Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک ہنگامہ

صفیہ اختر

ایک ہنگامہ

صفیہ اختر

MORE BYصفیہ اختر

    سنا تھا کہ بھوپال کے مناظر دلکش اور فضا دلفریب ہے۔ ایسا ہی پایا۔ تالاب کا شفاف پانی اور اسے گھیرے ہوئے نیچی نیچی چٹانیں بھوپال کے باسیوں کی دنیا ہیں۔ یہی چٹانیں اپنے دامن میں ایک دنیا بسائے ہوئے ہیں اور انہی چٹانوں پر سڑکیں چکر لگاتی ہوئی گزرتی ہیں۔ سرشام روشنی کے عکس سے سطح آب پر سینکڑوں قندیلیں روشن نظر آتی ہیں۔ اس سندرتا کے ہوتے ہوئے بھی یہ وادی احساس کی گرمی اور زندگی کی لپک سے خالی نظر آتی ہے۔ برسات میں تالاب کنول سے ڈھک جاتا ہے اور پہاڑیاں سرسبز ہوجاتی ہیں۔ بادل امنڈ امنڈ کر آتے ہیں اور موتی برساجاتے ہیں۔ برسات گزرتے ہی پہاڑیوں کا سہاگ لٹ سا جاتا ہے اور کنول مرجھانے لگتے ہیں۔ لیکن نہ یہ پہاڑیاں ٹس سے مس نظر آتی ہیں نہ کبھی تالاب میں موجیں اٹھتی ہیں۔ بھوپال کا حسن ایک مجسمے یا STATUE کا حسن ہے جس میں حسن کی لطافت، حرکت کا لوچ، جذبہ کی گرمی اور ذہن کی روشنی کی تلاش تشنہ رہ جاتی ہے۔

    بھوپال کی سیاسی، سماجی اور دماغی دنیا بھی اپنے فطری ماحول سے ہم آہنگ ہے۔ یہاں زندگی کی چیخ تالاب کے ٹھہرے ہوئے پانی اور نیچی نیچی پہاڑیوں کی ثابت قدمی سے متاثر ہوکر دب جایا کرتی ہے۔ اس سونی سونی سی دنیا میں جہاں سکوت ہے اور ٹھہراؤ، کچھ ہستیاں زندگی کی بہاروں میں سے اپنی گودیوں کو بھر لینے کے لیے بے تاب ہیں۔ اور آج زندگی کے درد کی تاب نہ لاکر کراہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن فضا کی تغافل پسندی ان کے ناولوں کو ’’یاں تو میرے نالہ کو بھی اغیار نغمہ ہے‘‘ کا مصداق بنادیتی ہے۔ یہ جماعت ہے۔ بھوپال کے مٹھی بھر ترقی پسند ادیبوں کی جو اپنے نغموں سے تالاب کے ٹھہرے ہوئے شفاف پانی میں ایسا طوفان اٹھادینا چاہتے ہیں، ’’جو موج گنگا کی ہمالہ سے گزر جائے گی آج‘‘ کو صحیح ثابت کردے۔

    بھوپال کے ترقی پسند ادیبوں کی انجمن یہاں کے ادبی اندھیرے میں GUIDING STAR یا رہنما ستارے کی حیثیت رکتھی ہو یا نہیں البتہ اس انجمن کے افراد یہاں کی سوئی ہوئی اندھیری رات میں جگنو ی طرح ضرور چمکتے ہیں اور یہ سب اپنی ادبی ضیاپاشیوں کی خاطر اکثر رات کے وقت اکٹھا ہوتے ہیں۔ اپنی سناتے اور دوسروں کی سنتے ہیں۔ شکر ہے کہ اب تک اس کی نوبت نہیں آئی کہ

    جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو

    سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں

    ان جگنوؤں کی روشنی کے پیچھے بچے اور جوان ہی نہیں دوڑتے یہاں کے شوقین بوڑھے انہیں اپنی ٹوپیوں میں بند کرکے خوش ہوتے ہیں۔

    حال کی بات ہے ارباب انجمن نے تہیہ کیا کہ جیسے بنے بھوپال میں ترقی پسند ادیبوں کی ایک کل ہند کانفرنس کا انعقاد ہو۔ معلوم نہیں اس میں ذوق خود بینی تھا کہ مذاق بزم آرائی، بہرحال کانفرنس تو ہوگی یہ طے پاگیا۔ اللہ بھلا کرے حضرت مارکس اور ان کی تعلیمات کا اقتصادی مسئلہ زندگی کا بنیادی مسئلہ بن ہی گیا ہے۔ لہٰذا بغیر زیادہ غور و خوض کے طے پایا کہ کاسۂ گدائی لے کر گھر گھر جاؤ اور در در کی بھیک لاؤ۔ بے چارہ بھوپال کا ستایا ہوا ترقی پسند ادیب (جو حضرات مستثنی ہونے کا دعوی رکھتے ہوں ان سے معذرت کے ساتھ) اپنے حلیے اور بشرے سے ار باب زر کو کیسے یقین دلا سکا کہ جو پیسے وہ طالب کر رہا ہے ان کی ضرورت خود اسے ذاتی طور پر پریشان نہیں کر رہی ہے۔

    یہ معجزہ تھا یا کرامات، بہرحال چندہ جمع ہوا اور خاصی تیزی کے ساتھ۔ اکثر بزرگوں نے ان نوجوانوں کے سوال کو بچے کی مٹھائی کا سوال سمجھ کر ایک مشفقانہ مسکراہٹ سمیت جیب سے کچھ برآمد کرکے پیچھا چھڑایا۔ بعضوں نے کانفرنس کا پروگرام سن کر ایسا ہی اشتیاق ظاہر کیا گویا مداری تماشہ دکھانے والا ہے۔ اور اکثر وضع دار ہستیوں نے اپنی وفا پیشگی کا ثبوت دیتے ہوئے محض اس لیے چندہ دیا کہ حضرت سائل کے والد مرحوم جو اللہ رکھے بڑی حیثیت اور درجے کے آدمی تھے ان سے ان کے گہرے مراسم اور تعلقات تھے۔ دفتر کالج اور اسکولوں سے واپسی کے بعد بغیر پیشانیوں کی شکنیں دور کیے اور شیروانیوں کی گرد جھاڑے چندہ کمیٹی کے ممبر رشید صدیقی صاحب کے مشورہ پر کہ اساتذہ درس و تدریس کے بعد بقیہ وقت بھیک مانگنے پر صرف کریں تاکہ ملک کے بھیک مانگنے کا معیار بلند ہو، سعادت مندی سے عمل پیرا نظر آتے تھے۔ دن بھر کی محنت سے فراغت اور شام کی گدا گری سے فرصت کے بعد جب یہ لوگ روپے سے گرم جیب لے کر گھر لوٹتے تو الف لیلیٰ کے مشہور ہیرو علی بابا کی ازدواجی زندگی کی مدھم سی یاد تازہ ہوجاتی۔

    فراہمی چندہ کے علاوہ خط و کتابت کی ذمہ داری بھی تھی جو اختر نے اپنے ذمہ لی۔ بمبئی گروپ کی قیادت جعفری کے سپرد کی گئی۔ جعفری کا خلوص انہماک اور اتنی دور سے ان کی ایسی بھرپور دلچسپی حیرت کا باعث تھی۔ ان کے خطوط سے ان کی بے پناہ ہمدردیاں اور انتہا عمل پسندی مترشح تھی۔ جعفری نے وعدہ کیا کہ وہ آئیں گے اور کرشن کو اپنے ساتھ لائیں گے۔ کرشن چندر، بیدی، ممتاز حسین، حبیب تنویر، کیفی اور اخیر میں احمد عباس بھی آنے پر تیار ہوگئے۔ جب کسی تازہ آمد کی امید بندھتی تو بھوپال کے ترقی پسندوں کی معصوم مسرت پر رشک آنے لگتا۔

    عصمت آپا نے غالباً اپنے کو اہل ناز کے طبقے سے نسبت دے کر نیاز والوں کی پوری پوری نیاز مندی واپس کردی۔ بلاوے پر بلاوا مگر جواب ندارد، کبھی خبر بھی آتی تو جعفری کی معرفت جس میں ’’مگر یہ بتا کہ طرز انکار کیا تھی‘‘ کی گنجائش ضرور باقی رہتی تھی۔ جوش صاحب کے ساتھ اختر کی خط و کتابت کا یہ عالم رہا کہ

    قاصد کے آتے آتے خط لکھا او رلکھ رکھوں

    میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

    فراق کی آمد کی خواہش سب کو بے اندازہ تھی۔ فراق صاحب آئیں گے، اپنی ’’آہٹوں کی شاعری‘‘ سے بھوپال میں جادو جگائیں گے، مقابلہ پڑھیں گے، تقریر بھی کریں گے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو کار آمد بن سکے گا۔ احتشام صاحب کی تنقید سے مارکس کے جدلیاتی فلسفہ اور ان کی شخصیت سے لکھنوی لطافت کی خوشبو کا انتظار تھا۔ شاعر بزم دلبران مجاز کی شوخ گفتاری کے چرچے ابھی سے تھے مگر افسوس ہے کہ ان تینوں کی آمد سے آخر میں کانفرنس محروم رہ گئی۔

    تاریخیں قریب آرہی تھیں اور منتظمین سوتے جاگتے کانفرنس ہی کے خیال میں مبتلا تھے۔ ایسے آزمائش کے دور میں شخصیتوں کا مطالعہ بھی ایک دلچسپ موضوع ہے۔ اختر کی مستعدی و سراسیمگی، اختر سعید کی لطافت پسندی اور خلوص بروری، احسن کی مستقل مزاجی اور خوداعتمادی کے بیک وقت امتزاج اور انہیں کے ٹکر سے کانفرنس کی تیاری پختہ ہو رہی تھیں۔ ادھر صہبا پوسٹروں کے ذریعہ بڑے بڑے بلند آہنگ اعلانات کر رہے تھے، بغیر اس اندیشہ کے کہ ان کی لاج انجمن رکھ سکے گی یا نہیں۔ صہبا کی یہ خوش اعتقادی ’’امید و یقین کی اکلوتی بیٹٰی‘‘ کا خیال تازہ کردیتی تھی۔

    قمر جمالی قلم کی کاوش اور ہاتھ کی محنت میں مساوات رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے۔ منٹو ہال کی آرائش کے سلسلے میں گیلری کی کارنسوں پر قدیم تصویریں آویزاں کرنے کی گواہی وہاں کے چپراسلیوں تک سے وہ بآسانی دلوا سکتے ہیں۔ بھوپال کے سیاسی انتشار کی وجہ سے قدم قدم پر روڑے اٹک رہے تھے لیکن ’’خضر مل جاتے ہیں جن کو راستہ ملتا نہیں۔‘‘ بھوپال کے اکثر نیتاؤں نے مدد کی۔ ظہور ہاشمی صاحب نے منٹو ہال میں کانفرنس کرنے کی اجازت دی۔ کامتا پرشاد جی نے سواری اور روشنی کا انتظام کرایا۔ جلال قریشی صاحب نے اپنے CASTING VOTE کے ذریعے میونسپل بورڈ کی جانب سے تین سو کا عطیہ پیش کرکے عوام کے پیسے عوام کے کام میں شامل کرائے۔ حامد سعید خاں صاحب نے اپنے وسیع دامن عاطفت میں بروں بھلوں سب کو پناہ دینے کا وعدہ کرکے قیام و طعام کا انتظام اپنے ذمہ لیا۔ ساتھ ہی استقبالیہ کمیٹی کی صدارت قبول کی۔ بات آگے بڑھی اور ’’بزدان بکمند آور اے ہمت مردانہ‘‘ کے جنون میں ترقی پسند ادیب کانفرنس کے افتتاح کرنے کی رضامندی علامہ سلیمان ندوی صاحب سے لے آئے۔ اب تو انجمن کے سرپر سوتے جاگتے مریم کا مقدس ہاتھ تھا اور وہ ہر بلا اور آفات سے محفوظ ہونے کا یقین کرسکتی تھی۔

    کالج کے لڑکوں، لڑکیوں کی ایک فوج والنٹیر کے فرائض انجام دینے کو تیار ہوگئی۔ جن میں اکثر کی ’’لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں‘‘ والی سادگی پر مرمٹنے کو جی چاہتا ہے۔

    کانفرنس کے آغاز سے دو دن پیشتر جعفری کی گرفتاری کی اطلاع سے منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ ایک بمبئی گروپ ہی ایسا تھا جو نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘ والے مسلک کو بالائے طاق رکھ کر کشادہ پیشانی سے شرکت کے لیے تیار تھا۔ یہ بازو بھی کمزور پڑا۔ بمبئی تار روانہ کیے جانے لگے۔ اس پسپائیت کے احساس نے منتظمین کانفرنس پر تازیانہ کا کام کیا۔ دیکھنے والا قطعی یہی محسوس کرتا تھا کہ ’’بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد۔‘‘

    وقت کا دھارا روکے نہیں رکتا۔ پچیس کی صبح آئی اور ساتھ بمبئی کے ترقی پسند مہمانوں کو بھی ساتھ لائی۔ صدر انجمن کو پوری رات صبح کے دھڑکے نے سونے نہ دیا تھا۔ آخر شب نیند جو آئی تو ’’روکے روکے سحر کو روکے آئی‘‘ جوش کے لیے کہہ دینا آسان تھا لیکن عصمت آپا کو روکنا غالباً ان کے بس کی چیز نہ تھی۔ عصمت آئیں کنبے سمیت اور اپنے میزبان مکرم کو سوتا پایا۔ شاہد لطیف کی آمد انجمن کے تقویت کا باعث تھی۔ کرشن، تاباں، مجروح، مہندر سبھی اسی گاڑی سے آئے اور حامد سعید خاں صاحب کی سپردگی میں پہنچادیے گئے۔ ان مہمانوں کی آمد کے بعد کانفرنس کا ہونا موت کی طرح یقینی ہوگیا، بالکل جیسے موت کے اٹل ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے تیار ہونا فطرت انسانی کے خلاف ہے۔

    اسی طرح معلوم ہوا کہ یہ فنکار توشۂ آخرت کے طور پر بھی کوئی قلمی تیاری اپنے ساتھ کانفرنس کے لیے نہیں لائے تھے۔ نتیجہ کے طور پر عصمت آپا نے شدید اظہار خلوص اور ہلکے سے ناشتے کے بعد قلم سنبھالا اور آنے والے عرصۂ محشر کے لیے پیش کش کی تیاری میں مصروف ہوگئیں۔ سنا جاتا ہے کہ کرشن نے بھی حامد سعید خاں صاحب کے کمرے میں اعتکاف شروع کردیا۔ منتظمین کانفرنس کے ایک ایک سر میں ہزار سودے سمائے ہوئے تھے۔ لہٰذا انہیں بھی مہمانوں کے اس انہماک نے خاطر تواضع سے خاصی فرصت دلوادی۔

    ۲۵/ جنوری کو سات بجے شام کانفرنس کا افتتاح اجلاس ہونا تھا۔ تمام دن ہال سجایا جاتا رہا۔ مرکزی سائن بورڈ شانداری سے پورے ہال میں جگمگا رہا تھا۔ تصویریں وغیرہ بھی بقول شخصے وقت کو دیکھتے ہوئے بری نہ تھیں۔ منٹو ہال کے عالی شان ستون، نقشیں محرابیں، بلند و مرصع چھتیں بذات خود مرعوب کن تھیں۔ آج کی سجاوٹ نے ہال میں زندگی کی لہر سی دوڑا دی تھی۔ والنٹیرز اپنے نشانوں سمیت ہر سمت خراماں نظر آرہے تھے۔ ادھر استقبالیہ کمیٹی کے ممبروں کے سینوں پر سجے ہوئے خوش رنگ نشان ان کے دل کی دھڑکن کی غمازی کر رہے تھے۔ موٹروں پر موٹریں آکر رکیں اور دیکھتے دیکھتے ہال بھر گیا۔

    جلسے کی صدارت کا اعلان کیا گیا اور بائیں پہلو کی کرسیوں کی قطار سے کرشن چندر نکل کر اسٹیج کی طرف بڑھے۔ اندازہ یہی ہے کہ اکثر اہالیان بھوپال کے دلوں کی ایک دھڑکن ضرور خطا کرگئی ہوگی۔ بس یہی ہیں کرشن چندر؟ دبلا پتلا جسم ہی نہیں ان کی تو آنکھیں تک کمزور ہیں۔ عینک بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ تو ان کی علم دوستی کی روشن دلیل ہے۔ پھر ان کی چاند بھی تو گنجی ہے، مگر سنا ہے مردوں کی گنجی چاند خوش نصیبی کی نشانی ہے۔ لباس میں کوئی اہتمام رکھنا آیا ان کے بس کی چیز نہیں یا یہ خود کو ان چیزوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

    ایسی ڈھیلی ڈھالی جرسی کل ہند کانفرنس میں مظاہرے کی چیز تو نہ تھی۔ یہ تخاطب کے وقت دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ڈال کر شانے کبڑے بھی تو کرلیتے ہیں۔ بہرحال اب تو حاضرین کو ان کی صدارت بھگتنی ہی ہوگی۔ کرشن چندر کی فرمائش پر مولانا صاحب اسٹیج پر تشریف لائے۔ نہایت نفیس ململ کا سفید عمامہ سرپر اور اس سے بھی زیادہ سفید داڑھی ان کے دمکتے چہرے پر زیب دے رہی تھی۔ مولانا کا قد و قامت بلند نہیں مگر اس کے کشیدہ پن میں بڑھاپے کے ساتھ بھی فرق نہیں آیا۔ ان کے بشرے سے مسلمانوں کی عظمت رفتہ ترشح نظر آتی ہے۔ ان کی چال ڈھال میں ایک عالمانہ وقار ہے، اور ان کے تیور میں ایک تحقیق کا ٹھوس پن۔

    ’’نوجوان ادیبو! اور ہندوستان کی زبان اور قلم کے مالکو! مولانا نے مخاطب کیا۔ ان کا اندازہ کچھ عمر کے تقاضے اور کچھ فطری آہستہ کلامی کی وجہ سے گرمی گفتار سے محروم ہے۔ وہ ٹھنڈے دل سے آواز کی ایک متعین سطح پر بولتے رہے۔ سننے اور سمجھنے کا فرض حاضرین کے ذمے رہا۔ ’’کبھی میں بھی نوجوان ادیب تھا‘‘ مولانا نے فرمایا ’’اس وقت کے بوڑھے مجھے دیکھ کر اور میری باتیں سن کر اس قسم کے اعتراضات مجھ پر بھی کرتے تھے۔ آخر میں بھی پرانا ہوا اور ان کی عمر کو پہنچا تو مجھے بھی اپنے نوجوانوں کے تیور دیکھ کر ویسا ہی تعجب آتا ہے۔ اب نئے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی دنیا ہے لیکن عزیزو! ایک دن تم کو پرانا بننا ہوگا۔ اور تمہارا ترقی پسند ادب پرانا ہوچکا ہوگا۔ اس لیے نیا اور پرانا ہونا کوئی خاص بڑی بات نہیں۔ نہ ہر پرانی چیز غلط اور نہ ہر نئی چیز ٹھیک ہے۔ اس کے غلط اور ٹھیک ہونے کی کسوٹی اس کی ا فادیت ہے۔‘‘ ان الفاظ سے مولانا نے ادب کے متعلق ایک ارتقائی نظریہ پیش کیا اور ترقی پسندی کے نام سے عام طورپر جو تعصبات وابستہ ہیں ان کا ازالہ کیا۔

    البتہ علاّمہ کا ترقی پسند ادب پر ’’خوردن برائے زیستن‘‘ کے مسلک کا الزام ان کی دقت نظر کے شایان شان نہ تھا۔ مائیکرو فون کی متلون مزاجی اور مولانا کے لہجے کی یکسانیت نے جلد ہی حاضرین کے لیے اس سلسلہ کو صبر آزما بنادیا۔ بہر حال ALL IS WELL THAT ENDS WELL مولانا نے اپنی تقریر ’’پند پیردانا‘‘ کو جان سے زیادہ عزیز رکھنے کی اپیل پر خوش اسلوبی سے ختم کی۔ اب صدر استقبالیہ کمیٹی کی باری تھی جو بھوپال کے رؤسا میں ایک قبول اور مقتدر درجہ رکھتے ہیں۔ مگر اپنے طرز و انداز، اپنی پوشاک و حلیہ سے جاگیردارانہ لطافت و خوشبو کے بجائے جمہور پسندی کا نقش قائم کرتے ہیں۔ یہ عمر سے بوڑھے مگر دل و دماغ سے جوان ہیں۔ ان میں ہر تازہ تغیر کو خندہ پیشانی سے خوش آمدید کہنے کی قوت و صلاحیت ہے۔ ایسے بوڑھے آج کل کے شکستہ خاطر نوجوانوں سے زیادہ قابل قدر ہیں۔

    آخرکار کرشن کی باری آہی گئی۔ کرشن نے خطبہ پڑھنا شروع کیا اور بے اختیار فراق کا یہ شعر یاد آنے لگا،

    دیکھ رفتار انقلاب فراق

    کتنی آہستہ اور کتنی تیز

    کرشن کی شخصیت میں اثر آفرینی نہیں لیکن کشش ضرور ہے اور اس کے لہجے میں اس کی روح کی کھنک۔ تقریر تخریبی پہلو رکھتے ہوئے بھی کسی موقعہ پر کسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنی۔ اس لیے کہ کرشن کا حسین اسلوب بیان مدد کر رہا تھا۔ برائے اسالیب بیان کو پھٹے ہوئے جوتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے سن کر یا باتھو کے ساگ کو بوئے ختن اور گیسوئے تتار پر ترجیح دیتے ہوئے دیکھ کر بھی کبھی کسی چہرے پر برہمی کے آثار نہ تھے۔ حقیقت نگاری پر زور دیتے ہوئے کرشن نے اردو شاعری میں زمین کی سوندھی سوندھی بو، کسان کے پسینے بھرے ہوئے مضبوط ہاتھ اور مزدوروں کی آئل سے سنی ہوئی، ردیو ں کی کمی بتائی، ساتھ ہی اس ضرورت کی اہمیت کا احساس دلایا کہ ہمارے ادب کو زندگی کے ساتھ چلنا ہے اور زندگی بہت دور آسمان کے قریب پرواز نہیں کرتی۔ وہ دھرتی کے سینے سے لگ کر کھسکتی ہے۔

    ہندوستان کی نام نہاد سیاسی آزادی پر کرشن کی تنقید اپنی معنویت اور ادبیت کے اعتبار سے جواب نہ رکھتی تھی۔ ’’کل آزادی کا رنگ سفید تھا اور آج کالا ہوگیا ہے۔‘‘ کرشن نے اپنے نفیس انداز تقریر سے سب کو موہ لیا تھا۔ اس کی بات سنی جارہی تھی اور مانی جارہی تھی۔ قطع نظر اس کے اس کا سر گنجا اور اس کی جرسی ڈھیلی تھی۔ کرشن کی بنسی کا چھایا ہوا طلسم پیغامات سے ٹوٹا۔

    منہ کا مزہ بدلنے کے لیے اخیر میں مجروح نے غزل سنائی۔ نغمہ سے کہیں زیادہ نغمہ سرائی نے اثر کیا۔ مجروح کی بھرپور آواز اور مدھر تانیں محفل پر کیف بن کر چھاگئیں۔ مشرق کے تین حکیموں نے تو محض ایک ستارہ کو یروشلم سلام کرتے ہوئے دیکھا تھا اور مسیح کی پیدائش کا مژدہ لے کر چل پڑے تھے۔ جمہور پرست مجروح نے مقطع میں سارے ستاروں کا سلام ماسکو پہنچایا،

    میری نگاہ میں ہے ارض ماسکو مجروحؔ

    وہ سرزمیں کہ ستارے جسے سلام کریں

    اور اپنی جگہ آن بیٹھے۔ محفل برخاست ہوئی۔ بحیثیت مجموعی حاضرین خاصے مرعوب واپس ہوئے۔

    ۲۶/ جنوری۔۔۔ جعفری کے گرفتار ہوجانے سے سہ پہر کی میٹنگ کی صدارت کا قرعہ شاہد لطیف کے نام سے نکالاگیا۔ آج شاہد لطیف کو پندرہ پندرہ منٹ بعد ایک پیالی چائے درکار تھی۔ اس لیے کہ جس طرح ہوسکے جوڑ توڑ کے خطبہ تیار کرنا تھا۔ شاہد لطیف کی ذہانتیں فلم کے جھوٹے موتیوں کے مول بک سی گئیں ہیں، ورنہ رسالہ ’’ساقی‘‘ کے شباب کے دور میں ان کے اکثر افسانوں نے خاصی دھوم مچادی تھی۔ خصوصاً ’’بھوک‘‘ پر بزرگان کرام نے بڑی لے دے برپا کی تھی۔ شاہد تقریباً ۳۸ء تک علی گڑھ کی علمی و ادبی فضا میں سانس لے کر پروان چڑھے ہیں۔

    بمبئی میں فلمسازی اور ڈائرکشن کا کام اپنی نصف بہتر عصمت کی شرکت سے کرتے ہیں۔ خطبۂ صدارت گو نہایت افرا تفری کے عالم میں تیار ہوا تھا، تاہم افسانوی ادب پر مبصرانہ نگاہ کی دلیل تھا۔ شاہد نے پریم چند، راشد الخیری کی افسانہ نگاری سے لے کر ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کے بعد تک کے افسانوی ادب کا تاریخی جائزہ پیش کیا اور افسانہ نگاری کے تین دور قائم کیے۔ اصلاحی دور، جنسی مریضانہ پن اور شاعرانہ تکلفاتی لہجے کا دور اور موجودہ زمانہ جب کہ گزشتہ دس برس کی پیہم کوششوں کے بعد افسانہ نگار کہیں سن بلوغ کو پہنچے ہیں، جس کی چند مثالیں عصمت کے ’’لال چیونٹے‘‘، کرشن کا ’’بت جاگتے ہیں ’’ پاکستان سے ہندوستان تک‘‘ ہیں۔

    ابراہیم یوسف کے ڈرامہ نگاری سے اچھی توقعات وابستہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تاہم اس شام ان کی دو غلطیوں نے مزا کرکرا کردیا۔ ڈراما طویل تھا اور پڑھنے میں مستقل یک آہنگی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حاضرین نے خود کسی فی البدیہہ ڈرامہ کے مکالمہ کی تیاری شروع کردی اور ابراہیم یوسف صاحب نے ’’لذیذ بود حکایت درازترگفتم‘‘ کا تسلی بخش سہارا لے کر ڈرامہ ختم کیا۔

    عصمت چغتائی نے اپنا مضمون ’’کہانی‘‘ جو ’’آج کل‘‘ میں چھپ بھی چکا ہے خاصی ترمیم و تنسیخ کے بعد سنایا۔ اس میں کہانی کے مروجہ موضوعات اور ساجی و سیاسی ارتقاء کے ساتھ اس کی ترقی کا بصیرت انگیز جائزہ پیش کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ آج کے بدلے ہوئے حالات کہانی سے کیا مطالبہ کرتے ہیں۔ عصمت کا بے تکلف گھریلو لہجہ اور اس کے جاگے ہوئے شوخ جملے محفل کو گدگدارہے تھے۔ عصمت نے ساز چھیڑتے وقت رنگ محفل کا لحاظ رکھا تھا۔

    ۲۶؍ کی رات کو ہال کھچاکھچ بھرگیا۔ بزم میں خاصا خروش تھا۔ زبان کا مسئلہ ترقی پسندوں کے ہاتھوں ہونا تھا، پھر بھی آج کی بات ان کے بس کی نہ تھی۔ زبان تو بوڑھوں کا سرمایہ ہے اس کے تحفظ کے لیے وہ ہم سے زیادہ حقدار ہیں۔ سندرلال جی نے صدارت فرمائی۔ سندرلال جی کا یہ دوسرا بچپن ہے۔ وہ اپنے بچپن کو کھوکر اس بچپن کو پوری طرح سے عزیز رکھتے ہیں، اور خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تقریر کرسی پر بیٹھ کر شروع ہوئی مگر قوت ورود کا یہ عالم کہ بغیر مائیکرو فون کی امداد کے ہر ہر لفظ لوگوں تک پہنچ رہا تھا۔ ’’بچو‘‘، ’’یارو‘‘، ’’کم بختو‘‘ کے خطابات نے سننے والوں کے دلوں سے بڑا بوجھ ہلکا کردیا تھا۔ جگہ جگہ چٹکلے بازی سے ہال قہقہوں سے گونج جاتا تھا۔ سندرلال جی کے لباس اور انداز میں ہندوستان کے رشیوں کی سی سادگی نے گاندھی جی کی یاد دلادی۔

    ’’اے گل بتوخرسندم تو بوئے کسے داری‘‘ تعصب اور نفرت دور کرنے کی تلقین سے ان کی تقریر لبریز تھی۔ مسلمان ہندی اور ہندو اردو سیکھیں اور دونوں کو اپنی زبان اور سریایہ سمجھیں وغیرہ۔ سندرلال جی کا تقریر کا سب سے بڑا گر یہ تھا کہ وہ اخیر تک ’’نئی نئی سی ہے لیکن یہ رہگزر پھر بھی‘‘ کا احساس دلاتی رہی۔

    دوسری جانب علامہ سلیمان ندوی کی موجودگی ادب کے طالب علموں کے لیے صنعت تضاد کی تعریف سیکھنے میں مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ سندرلال جی کی تقریر کے خاتمہ پر وہ اپنے علم کی سنجیدہ گفتاری ’’بڑھاپے کے شعور‘‘ سمیت آئے اور بتایا کہ اردو کس طرح ہندو مسلمان دونوں کے خون جگر سے سیراب ہوکر پروان چڑھی ہے۔ اور دونوں کی تہذیب کی آمیزش کا نتیجہ ہے، اسی لیے اس پر مذہب کا ٹھپہ لگانا کم نظری کی دلیل ہے۔ جیسے جیسے اسلامی تمدن ہندوستانی معاشرے و تمدن پر اثرانداز ہوا۔۔۔ فارسی عربی اور ترکی الفاظ ہندوستان کی رائج زبانوں میں شامل ہوتے گئے اور اردو نے جنم لیا۔ مولانا کی تقریر پوری توجہ سے سنی اور سمجھی گئی۔

    اختر سعید نے زبان کے بارے میں ایک ریزولیوشن پیش کیا، جس میں ہندوستانی زبان کو وجود میں لانے کی پرزور کوشش پر زور دیا گیا۔ جب تک کہ ہندوستانی زبان کی پوری طرح تشکیل نہیں ہوتی اس وقت تک اردو اور ہندی دونوں کو قائم رکھنے کی حکومت ہند سے پرزور اپیل کی گئی تھی۔ احسن نے اس ریزولیوشن کی پرزور تائید کی، اور صوبائی حکومتوں کی اردو دشمنی کو ظاہر کیا۔ عمائدین کو احسن کی تقریر چھوٹا منہ بڑی بات معلوم ہو رہی ہوگی۔ لیکن اس سے انکار نہیں کہ احسن میں جوش تھا، خلوص تھا اور سب سے بڑھ کر اخلاقی جسارت۔ جلسے کے اختتام پر رات بھیگ چکی تھی۔ موٹروں پر موٹریں منٹوہال سے رینگتی ہوئی نکلیں اور چند ہی منٹ میں سندرلال جی کی شوخ گفتاری کے تذکروں سے بھوپال کا گھر گھر مسکرا پڑا۔

    ۲۷؍ کی صبح عصمت چغتائی علی گڑھ کی بھولی یادوں کو تازہ کرنے حمیدہ سلام الدین کے یہاں پناہ گزیں ہوئیں۔ جہاں اچھا کھانا اور بے فکری کی گپ، دونوں چیزیں موجود تھیں۔ کرشن وغیرہ سب کے سب میجر محبوب کے یہاں کھانے پر مدعو تھے۔ میجر محبوب نے عصمت کو کھانے کی دعوت سے محروم رکھتے ہوئے غالباً اس کا لحاظ نہ رکھا کہ عظیم بیگ چغتائی کے ملفوظات ٹامی کے بعد عصمت چغتائی کے ملفوظات محبوب کی تصنیف کا بھی امکان ہے۔ بہرحال اچھا ہی ہوا۔ عظیم بیگ مرحوم کی قلمی نوازشیں عصمت کی طرح مرنے والوں کو ’’دوزخی‘‘ نہیں بتایا کرتی تھیں۔ عصمت سے اس کا بھی اندیشہ تھا۔

    آج شام عصمت چغتائی صدر نشینی پر آمادہ ہیں۔ شاید ایسے ہی موقعہ پر شاعر نے عرض تمنا کی ہوگی،

    منعقد پھر سے کروں محفل جمشید وقباد

    دوگھڑی صدر نشینی پہ جو آمادہ ہو تو

    شعر تو دلکش ہے، لیکن یقیناً شاعر کے تصور میں عصمت جیسی مردمار عورت نہیں ہوسکتی تھی۔ عشوہ و انداز و ادا سے خالی عورت بھی کوئی عورت ہے۔ پھر بھی عصمت میں عورت کا وقار، اس کا بھاری بھرکم پن اور اس کا محبت بھرا دل ضرور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ داور محشر ایک نیکی کے صلے میں ستر گناہ معاف کرے گا۔ شاید عصمت بھی اس چکر میں بخشی جاکر عورتوں کی جنت میں داخل کردی جائیں۔ بہرحال یہ تو ان کا حشر ہوگا۔ آج کی میٹنگ کا کیا حشر ہوا۔ یہ سوال فی الحال زیادہ اہم ہے۔ عصمت کا خطبۂ صدارت لاؤڈ اسپیکر کی ستم پیشگی سے خاصے خسارے میں رہا۔ تاہم جتنا سنا گیا اس میں آزادی اور اس کے بعد فسادات کے اثرات سے متاثر ادبی تخلیقات پر تنقید تھی۔

    عصمت نے اسے ہنگامی اور وقتی ماننے سے انکار کیا اور بتایا کہ ہر زمانہ کا ادب ہنگامی ہوتا ہے۔ راما نند ساگر کے ’’انسان مرگیا‘‘ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے عباس کے رجعت پسندانہ دیباچہ پر خاصی بوچھاڑ کی۔ قلمی بے باکی اور ’’نواز تلخ می زن چو ذوق نغمہ کم یابی‘‘ سے عصمت واقف ہیں۔ مگر ان کے زہر میں لذت اور ان کے نشتر میں گدگدی ہے۔ آج کی ادبی تخلیقات میں سہرا کرشن کے افسانہ ’’مہالکشمی کا پل‘‘ اور اس سے بھی زیادہ ادھو کمار کی ’’چرچل کی چھوری‘‘ کے سر رہا۔ ادھو کمار اپنے حلیے سے اودے شنکر کی برادری سے معلوم ہوتے ہیں۔ ’’چرچل کی چھوری‘‘ ایک گیت ہے، جس میں ایک سیاسی مسئلہ عوام کی معاشرے اور ان کی روزمرہ زندگی کا سوال بن گیا۔ ’’جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا‘‘ کی اس سے بہتر مثال ملنی ممکن نہ تھی۔

    لائی دہیج میں چیج بری بھاری

    مہنگی اکال کی بھرلائی تمہاری

    بھونکھن کے پیٹ کو کاری کٹاری

    برلا کو سونے کے لائی کنگنوا

    چرچل کی چھوری ہو مورے بھیا

    دادا پٹیل کو تجوری ہو

    چرچل کی چھوری ہو

    ادھو کمار کے گیت ’’اگر قوم قدر شناس ہوتی۔۔۔‘‘ کے گیتوں کی طرح گاؤں اور بستیوں میں آگ لگا ستکے ہیں۔ ان میں اپنائیت ہے، بے تکلفی اور خون کی گرمی۔ ان میں ہمیں اصلی زندگی مسکراتی اور سسکیاں بھرتی نظر آتی ہے۔ ان میں ہمیں اپنا رنگ و روپ دمکتا اور جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی چیزیں تو ہندوستان کی اصل پونجی ہیں۔ لیکن افسوس ہم زبردستی وہ بننا چاہتے ہیں جو دراصل نہیں ہیں۔ ادھوکمار کا پیغام ہندوستان کے اسی فیصد عوام تک پہنچایا جاسکتاہے۔ اور ان کی لے کی نقالی ہر دیہات کے کسان مرد عورت کے بس کی چیز ہے۔ ادھو نے حساس دلایا کہ جوش نے ہندوستان کے کسانوں کو ’’ارتقا کا پیشوا‘‘، ’’تہذیب کا پروردگار‘‘ کہنے میں مبالغہ سے کام نہیں لیا۔

    عصمت کی صدارت کے بعد ہی ڈرامہ ہونا تھا۔ جس کے لیے کہنا بے جا نہ ہوگا ’’میری تعمیر میں مضمر ہے ایک صورت خرابی کی‘‘ ڈرامہ جی بھر کے ناکام رہا۔ لوگ دوسرے دن کے مشاعرے کی آس پر زندہ رہنے کا تہیہ کیے گھر واپس ہوئے۔

    ۲۸/ کی شام کو ادبی تخلیقات کا دوسرا جلسہ مہندر ناتھ کی صدارت میں ہوا۔ بمبئی گروپ میں یہ بھی آئے تھے اور عادل رشید بھی۔ اس محفل کو ماحول ستھرا اور صاف میسر آگیا۔ MUSE OF POETRY کی پوجا شروع ہونے سے پہلے مہندر ناتھ نے ادب و جنس کے موضوع پر اپنا خطبۂ صدارت پڑھا۔۔۔ ابتدا میں انہوں نے ترقی پسند ادب میں جنس کے موضوع کا تاریخی جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ ’’ابتدائی دور میں ترقی پسند ادیب جنسی مریضانہ ذہنیت کا علاج کرنے کے بجائے خود مریض ہوکر رہ گئے لیکن اب ہمارے ادیبوں نے اپنا رخ موڑا ہے۔ اور جنس کے موضوع کو ایک تعمیری انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘ مہندر ناتھ نے جنسی افسانوں میں جسمانی محبت کے ساتھ روحانی رفاقت اور خیال کی ہم آہنگی پر زور دیا۔ ایسی رفاقت جو ایک نئے سماج کی داغ بیل ڈالنے میں مدد گار ہو۔

    عادل رشید کا افسانہ ’’باتیں‘‘ پسند کیا گیا۔ شاہ میر راہیؔ کے ’’الجھے بال‘‘ ایشیائی محبوبوں کی زلفوں کا کام کرکے استاد فن کرشن اور عصمت کا دل الجھا کر لے گیا۔ ’’زندگی پر ایسی صحتمند اور صحیح نظر ہمارے بس کی چیز نہیں۔‘‘ کرشن نے کہا۔ راہی واقعی ابھی راہی ہے لیکن اس کا راستہ صاف ہے۔ اور اس کے قدم تیز ہیں، وہ ضرور آگے بڑھے گا۔ تاباں کی نظم ’’دیوالی‘‘ جتنی کامیاب چیز ہے، اتنا اثر سامعین پر تحت اللفظ پڑھے جانے کی وجہ سے پیدا نہ کرسکی۔ ذوق نغمہ کی تکمیل اور ادھو نے کی اور محفل برخاست ہوئی۔

    مشاعرے کی رات کی سی رونق منٹو ہال میں اس لیے پیشتر دیکھی ہی نہ گئی۔ اسٹیج پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ اجلی اجلی چاندنی، گاؤ تکیے اور قالین۔۔۔ ہندوستان کی تاریخ کے پلٹے ہوئے اوراق سے کم نہ تھے۔ والنٹیرز کو اپنی کارگزاری دکھانے کا پورا موقع تھا۔ شہر بھر کی خواتین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ صنف لطیف میں شاعری کی اس درجہ پوچھ ’’حسن آیا تھا خود منانے کو‘‘ کی مصداق بنی ہوئی تھی۔ طویل انتظار کے بعد جلسہ شروع ہوا۔ ابتدا میں صدر انجمن نے اختتامیہ تقریر کی جس میں اپنے رفقاء کار کا شکریہ، آئے ہوئے مہمانوں کی شکرگزاری اور بعض لوگوں کی عدم شرکت پر اظہار تاسف تھا۔ بقیہ اور چیزیں رسمی ہوسکتی تھیں، لیکن جعفری کا تذکرہ اختر کے تاثر اور خلوص کاضامن تھا۔ ’’وہ ہمارا ادیب، وہ ہمارا شاعر، وہ ہمارا نقاد، وہ ہمارا ساتھی، آج کل جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ وہ نہ آسکا۔ جعفری جو تنہا ہماری انجمن ہے۔ لوگوں نے مجھے ہر اجلاس کے اختتام پر کانفرنس کی کامیابی کی مبارک باد دی، لیکن انھیں کیا معلوم کہ جعفری کے بغیر ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس نہیں ہوا کرتی۔‘‘ اس کے بعد بمبئی حکومت کے اس اقدام پر اظہار غصہ کا ایک پرزور ریزولیوشن منظور ہوا۔

    مشاعرہ کی صدارت حضرت جوشؔ کو کرنی تھی۔ لیکن وہ بارہ بجے کی گاڑی سے تشریف لارہے تھے، اسی لیے اختر نے ان کی نیابت اپنا فرض سمجھا۔ مشاعرہ پان، سگریٹ کے دور کے ساتھ شروع ہوا۔ ویسے تو اللہ رکھے بھوپال کا بچہ بچہ شاعر نکلے گا، پھر بھی ’’ہر شے میں کسی شے کی کمی کا احساس‘‘ ذہن پر مستقل طاری تھا، جو ذرا دیر کے لیے حضرت آزادؔ کی آمد سے مٹ سا گیا۔ یہ بزرگ فرحت اللہ بیگ کی یادگار مشاعرے کے ایک فرد معلوم ہوتے تھے۔ کامدار رام پوری ٹوپی اور شانہ پر سرخ رومال، جو داد لیتے وقت بالکل لکھنؤ کے دولہاؤں کی طرح چومکھی سلام کرنے کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ پہلا مصرعہ بڑے کڑاکے سے پڑھتے اور دوسرے مصرع کا نصف پڑھ کر باقی سامعین کے لے چھوڑ دیتے۔ محفل کی محفل سیماب وار تڑپ رہی تھی۔ شاعر سے زیادہ سامعین بے قابو تھے۔ صدر مشاعرہ شاعر صاحب کو قابو میں رکھنے کے لیے، جہاں انھیں حد سے گزرتے دیکھتے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر پیچھے گھسیٹ لیتے۔ اس مدافعتی اقدام میں مرکزی خیال، مائکروفون کا تحفظ تھا۔

    مجروح آج کی محفل میں خوب جمے۔ احسن نے سہلی بتاؤ کہاں جارہی ہو‘‘ پڑھ کر راز دروں پردہ فاش کرنا چاہا۔ عرشؔ کی غزل کو خاطر خواہ داد ملی۔ اسد نے ’’جان دے دوں گا میر ے ساتھ اگر تم نہ رہے‘‘ کی دھمکی غریب محبوب کو کبھی دی تھی، آج سربزم اپنی تیوریوں کے اتارچڑھاؤ سمیت دولت اور حکومت والوں کی جان لینے کی دھمکی سے مرعوب کرنے کی کوشش میں مبتلا تھے۔

    ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے، اور سامعین کھلونا دے کر ہی بہلائے جارہے تھے کہ ایک غلغلہ سا اٹھا۔ اور پورا ہال ’’شاعر انقلاب حضرت جوش زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج گیا۔ اہل محفل تعظیماً گھڑے ہوگئے۔ اختر نے اس شعر کے ساتھ کہ،

    جوش اعظم کی صدارت میں پس و پیش نہ کر

    جوش تو قبلہ رندان جہاں ہے ساقی

    صدارت جوش کے سپرد کی ’’چاند نکلا سبک ہوئے تارے‘‘ جوش کا وجود تمام نوجوان شعراء کے بیچ میں مولوی عبدالحق کی تشبیہ ’’پودنوں میں دبو‘‘ کی یاد دلارہا تھا۔ چند ایک ہی شعرا کے بعد جوش کی باری ہوگئی۔ میکدوں کی محفلوں اور مطربوں کی بزم والا شاعر آج ’’رشوت خوروں کی اپیل‘‘ لے کر آیا تھا۔ محفل کی محفل اس طنز لطیف پردیوانی ہو رہی تھی۔

    ہاتھ سے کھودیں اگر اس چیز کو پائیں گے کیا

    ہم اگر رشوت نہیں لیں گے تو پھر کھائیں گے کیا

    قید بھی کردیں تو ہم کو راہ پر لائیں گے کیا

    یہ جنون عشق کے انداز مٹ جائیں گے کیا

    ملک بھر کی قید کردیں کس کے بس کی بات ہے

    ایک سے سب ہیں، کوئی دوچار دس کی بات ہے

    جوش جوانی کی کشش حصے میں لائے تھے تو بڑھاپے کا حسن بھی۔ ان کے طنز میں شادابی ہے اور ہلکا پھلکا پن۔ ان کی مسرتیں بے لوث ہیں۔ ان کی عصمت فکر سے سامعین دل و دماغ کی کدورتیں دھو رہے تھے۔ مشاعرہ پورے رچاؤ پر تھا۔ لیکن طرب کے لمحے اکثر مختصر ہوتے ہیں۔ جوش لکھنو سے بھوپال تک کی مسافت طے کرنے کے بعد سکون کے متلاشی تھے۔ بزم برہم ہوئی ’’بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے‘‘ کی شکایت سامعین کے دلوں میں رہ گئی۔

    ۲۹/جنوری: آج کانفرنس کے آخری مراحل طے پانے تھے۔ مہمان ادیب و شعرا ’’روزانہ ایسے امتحان کے دوپرچوں (بقول عصمت آپا) سے حد درجہ بیزار ہوچکے تھے۔‘‘ آج کا دن حامد سعید صاحب کے دولت کدہ پر اطمینان سے گزرا اور لوگوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملا۔ بات چیت بھی اکثر خیالات کی طرح بڑی بے سروپائی سے بہکتی ہے۔

    آج بڑے دلچسپ موضوعات زیر بحث رہے۔ آزاد شاعری، غزل گوئی میں جدید امکانات، ادب اور پروپیگنڈہ ان سب پر گفتگو چھڑتی رہی۔ آخر میں ترقی پسند شاعری پر یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ اس شاعری میں عورت محبوبہ کے علاوہ اور حیثیتوں سے کیوں موضوع سخن نہیں بنتی جب کہ وہ بہن، ماں، دوست، ساتھی، بیوی، کسان، مزدور ان سب حیثیتوں سے سوسائٹی کی اہم فرد ہے۔ آخر اسے اب تک عشق کے لیے ہی کیوں مخصوص کر رکھا ہے۔ یہ بات تقریباً مان ہی لی گئی کہ یہ روایتی تصورات کا اثر ہے۔ جس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش ہمارے شاعروں کو کرنی چاہیے۔ مجروح جن کی شادی دوچار ہی دن رہ گئے تھے، عورت کے موضوع سے غیر معمولی دلچسپی لے رہے تھے۔

    کھانے کے بعد جوش صاحب نے بڑے مزے لے لے کر قطعے اور رباعیاں سنائیں۔ ان کے عینک سنبھالتے ہی سننے والے ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ شعر سناتے وقت جوش کااحساس غیر معمولی تیزی سے کام کرتا تھا۔ وہ داد سخن کی گرمی میں خفیف سا فرق بھی محسوس کرتے تھے تو فوراً مسکراتے ہوئے چہرے سے قدرے بے دلی کے لہجے میں کہتے ضرور تھے، ’’بیکار گیا شعر‘‘ اور پھر جنبش سر سے اس کی بھی داد چاہتے تھے۔ جوش صاحب کی بے تکلفی کی محفلیں ایک انوکھا لطف رکھتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں غیرمعمولی کشش اور ان کے ہر انداز میں زندگی کی ایسی رو ہے جو افسردہ دلوں میں بھی امنگ پیدا کردیتی ہے۔ ان کی کشش کا راز وہی ہے جو ایک بے خبر معصوم بچے کی کشش کا ہوتا ہے۔ بچہ اپنی ذات سے زیادہ کسی میں مبتلا نہیں ہوتا پھر بھی لوگ اس کی طرف خود بخود متوجہ ہوتے ہیں، اور اس کی من موہنی باتوں میں کیف و سرور محسوس کرتے ہیں۔ اس کی معصوم اور غیر آلودہ مسکراہٹ میں اپنی کھوئی ہوئی زندگی کی جھلک پاتے ہیں۔ جوش کی شخصیت Logical-act سے بری ہوتے ہوئے بھی ایک مقناطیسی اثر رکھتی ہے۔ دل ان کی طرف کھنچتا ہے اور اس محفل کی محبت آمیز نگاہوں کا عکس ان کی آنکھوں میں ایک دائمی مسکراہٹ بن کر جذب ہوتا نظر آتا ہے۔

    آخر مرحلہ ایٹ ہوم کا، کافی ہاؤس میں طے ہونا تھا۔ منتظمین کانفرنس آج قدرے فراغت کے احساس سے مسرور نظر آرہے تھے۔ گروپ کافی ہاؤس کے لان پر اترا۔ جوش صاحب مرکز میں تھے اور دیگر اصحاب ’’ہم کہاں تک تیرے پہلو سے سرکتے جائیں‘‘ کی شکایت سمیت ایک ترتیب سے بیٹھ گئے تھے۔ والنٹیر لڑکے دعوت میں پوری دعوے داری سے شامل تھے اور لڑکیوں کی عدم شرکت ایک کمی کا احساس پیدا کر رہی تھی۔ عصمت آپا چند خواتین کے ساتھ کافی ہاؤس کے ایک پردہ والے گوشہ میں حوصلہ افزائی کرتی اور خلوص برتتی نظر آرہی تھیں۔

    دوسرے دن بمبئی والوں کی فرمائش تھی کہ سانچی کی سیر کی جائے۔ اختر سعید نے ذمہ داری سرلی۔ اور وہی پژمردہ خاطر AMBULANCE CAR جو کانفرنس کے دوران میں ادیبوں اور شاعروں کو منٹوہال لانے اور واپس لے جانے کے فرائض انجام دے چکی تھی، اس خدمت کے لیے بھی حاصل ہوگئی۔ دو بجے ہوں گے کہ یہ لوگ عصمت آپا اور جوش صاحب کولینے اختر کے مکان پر پہنچے جہاں عصمت آپا کے علاوہ ہر شخص اس بات پر مصر کہ پروگرام ملتوی ہوجائے تو اچھا۔ آخر جیت عصمت ہی کی رہی۔ سب چلنے پر آمادہ ہوگئے اورجوش صاحب کو اس ’’خلل دماغ‘‘ کا سب سے بڑا مریض قرار دے کر ان کے لیے AMBULANCE CAR کی بیچ والی جگہ پر بستر لگادیا گیا، اور سب بنچوں پر حلقہ بناکر بیٹھ گئے۔ اس مردا لاری میں اگر ذرا بھی حسن کا امکان ہوتا تو جوش صاحب کا ان سرپھرے ادیبوں کے بیچ میں لیٹا ہوا ہونا۔ PASSING OF ARTHUR کی مشہور پینٹنگ کی یاد دلادیتا۔

    بہرحال لاری، ہچکولے کھاتی ہوئی روانہ ہوئی۔ کرشن اور عصمت ابھی سے خیالی طور پر سانچی پہنچ گئے تھے، اور افسانوں کے مواد تلاش کر رہے تھے۔ ادھو کمار رہ رہ کر اپنے گیت کا کوئی ادھورا سا حصہ چھیڑ دیتے، اور پھر چپ ہو رہتے۔ عسکری صاحب مستقل پیغمبرانہ شان سے ’’لگی ٹھوکر تو سارا عشق لیلیٰ دب گیا آخر کہ نیچے قیس اوپر اونٹ ہے اور اس پہ محمل ہے۔‘‘ کا ورد فرمارہے تھے اور اثر کو کاری بنانے کے لیے نرت بتانا بھی ضروری خیال کر رہے تھے۔

    اختر سعید کے چہرے پر ذمہ داری کے احساس سے تمتماہٹ تھی اور انداز سے خلاف معمول مستعدی کا اظہار ہو رہا تھا۔ اختر نے بیٹی بیاہ دی تھی یا گھوڑے بیچ چکے تھے اور لاری کے اندر کسی تھرڈ کلاس کمپارٹمنٹ کے مسافروں کانقشہ پیش کر رہے تھے۔ آنکھیں بند تھیں اور کبھی سر ایک جانب جھک جاتا کبھی دوسری جانب۔

    دوچار میل جانے کے بعد ہی لاری نے آگے بڑھنے سے انکار شروع کردیا۔ سورج کی شعائیں ترچھی پڑگئی تھیں، اور سائے دراز ہوچلے تھے۔ آخر پندرہ سولہ میل کھنچ جانے کے بعد سب نے واپسی کا فیصلہ کیا۔

    چنانچہ عصمت اور کرشن بقول عادل رشید ’’اجنتا اور اجنتا سے آگے کے ہم وزن سانچی یا سانچی سے آگے پہنچنے کے بجائے سانچی سے پیچھے‘‘ پر ہی اکتفا کرکے واپس ہوئے۔

    جوش صاحب غروب کے بعد گھر پہنچے اور شام کی محفل حسب معمول آراستہ ہوگئی۔ دوسری صبح عصمت کا کوچ تھا، اس کے بعد کی ہر گاڑی سے مہمان رخصت ہوتے رہے، بس یہ کیفیت طاری تھی،

    آغوش گل کشودہ برائے وداع ہے

    آعندلیب چل کہ چلے دن بہار کے

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 119)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے