Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا

قرۃالعین حیدر

چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا

قرۃالعین حیدر

MORE BYقرۃالعین حیدر

     

    یادایک ایساپرسکون اورطوفانی، شفاف اورگدلاسمندر ہے جس کی تہہ میں ان گنت شکستہ جہازوں، جگمگاتے خزانوں اورلاشوں کے شہرخموشاں دفن ہیں۔

    ان زیر آب بلوریں محلات میں سمندری پھول تیرتے پھرتے ہیں۔ سبز اور نیلی موجوں کے عکس ان ایوانوں میں لہریں مارتے ہیں اورزمرد کی روشنی میں مونگے کی چٹانوں کے پیچھے چھپی جل پریوں کی آوازیں اس سیال، ابدی سناٹے میں مدھم مدھم گونجتی ہیں۔ (یہ آوازیں اگرآپ ساحل پرکوئی سیپی اٹھاکرکان سے لگائیے توآپ کو سنائی دیں گی۔) منور، نازک سنہری مچھلیاں اورہیبت ناک شارک چکرکاٹتے ہیں اوروقت کے نیے طوفانوں میں نیے طوفان ڈوب کراسی تہہ میں جابیٹھتے ہیں۔ مزید لاشوں اورمزیدخزانوں کے انبار کا اس زیر آب شہر خموشاں میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔ وقت کے ساتھ تہہ میں پڑی پرانی لاشیں اور گہرائی میں ڈوبتی چلی جاتی ہیں، ان کی شکلیں مدھم ہوجاتی ہیں، جواہرات ماندپڑجاتے ہیں اور شکستہ جہاز کِھیل کِھیل ہوکرپانی میں گھل جاتے ہیں۔ اسے ’’بھول جانا‘‘ کہاجاتاہے۔ 

    ایسا صدیاں گذرنے پربھی ہوتاہے اورایک ایک برس یا ایک مہینہ گذرنے پر بھی۔ بھول جانے یا یاد رکھنے کی کوئی مقررہ میعاد نہیں۔ انسان ہزاروں اورصدیوں کے پیمانے سے اپنے اجتماعی ماضی کوماپتا ہے۔ اس کی اپنی عمر اس قدر مختصر ہے کہ وہ اپنے تصورزماں کواپنے محدود پیمانہ وقت سے ہی ماپ پاتا ہے، اور اسی کو بے چارہ بہت اہم سمجھتاہے۔ وقت کے محدود تجربے کو، جواس کی تیزرفتار زندگی سے مترادف ہے، وہ تاریخ کی مجموعیت کے پس منظرمیں دیکھنے کی کوشش کرتاہے اور سمندر سنسناتارہتاہے۔ اس سے مفر نہیں تاوقتیکہ آپ خود، دوسروں کے لیے ایک یادبن کر اس تہہ سے جالگیں۔ 

    *

    ۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم میں کانگریس کے عدم تعاون کے اعلان کے موقع پر یوپی لیجسلیٹو اسمبلی میں اقبال سہیل اعظم گڑھی نے للکار کربرطانوی حکومت کو مخاطب کیاتھا، 

    ستم جوہوگا تودیکھ لیں گے۔ کرم کا بھانڈا تو پھوٹ جائے 
    بلا سے قزاق آکے لوٹیں یہ پاسبانوں کی لوٹ جائے 
    اچک لے شاہیں تو غم نہیں ہے قفس توکمبخت ٹوٹ جائے 

    اس وقت ساراہندوستان ایک عظیم قفس تھا لیکن اس سے چند سال قبل جب ہمارے جہازایس ایس مہاراجہ نے کلکتے سے لنگر اٹھایاتو مجھے معلوم نہیں کیسے اور کن متضاد نظریوں کے تحت آزادی کی لڑائی لڑی جارہی ہے۔ اورہِنسا اوراہِنسا کے کیامعنی ہیں۔ والد کے دوستوں میں سے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی اورحسرت موہانی کے لیے سنا ہے کہ ابھی ابھی برآمدے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے، ابھی معلوم ہواکہ جیل چل دیے۔ ہمت والے لوگ تھے۔ اور ان ہی دنوں جب یہ خبرآتی کہ ’’کسی انقلابی نے وائسرایے بہادرپربم پھینک دیا، دھڑادھڑ گرفتاریاں ہورہی ہیں، ان کے گھروں پرسناٹا چھاجاتاکہ نہ جانے کس مائی کے لال نے پھانسی کی جے مالاپہننے کی سعی کی ہے۔ یہ ہنساوادی یعنی انقلابی یادہشت پسند کہلاتے تھے۔

    چنانچہ جب روشنیوں سے جگمگاتا جہاز (جس کے عرشے پر گوانی بینڈ’’رول برٹینا‘‘ بجارہاتھا اورعالمگیر اقتصادی کسادبازاری کا غم غلط کرنے کے لیے صاحب اورمیم لوگ بارپربیٹھے بے تحاشا شراب پی رہے تھے، یاہال روم میں ناچ رہے تھے، کیونکہ بہرحال سرسراتے پام اورپگوڈاٹری کے جھرمٹوں میں گھری یہ رومان پرور نو آبادیاں برطانوی امرا کے ’’چھوٹے بیٹوں‘‘ کے ایڈونچرز اور مالی بہبودی کے لیے ابھی سالم ومحفوظ تھیں۔ سمرسٹ ماہم اورایلولین واے کے ناولوں کا مشرق تھا۔ لندن کے اخباروں میں بکری ساتھ لیے ’’ننگے فقیر‘‘ گاندھی کی تصاویر شائع ہوتیں جوامپائربیخ کنی کے درپے تھا۔ نئی دلی کے وائسریگل لاج کے ’’مغل باغات‘‘ میں لیڈی ولنگڈن سفیدسایہ پہن کروالیان ریاست کے ساتھ چائے پیتیں اور کیتھرین میو کامدرانڈیاکب کاچھپ چکاتھا۔) سبزرنگ کے پانیوں میں داخل ہواتواچنبھا مجھے محض اس بات پرہواکہ سمندراتنا وسیع ہے۔ ’’جانے کتنے مزدورلگے ہوں گے تب جاکر اسے کھودا گیاہوگا۔‘‘ میں نے اظہار خیال کیا اورریلنگ میں سے سرنکال کرلہروں کودیکھاکی۔ 

    صاحب لوگوں کے اس جہاز پرہندی غلاموں میں ہم لوگوں کے علاوہ دوسرا کنبہ مولانارب نواز کاتھا۔ مولانا رب نوازپورٹ بلیئر کے کسی سرکاری محکمے میں آفس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ پورٹ بلیئر کی مسجد کے پیش امام اورواعظ بھی تھے اور رخصت ختم ہونے کے بعدانڈمان واپس جارہے تھے۔ وہ سنہری کلاہ، اونچے طرے اورطویل شملے والی ریشمی پگڑی باندھتے تھے اورشلوار فراک کوٹ پہن کراس کے ساتھ ٹائی بھی لگاتے تھے۔ اورفرنچ کٹ داڑھی رکھتے تھے۔ 

    یہ ملکی سیاست کاغالباً بہت ہی نازک دورتھا۔ اکثروہ زینے پرآکراور صاحب لوگ پردورسے ایک نظر ڈال کرزمیندار اخبارکاپلندہ والد کوتھمادیتے اور چپکے چپکے سیاسی تبادلہ خیالات کرتے رہتے۔ مجھے ان کا حلیہ دھندلاسایاد ہے مگریہ سب تفصیلات بڑے ہونے پر والد نے بتلایاکہ (مولانارب نواز اس دور کے لاہورکی نفیس تہذیب کے پروردہ تھے۔ عربی و فارسی کے عالم تھے۔ بڑے سچے مسلمان باشعور اور حساس انسان تھے۔ اورپیٹ کی خاطرانہیں سرکار کی کلرکی کرناپڑرہی تھی)مولانا کی بی بی ڈھیلی ڈھالی ریشمیں شلوارقمیص میں ملبوس نچلی منزل میں اپنے کیبن میں بند رہتی تھیں۔ مولانا کی بچی فرخندہ جمال میری ہی جتنی رہی ہو گی۔ وہ اکثر کھیلنے کے لیے اوپرعرشے پرآجاتی اور اس کے جانے کے بعد میں پھر جاکر ریلنگ پر ٹنگ جاتی۔ (جہاز کی بھٹی کے مانند گرم ’’ہولڈ‘‘ میں جیل خانہ تھا۔)

    *

    چندروزبعد افق پرجزیرے نمودارہوئے۔ مونگے کی چٹانیں۔ ناریل کے جھنڈ اور سرسبز، ٹروپیکل پہاڑ۔ پورٹ بلیئرکی بندرگاہ قریب آئی۔ بہت سی ڈونگیاں اورموٹر لانچیں جہاز کی سمت بڑھیں۔ بندرگاہ کی عمارت پریونین جیک لہرارہاتھا۔ پولیس کے اینگلوانڈین اورکالے سپاہی بندوقیں اٹھائے پہرے پرمستعدتھے۔ سفید سولاہیٹ پہنے صاحب لوگ رپ رپ کرتا جیٹی پرپھررہاتھا۔ 

    بینڈنے ’’رول برٹینا‘‘ دوبارہ چھیڑا اور جہاز کنارے سے لگ گیا۔ صاحب میم لوگ نیچے اترے۔ مولانا رب نواز کی بی بی بھی سفیدشٹل کاک برقعے میں ملفوف، پھلوں کی ٹوکریاں سنبھالے اپنے کیبن سے نکلیں۔ نیچے جیٹی پر پہنچ کر مولانا نے فرخندہ جمال کوکندھے پربٹھالیا اور بی بی کے آگے آگے چلنے لگے۔ 

    آخر میں ہولڈ میں سے پایجولاں قیدی نکالے گئے۔ یہ انقلابی نوجوان عمرقید کاٹنے کے لیے ایشیا کے سب سے بڑے قیدخانے سیلولرجیل لے جائے جارہے تھے۔ 

    *

    ہمار امکان بورہ بنگلہ ایک سرسبز پہاڑی کے اوپرجھلملارہاہے۔ پیچ دار سڑک پرسے اس کے پھاٹک تک پہنچنے کے لیے ایک جاپانی وضع کے پل پرسے گذرنا پڑتا ہے۔ مکان اونچے اونچے چوبی کھمبوں پرایستادہ ہے۔ اس کا نام غالبا’’بڑابنگلہ‘‘ کی بگڑی ہوئی بنگالی یاانگریزی شکل ہے۔ احاطے میں سامنے کی جانب ربڑ کے درختوں کاجھرمٹ ہے۔ بڑے بڑے فرانسیسی دریچوں والے برآمدے میں سے سمندر نظر آتاہے جس کی لہریں باغ کی ڈھلان سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ پرائیویٹ جیٹی پرکھڑی نیلے پردوں والی سفیدسرکاری لانچ لہروں پرڈولاکرتی ہے۔ ’’بارہ بنگلہ‘‘ چوبی اونچی عمارت ہے، اس لیے نچلی منزل میں جوصرف چوبی کھمبوں کے ایک جنگل پرمشتمل ہے۔ مسلح گارڈ کے علاوہ چھوٹا سافائیرانجن اور آگ بجھانے والوں کاعملہ بھی مستعد رہتاہے۔ مکان کے عین عقب میں کاجو کے درختوں سے ڈھکاہوا اونچا پہاڑہے۔ 

    *

    انڈمان کے یہ جزیرے اورپہاڑ دراصل برما کے ارکاکن یوما پہاڑوں کے زیرسمندر سلسلے کی سات سومیل تک پھیلی چوٹیاں ہیں، جوسطح آب سے ابھرآئی ہیں۔ کرہ ارض کی تشکیل اور طبعی تبدیلیوں کے دوران پہاڑ کے پہاڑ انڈر گراؤنڈ ہوجاتے ہیں اورکبھی کبھی جوالامکھی کے بھیانک پہاڑبھاپ میں نمودارہوکر پھٹ پڑتے ہیں۔ جیولوجیکل وقت میں گھری انسان کی زندگی چیونٹی کی عمر سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ 

    دوسوجزیروں کے اس جھرمٹ میں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ 

    ہم ایسے پہاڑوں کی چوٹی پر رہ رہے ہیں، جوسارے کے سارے نیلے سمندروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ 

    انڈومان ملایائی زبان کی ہندومان کی انگریزی شکل ہے۔ ہندومان ملایائی زبان میں ہنومان جی کوکہتے تھے۔ راماین کا جنوب مشرقی ایشیا خصوصاً سیام اورکمبوڈیاوغیرہ کی تہذیب پرصدیوں سے بہت گہرا اثررہاہے۔ 

    ’’ہنومان جی اپنے بندروں سمیت یہاں بھی پہنچے تھے؟‘‘ بھائی نے گارڈ کے حوالداررام چندرسے پوچھا، جوفیض آبادیعنی اجودھیاکاباشندہ ہے۔ 

    جی ہاں بابا۔ کون جانے لنکاتک پل بناتے بناتے کودتے پھاندتے یہاں بھی آگئے ہوں۔ بجرنگ بلی ہی جوٹھہرے۔ آکھر ایک سنجیونی بوٹی کھاکر بھگوان نے سارا پہاڑ ایک ہتھیلی پر اٹھالیاتھا کہ نہیں؟ ہمیں تولگتاہے کہ گُسے میں آکر ان جوالا مکھی پہاڑوں کوبھی انہوں نے ہی ساگر میں ڈبودیا۔‘‘ 

    رام چندر نے اپنی لمبی لمبی نوکیلی مونچھوں پر ہاتھ پھیرکر شفقت سے جواب دیا۔ جغرافیہ کی کتاب میں بھائی نے اسی روزپڑھا تھا کہ سفیدفام یوروپین آریوں نے جنوب کی سیاہ اقوام کوحقارت سے بندرکہاتھا کیونکہ وہ قدیم ترین نیگرٹونسلیں وادی سندھ، دکھنی بھارت اورلنکا سے لے کر ملایا اور آسٹریلیاتک بسی تھیں اورجزائرانڈومان نکوبار کے یہ ’’ہنومان‘‘ یعنی بندرنما وحشی قبائلی اسی قبل ازتاریخ نسلی خاندان کے افرادتھے۔ (اینتھروپولوجی کے ماہرین کے مطابق انڈومان کے قبیلے دنیا کی اولیں نسل انسانی کے آخری بچے کھچے افرادتھے۔) مگرحوالدار رام چندرجی کی اوروہ ہنومان جی والی بات زیادہ میرے جی کولگی۔ 

    *

    کورومنڈل، بنگال، مالابار، سوراشٹر، سندھ اور لنکا کی بندرگاہوں نے حضرت سلیمان کی سلطنت اوربحیرہ روم کے ممالک اور بابل ونینوا سے تجارت کی تھی۔ فراعنہ مصر کی ممیاں ہندکی ململ اور سوتی چھینٹوں میں لپیٹی جاتی تھیں اورپوپ گریگری اعظم کے ترجمہ کیے ہوئے لاطینی عہدنامہ قدیم میں حضرت ایوب نے فرمایاتھا، ’’میری عقل وفراست کوہند کے رنگین کپڑوں سے تشبیہ مت دو۔‘‘ 

    گپتاتمدن سارے جنوب مشرقی ایشیا میں پھیلا تھا اورقرون وسطی میں عرب تاجر اور چاٹگام کے ملاح دنیا کے سمندروں پراپنے پھریرے اڑاتے پھرتے تھے۔ مگرجب مشرق کا زوال شروع ہوا اور دنیا کے بازاروں میں ہند کی تجارتی قیادت اور صنعتی دھاک ختم ہوچلی، تب بھی، حیدرعلی اورٹیپو سے قبل دلی کے مغلوں اور بنگال کے نوابوں کویہ خیال نہ آیاکہ بحری طاقت بھی کوئی شئے ہے۔ بے چارے حیدر علی نے نیوی بنائی اور ٹیپو نے مالدیپ پراپنے بحرے کوہیڈ کوارٹر قائم کیے مگراس وقت تک پانی سر سے اونچا ہوچکاتھا۔ 

    فرض کیجیے سارے جزیرہ نما کی حفاظت کے لیے نیوی موجود ہوتی تو سولہویں صدی میں یوروپین طاقتیں اس آسانی سے ملک میں نہ گھس آتیں۔ اب مثال کے طورپرہندومان دیپ ہی کولیجیے۔ اگرمغل گورنمنٹ نے یامانڈے کے بادشاہوں نے یہاں ایک بحری چوکی قائم کردی ہوتی اورجوپرتگالی ڈچ، فرانسیسی یا برطانوی جہاز ادھرسے گذرتا، اس میں بھوسہ بھردیتے۔ 

    چنانچہ برطانوی ایسٹ انڈیاکمپنی کے ایک نقشہ نویس آرچی بالڈبلیئر نے ایک ایک ٹاپو کی پیمائش کرکے یہاں ۱۷۸۸ میں نوآبادی قائم کی۔ ان زرخیز ٹاپوؤں پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں نے اپنی جان لڑادی کیوں کہ ہندومانی قبائل نے اپنے زہرمیں بجھے تیروں اوربھالوں کے ذریعے صاحب لوگ کی ایسی تواضع کی تھی کہ امریکہ کے ریڈانڈین، افریقہ کے حبشی اورآسٹریلیا کے بش مین نے بھی صاحبان عالی شان کا ایسابھرکس نہ نکالاہوگا۔ 

    لیکن انگریز کا اقبال بھی کیا شے ہے۔ صاحب جہاں پہنچتاہے وہاں گلزار کھلادیتا ہے۔ اب ان جزیروں پرخالص ولایتی ناموں والے بارونق اورخوبصورت شہرآباد ہیں۔ پورٹ کارنوالس، ایلفنسٹن ہاربر، پورٹ کیمپ بل۔ جیسے اپنے یہاں منٹگمری، ڈلہوزی کیمبل پور۔ 

    *

    پورٹ بلیئر میں اسکول نہیں تھے۔ لہذا ایک برمی نوجوان بھائی کو پڑھانے کے لیے آیاکرتا اور خوابناک آنکھوں سے سمندرکوتکتے ہوئے کبھی کبھی برما کی عظمت رفتہ کے قصے سناتا۔ ’’جانتے ہو! بنگال اور مشرقی ہند کے برطانوی نوآبادکار زیادہ تر اسکاٹش کیوں ہیں؟ اس لیے کہ اسکاٹ لینڈ کے اجاڑپہاڑوں پربھوکے مرتے تھے۔‘‘ وہ بڑا جوشیلابرمی تھا، ’’ہرچیز کی ایک اقتصادی وجہ ہے۔ کازاینڈ ایفکٹ۔۔۔‘‘ وہ ہوا میں انگلیاں گھماکر بتاتا۔ دس گیارہ سالہ بھائی کی سمجھ میں اتنی بڑی بڑی باتیں نہ آتیں تووہ اکتاکرچپ ہوجاتا اور سمندر کوتکنے لگتا۔ یاپھر اراکانی قزاقوں کے قصے سنانے لگتا جنہوں نے دوسوسال قبل یہاں اڈے بنالیے تھے اورمشرقی بنگال کی دریائی تجارت پرحملے کیاکرتے تھے۔ 

    ’’لیکن یہ پورٹ کیمپ بل جن بزرگ کے نام پربسایاگیاہے، ان سے بڑا بحری قزاق ساری دنیا میں نہ ہوگا۔ انہوں نے تو سارے برماہی پرقبضہ کرلیا۔ یہ سب۔۔۔‘‘ وہ باہیں پھیلاکر اوربجو کی طرح آنکھیں گول گول کرکے کہتا، ‘‘ یہ سارا ایشیاایک سلیومارکیٹ ہے۔ تم ہندوستانی مہنگے سلیوہو۔ ہم تم سے ذرا سستے سلیوہیں۔ بائی بائی۔۔۔ اور کرسی سے اچھل کر تیزی کے ساتھ زینے سے نیچے اتر جاتا۔‘‘ 

    یہ جزیرے۔۔۔ گوگاں اگریہاں آتا تو تاہیٹی کوبھول جاتا، اہل ہند کے لیے ’’کالاپانی‘‘ ہیں۔ غدر کے باغیوں کو عمرقید کی سزادینے کے لیے یہ جیل تعمیر کیاگیاتھا۔ ان جزائر کوچیف کمشنر کاصوبہ بنایاجاچکاہے۔ ۱۸۷۴ء میں لارڈمیووائسرائے ہندسلیولر جیل(جوعام طورسے سلورجیل کہلاتاہے) کامعائنہ کرتے ہوئے ایک قیدی شیرمحمدکے ہاتھوں مارے گئے۔ یہ ہندوستان کاپہللاسیاسی قتل تھا۔ اس صدی کے شروع سے ملک میں انقلابی تحریک چل رہی ہے اوردہشت پسندوں کو بغیرٹرائل کے کالے پانی بھیجاجارہاہے۔ 

    یہ مرجانی جزیرے سونااگلتے ہیں۔ گھنے جنگلوں کی قیمتی لکڑی، یورپ اور مریکہ ایکسپورٹ کی جاتی ہے، کافی اورچائے کی کاشت کے لیے ایشیا کے سب سے بڑے جیل کے ہزارہاقیدی کی بیگارموجودہے۔ 

    سامنے شیشوں والے برآمدے کے کونے میں پرانی وضع (اس وقت وہ نئی وضع تھی) کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے تومیں اسٹول پر چڑھ کر اس تک پہنچتی ہوں، ’’ہلو۔ ہلوجی ہاں ہم بارہ بنگلہ سے بول رہے ہیں۔‘‘ 

    ہمار ااس نظام سے کیساسمجھوتہ ہے؟ سمجھوتے کے کیامعنی ہیں۔ 

    ہم سب، ساری دنیا، ساری اقوام، نسلیں، مذاہب، فرقے، طبقے، ممالک، افراد، ہمارے خیالات، نظریے، تعصبات، فلسفے، ادبیات، علوم وفنون، ہماری مختلف الہیات، روحانی اورجذباتی تجربات، سیاسی، سماجی، تمدنی مسائل، ہماری اجتماعی اور انفرادی شخصیت ہماری خامیاں اورہماری خوبیاں، دشمنی اور دوستی، فتح و شکست، کمال اورزوال، دکھ اور سکھ، حسب نسب تاریخ کی وجوہ کے گنجلک، دھندلے، روشن، واضح، غیرواضح تفاعل کی پیداوارہیں۔ 

    رات بھر باغ کی کول تار کی سڑک پرگارڈ کے قدموں کی کھٹ کھٹ گونجتی ہے۔ لفٹ رایٹ۔۔۔ لفٹ رایٹ۔۔۔ ہالٹ حکم صدر۔۔۔ کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔ صبح سویرے سرپرسفیدرومال باندھے برمی مہترپہلو کے چوبی زینے پر نمودار ہوتا ہے اورنیچے بھگوتی چرن مالی کھرپا سنبھالے انگوچھا سرپہ لپیٹتاباغ میں پہنچ جاتاہے۔ بھگوتی مشرقی یوپی سے برآمدشدہ Indentured Labourسے تعلق رکھتا ہے اوراس کا سارا کنبہ دوپیڑھیوں سے کافی کے باغات میں کام کررہاہے۔ برطانوی پلانٹر جن کے مالک ہیں۔ لارڈکارنوالس کے نافذ کیے ہوئے استمراری بندوبست کی بدولت جب یوپی میں بھیانک قحط پڑا توآج سے ایک صدی قبل ہزارہافاقہ زدہ کسانوں کوجہازوں میں بھربھر کرنیم غلاموں کی حیثیت سے آسام، افریقہ، جزائرغرب الہند، فی جی اورماریشس میں اہل برطانیہ کے پلانٹیشر پرمزدوری کرنے کے لیے بھیج دیا گیاتھا۔ ان کی اولادآج بھی وہاں اسی حالت میں موجود ہے۔ بھگوتی انہی لوگوں کابھائی بند ہے۔ 

    جب سورج نکل آتاہے توپینٹری میں سے نور محمدبیرے کی چھینک اورگرجدار الحمدللہ کی آواز آتی ہے۔ نورمحمدضلع جھنگ کاباشندہ ہے اوراپنی بیوی اور اس کے عاشق کوکلہاڑے سے قتل کرکے یہاں تشریف لایاہے۔ بوڑھا نورمحمد ایک نیک دل اور دیندارانسان ہے۔ ہربات کے جواب میں ’’یوں جناب‘‘ کہتاہے جو’’بہت اچھا جناب‘‘ کامخفف ہے۔ نوجوان کلینراوربوڑھا خانساماں دونوں قاتل ہیں۔ یہ تینوں اچھے اورآزادقیدیوں میں شامل ہیں۔ ان کی مانندسرکاری مکانوں پر جوملازم برسوں سے کام کررہے ہیں، انہوں نے بھی زیادہ ترپنجاب کے کھیتوں میں آب رسانی کے جھگڑوں، آبائی عناد اورمعاملات حسن اورعشق کے سلسلے میں خون خرابہ کیاتھا۔ یہ سب سیدھے سادھے جوان، ادھیڑ، بوڑھے، ہندو، مسلمان، سکھ’’ہندوستانی‘‘ پنجابی اوردوسرے صوبوں کے لوگ ہیں۔

    تری سرکارمیں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے 

    *

    کتے کانام ایک مسئلہ ہے۔ یہ بے حد محبت شعارالسیشین ہمیں پچھلے انگریز افسر سے ترکے میں ملاہے۔ اس کا نام ٹیپوتھا۔ ’’ہم اسے آرتھر 1 پکاریں گے۔‘‘ والد نے فیصلہ کیا۔ 

    مگروہ آرتھر کے نام پربیوقوفوں کی طرح چپ بیٹھادم ہلاتارہتاہے کہ ٹیپو نہ پکاراجائے، اس لیے اب وہ گمنام ہی ادھرادھر پڑا پھرتا اورمتعجب اورپرامید نظروں سے سب کی شکلوں کوتکتاہے۔ 

    پرکاش چندکلینر پابندی سے شام کے وقت آرتھرکوساحل پر ٹہلانے لے جاتا ہے اورسرجھکاکراس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جانے کیاسوچتا رہتاہے۔ اس نے جے پور میں اپنی محبوبہ کے قاتل کومارڈالاتھا۔ پرکاش چند تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔ اکثرپنڈت رام پرشادبسمل شاہجہانپوری کا مشہورشعرزیرلب پڑھتا ہے،

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے 
    دیکھناہے زورکتنابازوئے قاتل میں ہے 

    ’’بھگت سنگھ اوررام پرشادبسمل اوراشفاق اللہ اور چندرشیکھر آزاد اور ان گنت نوجوان تختہ دار پرچڑھ چکے ہیں۔ اس وقت سارا ہندوستان بسمل کے اس شعر سے گونج رہا ہے اورمیں یہاں ذلت کی موت مروں گا۔‘‘ وہ سراٹھاکر کربھائی سے کہتا ہے۔ پھرکوئی سیپی اٹھاکرکان سے لگالیتاہے اور سمندرکی آواز سنتا رہتاہے۔ میں ادھر ادھر ریت پرماری ماری پھررہی ہوں اور خوبصورت بڑی بڑی کوڑیاں، سیپیاں اورگھونگھے جمع کرتی جارہی ہوں۔ تب پرکاش چندایک سیپی دورپانی میں پھینک کراچانک بھائی سے کہتا ہے، ’’بابا۔۔۔ آپ کومعلوم ہے جب سراج الدولہ کی شہادت کی خبرراجہ نرائن موزوں نے سنی تو انہوں نے کیاکہا۔۔۔؟ وہ۔۔۔ وہ ایک راجہ تھے پٹنے کے۔۔۔ اورشاعرتھے۔ یہ خبرسن کر، جس کے بعد سے ہندوستان کی دیپاولی بجھ گئی، انہوں نے کہا،

    غزالاں تم توواقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کے 
    دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گذری

    اورکپڑے پھاڑکرسرپہ خاک ڈالتے گھر سے نکل گیے۔ ادھر۔۔۔‘‘ وہ افق کی سمت باہیں پھیلاکر کہتا ہے، ‘‘ ادھر، اس ویرانے پرتب سے لے کر آج تک کیاگزری ہے اوراس وقت بھی کیاگزررہی ہے؟‘‘ اور پھرآرتھرویلز لے کوبلاکر چپ چاپ اس کی ٹہل میں مصروف ہوجاتاہے۔ اب سورج سمندر میں ڈوب چکا ہے اور بارہ بنگلہ میں روشنیاں جل اٹھی ہیں اور شفق کی سرخی ریت پرلہریں ماررہی ہے۔ میں اوربھائی سرجھکائے اکادکاسیپیاں اورکوڑیاں چنتے لان کی سیڑھیاں چڑھ کرگھر کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ 

    *

    ’’ڈیرجلیل! یہ توآپ سن چکے ہوں گے کہ میں نے پھر ہندوستان چھوڑدیا۔ دوبرس کے لیے جلاوطنی اختیارکرلی۔ یہاں فرصت ہے اورتنہائی،

    قیدخوداختیاری
    ہوں مبارک دوستو دنیا کی تم کووسعتیں 
    میری قسمت میں فقط اک تنگ زنداں رہ گیا
    ہم کوکیااہل خردہوں محو گل گشت چمن

    ’’چل دیے اہل جنوں خالی بیاباں رہ گیا‘‘ 

    انڈمان کا جزیرہ بہت بدنام ہے مگریہاں عیش بھی ہے۔ کالے آدمیوں کے لیے نہیں، جن کی قسمت میں محنت ومشقت کے سواکچھ نہیں بلکہ انگریزوں کے لیے۔ ان کی الگ آبادی ہے۔ بنگلے ہیں۔ سبزہ ہے۔ کلب ہے، جس میں میمیں اور انگریز ہر طرف نظرآتے ہیں مگر ہندوستانی شاذونادر۔ میں بھی اس کلب میں شامل کرلیاگیا ہوں۔ مگرچونکہ نہ ناچناآتا ہے نہ پینا۔ الوکی طرح بیٹھارہتاہوں،

    وہ کسی کے واسطے توہوگیا عشرت کدہ
    انڈمن کیوں ہند کا منحوس زنداں ہوگیا

    آپ لوگوں کی یاد اورتذکرہ ہروقت رہتاہے،

    سیدین و سرور و قدوائی کا ذکر وخیال
    درد بھی یہ ہوگیا اوریہ ہی درماں ہوگیا
    خاکسار

    سجاد 2

    *

    میں اوربھائی ساحل سے واپس آچکے ہیں۔ آرتھربرآمدے کے فرش پرلیٹا قناعت سے سستارہا ہے۔ دوردوسرے جزیرے پرجھلملاتے کلب کی روشنیاں دریچے میں سے نظر آرہی ہیں۔ حوالدار رام چندر ہمارے والدین اورمدراسی ہمسایے مسٹرومسز کیودر کولانچ پرپہنچاکر اندھیرے میں اپنی لالٹین چمکاتا ساحل سے واپس آرہا ہے۔ تاریکی گہری ہوچکی ہے اورچاروں کھونٹ سمندرکی سنسناہٹ خوفناک ہے۔ 

    رام چندر کے قدموں کی چاپ زینے پر سنائی دیتی ہے۔ بھائی برآمدے کے ایک سرے پرٹیبل لیمپ کے نیچے بیٹھے برمی ٹیچر کوسنانے کے لیے سبق یاد کررہے ہیں، جو کل سویرے پھرآجائے گا۔ روشن لانچ فراٹے بھرتی سمندر کی تاریکی میں غائب ہوجاتی ہے۔ رام چندر مونچھوں کے اندرمسکراتا برآمدے میں داخل ہوتا ہے اوربھائی کے پاس جاکربڑی رازداری سے کہتا ہے، ’’بابا۔۔۔ کل آپ لوگ ایک تماشا دیکھیے گا۔ مل ڈریے گانہیں۔‘‘ 

    ’’کیا ہے؟‘‘ بھائی موٹی چکرورتی میز پرپٹخ کرخوشی سے پوچھتے ہیں۔ 

    ’’کیا تماشاہے رام چندر؟ جلدبتاؤ۔۔۔‘‘ میں جواب تک کرسی پر کھڑی ہوکر دریچے سے باہر لانچ کودیکھ رہی تھی، فوراً چلاتی ہوں۔ 

    ’’ابھی نہیں۔ بیٹا کل سبیرے۔‘‘ اتناکہہ کر حوالدار رام چندر دوسرے زینے سے نیچے اترجاتاہے۔ کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔ دور پھاٹک پر ٹہلتے پہرے دار کی آواز بلند ہوتی ہے، ’’ہالٹ! حکم صدر!‘‘ کھٹ۔ کھٹ۔ کھٹ۔ 

    *

    وہ ایک قبائلی وحشی بچہ تھا۔ نہ معلوم کس طرح بھٹک کرآبادی میں آنکلا اور بارہ بنگلہ کی عقبی پہاڑی پرکاجو کے جنگل میں چھپ رہاتھا۔ نورمحمد تڑکے گجردم پہاڑی کی ایک چٹان پرجاکرنماز پڑھاکرتے تھے۔ سلام پھیرنے کے بعد ان کی نظر اس بچے پر پڑگئی، جوپتوں کی جھالرسی پہنے، چندجنگلی جڑیں کھاکراپنا پیٹ بھررہا تھا۔ نورمحمد کی آدھی زندگی پورٹ بلیئر میں گذرگئی تھی مگرانہوں نے اصل نسل وحشی پہلے کبھی نہ دیکھاتھا۔ وہ اسے پکڑنے کودوڑے مگربوڑھے آدمی تھے، اس کا تعاقب نہ کرسکے اوروہ چھلاوے کی طرح غائب ہوگیا۔ لیکن شام پڑنے تک اس نے ربڑ کے جھرمٹ میں سے ڈھونڈنکالا، جہاں وہ ایک درخت سے چمٹا، سہماہوا بیٹھاتھا۔ 

    صبح کووالدکے دفتر چلے جانے کے بعد رام چندر وعدے کے مطابق ہمیں تماشا دکھانے کے لیے اسے گھسیٹتے ہوئے اوپرلائے اور برآمدے کے چوبی فرش پراسے اس طرح چھوڑا جیسے بلی کے بچے یاپلے کو بوری میں سے نکال کرزمین پر رکھ دیتے ہیں۔ 

    وہ ایک نودس سالہ لڑکا تھا لیکن بے حد پستہ قدہونے کی وجہ سے چارپانچ سال سے زیادہ کامعلوم نہ ہوتا تھا۔ وہ ساحل کے راستے سے بآسانی اپنے جنگلوں کوواپس جاسکتا تھا مگرشایدوہ کوشش کرکے شہرآیاتھا۔ مہذب انسانوں سے خائف بھی تھا۔ ان کے ساتھ رہنا بھی چاہتا تھالیکن اپنی خواہش کااظہار کرنے سے قاصرتھا۔

    بارہ بنگلے کا سارا عملہ اس کے چاروں طرف جمع ہوگیا۔ کرہ ارض کی اولین نسل انسانی کا یہ نمائندہ ارتقا کی پہلی سیڑھی پرپہنچ کر ہزاروں برسوں سے اسی سیڑھی پر ٹھٹکاہواابن آدم، اردگرد جمع اپنے ترقی یافتہ رشتے داروں کوخوفزدہ وحشی جانور کی طرح تکتارہا۔

    ’’ہا۔ نگوڑابن مانس کیسے ٹکرٹکر سب جنوں کاتکت ہے۔‘‘ صدیق چپڑاسی کی بی بی مشتاقن نے، جو گھونگٹ کاڑھ کرسامنے آیا کرتی تھیں، بڑی ممتا سے کہا۔ 

    ’’تم ہی کادیکھت ہے ٹکرٹکر!‘‘ بھگوتی مالی نے کہا۔ 

    ’’اپنی موسی کاچیہن لیہس ہے بھرجائی!‘‘ رام چندر، کہ بہت پرمذاق تھے، مشتاقن سے بولے۔ مشتاقن پیٹ بھر کے بدصورت تھیں۔ ’’کالامنہ نیلے ہاتھ پاؤں۔‘‘ مشتاقن نے مصنوعی غصے سے کہا۔ 

    اتنے میں بھگوتی مالی کی بی بی گلبااور عزیزن آیابھی آن پہنچیں۔ 

    ’’ارے باپ رے۔ ای توبہوتے بھیانک ہے۔ جیس تیلی مسان۔ بدارواح۔ توبہ توبہ۔‘‘ عزیزن نے کہا۔ 

    ’’ادھر سمندر میں بہت جل مانس رہت ہیں۔‘‘ رام چندر نے مسکراکر مونچھوں پرہاتھ پھیرا۔ 

    ’’نابھیا! ہم کاناڈراؤ۔ ہم رات برات باہرنکلت ہیں۔ ’’عزیزن نے ہاتھ جوڑے۔ 

    ’’جل مانس ہوں کہ گج گینڈے۔ ہم کسی سے نہیں ڈرت ہیں۔ آہ۔ پچ پچ پچ۔‘‘ مشتاقن نے پیارسے چٹکی بجاکر بچے کوبلاناچاہا۔ اتنے میں نورمحمدباقاعدہ کھانے کی ٹرے لے کرآگئے اورپلیٹ اس کے سامنے رکھ دی۔ بچے نے اپنے جھبڑے بال جھٹک کر ان کی طرف دیکھا۔ چاروں ہاتھ پاؤں سے پلیٹ کی سمت چلا اور کھانے کوغور سے دیکھنے لگا۔ 

    ’’ہا۔۔۔ دکھیا چنڈال بن میں سانپ چھپکلی کھاکھاکر جیت ہیں۔‘‘ بی مشتاقن بولیں اور اس کے لیے نولے بنانے کے ارادے سے اکڑوں بیٹھی ہی تھیں کہ اس نے گوریلا کے تھپڑکی طرح ایک ہاتھ رسیدکیا۔ مشتاقن زور سے چیخ مارکر وہاں سے بھاگیں۔ افراتفری مچ گئی۔ والدہ صبح سے مسزکیودر کے گھرگئی ہوئی تھیں۔ عزیزن انہیں بلانے کے لیے دوڑیں۔ رام چندر بچے کو اچھی طرح پکڑ کربیٹھ گیے اوراسے کھلانے کی کوشش کرنے لگے۔ 

    ’’جناب اسے کلمہ پڑھاکرمسلمان کرلیں؟‘‘ نورمحمد نے چپکے سے صدیق سے تجویزا۔ 

    ’’گورنمنٹ کاآرڈرنہیں ہے‘‘ صدیق نے اسی سرگوشی میں جواب دیا۔ 

    ’’کیا؟‘‘ 

    ’’جنگلی والاکوجنگلی والاہی رہنامانگتا۔۔۔‘‘ برمی مہتر نے نورمحمد کوسمجھایا۔ 

    ’’واہ اورمشنری لوگ کوآرڈر ہے کہ بنایے جاؤ سب کوکرسٹان۔ ابھی جاکر اسے چپکے سے مولاناصاحب کودے آتے ہیں۔‘‘ 

    ’’نورمحمد!‘‘ سلامت خان ہیڈکانسٹبل نے قریب آکر ڈنڈابجاتے ہوئے ذرا ڈپٹ کرکہا، ’’جاؤجاکر اپنا کام کرو۔‘‘ 

    ’’ہوں جناب۔۔۔‘‘ نورمحمد نے جھاڑن کندھے پرڈالا اور سرجھکائے پینٹری کی طرف چلے گیے۔ 

    ’’ہم بابالوگ کوتماسادکھائے کھاتر ای کااوپرلائے رہے۔ تماسا کھتم۔ پیسہ ہجم۔ چلیے کھان صاحب۔ ای کاجنگل ماواپس پٹھائے دیں۔۔۔‘‘ 

    *

    بچہ سرکاری قانون کے مطابق واپس لے کرجنگل میں چھوڑدیاگیا۔ ’’اس پر مضمون لکھ کر مسٹر۔۔۔‘‘ دوسرے روزبرمی ٹیوٹربھائی سے کہتا ہے۔ (’’ایک انڈمانی لڑکا‘‘ اورپورٹ بلیئر کے شب وروز کے متعلق ہوم ورک کے طورپر لکھے ہوئے بھائی کے Essays کی شکستہ اور پیلی کاپی بک کی مدد سے اس وقت میں یہ کہانی لکھ رہی ہوں۔‘‘ )

    جزائر کے گھنے اور ناقابل عبور جنگلوں میں قدیم آبادی صرف چندہزار رہ گئی تھی۔ متعدی بیماریاں جونوآبادکاراپنے ساتھ لائے تھے، اورانتھیروپولوجی کی اصطلاح میں ’’متمدن دنیا سے تعارف‘‘ کی وجہ سے قدیم حجری عہد کے یہ قبائل تیزی سے مررہے تھے۔ تاریک جنگلوں میں جن کے اندر سانپ اوربھیانک مگرمچھ ایسی چھپکلیاں سرسراتی تھیں، یہ بے چارے وحشی تیرکمان سے شکارکھیلتے پھرتے، ان کی بولیوں کاکسی لسانی گروہ سے تعلق نہیں تھا۔ اکثرقبائل کے یہاں بول چال ہی کاارتقانہیں ہوا تھااورآگ کے استعمال سے وہ ناواقف تھے۔ 

    اکادکا سیاسی قیدی درختوں کے کھوکھلے تنوں کی نادبناکر فرار کی کوشش کرتے مگر حکومت نے نسبتاًترقی یافتہ قبائل کوان کے تعاقب کے لیے مقررکررکھا تھا۔ اورزہر آلود تیروں کی زدسے بچ نکلنا مفرور قیدیوں کے لیے ناممکن تھا۔ (غالباً ایسی ہی صورت حال کے لیے میرابائی کہہ گئی تھیں‘‘ کوس کوس پرپہرہ بیٹھا۔ پنڈ پنڈ بٹ مار۔‘‘ 

    *

    اکثرشام پڑے ہم لوگ ہوا خوری کے لیے شہر کے قریبی جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔ پورٹ بلیئر اوراس کے پڑوسی شہرایبرڈین کی روشنیاں اندھیرے میں غائب ہوجاتیں اور کسی گھاٹی میں سے گذرتے ہوئے میں دفعتا ًناریل کی فرمائش کرتی۔ سڑک پرجاتا ہواقہوے کے پلانٹیشنر کاکوئی مزدورناریل کے درخت پر چڑھتا اور ناریل توڑکربندر کی سی پھرتی سے نیچے اترآتا۔ 

    کافی کے باغات سے نکل کرہم جنگلوں کی طرف رواں رہتے۔ دور کہیں آگ جلتی نظرآتی۔ سمندری ہوا ساحلی چٹانوں میں سائیں سائیں کرتی۔ راستے میں چاند نکلتا۔ 

    ’’چاندہمارے ساتھ ساتھ کیوں چل رہاہے؟‘‘ میں تعجب سے پوچھتی۔ 

    ’’آپ کوسلام کرتا ہوا جارہاہے۔‘‘ والدجواب دیتے۔ سارے جزیرے پرتاڑ کے سیاہ درختوں پر، ہری بھری پہاڑیوں پرتیزچاندنی پھیل جاتی۔ بانس کے جھرمٹ ہوا میں سرسراتے۔ 

    ہوائیں بھی میری دوست ہیں۔ 

    *

    کبھی کبھی اتوار کے روزشہر سے مولانا رب نوازمع فرخندہ اور شٹل کاک برقعے میں ملفوف اپنی بیوی کے ہمارے یہاں آتے اور شیشوں والے برآمدے میں بیٹھ کر والد سے باتیں کیاکرتے۔ کلام اقبال پڑھتے جاتے اورپگڑی کے شملے سے آنسو پونچھتے۔ جمعے کے روزمسجد میں مولانا کے وعظ مسلمان قیدیوں میں اس قدر مقبول ہوچکے تھے کہ انگریزوں کومولانا کی طرف سے فکرہوگئی تھی۔ 

    *

    ایک روزروس آئی لینڈ (Ross Island) پرحوالدار رام چندر کے ساتھ چیف کمشنر کے باغ میں سے گذرتے ہوئے اس کے بنگلے کے دریچے میں سے مجھے دوفل بوٹ نظرآئے جومگدر جیسے چوبی فرموں پرچڑھے ہوئے تھے۔ یہ مسٹراینڈرسن کی ٹانگیں ہیں جنہیں گھرپرچھوڑکروہ خودباہر چلے جاتے ہیں۔ میں نے سوچاا اور بے حد ڈری۔ 

    *

    بھائی کی کاپی میں لکھا ہوا ایک قدیم ’’نرسری گیت۔‘‘ 

    HOW MANY MILES TO BABYLON?
    THREE SCORES AND TEN
    CAN I GET THERE BY CANDLE-LIGHT
    YES, AND BACK AGAIN
    IF YOU HEELS ARE NIMBLE AND LIGHT
    YOU CAN GET THERE BY CANDLE-LIGHT



    اچانک بڑی گہماگہمی سی شروع ہوگئی۔ سلورجیل کے چندبنگالی انقلابیوں نے جیل کے حکام کی شدیدبدسلوکیوں کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کردی۔ ان سیاسی اسیروں میں قیدتنہائی کاٹنے والے بھی شامل تھے۔ ان میں سے کچھ نوجوانوں نے دم توڑدیا۔ شام کومیں نے دیکھاکہ مسٹراینڈرسن فٹ بوٹ پہنے کار میں سوار ہورہے ہیں، جوجاپانی پل کے نیچے کھڑی تھی۔ والد جزائرانڈومان نکوبار کے اسسٹنٹ ریونیوکمشنرتھے، ریونیوکمشنرایک انگریزتھا، کاتعلق جزائرکے محکمہ مالیات سے تھا۔ پینل سٹیلمنٹ کاانتظام علیحدہ اور صرف انگریزوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس کے باوجود جزیرے میں ممکن بغاوت کے خدشے سے بورہ بنگلہ کی گارددوہری کردی گئی۔ 

    دوسرے روزایک سیاسی قیدی اسٹریچر پرپڑاہوا نیچے گھاٹی کی سڑک پر سے گذرا۔ 

    ’’سدھیر کماربوس یہی ہے۔‘‘ پرکاش چندکلینرنے آہستہ سے برمی ٹیوٹر کوبتلایا۔ وہ دونوں بھائی کے ساتھ پہلو کے برآمدے کے جنگلے پربیٹھے ہوئے تھے۔ میں جنگلے کی جالی میں سے نیچے جھانک رہی تھی۔ 

    ’’سناہے کل بڑا صاحب خوداس کی کوٹھری میں گیاتھا، جوتا لات سے بات کرنے۔ اتناتویہ کمزور ہے۔ سینکیاپہلوان۔ مگرکھاٹ سے اٹھ کرپل پڑابڑے صاحب پر۔ صاحب بھاگاباہرسرپٹ۔‘‘ نورمحمد نے کہا، ’’اورپولس کوآرڈردیاکہ اسے خوب پیٹو۔‘‘ 

    ’’مسٹراینڈرسن اپنی ٹانگیں ساتھ لے گئے تھے تبھی توبھاگے سرپٹ۔‘‘ میں نے اطمینان سے جواب دیا۔ 

    ’’اب شایدٹھکائی کرکے ہسپتال لے جارہے ہیں۔ سول سرجن والے ہسپتال، مگرمرجائے گا۔‘‘ نورمحمد نے آہستہ سے کہا۔ آنکھیں پونچھیں، داڑھی پرہاتھ پھیرا اورپلٹ کرآوازدی، آجاؤ ٹیپو۔ ٹیپو۔ نہیں۔۔۔ توبہ۔۔۔ آرتھر۔۔۔ آرتھر۔۔۔ چلوراتب کاٹیم اوراندر چلے گئے۔ 

    *

    ایک روز ایام جاہلیت کا افسوس ناک خاتمہ ہوگیا۔ والدبرآمدے میں بیٹھے ہندوستان سے آئی ہوئی تازہ ڈاک دیکھ رہے تھے۔ میں فرش پر بیٹھی جہازی سائز کے نیے ادبی دنیا اورنیرنگ خیال کے ورق الٹنے پلٹنے میں مصروف تھی کہ غالباً نیرنگ خیال میں ایک الف لیلوی سے بازار کی رنگین تصویر پرنظرپڑی، جس میں قالین بچھے تھے اور حسین کنیز فروخت کی جارہی تھی۔ تصویر کے نیچے جلی حروف میں ایک شعر 3 لکھا تھا۔ میں نے تصویروالدکودکھاکران سے پوچھا، ’’یہ کیالکھا ہوا ہے؟‘‘ 

    انہوں نے چونک کرذرارنج کے ساتھ مجھے دیکھا اورکہا، ’’افسوس کہ یہاں آپ بالکل جاہل رہ جائیں گی۔ اب آپ کوپڑھنا شروع کردیناچاہیے۔‘‘ چنانچہ دوسرے دن مولانا رب نوازکوبلایاگیا۔ جب وہ برآمدے میں آن کر بیٹھے تونورمحمد نے فرط عقیدت سے ان کے ہاتھ چومے اور اپنی آنکھوں سے لگائے اورجلدی سے چائے اور مٹھائی لاکران کے سامنے رکھی۔ 

    ’’کڑی چارسال چارماہ چاردن دی ہوگئی اسے؟‘‘ انہوں نے دریافت کیا اورمطلع کیا کہ جمعے کے روز قاعدہ لے کرآئیں گے۔ 

    اب میں یہ سمجھی کہ قاعدہ گڑیاکا گھرہوگا۔ یہ بیوقوفی کی انتہاتھی۔ معلوم تھا کہ مولانا پڑھانے کے لیے آرہے ہیں مگرقاعدہ گڑیاکاگھرہوگا۔ قاعدے کوگڑیاکے گھرسے کیا نسبت ہوسکتی ہے! 

    دوسرے روزصبح بھائی نے آواز دی، ’’چلیے آپ کا قاعدہ آگیا۔‘‘ میں تیرکی طرح بھاگتی ہوئی برآمدے میں پہنچی۔ چنانچہ یہ ایک پتلی سی بے رنگ کتاب تھی، جس کے پہلے صفحے پرآم، بکری، پتنگ وغیرہ کی تصویریں بنی تھیں۔ 

    باقاعدہ بسم اللہ کی تقریب ہرگزنہیں ہوئی۔ کس واسطے کہ بسم اللہ، روزہ کشائی، سالگرہ وغیرہ کی رسوم بسلسلہ تحریک اصلاح معاشرت مدتوں قبل اماں ترک کی جاچکی تھیں۔ 

    لہذا اس طویل دریچے میں، جس کے باہرسمندرپر سفیدپرندے چکرکاٹ رہے تھے اورڈیوک آف ولنگٹن، لارڈآرتھر ویلزلے باغ میں گلہریوں کے تعاقب میں مصروف تھا، اور دورسلولر جیل میں گولیاں چل رہی تھیں، میں دریائے علم میں غوطہ زن ہوئی۔ 

    ’’کہو بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ شروع کرتا ہوں۔۔۔‘‘ مولانارب نواز نے قاعدے کے پہلے صفحے پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے ذراہل ہل کرکہا، ’’ساتھ نام اللہ کے۔‘‘ 

    ’’جی نہیں۔ شروع کرتی ہوں۔۔۔‘‘ میں نے اعتراض کیا۔ 

    ’’اچھاچھا پڑھو بیٹی آگے پڑھو۔‘‘ 

    ’’شروع کرتی ہوں ساتھ نام اللہ کے۔‘‘ 

    *

    ’’سارے ملک، خصوصا بنگال، یوپی صوبہ سرحدمیں واقعات کی رفتار تیز ہوگئی۔ ہزارہا ستیہ گرہی جیلوں میں بندتھے۔‘‘ 

    ’’دہشت پسندو ں کی وجہ سے بنگال کی حالت کانگریس کے لیے خصوصیت کے ساتھ زیادہ نازک تھی۔ دہشت پسندی نے ایسی فضا پیداکردی تھی جس میں پرامن ڈائریکٹ ایکشن زیادہ دشوارہوگیاتھا اورحکومت کے شدید ترین جبروتشدد کااثرانارکسٹ اورپرامن دونوں تحریکوں پریکساں پڑرہاتھا۔ پولس اورمقامی حکام وہ قوانین اورآرڈی نینس جودہشت پسندوں کے لیے بنائے گئے تھے، کانگریس مزدور اورکسان ورکرز پربھی لاگوکیے جارہے تھے۔ جیل کے بلوے روزمرہ کے واقعات تھے جس میں حکام نہتے سیاسی قیدیوں کومارتے پیٹتے تھے۔‘‘ 

    ’’جواہرلال نہرونے لکھا، دہشت پسندی کی مختلف زاویوں سے مذمت کی جاچکی ہے لیکن اس کے ایک ممکن نتیجے سے مجھے خاص طورپرڈرلگتا ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سارے ملک میں اچانک فرقہ وارانہ تشدد پھیل جانے کا خطرہ ہے۔ جس قوم میں مذہب سے اتنی شدید وابستگی ہو، اس قوم کے لیے دہشت پسندی کے تصورکا عادی ہوجانا بے حدخطرناک ہے۔ 

    سیاسی قتل بے حد بری شے ہے لیکن ایک سیاسی دہشت پسندکوسمجھابجھاکر دوسرے سیاسی راستے دکھائے جاسکتے ہیں۔ مگرمذہب کے نام پرقتل دینوی اور عالم بالا کے امورسے تعلق رکھتاہے اور ان معاملات میں سمجھانے بجھانے یاعقلیت پرستی کا راستہ دکھانے کی کوشش بھی بہت دشوار ہے اوراکثر اوقات ایک سیاسی قتل ایک مابعدالطبیعاتی طریقے سے نیم مذہبی حیثیت اختیارکرلیتاہے۔ آج دہشت پسندوں کی قوم پرستی فسطائیت امپیرلیسٹ فاشزم کامقابلہ کررہی ہے۔‘‘ 

    ’’میں نے اپنی تقریروں میں دہشت پسندوں کی سخت مذمت کی۔ لیکن دوسرے لیڈروں کی مانند ان لوگوں کوبزدل نہیں کہا۔ کیونکہ ایسے مردوں اورعورتوں کوجو اپنی جان کی بازی لگارہے ہوں، بزدل کہنا خاصی حماقت ہے۔‘‘ 

    ’’جب میں کلکتے سے روانہ ہورہاتھا تودونوجوان مجھ سے ملنے آئے۔ وہ مجھ سے بے حدخفاتھے کہ میں ان کی دہشت پسندی کے خلاف پرچار کررہا ہوں۔ وہ دونوں پیلے، نروس، ذہین چہروں والے نوجوان تھے۔ میری ٹرین کاوقت نزدیک تھا۔ انہوں نے کہاکہ وہ اپنے کام میں میری مداخلت برداشت نہیں کریں گے اوراگر میں باز نہ آیاتو جوحشرانہوں نے دوسروں کاکیاہے، اسی طرح وہ میرا بھی فیصلہ کردیں گے۔‘‘ 

    ’’اس رات کلکتے سے روانہ ہوتے ہوئے اورٹرین میں اپنی برتھ پر لیٹنے کے بعدمجھے ان نوجوانوں کے چہرے دیرتک پریشان کرتے رہے۔ جوش اورنروس انرجی سے بھرپور یہ لڑکے کیسے غلط راستے پرپڑگئے تھے۔ مجھے افسوس رہاکہ وقت اتنا کم تھا کہ ان نوجوانوں سے مفصل بات چیت کرکے ان کوملک کی خدمت اورحصول آزادی کے دوسرے راستے اختیارکرنے پرمائل کرسکتا تھا۔ ان راستوں پر ہمدردی اورقربانی کے مواقع کی کمی نہیں۔ پچھلے برسوں میں مجھے اکثران کا خیال آتا رہاہے۔ مجھے ان کے نام کبھی نہ معلوم ہوسکے۔ سوچتا ہوں کہ وہ شاید مرچکے ہوں یا انڈومان کی کسی کوٹھری میں پڑے ہوں۔ 4



    ہندوستان میں ستیہ گرہ جاری ہے۔ انڈومان میں دہشت پسندقیدیوں کوبھوک ہڑتال اور اموات کے خلاف احتجاج کرنے پرقیدکرلیاگیا۔ ستمبر۳۳ء میں رہائی اور دوبارہ گرفتاری کے درمیان مختصروقفے میں پنڈت نہرو نے ٹیگور اورسی ایف اینڈریوزوغیرہ کے دستخطوں کے ساتھ ایک اپیل شائع کی، جس میں انڈومان کے سیاسی قیدیوں کے ساتھ بہتر سلوک اوران کے جیلوں میں منتقل کرنے کامطالبہ کیاگیاتھا۔ برطانیہ کے ہوم ممبرنے لندن میں اس اپیل پر شدیدناراضگی کا اظہار کیااورسیاسی قیدیوں سے اظہارہمدردی بنگال میں ایک قانونی جرم قرارپایا۔ 



    انڈومان سے واپسی کے چندسال بعد دہرہ دون میں ایک صبح بھائی اور میں والدہ اورایک رشتے دارمہمان کے ساتھ کہیں جاتے ہوئے ایک عمارت کے سامنے سے گذرے تووالدہ نے اچانک کہا، ’’وہ دیکھوسامنے جواہرلعل بیٹھے ہیں۔‘‘ 

    جواہرلعل نہرو ایک چھوٹے سے سنسان برآمدے میں آرام کرسی پربیٹھے تھے اوردونوں ہاتھ سرکے پیچھے رکھے دورپہاڑوں کودیکھ رہے تھے۔ سامنے کاررکتی دیکھ کروہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں اوربھائی اترکرنیچی دیوار کی طرف بھاگے جس کے سامنے وہ سپاہی ٹہلتا ہوا آرہاتھا۔ جواہرلعل نہرو متبسم اورسوچ میں ڈوبے ہوئے چندلمحوں تک ہماری طرف دیکھتے ہیں۔ سپاہی ٹہلتا ہوا ہماری سمت آیا۔ ڈرائیور نے ہارن بجایا۔ ہم لوگ کارکی طرف مڑے۔ پنڈت نہرو دوبارہ کرسی پربیٹھ گئے۔ کارآگے روانہ ہوگئی۔ 

    *

    ’’میں ساڑھے چودہ مہینے تک دہرہ دون جیل کی کوٹھری میں رہا۔ مجھے دوسرے جیلوں میں بہترکوٹھریاں دیں، مگردہرہ دون جیل کی ایک رعایت میرے لیے بے حد قیمتی تھی۔ یہ جیل بہت چھوٹا تھا اور ہم لوگوں کوقیدخانے کی فصیل سے باہرلیکن صرف احاطے میں اندرہی ایک مختصرسی حوالات میں رکھا گیاتھا۔ یہ جگہ اتنی چھوٹی تھی کہ اس میں ٹہلنے، یاچلنے پھرنے تک کی گنجائش نہ تھی۔ بس اتنی اجازت تھی کہ صبح وشام پھاٹک کے قریب ٹہل لیاکریں۔ یہاں سے ہمیں پہاڑ اورکھیت اور پبلک سڑک، جوکچھ فاصلے پرتھی۔ یہ رعایت خصوصیت سے میرے لیے نہیں بلکہ سارے اے اوربی کلاس قیدیوں کے لیے تھی۔ صرف وہی انسان جوطویل سز ا کے لیے اونچی دیواروں کے پیچھے محصورکردیاگیا ہو، اس چہل قدمی اور کھلی فضاؤں کے نظارے کی نفسیاتی قدروقیمت کااندازہ کرسکتاہے۔ 

    میں ان پہاڑوں کو، جس سے مجھے عشق ہے، دیکھاکیا۔ کوٹھری میں سے مجھے پہاڑ نظرنہ آتے لیکن وہ میرے تصور میں موجودتھے۔ مجھے ان کی قربت کا احساس تھا، میرے اورپہاڑوں کے درمیان گہری یگانگت پیداہوگئی۔ دہرہ دون کا موسم گل بے حدخوشگوار ہے۔ جاڑے نے درختوں کوپتیوں سے عاری کردیاتھا۔ جیل کے پھاٹک کے سامنے پیپل کے چارشاندار درخت بھی اپنے پتے دے چکے تھے کہ اچانک درختوں میں خفیف سی جنبش اورسرسراہٹ پیدا ہوئی اورایک پراسرار سی کیفیت اورفضاچاروں طرف جوگویا پس منظرمیں بے حدخفیہ کارروائیاں کی جارہی ہوں اورپھرنہایت سرعت کے ساتھ لاکھوں نئی نویلی پتیوں نے دھوپ اورہوا کے جھروکے سے کھیلناشروع کردیا۔ 

    لیکن برسات کے زمانے میں پانی سے بچنے کے لیے تنگ وتاریک کوٹھری کے ایک کونے میں سکڑکر بیٹھنازیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ کیونکہ پانی چھت سے ٹپکتا اورمینہ کی بوچھارکھڑکیوں میں سے اندرآتی۔ موسم خزاں دل آویز تھالیکن جاڑوں میں جب طوفان بادوباراں آگھیرتا اوربڑے بڑے اولے ٹین کی چھت پرگولیوں کی باڑھ کی طرح گرتے توایک نسبتاً ذراسی گرمی اور تھوڑے سے آرام کی خواہش پیدا ہوتی۔ کوٹھری میں ان گنت بھڑیں اورمکھے تھے، چمگادڑیں جواندھیرا پڑتے اڑتیں۔ ان سے سخت وحشت ہوتی۔ گھنٹوں میں چیونٹیوں، دیمک، چھپکلیوں، گلہریوں اور کبوتروں کودیکھا کرتا۔ 

    دہرہ دون جیل میں میناؤں کے ایک جوڑے نے کوٹھری کے دروازے کے اوپراپنا گھونسلہ بنالیاتھا۔ میں ان کودانہ کھلاتا اور اگران کے کھانے کے وقت میں صبح وشام تھوڑی دیرسی ہوجاتی تو وہ میرے بالکل قریب آکر پرشوراحتجاج کرتے۔ دہرہ دون میں پرندوں کی افراط تھی۔ ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے تھے کیوں کہ حوالات کے صحن میں درخت نہیں تھے۔ صرف ان کی آوازیں سن سکتے تھے۔ میں نے ہوا میں بانکپن سے تیرتے ہوئے عقابوں کودیکھاکہ اکثرجنگلی بطخوں کی ڈارسرپرسے گذرجاتی۔ 

    بچھو۔۔۔ عموماً اوربرسات کے زمانے میں خصوصاً(ملک کے مختلف جیلوں میں) کوٹھریوں میں پایے جاتے۔ مجھے تعجب ہے کہ مجھے کبھی کسی بچھو نے ڈنک نہیں مارا۔ حالانکہ یہ بچھو مجھے عجیب عجیب اورغیرمتوقع جگہوں میں ملتے رہتے تھے۔ بسترپر، کسی کتاب کے اندر۔ تین چارسانپ بھی(مختلف جیلوں میں) میری کوٹھریوں کے اندر یا ان کے آس پاس پائے گئے۔ ان میں سے صرف ایک کی خبرباہر نکل گئی تواخباروں نے جلی سرخیوں میں شائع کی۔ 5

    اب مجھے یہ معلوم نہیں کہ پنڈت نہروکومیں نے دہرہ دون میں جس برآمدے میں بیٹھادیکھا، انہیں اس کوٹھی میں نظربندکیاگیاتھا یااس وقت وہ آزادتھے۔ 

    *

    تاریخ کاایک پورادورگذرجانے کے بعد ۵۷ء میں یا شاید اس سے ذرا قبل کراچی جم خانہ کی ایک دعوت میں ایک فیشن ایبل اوربے حد حسین اورجمیل بیگم صاحبہ سے میری ملاقات ہوئی جو کسی بہت زبردست وی آئی پی کی دوسری بیوی کی دعوت کی مہمان خصوصی تھیں۔ بیگم صاحبہ نے بے حدبلندی پر سے اورخاصے سرپرستانہ اندازمیں مجھ سے دوچارباتیں کیں، جام مئے کوخالی تپائی پررکھا اور برق تبسم گراتی دوسری طرف مڑنے لگیں تومیزبان نے نزدیک آتے ہوئے کہا، ’’ارے فرخندہ! یہ کیاتمہاراگلاس خالی پڑاہے؟‘‘ 

    ’’اب نہیں۔۔۔‘‘ بیگم صاحب نے ہاتھ اٹھاکر نزاکت سے انکارکیا۔ 

    ’’ارے بھئی۔ کالاپانی کاٹ چکی ہواور کالاپانی پینے میں اتنا بخل؟‘‘ میزبان مصر ہوئے۔ 

    اتنے میں بیگم صاحبہ کے وی آی پی شوہر بھی اپنا گلاس تھامے قریب آکر بیٹھ گئے۔ کالے پانی کے نام پر میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے بیگم صاحبہ سے پوچھا، ’’آپ کس زمانے میں تھیں کالے پانی میں؟‘‘ 

    انھوں نے نہایت خوبصورتی سے سنی ان سنی کردی۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا، ’’کس زمانے میں؟‘‘ 

    ’’زمانے سے آپ کا کیا مطلب ہے؟‘‘ بالآخر انھوں نے ذرا تیوری پر بل ڈال کر پوچھا۔ 

    اب دفعتاً مجھے سوجھ گیااور میں نے بے ساختہ ذرا اونچی آواز میں کہا، ’’ارے آپ مولانا۔۔۔ مولانانواز کی لڑکی فرخندہ؟‘‘ 

    بیگم صاحبہ جو بہت دیر سے چہک رہی تھیں، ایک دم چپ ہو گئیں اور مختصر اً اور ذرا خشکی سے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ 

    ’’بھئ حد ہو گئی۔۔۔‘‘ میں نے جگمگاتے ہوئے مجمع کو اسی بیوقوفی کے عالم میں مخاطب کیا، ’’بھئی یہ تو فرخندہ جمال نکلیں۔ ان کے والد مولانا رب نواز اس قدر سوئیٹ تھے اور ایسے نڈر، قیدیوں کے سامنے ایسے ایسے وعظ کہتے۔۔۔ پورٹ بلئیر میں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ 

    ’’خود سرکاری ملازم تھے لیکن ایسے لطیف پیرایہ میں ایسی بڑی بڑی باتیں کہتے تھے کی ان کی کسی بات کو گرفت میں نہ لایا جا سکتا تھا۔‘‘ 

    اب مجھے مولانا کے متعلق وہ ساری باتیں یاد آتی جا رہی تھیں جو بعد میں ایک مرتبہ والد نے بتائی تھیں۔ مثلاًیہ کہ مولانا ان قدیم وضع کے پٹھانوں کے کسی سیّد سے پہلی بار ملتے ہی زیر لب درود شریف پڑھنے لگتے ہیں۔ 

    ’’وہ زمانہ بے حد خطرناک تھا۔‘‘ میں نے بات جاری رکھی، ’’ہندوستان میں ٹیرسٹ موومنٹ زوروں میں چل رہا تھا۔ انڈامان کے سیاسی قیدیوں پر گولیاں چلتی تھیں۔ تیسری گول میز کانفرنس تو ہو چکی تھی، جنے کس سن میں ہوئی تھی۔ بھئی کمال ہے۔‘‘ وی آئی پی شوہر کبھی مجھے دیکھتے اور کبھی اپنی دلہن کو۔ فرخندہ بیگم، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیوں اس قدر مجھ سے خفا نظر آ رہی تھیں۔ مولانا رب نواز، میں نے قریب کے صوفے پر بیٹھے ہوئے ایک بااقدار، نئے سیاست داں کو جو اپنی سیاسی بد دیانتی کے لیے بہت مشہور تھے، مخاطب کیا، اس نسل کے فرد تھے جس نسل نے دیوزاد پیدا کیے۔ حالانکہ ان کا نام نہ تب کسی نے سنا ہوگا اور نہ اب کسی نے سنا ہے۔۔۔ وہ ایک فرد تن اور غریب عالم اور صحیح معنوں میں مرد مومن تھے۔ 

    میزبان نے اس دوران میں فرخندہ بیگم کے گلاس میں شراب انڈیل دی تھی۔ فرخندہ بیگم نے ذرا جھجک کر گلاس تپائی پر رہنے دی۔ سیاست داں نے پہلو بدل کر سگریٹ جلایا۔ میں فضا کی ان Overtonesسے قطعی بے خبر، اداسی سے کہتی رہی، ’’مولانا رب نواز تھے۔ آج برسوں بعد ایک دم اس طرح یاد آگئے، ایسا عجیب سا لگ رہا ہے۔ وہ مجھے الف بے پڑھاتے تھے۔ وہ بھی کیا زمانے تھے۔۔۔ ہیں نا فرخندہ بتا کیسے ہیں؟ ان کو ضرور میرا آداب کہیے گا۔ اور آپ کی امی کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘ 

    ’’آپ ہی بتائیے ایسا اتفاق روز روز کیسے ممکن ہے کہ بچپن کے ساتھ کھیلے، اس طرح غیر متوقع دوبارہ نظر آجائیں۔۔‘‘ مگر فرخندہ بیگم جلدی سے معذرت چاہ کر اٹھیں اور میزبان کے ساتھ ڈانس فلور پر چلی گئیں۔ دوسرے لمحہ ان کے شوہر بھی، جو عنقریب ایک مرکزی وزیر بننے والے تھے، ایک خاتون کے ساتھ رقص کرنے کے لیے وہاں سے اٹھ گئے۔ جب نامور سیاست داں بھی چند منٹ بعد دوسری طرف چلے گئے تو نزدیک بیٹھی ہوئی میری ایک سہیلی بیگم سراج نے آہستہ سے مجھ سے کہا، ’’تمہاری بیوقوفی کی بھی کوئی حد و انتہا نہیں ہے۔ جانتی ہو اس وقت تم نے کیا غضب کیا؟‘‘ 

    ’’کیا ہوا۔۔؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔ 

    ’’فرخندہ بیگم کی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے۔ ان کی آفیشیل عمر محض بائیس تیئس برس کی ہے اور تم ہو کہ عین اس کے شوہر کے سامنے غدرکے وقتوں کی بڑی بوڑھیوں کی طرح گڑے مردے سے اکھاڑ نے بیٹھ گئیں۔۔۔ ہندوستان کا ٹیرسٹ موومنٹ اور گول میز کانفرنس اور یہ اور وہ۔۔ لے کے ان کے شوہر کو بھونچکا کر دیا اور مستقل بیگم صاحبہ سے جرح کیے جا رہی ہوکہ کس زمانے میں تھیں۔ یہ زمانے کی بھی ایک ہی رہی۔‘‘ 

    ’’اچھا تو یوں کہو۔۔۔‘‘ اب جاکر میری سمجھ میں آیا۔ 

    ’’ان کے والد بے چارے کا بہت عرصہ ہوا، انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ 

    ’’ارے۔۔‘‘ میں نے رنج سے کہا، ‘‘ اتنے سویٹ تھے، مجھے دھندلے دھندلے اب تک یاد ہیں۔‘‘ 

    ’’ٹھیک ہے۔ مگر آپ اس وی آئی پی مجمع کے سامنے یہ ثابت کرنے میں جٹی ہوئی تھیں کہ فرخندہ بیگم کسی بڑے آدمی کی بیٹی ہونے کے بجائے کسی نگوڑ سے جیل خانے کے سنکی واعظ کی بٹیا ہیں۔‘‘ 

    میں نے ہکا بکا ہوکر بیگم سراج کو دیکھا اور تب مجھ پر پہلی بار اچانک یہ انکشاف ہوا کہ میں ان لوگوں سے کسی دوسری زبان کا استعمال کر رہی تھی۔ 

    ’’اینٹیں گرانے میں تمہارا کوئی ثانی نہیں ہے۔‘‘ بیگم سراج نے ساری کا پلو سنبھال کر اٹھتے ہوئے کہا اور مسکراتی ہوئی وہ ڈانس پارنٹر کے ساتھ ڈانس فلور پر چلی گئیں۔ 

    *

    دسمبر۵۹ءدلّی کے ورلڈایگری کلچر فیئر میں ہندوستان کی ساری ریاستوں کے پویلین طرز تعمیر اور آرائش کے لحاظ سے تہذیبی روایات کے عکاس تھے۔ 

    اترپردیش کی عمارت لکھنؤ کے امام باڑوں کی وضع کی بنائی گئی تھی۔ راجستھان اور آندھرا، او رمحل، ایلورا اور بانس کے جھونپڑوں کے اندر تھے اوروہیں ٹروپکل پودوں سے گھری ایک مصنوعی جھیل کے کنارے ایک بنگلے پر میری نظر پڑی، جس کی پیشانی پرانڈومان و نکوبار لکھا تھا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئی۔ اندر دیواروں پر آزادی کے جزائر کی صنعتی اور تعلیمی ترقی کے اعداد و شمار کے گراف آویزاں تھے۔ سفید ساریوں میں ملبوس دو بنگالی لڑکیاں ایک کاؤنٹر پر تھیں، جن پر گھریلو دستکاریوں کے نمونے سجے تھے۔ 

    ’’یہ سامان سلور جیل کے قیدیوں نے بنایا ہے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ 

    ’’سلور جیل؟‘‘ ایک لڑکی نے دہرایا۔ دوسری سیلز گرل اس کے قریب آئی، ’’سلور جیل تو عرصہ ہوا ختم ہو چکا ہے۔ انڈومان اب پینل سیٹلمن نہیں ہے۔ اب وہاں آزاد نئے انڈمانی بستے ہیں۔‘‘ 

    ’’نئے انڈمانی۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔ 

    ’’جی ہاں مشرقی بنگالی سے آئے ہوئے زراعت پیشہ رفیوجیوں کو وہاں بسایا گیا ہے۔ ہم دونوں بھی ایسٹ پاکستان کے رہنے والے ہیں۔ انڈمان سیاحوں کی جنت ہے۔‘‘ پہلی لڑکی نے کہا، ’’کلکتے سے پورٹ بلئیر ہفتہ وار فضائی سروس بھی ہے۔ کبھی آئیے۔‘‘ 

    ’’ضرور۔‘‘ میں نے اخلاق سے جواب دیا اور سامنے دیوار پر لگی آدی واسیوں یعنی جنگلی قبائل کے رقص کی تصویر دیکھنے لگی۔ انڈمانی قبیلے کے اب صرف تیئس افراد باتی ہیں۔ دوسرے قبائل کی تعداد چند سو رہ گئی ہے۔ 

    گو قدیم حجری عہد ابھی مہذب انسان کی جبلت میں زندہ ہے مگر تاریک جنگلوں میں اس کے آثار ختم ہونے والے ہیں۔ میں دوسری طرف مڑی اور تب اچانک مجھے بارہ بنگلہ کی ایک بہت بڑی تصویر دکھلائی پڑی۔ بورہ بنگلہ۔۔۔ میں ٹھٹک کر گم سم اس تصویر کو دیکھنے لگی۔ بورہ بنگلہ، جس میں اب جزائرکی حکومت کا کوئی اہم دفتر تھا، اپنے چوبی کھمبوں پر ایستادہ ثابت و سالم و محفوظ اسی طرح اپنی پہاڑی پر موجود تھا۔ میں محویت سے اسے دیکھا کی۔ اس کے فرانسیسی در یچوں کے شیشے اس طرح جھلملائے گویا جواباًوہ مجھے گھور رہا ہو۔ 

    بورہ بنگلہ کے سامنے ربر کے درختوں کا جھنڈ موجود تھامگر ان سائے میں کھیلتا آرتھر ویلز لے وہاں نہیں تھا۔ حولدار رام چندر، مولانا رب نواز اور نور محمداور پرکاش چندراور برمی ٹیوٹر اور مسٹر انڈر سن نہیں تھے۔ ان دریچوں کے نیچے بیٹھ کر والد صبح کا اخبار پڑھتے تھے۔ سمندر کی سفید موجیں اسی طرح باغ کی ڈھلان سے ٹکرا رہی تھیں۔ زندگی، مجھے معلوم ہوا، اسی طرح جاری رہتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ آگے بڑھ جاتا ہے۔ جیولوجیکل وقت میں گھرے انسان کی زندگی چیونٹی کی عمر سے بھی حقیر اورمختصر ہے مگر زندگی جاری رہتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ آگے بڑھ جاتا ہے۔ 

    کیونکہ، اس لمحے، اس تصویر کے سامنے کھڑی میں، وہ ہستی نہیں تھی جو ان کمروں ان بر آمدوں اور اس باغ میں کھیلتی اور کودتی پھاندتی تھی، گلا پھاڑ کر روتی تھی، کھانے کے میز کے نیچے بلی کے ساتھ بیٹھ جاتی تھی۔ میں ایک دوسری، قطعاً مختلف ہستی تھی۔ 

    بورہ بنگلہ مجھے گھورتا رہا۔ وہ مجھے سے پوچھ رہا تھا، اتنے طویل عرصے کے بعد جو تم میرے سامنے آئی ہو تو مجھے بتاؤ کی مجھ سے کیا کہنا چاہتی ہو۔ اتنے عرصے تم نے زندگی میں کیا کیا؟ اور مجھے سنانے کے لیے تمہارے پاس کیا ہے۔ میں جلدی سے کاؤنٹر کی طرف مڑی۔ نئی انڈمانی سیلز گرل نے انناس کے ریشے سے بنا ایک شاپنگ بیگ پیش کیا۔ واجبی قیمت لی۔ بیگ تھا خوبصورت اور بہت مضبوط۔ 

    اگر میں اس لڑکی کو بتاتی کہ کسی زمانے میں، میں اس دیوار پر آویزاں تصویر کے اندر رہتی تھی تو اسے کتنا عجیب لگتا۔ یہ لڑکی ایک دوسری نسل سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے دکھ دوسرے تھے۔ اس نسل کی قسمت میں جتنے دکھ لکھے تھے، سہ چکی تھی۔ وہ آزاد برصغیر۔ Root less نوجوان پیڑھی کی ایک فرد تھی۔ وہ لوگ جنہوں نے پچھلے پچاس برس تک آزادی کی لڑائی لڑی، ان کے قدم کے نیچے ان کی اپنی دھرتی تھی، جس کی پائندگی اور تابند گی کی خاطر وہ لڑے تھے۔ مگر اس نئی نسل کے قدموں کے نیچے سے زمین نکل چکی تھی۔ اس نسل مین ریفیوجی تھی۔ اور نئے کلیت پسند تھے۔ اور ٹیڈی نوجوان تھے۔ 

    منزل پر پہنچ کر منزلیں دھندلا گئی تھیں۔ بورہ بنگلہ کے تصویر نے دوبارہ مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور اس پر نظر ڈال کر میں نے پھر خود کو یقین دلانا چاہا کہ اس شگفتہ آرٹسٹک پویلین کے اندر موجود، میں ایک مختلف ہستی ہوں۔ بورہ بنگلہ مجھے گھور تا رہا۔ شاید میں اب بھی وہی بیوقوف، حیرت زدہ ہستی تھی جس کے خیال میں سمندر مزدوروں نے کھودا تھا، مسٹر انڈرسن اپنی ٹانگیں علیحدہ کر کے گھر پر رکھ جاتے تھے اور قاعدہ گڑیا کا گھر تھا۔ اور یہ پرانی چوبی عمارت میری اس حقیقت سے واقف تھی۔ اس کی نظروں سے بچنے کے لیے میں تیز تیز قدم رکھتی پویلین سے نیچے اتر آئی۔ 

    نومبر ۶۱ ء کلکتے کے مہاجتی سدن میں للت کلا کیندر کی سالانہ میوزک کانفرنس شروع ہونے میں کچھ ہی دیر تھی۔ بڑے غلام علی خاں، بسم اللہ خاں، مشتاق علی خاں، بیگم اختر اشتیاق اور دوسرے بڑے فن کاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے باہر سڑک پر بھیڑ جمع ہو چکی تھی لیکن ہال ابھی خالی پڑا تھا۔ میرے ساتھی زینے کے نیچے باتوں میں مصروف تھے۔ میں ٹہلتی ہوئی ہال کے اندر چلی گئی اورہال کی دیواروں پر آویزاں روغنی تصاویر کی قطاروں نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ سارے ہال میں کئی سو (۱۰۰) تصویریں رہی ہوں گی۔ جن کے نچلے کونوں میں بنگال کے نامور فن کاروں کے دستخط تھے۔ یہ کس قسم کی پورٹریٹ گیلری ہے۔ میں نے ذرا تعجب سے سوچا۔ اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ان تصویروں کے قریب گئی۔ 

    متجس، بے چین آنکھیں، پر سکون آنکھیں، اداس تبسم، مطمئن، شانت تبسم، مسرورچہرہ، سنجیدہ چہرے، مضطرب اور سوچتے ہوئے چہرے۔ یہ کون لوگ ہیں۔۔۔؟ حیرت کے ساتھ میں نے تصاویر کے نیچے پیتل کی چھوٹی تختیوں پر منقش نام پڑھنے شروع کیے۔ 

    خودی رام باسو۔ پھانسی ۱۹۰۸ء

    پر فلا چکی۔ جیل میں خودکشی ۱۹۰۸ء

    اشفاق اللہ۔ پھانسی۱۹۲۹ء

    بھگت سنگھ۔ پھانسی ۱۹۳۱ ء

    پرتی لتا دادیدا۔ خودکشی ۱۹۳۲ ء

    راجندر لہری۔ پھانسی ۱۹۲۷ ء

    گوپی ناتھ ساہا۔ پھانسی ۱۹۲۴ ء

    جتیش گوہا۔ پولس کے مظالم سے مرے ۱۹۳۰ ء

    دیپ پرشاد گپتا۔ گولی مار دی گئی 

    ماتا نگنی ہاجرہ۔ پولیس کی گولی سے شہید۱۹۴۲ ء

    سدھیر کمار بوس۔ انڈمان میں بھوک ہڑتال سے مرے 

    میں ٹھٹھک گئی۔۔۔ سدھیر کمار بوس۔۔۔ انڈمان میں۔۔۔ بھوک ہڑتال سے مرے۔ 

    اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ یہ، یہ میرے بڑے بھائی تھے۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک خستہ حال کھچڑی بالوں والا دبلا پتلا آدمی میرے پیچھے کھڑا مجھ سے کہہ رہا تھا، آپ تصویرں کو بڑے دھیان سے دیکھ رہی تھیں۔ اس نے میرے برابر آکر کہنا شروع کیا۔ آپ تو ان کے نام بھی نوٹ کرتی جا رہی ہیں۔ آپ کیا جرنلسٹ ہیں؟ میں شاید آپ کے بھائی کی ایک جھلک دیکھ چکی ہوں۔ 

    دادا کو دیکھ چکی ہیں آپ؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے بے حد تعجب سے پوچھا۔ 

    آ۔۔۔ کم آن ہنی۔۔۔ ایک گورا اچٹا ٹیڈی بوائے اپنے بے حد نوکیلے جوتوں پر تیرتا ہوا آکر میرے اور تصویر کے درمیان حائل ہو گیا، جہاں سے وہ اپنی گرل فرینڈ کو آواز دے رہا تھا، جو ہال کے دوسرے سرے پر شاید اپنی کرسی تلاش کر رہی تھی۔ 

    ہائی ڈوپ کم آن ہیر۔ لڑکی نے، جو بے حد تنگ شلوار اور اس سے بھی زیادہ تنگ قمیض میں جکڑی ہوئی تھی، ٹیڈی بوائے کو جواباً پکارا۔ ٹیڈی بوائے اسی طرح نوکیلے جوتوں پر تیرتا ہوا آگے نکل گیا۔ اس کی چست سیاہ پتلون کی نازک کمر پر بندھی ہوئی نقرئی پیٹی روشنی میں جگمگا رہی تھی۔ 

    مدقوق بنگالی نے پھر مجھ سے بات شروع کی۔ میں بھی کرانتی کاری تھا۔ آدھی زندگی جیل میں کاٹی۔ اس نے اداسی سے کہا۔۔۔ آپ آرٹیکل لکھیں گی۔۔۔؟ شاید۔۔ پتہ نہیں؟ میرا نام پربدھ کمار بوس ہے۔ میں باریسال کا رہنے والا ہوں۔ دادا کے انڈمان جاتے وقت میں اسکول میں تھا۔ دادا کے غم میں روتے روتے میری ماں بھی مر گئی۔ مگر میں اسکول سے نکلتے ہی موومنٹ میں شامل ہو گیااور جیسور میں پکڑ لیا گیا۔ بارہ برس تک میں علی پور جیل میں بند رہا۔ آزادی کے بعد آزادی ملی۔ تب میرا ضلع دوسری طرف جا چکا تھا۔ اب میں۔۔۔ اب میں۔۔۔ 

    ٹیڈی بوائے برق رفتاری سے پھر واپس آیا۔ اب کے اس کے ساتھ چند امریکن بیٹ نک(Beatnik) تھے، جن میں سے کچھ نے سیاہ شیروانی، چوڑی دار پائجامہاور ایک کلائی میں چاندی کا کڑا پہن رکھا تھا۔ دوسرے امریکن بیٹ نک نے خاکی نیکر، پرتگالی کرتا پہنا ہوا تھا۔ تیسرے امریکن بیٹ نک نے مغربی لباس ہی پر اکتفا کیا تھا مگر وضع قطع سے لڑکی معلوم ہو رہا تھا۔ امریکن بیٹ نک لڑکی کے حلیہ سے لڑکا دکھائی دے رہی تھی۔ یہ سب اسٹیج کے نیچے کھڑے اس انگریز لڑکی شرلے کی سمت جا رہے تھے جو ہندوستانی رقص سیکھنے کے لیے انگلستان سے آئی ہوئی تھی اور برجو مہاراج کی شاگردی میں کتھک کی مہارت حاصل کرنے کے بعد آج شام اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والی تھی۔ ہندوستانی ٹیڈی بوائی نے مدقوق انقلابی کو بازو کی ایک جنبش کے ساتھ اپنے راستے سے ہٹایا اور اپنے بیٹ نک کے ہمراہ آگے بڑھ گیا۔ 

    عین اسی وقت مارواڑی سیٹھوں، سوسائیٹی لیڈیز، پروفیشنل انٹکچوئیلز اور کلچر ولچرز کا ایک ریلا برابر کے دروازے سے ہال میں داخل ہوااور مدقوق انقلابی اس ریلے میں نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے اس کی تلاش میں چاروں طرف دیکھا۔ میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ میں اس کے دادا کی کہانی ضرور لکھوں گی۔ میں اس سے کہنا چاہتی تھی کہ میں سارے بر صغیر کی کہانی جاننا اور لکھنا چاہتی ہوں مگر یہ کہانی سننے اور سنانے کے لیے محض ایک حیات مستعار بے حد نا کافی ہے۔ 

    میں تو اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ کیااس کے داداہی وہ جوشیلے نوجوان تو نہیں تھے، جو غصے سے پنڈت جی کے پاس پہنچے تھے مگر وہ گمنام تباہ حال کر انتی کاری اس زرق برق، بے پروا، خوش باش، آسودہ حال مجمع میں کہیں کھو چکا تھا۔ 

    اسٹیج پر جل ترنگ بجنا شروع ہو گئی۔ ۶؎



    حواشی
    (۱) آرتھرولزلے
    (۲) جلیل قدوائی کے نام یلدرم کے ایک خط سے اقتباس۔ 
    (۳) وہ شعر یہ تھا،
    دکھائیے لے جا کے تجھے مصرکا بازار
    خواہاں نہیں لیکن یہ کسی جنس گراں کا
    (۴) سوانح عمری ازجواہرلعل نہرو، جوجیل میں لکھی گئی ور ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ 
    (۵) سوانح عمری ازنہرو۔ 
    یہ کہانی میں نے پچھلے سال لکھی تھی۔ حال ہی کی خبر ہے کہ چچا محمد، ایک پرانے انقلابی جن کی پھانسی کی سزا حبسِ دوام میں تبدیل کر دی گئی تھی اور چوبیس برس تک انڈمان میں قید رہے۔، پچھلے دنوں انھوں نے لاہور میں گمنامی اور شدید مفلسی کے عالم میں انتقال کیا۔

    مأخذ:

    کوہ دماوند (Pg. 7)

    • مصنف: قرۃالعین حیدر
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2000

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے