہاں گئے؟ تم ہی ایک گھونٹ پی لو۔۔۔! میں نے بے تابانہ بڑھ کر نل سے پانی کا ایک گھونٹ پی لیا۔

    ملٹری کے سپاہی چوکوں پر کھڑے اس ویرانی کو شاید سنبھالا دے رہے تھے۔ گائیں اور بھینسیں منہ اٹھائے آوارہ پھر رہی تھیں۔ ان کی چھاتیوں میں دودھ بھرا ہوا تھا لیکن اس سیم رنگ شیریں اور حسین دودھ کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ساری فضا یتیم ہوچکی تھی۔ جنت اجڑ چکی تھی اور آد و حوا نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔

    ایک بار پھر میرا جی چاہا کہ ایسے زور سے قہقہہ لگاؤں کہ ان مکانوں کی چھتیں اڑجائیں۔ نل سے چھوٹتی ہوئی پانی کی دھاریں سیلاب بن کر، بلند ہوکر بادلوں سے مل جائیں اور جب میں آنکھیں کھولوں تو ایک ہو کا بیابان میرے سامنے ہو۔ اور میں تنہا، اکیلا اس بیابان میں ایک نئی وادی کی تخلیق کروں۔ ایک نئی زندگی کو جنم دوں، نئے پھل پھول اور گاؤں اور۔۔۔ اور۔۔۔ لیکن میرا قہقہہ رک گیا۔ کیونکہ جب میں نے آنکھ کھولی تو میں ہندو سکھ پناہ گزینوں کے کیمپ میں کھڑا تھا۔ جنت چھوڑ کر آدم و حوا یہاں دوزخ میں آبسے اور خوش تھے کہ ان کا دھرم بچ گیا۔۔۔ ایک ہاؤ ہو۔ ایک چیخ و پکار۔ ایک شور و غل۔ لوگ ٹرکوں پر سامان لاد کر کہیں جارہے تھے۔۔۔ سراسمیگی اور پریشانی اور اضطراب کے ملے جلے سائے چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔

    کہاں جارہے ہو دوستو! رشیوں منیوں کی اولادوں کہاں جارہے ہو؟ سب کے چہروں پر ایک مبہم سا فتح مندانہ تبسم دکھائی دے رہا تھا۔ ’’ہم ہندوستان جارہے ہیں۔ اپنے ملک میں، اپنے دیس میں!‘‘ اور میں اپنے دیش باسیوں کے کیمپ سے نکل کر بدیس ملک میں آگیا۔ ممتاز ابھی تک نہیں آیا۔۔۔ وہ شاید اپنی محبت کو لاری والے پٹھان کے چنگل سے ابھی تک نہیں چھڑا سکا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے