Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہت کبیر سنو بھئی سادھو!

پرکاش پنڈت

کہت کبیر سنو بھئی سادھو!

پرکاش پنڈت

MORE BYپرکاش پنڈت

    ’’کلکتہ چلوگے؟‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’تم، ہنسراج رہبر! تم کلکتہ چلوگے‘‘

    ’’نہیں‘‘

    ’’آپ ڈاکٹر سلامت اللہ صاحب، آپ تو چلیں گے نا؟‘‘

    ’’نہیں برادر‘‘

    ’’بھیا فکر تونسوی، تمہیں تو بہرحال کلکتہ چلنا چاہیے۔‘‘

    ’’ہاں! لیکن نہیں جاسکتا۔‘‘

    نریش کمار شاد کو بھی کلکتہ چلنا چاہیے لیکن وہ بھی نہیں جاسکتا۔ تاجور سامری دوسال پہلے سے کلکتہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا، لیکن عین وقت پر اسے معلوم ہوا کہ وہ بھی کلکتہ نہیں جاسکتا۔ دہلی آرٹ تھیٹر کی روح رواں اور پنجابی زبان کی مشہور ڈرامہ نگار خاتون شیلا بھاٹیہ کلکتہ نہیں جاسکتیں۔

    بین الاقوامی شہرت کا مالک سانیال کلکتہ نہیں جاسکتا۔ انڈوچائنا فرینڈز ایسوسی ایشن کا سکریٹری کلکتہ نہیں جاسکتا اور پنجاب کا البیلا شاعر پیاراؔ سنگھ صحرائی جو اپنی ٹانگوں کی تکلیف دہ لنگ کے باوجود تین تین میل پیدل چل کر دہلی کی ادبی اور تہذیبی مجلسوں میں شرکت کرتا ہے اور جس نے وارث شاہ اور گرونانک کی زبان اور ادب کو نئے الفاظ اور نئے خیالات کا بہت بڑا ذخیرہ دیا ہے اور جو اپنی اپاہج ٹانگو ں پر کلکتہ تک پیدل سفر کا عزم رکھتا ہے، کلکتہ نہیں جاسکتا۔

    پروفیسر رندھیر سنگھ جوشؔ اور دیویندر اسر، دیو چانند اور اسکول ماسٹر بلراج کو مل، افسانہ نگار سرلادیوی اور صدیقہ بیگم اور دہلی کے سیکڑوں شاعر، ادیب، صحافی، مصور اور رقاص جو اپنے قلم سے، اپنے برش سے، اپنے تخیل کی پرواز سے اوپر اپنے پاؤں کی نرم اور تند جنبش سے ادب، آرٹ اور کلچر کو مالا مال کر رہے ہیں، اور تاریخ کو نئے معنی پہنا رہے ہیں اور ہزاروں اسکولوں اور کالجوں کے طالب علم دفتروں کے کلرک چھوٹے دکاندار اور ملوں کے مزدور اور کھیتوں کے کسان جنہوں نے کبھی کسی جلسے میں تقریر نہیں کی، جن کا نام کبھی کسی اخبار میں نہیں چھپا اور جن کی صورت سے صرف ان کے گھر والے آشنا ہیں لیکن جو اپنے ملک کی بہترین روایات کو اور تاریخ کی سچائی کو سینہ بہ سینہ آگے بڑھا رہے ہیں، کل ہند کلچرل کانفرنس اور امن کے عظیم میلے میں شرکت کرنے کے لیے کلکتہ جانے کو بے قرار ہیں لیکن نہیں جاسکتے۔

    فکر تونسوی۔ اے امن نامہ کے شاعر اور پنجاب کے چھٹے دریا اور تاریخ کے ساتویں شاستر کے طنز نگار، آخر تم کلکتہ کیوں نہیں جاسکتے؟

    بربریت کے دروازے پر انسانیت اور انقلاب کی ’’دستک‘‘ دینے والے نوجوان شاعر، نریش کمار شادؔ! آخر معلوم تو ہو کہ تم کلکتہ کیوں نہیں چل رہے!

    ہنس راج رہبرؔ! تم نے زندگی میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تم بارہا اپنی کہانیوں کی حفاظت کے لیے، اپنے انسانی حقوق اور اپنے ماضی کی شاندار روایات اور کلچر کی حفاظت کے لیے جیلوں کے داروغوں سے کوڑے کھاچکے ہو۔ کانگریسی ہونے کی وجہ سے انگریز کی جیل میں تمہاری مشکیں کسی گئیں اور تمہارے پاؤں میں قاتلوں کی بیڑیاں پہنائی گئیں اور کمیونسٹ ہونے کی وجہ سے کانگریس جیل میں تمہیں بھوک ہڑتال کرنا پڑی۔ آخر تمہارے کلکتہ نہ جانے کا سبب کیا ہے؟

    پنجابی زبان کے ہر دلعزیز اور عظیم دانشور بوڑھے گوربخش سنگھ! تم نے ہر دور میں سچائی کا ساتھ دیا ہے۔ انسان کی صدیوں کی پروان چڑھائی ہوئی تہذیب کے ٹکڑے ہوتے دیکھ کر تمہاری جہاندیدہ آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے ہیں۔ اور تمہارے قلم سے انسان اور انسانیت دشمنوں کے خلاف تند و تیز شعلے لپکنے لگتے ہیں۔ ہزار خطرات کے باوجود تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ آج مجھے سچ سچ بتاؤ، تم کلکتہ کیوں نہیں جارہے؟

    پیارے نوتیج۔۔۔! تمہاری کہانیوں میں نوزائیدہ بچوں کی معصوم مسکراہٹ اور حاملہ دھرتی کے دل کی دھڑکنیں بسی ہوئی ہیں۔ تمہاری ہر کہانی عصر حاضر کی دیومالا ہے جس میں محنت کش دیوتا ہے اور غاصب راکشس اور جب کبھی ان دیوتاؤں پر کسی قسم کا ظلم ہوتا ہے، بہار میں بھوکے بچوں پر گولیاں برستی ہیں، تلنگانہ کی دھرتی کے بیٹوں کو پھانسی کا حکم سنایاجاتا ہے یا پنجاب کی کسی ویران سڑک پر رینگتی ہوئی ایک لاری میں تمہیں ایک بڑھیا نظر آتی ہے جو نہ ہنس سکتی ہے نہ رو سکتی ہے۔ یا کلکتہ کے کسی چوراہے پر ایک منحنی سا چھوکرا نظر آتا ہے جو صرف اس لیے عورتوں کی دلالی کرتا ہے کہ اس کا چھوٹا بھائی عو رتوں کی دلالی نہ کرے اور اس کی بڑھیا اور بیمار ماں چاول کے چند دانے نگل سکے۔ اور تم اپنی کہانیوں کے ذریعے اس مکروہ اور خونیں نظام کے خلاف اپنی مقدس نفرت کا اظہار کرنے لگتے ہو۔ پیارے نوتیج! مجھے بتاؤ کہ اگر تم کلکتہ نہ گئے تو بنگال کی سرزمین کو پنجاب کی سرزمین کا خوش آئند پیغام کون پہنچائے گا۔ مجھے بتاؤ کہ تم نے اپنے خط میں یہ دردناک جملہ کیوں لکھا ہے کہ تم کلکتہ نہیں جاسکتے؟

    اس بے ہودہ اور فرسودہ نظام زندگی کے خلاف انقلاب کا درس دینے والے مایۂ ناز شاعر جوش ملیح آبادی اور لوک گیتوں کے رسیا دیوندر ستیارتھی کیا تم نہیں جانتے کہ کل ہند کلچرل کانفرنس میں تم لوگوں کی عدم شمولیت کیا معنی رکھتی ہے؟

    تقسیم ہند اور اس کے ساتھ منڈی کی جنس کی طرح تہذیب و تمدن کی تقسیم پر بلبلاکر اپنی پردرد آواز میں ’’خدا کے گھر پر کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گزری‘‘ چلا اٹھنے والے جگن ناتھ آزاد اور تہذیب و تمدن کے دشمن سامراجیوں کو للکارنے اور ان کے منہ پر ’’ایشیا کوچھوڑدو‘‘ چپت لگانے والے خوش گلو شاعر عرش ملسیانی کیا میں تم سے پوچھ سکتا ہوں کہ یہ جو کلکتہ میں ہندوستان بھر کے کلچرل امن دوست فنکاروں کا ایک تاریخی اجتماع ہو رہا ہے اس میں تمہاری آواز کے نہ گونجنے کا کیا مطلب ہے؟

    ’’میں نہیں جاسکتا‘‘

    ’’میں بھی نہیں جاسکتا؟‘‘

    ’’افسوس کہ میں بھی نہیں جاسکتا۔‘‘

    ’’ تم تو سب کچھ جانتے ہو۔ خود ہی بتاؤ کہ میں کیسے جاسکتا ہوں؟‘‘

    ’’ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں۔۔۔ پریم چند کے ہم عصر جنیندر کمار کہ تم کیوں کلکتہ نہیں جارہے۔ ہندی، اردو، پنجابی کے خوش فکر معمارو۔۔۔ شودان سنگھ چوہان، نروتم ناگر، ہری چند اختر، شمشیر سنگھ نرولا، راجندر ناتھ شیدا، گور بچپن سنگھ طالب، کرتار سنگھ دگل، پریم ناتھ درد، ریوتی سرن شرما، م۔ م۔ راجندر، چندرگپت ودیا لنکار، کیشو گوپال نگم، اطہر پرویز، ساحر ہوشیارپوری، عشرت کرتپوری، افسر آذری، ظفرادیب، انجمن ترقی اردو دہلی کی جنرل سکریٹری حمیدہ سلطان اور پنجابی کی ناقابل فراموش شاعرہ امریتہ پریتم اور میرے تمام دوستو اور ساتھیو، میں تم سے نہیں پوچھوں گا کہ تم کیوں کلکتہ نہیں جارہے؟

    میں تم سے اس لیے نہیں پوچھوں گا کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ جو دہلی کے چند ساتھی کل ہند کلچرل کانفرنس امن میلے میں شرکت کرنے کلکتہ جارہے ہیں۔ انہوں نے کس جتن سے اپنے کرایے کا انتظام کیا ہے۔ کس کس سے قرض لیا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ انور عظیم کو کلچرل کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے اپنی ملازمت سے دست بردار ہونا پڑا ہے۔ اس لیے اے میرے تمام ساتھیو! امن پسندو اور کلچر دوستو! میں تم سے نہیں پوچھوں گا کہ تم کلکتہ کیوں نہیں جارہے ہو؟

    ۳۰/ مئی کی شام کو بلونت گارگی میرے ہاں یہ طے کرنے کے لیے آیا کہ دہلی کے جو چند نمائندے کلکتہ چل رہے ہیں، انہیں کس روز اور کس گاڑی سے روانہ ہونا چاہیے۔ کانفرنس کاافتتاح چونکہ ۲/ اپریل کو ہو رہاتھا اس لیے غلام ربانی تاباں، انور عظیم اور عبید آرٹسٹ اور میں یکم کو روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے تھے اور یہ ارادہ اس لے اور بھی مستحکم تھا کہ یکم کے روز تاباں کو تنخواہ ملنا تھی۔ انور کو اپنا پچھلا حساب چکانا تھا۔ عبید آرٹسٹ کے دھوبی نے یکم ہی کی صبح کو کپڑے دینے کا وعدہ کیا تھا اور مجھے ۳۱/کی رات کو اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ میں کلکتہ جابھی سکوں گا یا نہیں اور فیصلہ میرے ہاتھ میں نہیں، بلکہ میرے دوپبلشروں کے ہاتھ میں تھا۔

    اسی دوران میں جامعہ نگر سے تاباں نے فون پر اطلاع دی کہ کلکتہ سے سردار جعفری کا خط آیا ہے کہ کانفرنس دو کے بجائے یکم ہی کو شروع ہو رہی ہے چونکہ اس روز گورودیو ٹیگور کا دن منایا جانے والا ہے اس لیے ہمیں یکم کی شام کو ہر صورت کلکتہ پہنچ جانا چاہیے۔

    لمحہ بھر میں سارا پروگرام اپ سیٹ (UPSET) ہوگیا۔ بلونت گارگی کی پریشانی دوسری تھی۔ پیپلز تھیٹر کے چند کارکن اور پنجاب کے چند نمائندے بھی اس کے ہمراہ جانے والے تھے۔ نمائندے ابھی تک دہلی نہ پہنچے تھے اور تھیٹر کے ہر کارکن تک یہ خبر پہنچانا جسمانی طور سے ناممکن تھا۔ تاباں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر شہر پہنچ رہا ہے۔ انور اور عبید سے بھی وہ مشورہ کرتا آئے گا۔ میں گارگی کو بھی روکے رکھوں تاکہ ساری صورت حال پر غور کرنے کے بعد متفقہ فیصلہ پر عمل کیا جاسکے۔

    متفقہ فیصلہ یہی تھا کہ جیسے بھی ممکن ہو یکم کی شام تک کلکتہ پہنچ جانا چاہیے۔ افتتاح کا وقت چونکہ چھ بجے شام کا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ روانگی ۳۱/کی صبح والے میل سے ہو جو بڑی آسانی کے ساتھ افتتاح کے وقت کلکتہ پہنچا سکتا تھا۔ لیکن جس آسانی سے یہ فیصلہ طے پایا گیا اور جس آسانی سے میل مقررہ وقت پر ہمیں کلکتہ پہنچا سکتا تھا اور کلکتہ پہنچ کر جس آسانی کے ساتھ کانفرنس کے افتتاح کے موقعہ پر پہنچ سکتے تھے ۳۱/کی صبح کو دہلی سے روانگی اتنی آسان نہ تھی۔

    ہم لوگ اس آسانی اور مشکل کے درمیان لٹکے ہوئے تھے کہ جامعہ نگر سے انور بھی آپہنچا، اس کا چہرہ بے طرح اترا ہوا تھا۔ اور وہ بہت پریشان دکھائی دیتا تھا۔ عبید نے اس کے ہاتھ اپنے ٹکٹ کے ۳۰روپے بھیج دیے تھے جنہیں نکال کر اس نے میز پر رکھ دیا اور بڑی حسرت ناک نظروں سے کاغذ کے ان تین پرزوں کی طرف دیکھتا ہوا بولا، ’’عبید نے کہا ہے کہ وہ بغیر دھلے کپڑے ہی ساتھ لے جائے گا۔‘‘

    گارگی اپٹا کے کارکنوں کو اطلاع دینے اور پنجاب کے نمائندوں کو تار دینے کے لیے رخصت ہوگیا۔

    تاباں نصف گھنٹہ میں دوبار آنے کو کہہ کرنہ جانے کہاں چلا گیا۔ میں اپنے کشمیری گیٹ والے ہندی کے پبلشر کا درِ دولت کھٹکھٹانے روانہ ہوگیا۔

    اور انور عبید کے دیے ہوئے ان تین بینگنی پرزوں کو پر ملال نظروں سے دیکھتا رہا جن پر ہندوستان کے گورنر پی راماراؤ کے انگریزی دستخطوں کے ساتھ حامل پرزہ کو دس روپیہ فی پرزہ دینے کا اقرارنامہ درج تھا اور جن پر ہماری حکومت کا قومی اور تہذیبی نشان تین شیر اور شیروں کے پاؤں تلے ایک گھوڑا اور ایک گائے اور گھوڑے اور گائے کے درمیان امن، اہنسا اور انصاف کا چکر چمک رہا تھا۔

    ۳۱ کی دوپہر کے ٹھیک گیارہ بجے طوفان دہلی سے کلکتہ کے لیے روانہ ہوگیا۔ یہ بالکل اتفاقیہ امر تھا کہ بہت دوڑدھوپ کے باوجود صبح والے میل میں ہماری سیٹیں ریزرو نہ ہوسکی تھیں اور طوفان نے ہمیں لبیک کہا تھا، انور عظیم نے جس نے ایڑی چوٹی کا زور صرف کرکے اپنے آقاؤں کو ایک روز پہلے حساب چکادینے پر رضامند کرلیا تھا اور جسے گاڑی پر سوار ہونے اور پھر روانہ ہونے کے بعد یقین آگیا تھا کہ وہ کلکتہ جارہا ہے، ہمیں بتایا کہ طوفان کافی تیز و تند ہے اور اس سے ہمارا منشا پورا ہوسکتا ہے۔ یعنی ہم مقررہ وقت پر کانفرنس میں شرکت کرسکتے ہیں۔

    میں نے معین احسن جذبی سے جو دو روز پہلے علی گڑھ سے دہلی آیا تھا اور اب واپس علی گڑھ جارہا تھا، وہی رٹا رٹایا سوال کیا۔

    جذبی تعجب ہے کہ تم بھی کلکتہ نہیں جارہے؟

    جذبی نے کچھ جواب دینے کے بجائے ایک سرد آہ بھری اور خاموش ہوگیا۔ دراصل پچھلے دو روز میں، میں نے اس سے کم از کم ایک سوبار یہی سوال کیا تھا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ وہ کلکتہ نہیں جارہا کیونکہ علی گڑھ یونیورسٹی میں، جہاں وہ لیکچرار ہے اسے طالب علموں کا ’’وائے وا‘‘ لینا ہے اور ’’وائے وا‘‘ کا مطلب ہے ہر ماہ تنخواہ لینا ہے اور تنخواہ نہ لینے کا مطلب بالکل واضح ہے لیکن نہ جانے کیوں میں نے اس سے ایک سو ایک بار یہی سوال کیا۔

    علی گڑھ یونیورسٹی جو ہندوستان کے کلچر کا ایک اہم ترین منبع ہے، جہاں سے ایک دو نہیں، دس بیس نہیں، سینکڑوں ہزاروں ادیب، شاعر، صحافی، فلسفی اور سیاست داں دماغوں میں زندگی کو بہتر بنانے کاعلم اور ہاتھوں میں امن، آشتی اور خوشحالی کے علم لے کر نکلے ہیں۔ اسی علی گڑھ یونیورسٹی سے جو ہندوستان کی عظیم شخصیت سرسید کی یاد تازہ کرتی ہے اور جس کا ذکر آتے ہی عصرجدید کے سب سے بڑے ترقی پسند شاعر حالی کے کلام کی شیرینی کانوں میں گھل جاتی ہے اور جس نے ڈاکٹر انصاری اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے ماہرین تعلیم پیدا کیے ہیں اور آج رشید احمد صدیقی اور خورشید الاسلام، اختر انصاری اور خلیل الرحمان اعظمی اور درجنوں دوسرے نامور ادیب ادب اور تاریخ کی روشنی میں اپنے کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ اسی علی گڑھ یونیورسٹی سے کل ہند کلچرل کانفرنس اور امن میلے میں صرف ایک شخص شرکت کرتا ہے۔۔۔ ڈاکٹر عبدالعلیم۔۔۔

    جذبیؔ! تم ڈاکٹر صاحب تک میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ ہم لوگ ان کے لیے سیٹ ریزرو نہیں کراسکے کیونکہ ہم ۳۱/ہی کو روانہ ہو رہے ہیں۔ اور انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ وہ یکم اپریل سے پہلے کسی طرح روانہ نہیں ہوسکتے۔

    رات کے ڈھائی بجے کا وقت تھا کہ عبید نے جسے سب سے دبلا پتلا گردان کر سب سے اوپر والی سیٹ پر سلادیا گیا تھا لیکن جو آرٹسٹ ہونے کے ناطے اپنے لیٹنے کے زاویے کو ناپسند کرنے کی وجہ سے ابھی تک جاگ رہاتھا، نیچے اتر کر مجھے جگایا اور بتایا کہ مغل سرائے آگیا ہے۔

    عبید ابھی مجھے اچھی طرح جگا بھی نہ پایا تھا کہ ایک چشمہ پوش بزرگ نے کھڑکی کے اندر گردن ڈال کر نعرۂ تحسین بلند کیا۔

    ’’یہ کون بزرگ ہیں؟‘‘ میں نے آنکھیں ملتے اور جھپکتے ہوئے عبید سے پوچھا۔ میرا خیال تھا کہ پچھلے کئی اسٹیشنوں کی طرح پھر کوئی مجاہد سفر ہم پر اپنے نصف درجن بستر اور پون درجن ٹرنک اور اتنے ہی بچے لادنے کے درپے ہے یا پھر ہمارے ڈبے کے اس سی۔ آئی۔ ڈی انسپکٹر نے جو آغاز سفر ہی سے ہمارے ساتھ سوار ہوگیا تھا اور ہر لمحہ پارے کی طرح تڑپنے کی وجہ سے اپنے ایک ہمسفر سے جھگڑ چکا تھا اور اپنی حماقت کی وجہ سے اپنا شناختی کارڈ اور پستول دکھاچکا تھا اور اسے گرفتار کرانے کی دھمکی دے چکا تھا، اس نے اس ہم سفر کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی گرفتار کرانے کا نیک ارادہ کرلیا ہے کیونکہ اس کے مقابلہ میں ہم نے اس کے ہم سفر کی حمایت کی تھی کیونکہ اس کا ہم سفر اپنی بیوی کو اس کی چھیڑ چھاڑ اور چٹکیوں سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔

    لیکن میرا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ چشمہ پوش بزرگ وامق جونپوری تھا اور اس کے ساتھ ہندی کامشہور نقاد چندر بلی سنگھ تھا۔ اور جب وامق اور چندر بلی سنگھ گاڑی پر سوار ہوگئے اور گاڑی چل دی تو میں نے وامقؔ سے پوچھا۔ ’’قافلے کے باقی افراد کہاں ہیں؟‘‘

    چند روز پہلے وامق دہلی میں تھا اور صرف اس غرض سے لکھنؤ گیا تھا کہ وہ لکھنؤ کے ادیب ساتھیوں کو لے کر ہمیں اس گاڑی پر مغل سرائے میں ملے گا اور پھر قافلہ یہاں سے ایک ساتھ روانہ ہوگا۔

    ’’قافلہ!‘‘ ’بھوکا ہے بنگال‘ کا شاعر وامق اداس ہوگیا۔

    ’’کیا احتشام صاحب بھی نہیں چل رہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’اور سرور صاحب؟‘‘

    ’’وہ بھی نہیں‘‘

    اور پھر وامق یکے بعد دیگرے ان تمام ساتھیوں کی مشکلات بتانے لگا جو کلکتہ جانا چاہتے تھے لیکن جا نہیں سکتے تھے۔

    ’’تو اس کا مطلب یہ ہے۔۔۔‘‘ میں نے تاباں سے مخاطب ہوکر کہا۔ جو اس درمیان میں جاگ اٹھا تھا اور وامق کے سونے کے لیے جگہ بنارہا تھا۔ کانفرنس بری طرح ناکام ہوگی۔ ’’ذرا سوچو ہر شہر کے سینکڑوں کلچرل ورکروں میں سے ایک یا دو ورکر کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں تو۔۔۔‘‘ اور پھر ہم سب سوچنے لگے اور ہم سب اداس ہوگئے اور بہت دیر تک فنکاروں کی ناگفتہ بہ حالت اور حکومت وقت کی ’’نوازشوں‘‘ پر تبادلۂ خیال کرتے رہے اور یہ سلسلہ کلکتہ پہنچنے تک جاری رہا۔

    سرکس پارک کا طویل و عریض میدان عبور کرنے کے بعد ہم اس کونے میں آپہنچے جہاں سینکڑوں گز کے گھیرے میں کانفرنس کا پنڈال بنایا گیا تھا۔ دور سے اتنے بڑے احاطے کو دیکھ کر کچھ ڈھارس بندھی اور جونہی ہم صدر دروازے پر پہنچے، مایوسی کے تمام بادل ایک دم چھٹ گئے۔ صدر دروازے پر لوگوں کاایک جم غفیر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ لوگ پنڈال میں داخل ہونے کے لیے مصر تھے لیکن والنٹیر انہیں اندر جانے سے روک رہے تھے۔

    والنٹیروں نے ہمیں بھی روکا اور بتایا کہ سارا پنڈال کھچاکھچ بھر چکا ہے۔

    میں نے وامق کی طرف دیکھا وامق نے تاباں کی طرف اور ہم سب والنٹئروں کی طرف دیکھنے لگے جو بنگالی ہندوستانی اور انگریزی زبان میں بڑے محبت بھرے الفاظ کے ساتھ ہجوم سے باہر رکنے کی درخواست کر رہے تھے۔ جب ہم نے انہیں بتایا کہ ہم لوگ دہلی کے ڈیلیگٹ ہیں اور فوراً اندر داخل ہونا چاہتے ہیں تو ان میں سے ایک والنٹیر ہمیں اسٹیج کی پچھلی جانب انتظامیہ دفتر میں لے گیا تاکہ ہم اپنے شناختی کارڈ بنوا لیں۔

    کانفرنس کاافتتاح ہوچکا تھا اور ہندوستان کا مایہ ناز فلم ایکٹر پرتھوی راج اپنی بنگالی زبان میں اختتامیہ تقریر ختم کرچکا تھا۔ اور اب ہندوستانی زبان میں لوگوں کے دلوں کو گرما رہا تھا۔ شناختی کارڈ اچکتے ہی ہم لوگ لپک کر اسٹیج سے بالکل قریب بیٹھے ہوئے لوگوں میں جادھنسے۔

    پرتھوی راج، ہندوستان کا وہ عظیم فلم فنکار، جو سکندر اعظم کے روپ میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا اور جس نے ہندوستان کے میدانوں میں خون کی ندیاں بہادی تھیں، بالکل اسی انداز میں اور اسی لہجہ میں جس انداز اور جس لہجہ میں اس نے اپنے لشکر کو کٹ مرنے کا حکم دیا تھا، آج ہندوستان کے پینتیس کروڑ انسانوں کو کٹ مرنے کی تلقین کر رہا تھا۔

    وہ پینتیس کروڑ انسانوں کو اس لیے کٹ مرنے کی تلقین کررہا تھا تاکہ صرف پینتیس کروڑ ہی نہیں ساری دنیا کے دو ارب انسان زندہ رہ سکیں۔ وہ ہندوستان کی تاریخ کا حوالہ دے رہاتھا۔ وہ اشوک کی امن پسندی اور بدھ کی اہنسا کاحوالہ دے رہا تھا۔ اپنے بزرگوں، رشیوں منیوں اور پیغمبروں کا حوالہ دے رہا تھا۔ وہ ان سب کا حوالہ اور واسطہ دے رہا تھا جنہوں نے ہمیشہ موت کو حقیر گردانا اور جو امن، انصاف اور آزادی کی خاطر اپنی جان پر کھیل گئے اور وہ کہہ رہاتھا کہ جس طرح ان بزرگوں کی زندگی میں جان پرکھیلنے کا وقت آیا تھا اسی طرح آج تاریخ میں پھر جان پر کھیلنے کا وقت آگیا ہے۔

    ہزاروں مرد عورتوں پر مشتمل مجمع اپنے محبوب فنکار کے ہر ہر طول پر تالیاں پیٹ رہا تھا۔ پریس کے نمائندے اس کے ہر ہر بول کو قلمبند کر رہے ہیں، کیمرے کلک کلک کر رہے ہیں اور فلم کا کیمرہ اس کی ہر جنبش اور لہجہ کے ہر اتار چڑھاؤ پر ٹکٹکی باندھے ہوئے ہے۔

    تالیاں کچھ دیر کے لیے تھم گئیں ہیں اور جسم سڈول اور کھدر کے کرتے پائجامے اور چادر میں ملبوس گاندھی بھگت پرتھوی راج سامعین سے اس لمحہ پر غور کرنے کی درخواست کر رہا ہے، جب جنگ ہوگی اور انسان تباہ ہوجائے گا۔ جب قلم رہنے گا نہ کلا۔ جب برش ٹوٹ جائیں گے اور جب شاہکار تخلیقات آگ کی نذر ہوجائیں گی اور وہ فنکار سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہے کہ آج ہم اس لیے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ ہمارا قلم اور ہمارا برش، ہمارے رنگوں کے دل اور ہمارے پاؤں کے گھنگھرو سلامت رہیں۔ اگر یہ سلامت اور زندہ ہیں تو انسان اور اس کی تہذیب زندہ ہے اور اگر انسان زندہ ہے تو وہ زندہ رہنے کے لیے مرنے سے کبھی گریز نہیں کرے گا۔

    اور وہ مائیکروفون سے ہٹ کر اور نمسکار کرکے اپنی نشست پر جابیٹھا ہے اور لوگ اس جوش و خروش سے تالیاں پیٹ رہے ہیں کہ اسٹیج سکریٹری نے لوگوں کے جذبات کے پیش نظر کارروائی کی دوسری شق کا اعلان چند لمحوں کے لیے ملتوی کردیا ہے۔

    اس قدر وسیع اور شاندار پنڈال کم از کم میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ اس قدر کھلا اسٹیج کہ اس پر بیک وقت سوافراد آسانی سے بیٹھ سکیں اور اس قدر آراستہ کہ شیکسپیئر کے ڈراموں کی یاد تازہ ہوجائے۔ اور اس اسٹیج پر کرسیوں کی ایک قوس بنی ہوئی ہے اور اس کے پس منظر میں امن کی معصوم فاختائیں مائل پرواز ہیں۔

    میں نے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے معزز مہمانوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ یہ ماہر نوالہ باغ کا ہیرو اور کانگریس کا بوڑھا رہنما ڈاکٹر کچلو بیٹھا ہے جو اپنے بڑھاپے کی پرواہ کیے بغیر اس گرمی کے موسم میں سینکڑوں میل کا سفر کرکے کانفرنس میں شریک ہوا ہے۔ اور اس اجلاس کی صدارت کر رہا ہے اور جس کے ذرا سا کروٹ بدلنے پر حاضرین یہ سمجھ کر کہ وہ ان سے مخاطب ہونے والا ہے بے تحاشا تالیاں پیٹنے لگتے ہیں۔

    یہ بین الاقوامی شہرت کا مالک ناول نگار اور ہندوستان میں انجمن ترقی پسند مصنفین کا بانی اور کل ہند امن کاؤنسل کا نائب صدر ملک راج آنند بیٹھا ہے۔ اردو زبان کا سب سے بڑا افسانہ نگار ’’ان داتا‘‘ کا خالق اور ان داتاؤں کا دشمن اور کل ہند امن کاؤنسل کا سکریرٹری کرشن چندر بیٹھا ہے۔

    بنگالی ادب کا شہسوار پروفیسر ہیرن مکرجی بیٹھا ہے جسے بنگال کے عوام نے اپنا رہنما منتخب کرکے اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے ہندوستان کی مرکزی پارلیمان میں بھیجا ہے۔ یہ بھوانی بھٹاچاریہ ہے جسے حال ہی میں دنیا کی سب سے خوش حال دھرتی کے درشنوں کا موقع مل چکا ہے اور جو ہندوستان کے کونے کونے میں سوویت روس کے مخالف امن دشمن سامراجیوں کے سازشی پروپگینڈے کی پول کھول رہا ہے۔ یہ مانک بنرجی ہیں جس پر بنگال کی سرزمین کو بجاطور پر فخر حاصل ہے۔ یہ وہی مانک بنرجی ہیں جس کے ناول ہندوستان کی ہر زبان سے اپنا لوہا منواچکے ہیں اور انسان، انسانیت اور اس کی تہذیب و تمدن کے لیے ڈھال کا کام دے رہے ہیں، اور جو اپنی کرسی سے بار بار اٹھ کر لوگوں کے رہنماؤں کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دے رہا ہے۔

    یہ سردار جعفری ہے۔۔۔ وہی سردار جعفری جس کی شاعری میں اقبال کا فلسفیانہ رنگ ہے اور مائیکافسکی کی گھن گرج اور پبلونرودا کی تشبیہات ہیں اور غالب کی غزلوں کا لوچ اور جس کی نظم ’’ایشیا جاگ اٹھا‘‘ ایشیا دشمن سامراجیوں اور ان کے بغل بچوں کے لیے تازیانے کا حکم رکھتی ہے۔

    اسٹیج کے دوران بازوؤں پر ہزاروں سامعین کی طرف منہ کیے ہوئے بڑے بڑے فوٹو آویزاں ہیں۔

    یہ ان عظیم فن کاروں کے فوٹو ہیں جن میں سے بعض کو سامراجیوں نے اور بعض کو ہمارے ملک کی غیرجانبدار حکومت نے ہندوستان آنے کی اجازت نہیں دی۔ اور جن میں سے بعض کو عرصہ ہوا موت کے سفاک ہاتھ ہم سے چھین چکے ہیں۔ امریکہ کے سب سے بڑے موسیقار پال رابسن کو ہندوستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن وہ یہاں نغمہ سرا ہے اسپینی زبان کے سب سے بڑے شاعر پبلو نرودا کو ہندوستان آنے کی اجازت نہیں دی گئی لیکن وہ اس کانفرنس میں موجود ہے اور اپنی گمبھیر آواز میں ہم سے مخاطب ہے کہ میں اس لکیر کو ہٹادینا چاہتا ہوں جو انہوں نے ہمارے درمیان کھینچ رکھی ہے۔

    ترکی کا عظیم شاعر ناظم حکمت یہاں نہیں ہے لیکن ہے اور اپنی پر درد آواز میں اپنی وہ نظم سنا رہا ہے جس میں کلکتہ کی سڑک پر چلتے ہوئے ایک راہگیر کو حلقہ بکف کرلیا گیا تھا اور وہ اس کی بے بسی پر رو اٹھا تھا۔ اور جسے ترکی کی فاشی حکومت نے گیارہ برس تک سورج کی روشنی اور چاند کی ٹھنڈک، پھولوں کی مہک اور بچوں کی معصوم ہنسی اور تازہ ہوا تک سے محروم رکھا تھا۔ دنیا کے سب سے بڑے سائنسداں جیولیو کیوری کو ہندوستان نہیں آنے دیا گیا لیکن وہ پر استقلال نظروں سے ہندوستانیوں کی طرف سے دیکھ دیکھ کر کہہ رہا ہے کہ میں ایٹم انرجی کے موجدوں میں سے ہوں لیکن تباہی کی غرض سے ایٹم بم کے استعمال کا سب سے بڑا دشمن ہوں۔ یہاں گورودیو ٹیگور بھی ہیں اور غالب اور اقبال بھی، اور وہ اپنی پراسرار آنکھوں سے ہماری حرکت کاجائزہ لے رہے ہیں اور اپنے کانوں سے ہمارا ہر لفظ سن رہے ہیں۔

    تالیوں کا شور تھمنے کے بعد سردار جعفری کے اعلان پر ڈاکٹر کچلو اپنی نشست سے اٹھ کر مائکروفون پر آگیا اور اس بار انسانی تالیوں اور نعروں کے شور کے ساتھ ساتھ آسمان بھی شور مچانے لگا۔ آندھی اور طوفان امڈ آئے اور والنٹیروں نے پنڈال کی چھت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے بانس کے تھموں کو تھام لیا۔ بارش بے تحاشہ ہونے لگی۔ لمحہ بھر کے لیے سامعین اپنی اپنی جگہ سے ذرا ہلے۔ لیکن پھر اطمینان سے بیٹھ گئے۔ پنڈال کی چھت کینوس اور پھونس کی مدد سے اس قدر مضبوط اور پائیدار بنائی گئی تھی کہ بارش کا ایک قطرہ بھی پنڈال کے اندر نہ آسکتا تھا۔

    ’’اپنی خدمات کو سرانجام دینے کے لیے میں نے ہمیشہ بنگال سے ترغیب حاصل کی ہے۔‘‘ بوڑھا سیاستداں بنگال کی سرزمین کو اپنی عقیدت پیش کر رہا ہے۔ ’’اور اے بنگال کے عظیم فنکارو، عظیم ماؤں اور معمارو، آج میں پھر آپ سے ترغیب لینے یہاں آیا ہوں۔‘‘ کانگریس کا وہ مہان نیتا جو زندگی بھر ملک کی آزادی کے خواب دیکھتا رہا اور جس نے آزادی کی دیوی کو منانے کے لیے اپنی ساری عمر جیلوں کی نذر کردی، آج اس نذرانے کے عوض ملی ہوئی آزادی کو جھوٹی آزادی گردان رہا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ وہ ہندوستان کے وزیر اعظم اور اپنے عزیز دوست نہرو سے پوچھ رہا ہے، کہ جس میں ملک کے عوام غلامی سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

    یہ کیسی غیرجانبداری ہے جو دوملکوں کے درمیان تہذیبی رشتہ استوار کرنے والے فنکاروں کو اپنے ملک میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتی؟ کچلو وقت کے سب سے بڑے خطرے جنگ کی طرف توجہ دلا رہا ہے اور ببانگ دہل اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ جنگ سویت روس اور چین نہیں، اینگلو امریکن بلاک چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کی طرف سے اس بات کا یقین دلارہا ہے کہ موجودہ حکومت چاہے جو بھی فیصلہ کرے ہندوستان کے عوام کبھی جنگ بازوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔

    کل ہند امن کاؤنسل کا صدر ڈاکٹر کچلو ہندوستان کے وزیر اعظم نہرو سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ دنیا کے کونے کونے سے امن کے حق میں اٹھتی ہوئی آواز کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ان کروڑوں امن پسندوں کے دستخطوں کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرے جو دنیا کو تیسری جنگ کے شعلوں سے محفوظ رکھنے کا عہد کررہے ہیں اور فلک بوس نعرے کے حقیقی معنی سمجھنے کی کوشش کرے جو ہر قیمت پر دنیا کے گوشے گوشے سے بلند ہو رہا ہے۔ جو ٹرومین کے امریکہ سے بلند ہو رہا ہے۔ جو چرچل کے برطانیہ سے بلند ہو رہا ہے اور جو خود اس کے ہندوستان سے بلند ہو رہا ہے۔ وہی جاناپہچانا عظیم نعرہ ’’ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم جنگ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

    پرتھوی راج اور ڈاکٹر کچلوکی تقریروں کے بعد مہاراشٹر کے عوامی شاعر اور مغنی امر شیخ اور اس کی پارٹی نے موسم کی مناسبت کے لحاظ سے اپنا وہ مشہور گیت سنایا جس میں اپنی جنم بھومی کے آسمان کو نیلم کا آسمان کہا گیا تھا اور ندیوں کو چاندی ندیاں اور جس کا پون سنگیت بھرا ہے اور امر شیخ نے اپنے اس گیت کے ذریعے اپنی پیاری جنم بھومی کی حفاظت کی قسم کھائی۔

    کرشن چندر نے ہندوستان کے تمام ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، موسیقاروں اور پبلشروں سے متحد اور منظم ہونے کی اپیل کی کہ صرف متحد اور منظم ہو کر ہی وہ اپنے تہذیب و تمدن کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

    اتحاد اور تنظیم کی تلقین کرنے والا یہ کرشن چندر وہی کرشن چندر تھا جو کبھی رومانی افسانہ نگار کہلاتا تھا اور کشمیر کی مہکتی ہوئی وادیوں اور شالی کے لہلہاتے کھیتوں اور پہاڑوں کی سرسبز چوٹیوں پر کھڑے شفتالو کے پھولوں اور چرواہوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے اپنی کہانیوں کا تانا بانا بنتا تھا اور آج یہ وہی کرشن چندر تھا جو کلکتہ کی سڑکوں پر چاول کے ایک ایک دانے کے لیے بکتی ہوئی عصمتوں اور بلک بلک کر روتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر رومان کی وادیوں سے نکل کر انقلاب کی وادیوں میں داخل ہوگیا تھا۔ اور ملکی اور نسلی سرحدوں کو عبور کرکے کوریا کی جنگِ آزادی کے جانبازوں کی مجاہدانہ اسپرٹ کو تاریخ کے صفحات پر زندۂ جاوید کر رہا تھا۔ انقلابی کرشن چندر فنکاروں سے متحد اور منظم ہونے کی اس لیے بھی اپیل کر رہا تھا تاکہ اس کی کہانیوں کے چرواہوں کی گنگ بانسریاں پھر سے اور نئی لے میں بج اٹھیں۔ ان کی بھیڑوں کو چرنے کے لیے چراگاہوں کی مخملیں گھاس کبھی ختم نہ ہو اور ہجر کی ماری ہر محبوبہ کو وصالِ یار نصیب ہو!

    کرشن چندرکی طویل تقریر کے بعد ہاورڈ فاسٹ اور پال رابسن کے بھیجے ہوئے ریکارڈ شدہ پیغامات سنائے گئے اور پال رابسن کے بھیجے ہوئے ایک ریکارڈ شدہ گیت نے تو سارے پنڈال پر ایک وجد سا طاری کردیا۔ لوگ عقیدت کے طور پر اٹھ کر کھڑے ہوگئے، اور یوں محسوس ہونے لگا جیسے رابسن کا ترانہ امن پنڈال ہی میں نہیں کلکتہ کی گلی گلی میں اور ہندوستان کے کونے کونے میں گونج اٹھا ہے۔

    ملک راج آنند نے ہندوستان کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے مندوبین اور سامعین کی طرف سے ہاورڈ فاؤسٹ اور پال رابسن کو ان کے پیغامات کا جواب دیا اور ہندوستان کی حکومت کے اس رویہ پر پرزور مذمت کی جس نے موسیقار اعظم پال رابس، شاعر اعظم پیلو نرودا، مصور اعظم پکاسو اور سائنسداں جیولیو کیوری اور لوئی اراگان اور ناظم حکمت اور اہلیا اہرن برگ اور کوموجو اور ڈاکٹر برنال اور مرزا ترسون زادے جیسے عظیم فنکاروں اور عظیم دانشوروں کو ہندوستان آنے کی اجازت نہ دی تھی۔

    اور پھر ٹیگور ڈے کا پروگرام شروع ہوا اور نصف شب تک گورودیو کے شانتی نکیتن کے طالب علموں اور دیگر کلچرل ورکروں نے اپنے سنگیت کے ذریعہ ایسا جادو جگایا کہ وہ لوگ بھی جن کے کان زندگی میں پہلی بار بنگالی زبان سے آشنا ہوئے تھے جھوم جھوم اٹھے۔

    ۲، ۳، ۴، ۵؍اپریل کاپروگرام یہ تھا کہ صبح نوبجے ڈیلیگیٹوں کے اجلاس ہوا کریں گے جن میں مختلف منشوروں پر بحث ہوگی۔ اور قرار دادیں اور آئین پاس ہوں گے اور انتخابات عمل میں آئیں گے۔ روزانہ دوپہر کو کھلا اجلاس ہوگا اور شام کے چھ بجے سے کلچرل پروگرام شروع ہوں گے۔

    ۲ اپریل کو آٹھ بجے سے ہی ڈیلیگیٹوں کا تانتا بندھ گیا ان میں کئی ایسے بھی تھے جو ابھی ابھی گاڑی سے اترکر سیدھے کانفرنس میں چلے آرہے تھے اور ان کے چہروں پر ہزاروں میل کے سفر کی تکان تھی۔ کانفرنس میں دیر سے پہنچنے کے خدشہ سے شاید انھوں نے صبح کی چائے بھی نہیں پی تھی لیکن ہر کسی کی آنکھوں میں غیرمعمولی چمک تھی اور خط و خال سے اس آہنی عزم کا پتہ چلتا تھا۔ انہوں نے امن اور تہذیب کی اس تحریک کو پروان چڑھانے اور آگے بڑھانے کے لیے ہزاروں عتاب سہے تھے۔

    وہ ملازمتوں سے دستبردار ہوگئے تھے۔ انھوں نے فاقہ مستی کو چھاتی سے لگایا تھا۔ روپوشی کی غیرانسانی زندگی بسر کی تھی اور زندگی کی خوبصورت صبح و شام جیل کی سلاخوں کی نذر کیے تھے۔ ان میں بمبئی کے ادیب، شاعر، قلمکار اور موسیقار تھے۔ میوزک ڈائریکٹر آر سی بورال تھا، شاعر کیفی اعظمی، نیازحیدر، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر اور شیل جی تھے۔ راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، ساحر لدھیانوی، مہندرناتھ اور عادل رشید نہیں تھے۔

    فلم ایکٹرس اچلا اور فلم ساز مسز بال تھیں۔ درگا کھوٹے اور ڈیوڈ نہیں آسکے تھے۔ ان میں حیدرآباد کا عوامی رہنما، تلنگانہ کا جانباز سپاہی اور اردو کا محبوب شاعر مخدوم محی الدین تھا اور سلیمان اریب تھا جس نے قاسم رضوی کے فاشی دور میں بھی حیدرآباد میں انسانیت کا علم بلند کیے رکھا تھا لیکن سری نیواس لاہوٹی، نجمہ نکہت اور جیلانی بانو اور درجنوں دوسرے فنکار نہیں تھے۔ مرہٹی زبان کے عوامی ادیب انا بھاؤ ساٹھے تھا جس کی تحریروں کو ہندوستانی پولیس نے اس کی آنکھوں کے سامنے نذرآتش کردیا تھا اور اسے ہرممکن اذیت پہنچائی تھی۔

    آگرہ سے ل۔ احمد بھی نہیں آسکا تھا، لیکن ڈاکٹر رام بلاس شرما آپہنچا تھا جس نے گزشتہ تین برس تک ہندوستان کی انجمن ترقی پسند مصنفین کی رہنمائی کی تھی۔ الہ آباد سے اپندرناتھ اشک، بلونت سنگھ پہاڑی، پرکاش چندر گپت اور دوسرے مشہور و معروف ادیب نہیں آسکے تے لیکن منشی پریم چند کا بیٹا اور ہنس کا ایڈیٹر امرت رائے ان سب کی نمائندگی کرنے کے لیے آپہنچا تھا۔ لکھنؤ سے محترمہ رضیہ سجاد ظہیر بھی آپہنچی تھیں۔ دہلی سے مس دھون اور آرٹسٹ رام کمار اور بلونت گارگی بھی آپہنچے تھے۔ پنجاب کے نامور شاعر تیرا سنگھ چن بھی اُن کے ساتھ آپہنچا تھا۔ ان کے علاوہ بہار، یوپی، مہاراشٹر، راجستھان، اڑیسہ، کشمیر اور ہندوستان کے ہر علاقے سے سینکڑوں ڈیلیگیٹ آپہنچے تھے۔

    سیلون سے بھی ایک ڈیلیگیٹ آیا تھا اور آسام سے ایک پچھتر برس کا بوڑھا شاعر رگھوناتھ چودھری بھی آیا تھا، جس نے کلکتہ آنے کے لیے میلوں ننگے پاؤں پیدل سفر کیا تھا اور جس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ وہ آسامی زبان کا سب سے بڑا شاعر اور امن کا سب سے بڑا علمبردار تھا اور انہیں دنوں حکومت آسام نے شاعر اعظم کا خطاب دینے کے لیے مدعو کیا تھا لیکن وہ اس دعوت کو ٹھکراکر کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے کلکتہ چلا آیا اوریہاں کانفرنس میں ملک راج آنند نے امن کے فیلڈ مارشل کا خطاب دیا۔

    ڈیلیگیٹ گروہ در گروہ چلے آرہے تھے۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے مل رہے تھے، اپنی اپنی زبان کے ادب اور آرٹ پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ مختلف ساتھیوں سے ملنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ہماری طرح ہر ڈیلیگیٹ یہی سوچتا رہا تھا کہ جب اس کے علاقہ سے سینکڑوں تہذیبی کارکنوں میں سے صرف ایک یا دو کلکتہ جارہے تھے تو پھر کانفرنس کی کامیابی معلوم! لیکن یہاں پہنچ کر ہر کسی کو کچھ اور ہی دیکھنے کو ملا اور وہ سب کانفرنس کی کامیابی پر تعجب کر رہے تھے، خوش ہو رہے تھے اور اپنے اندر ایک نئی روح کی انگڑائی محسوس کر رہے تھے۔

    صبح کے اجلاس میں ملک راج آنند نے جو اس اجلاس کی صدارت کر رہاتھا، اپنا طویل خطبۂ صدارت پڑھا۔ آنند نے ادب، آرٹ، تہذیب و تمدن، انسانی ارتقاء اور ملکی اور بین الاقوامی حالات اور مسائل پر بھرپور تبصرہ کیا۔ اس کلچرل کانفرنس کا بھی ذکر کیا جو آج سے ایک برس پہلے بمبئی میں منعقد ہوئی تھی اور جس میں صرف خاص خاص اشخاص کو شرکت کی اجازت تھی اور جس کے کرتا دھرتا امریکہ کی سڑکوں پر بھیک مانگنے اور جوتیاں چٹخانے والے منومسانی تھے اور جس میں ہمارے وزیر قحط شری منشی اور سوشلسٹ لیڈر جے پرکاش نارائن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

    آنند نے بتایا کہ اس کانفرنس کے لیے امریکہ نے اپنے بھاڑے کے ٹٹوؤں کو دولاکھ چاندی کی جوتیاں عنایت کی تھیں۔ آنند نے اس کانفرنس اور اِس کانفرنس کے فرق کو سمجھایا اور امریکن اور برٹش امپیریلزم کی کالی کرتوتوں کی بڑی صفائی اور وضاحت کے ساتھ نقاب کشائی کی جو جانے اور ان جانے طور سے ہم پر مسلط ہے اور پریس، ریڈیو اور فلم اور رشوتوں کے ذریعے ہمارے ملک کی نئی پود کے اذہان کو پراگندا کر رہا ہے اور آنند نے ان انسانیت دشمنوں کے زہر سے بجھے ہوئے نشتروں کو کند کرنے کے لیے ہر دیانتدار ادیب، فنکار اور دانشور کو اپنے مقدس فرض کا احساس دلایا۔

    اسی اجلاس میں سردار جعفری نے امن اور کلچر کے تعلق پر ایک نہایت پر مغز پیپر پڑھا۔ پیپر ہی کے آغاز میں جب اس نے کہا کہ ’امن‘ بظاہر ایک معمولی سا لفظ ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اکثر ایک معمولی سا لفظ اس قدر اہمیت اختیار کرلیتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اس کے احاطے میں آجاتی ہے، تو سارا مجمع تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا اور مانک بینرجی جو سردار کی بغل میں بیٹھا تھا، تقریر سے متاثر ہوکر سردار سے کہنے لگا کہ میں اردو نہیں جانتا لیکن اگر اردو اسی کا نام ہے جس میں آپ تقریر کر رہے ہیں تو میں بہت اچھی اردو جانتا ہوں۔ کتنی خوبصورت، کتنی رنگین اور کتنی جاندار ہے یہ زبان!

    ہر روز صبح ۹بجے ڈیلیگیٹوں کے اجلاس ہوتے جن میں امن و جنگ اور تہذیب و تمدن کے موضوع پر مختلف زاویوں سے بحث کی جاتی۔ دوپہر کو کھلے اجلاس ہوتے جن میں بلاناغہ دس سے تیس ہزار تالیوں کی گونج میں عوام کے رہنما اپنے خیالات کا اظہار کرتے اور پھر شام ڈھلتے ہی تہذیبی پروگراموں کا شاندار سلسلہ شروع ہوجاتا۔

    تہذیبی پروگراموں میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے لوک ناچ اور لوک گیت دیکھنے اور سننے کو ملے۔ جیسے مراٹھی پاؤڑا اور تماشا، تیلیگو بررکتھا اور پنجابی ٹپہ۔ بہار کے نمائندوں نے گیتوں اور ناچ کے ذریعہ دھان کی کٹائی اور بوائی کا منظر پیش کیا۔

    مہاراشٹر کے امر شیخ اور گوانکر نے راجپوتوں کی شاندار روایات آنکھوں کے سامنے لاکھڑی کیں۔ پنجاب اور پیپسو کے نمائندو ں نے امن کے تحفظ میں ڈرامے کھیلے اور گیت گائے۔ کشمیر کے نمائندوں نے ان لوک گیتوں کے ذریعہ سامعین کے دلوں کو برمایا جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ وہاں کے عوام کے لبوں پر تھرک رہے ہیں۔

    بنگالی میں دو مہان ناٹک کھیلے گئے، شمبھو متر کا ’’چھڑے تار‘‘ (ٹوٹے تار) اور سوشیل جاناں کا ’’جنک‘‘۔۔۔ چھڑے تار میں ۴۳ء کے قحط اور ایک عام کنبے کی مصیبتوں کو اس دردناک طریقے سے پیش کیا گیا تھا اور شمبھو متر اور ترپتی متر کی اداکاری اس قدر فطری اور دلوں کو چھولینے والی تھی کہ سامعین صُم، بُکم سے بیٹھے رہے اور بعض کی آنکھوں سے تو آنسو تک بہہ نکلے۔ مہاکوی ولاتھول کی پیش کش ملیالی کتھا کلی رقص تو اپنی مثال آپ تھا۔ حاضرین میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو کتھا کلی اور منی پوری رقص پر جھوم جھوم نہ گیا ہو۔ ان کے علاوہ کئی تہذیبی پروگراموں میں ایٹمی طاقت کی تخلیق اور اس کے ارتقا پر ایک معرکتہ الآرا بیلے بھی پیش کیا گیا۔

    اور پھر وہ عظیم الشان مشاعرہ جس کی یاد برسوں دلوں کو گرماتی رہے گی اور جس کے متعلق کلکتہ کے باشندوں کاخیال تھا کہ آج تک کلکتہ میں اپنی نوعیت کا وہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں پندرہ ہزار سامعین رات کے نوبجے سے صبح کے چھ بجے تک اس طرح جم کر بیٹھے رہے۔ اس مشاعرہ میں پاکستان کے ان دو عظٰیم فنکاروں فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر کا کلام سننے میں آیا جو آج حکومت پاکستان کی عوام اور کلچر دشمن پالیسی کی وجہ سے سینٹرل جیل سندھ حیدرآباد میں مقید ہیں۔ اور جن کے خلاف حکومت وقت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں خفیہ مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ جب سردار جعفری نے سامعین سے ان فنکاروں اور محترمہ رضیہ سجاد ظہیر کا تعارف کرایا جو سجاد ظہیر کے ایک خط کے ذریعہ فیض اور سجاد کے کلام کو ساتھ لائیں تھیں تو سارا پنڈال تالیوں کے بجائے ایک عجیب پراسرار خاموشی میں ڈوب گیا۔

    یہ خاموشی۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔۔ یہ کیسی خاموشی ہے جو خاموشی ہونے کے باوجود خاموشی نہیں۔ ایک ایسی خاموشی جو دلوں کی دھڑکنیں تیز کردے، خون کی روانی میں ابال لے آئے۔ چہرے سرخ ہوجائیں اور ہاتھ مٹھیوں کی شکل اختیار کرلیں۔ یہ کیسی خاموشی ہے جو خاموشی نہیں، ایک نعرہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک دل دہلادینے والی چیخ جو کائنات کا سینہ چیر دے اور چاروں طرف غم وغصہ کے شعلے لپکنے لگیں۔ اور اس پر اسرار خاموشی میں فیض کی ریشمیں مگر پروقار آواز گونج رہی تھی اور وہ امن و تہذیب دوستوں سے مخاطب تھا،

    یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا

    پوچھتی ہے گذر اس بار کروں یا نہ کروں

    اور سجاد ظہیر بھی اپنے نرم و ملائم مگر پرعزم لہجے میں سوال کر رہا تھا،

    صحنِ گلزار کے ہر پھول پہ وہ جھلکے گا

    چشمِ پر آب کو خونبار کروں یا نہ کروں

    مشاعرہ میں سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجاز لکھنوی، مجروح سلطانپوری، نیاز حیدر، جاں نثار اختر، غلام ربانی تاباں، وامق جونپوری، سلیمان اریب، شیل جی، دیوراج دنیش اور اردو اور ہندی اور پنجابی کے درجنوں مقامی اور باہر کے شاعروں نے حصہ لیا۔

    مشاعرہ میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ سردار جعفری نے سامعین سے ان شاعروں کے لیے چندہ کی اپیل کی جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آئے تھے اور اب اپنے اپنے کلام سے انہیں محظوظ کر رہے تھے۔ سردار نے کہا کہ اسے معلوم ہے کہ ان شاعروں میں سے کون کون شاعر کس کس طرح صرف ایک طرف کا کرایہ لے کر یہاں پہنچا ہے اور اب ان کے لیے یہاں سے واپسی کا سوال، سوالوں کا سوال بنا ہوا ہے۔ شاعر اپنی اپنی جھولیاں پھیلاکر سامعین کے پاس آئیں گے اور سامعین کافرض ہے کہ جس طرح وہ اُن کے کلام سے محظوظ ہو رہے ہیں اسی طرح وہ اپنی توفیق کے مطابق انھیں بھی محظوظ کریں۔

    سردار ابھی یہ سب کہہ ہی رہاتھا کہ ایک نکڑ سے ایک شخص نے ڈائس کے قریب آکر اطلاع دی کہ ایک سیٹھ صاحب اس سلسلہ میں ایک ہزار روپے دینا چاہتے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ شاعر اس طرح جھولیاں پھیلاکر لوگوں کے پاس نہ آئیں۔

    تالیوں کی گونج میں سردار جعفری نے سیٹھ صاحب کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ سیٹھ صاحب مخصوص مارواڑی سیٹھ تھے۔ سر پر وہی پیچ درپیچ پگڑی جس کے متعلق مشہور ہے کہ کسی مارواڑی سیٹھ کی دولت کا اندازہ اس کی پگڑی کی پیچوں کی تعداد سے لگایا جاسکتا ہے اور مارواڑی سیٹھوں کی کنجوسی کے متعلق تو درجنوں لطیفے زبان زد عام ہیں۔ سیٹھ صاحب بڑے جوش و خروش سے اپنی نیم ہندی اور نیم مارواڑی زبان میں اس بات پر اظہار افسوس کرنے لگے کہ کیا آج ہمارے کوی ہم سے بھیک مانگیں گے؟ انہوں نے کہا کہ وہ کوی کے استھان کو خوب پہچانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کوی کی سندر کویتا جیون میں کیا رنگ و روپ بھرتی ہے۔ کم ازکم وہ اپنے سامنے مانوتا کے ان مہان کویوں کو اس طرح جھولی پھیلائے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ایک ہزار کی بجائے وہ پانچ ہزار ان کی بھینٹ کرتے ہیں لیکن ان کی پرارتھنا ہے کہ کوی اسی طرح بیٹھے رہیں اور اپنی کویتائیں سناتے رہیں۔

    اور تالیاں پھر بج اٹھیں اور مشاعرہ پھر شروع ہوگیا۔ کوی اپنی سندر کویتائیں سنانے لگے اور رات کے گیارہ بجے مارواڑی سیٹھ نے، جس نے لوگوں کے دلوں میں نیشنل بورژواژی کی اہمیت کااحساس تازہ کردیا تھا، نہ جانے کہاں سے نقد پانچ ہزار روپیہ لاکر سردار کے سامنے ڈھیر کردیا۔

    کانفرنس میں فنون لطیفہ کے ہر شعبہ کی الگ الگ میٹنگیں بھی ہوئیں۔ فلم انڈسٹری سے متعلقہ فنکاروں نے فلم انڈسٹری کے ماضی اور حال اور مستقبل کا جائزہ لیا۔ مصوروں نے اپنے ہر مکتبۂ خیال کا، موسیقاروں نے ہر اونچی نیچی لے اور ان کا اور اس کی تاریخ کا اور ادیبوں نے ادب کے مختلف ادوار کا بھرپور جائزہ لیا اور ان وجوہ پر طویل بحثیں کیں جن سے وہ خامیاں پیدا ہوئیں تھیں اور آئندہ کے لیے بہتر پروگرام بنانے کی کوششیں کیں۔ ادیبوں کے اجلاس میں ڈاکٹر علیم کے زیر صدارت ہندوستان کی ہر زبان کے ادب سے متعلق اس زبان کے ماہرین اور ادیبوں نے تقریریں کیں اور ادب کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ چھوڑ کراردو کے ادیب ملیالم کے ادب سے اور اس کے ہر موڑ اور موجودہ صورت سے روشناس ہوئے۔

    بنگالی ادیبوں کو معلوم ہوا کہ پنجابی ادب میں کیا کیا تخلیقات وجود میں آچکی ہیں۔ ہندی، گجراتی،مراٹھی، آسامی، تیلگو، کشمیری، کنڑی اور دیگر صوبائی زبانوں کے ادب میں دورحاضر کے سب سے اہم موضوع پر کچھ لکھا گیا ہے اور ان زبانوں کے ادیب اپنی تحریروں کے ذریعہ ترقی پسند تحریک میں کس قدر قوت بھر رہے ہیں۔ ادیبوں کے اجلاس میں ادیبوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اس کے تدارک پر بھی بڑی سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ رجعت پسندی اور ترقی پسندی کے بنیادی فرق پر بھی طویل بحثیں ہوئیں۔ ادب اور نعرہ بازی کے امتیاز کو بھی سمجھنے اور سمجھانے کی کوششیں کی گئیں اور فارم اور تکنیک ایسے نازک سوالات بھی اٹھائے گئے۔

    بنگالی ادب کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے ہیرن مکرجی نے امن کے موضوع کو ادبی تخلیقات میں فنکارانہ طریقے سے رچانے بسانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ چونکہ ہندوستان کے ادیبوں کو براہِ راست جنگ کا تجربہ نہیں ہے اس لیے روس اور دیگر ممالک کے ادیبوں سے، جو جنگ کی بھٹی میں سے تپ کر نکلے ہیں، ہمارا انداز تحریر مختلف ہوگا۔ ہم اپنی تخلیقات کو گزشتہ جنگوں کے بعد ازاں اثرات کے بیان سے زیادہ بہتر اور زیادہ پراثر بناسکتے ہیں۔ اگر ہم امن کے موضوع پر کوئی اچھا ڈرامہ نہیں لکھ سکتے تو کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم ضرور ڈرامہ لکھیں۔ اگر ہم مضمون لکھ سکتے ہیں یا نظم کہہ سکتے ہیں تو ہمیں مضمون یا نظم ہی لکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں آرٹ کی قدر کو بہرحال ملحوظ رکھنا ہے۔

    ادبی جمود کا ذکر کرتے ہوئے ہیرن مکرجی نے تقسیم ہند سے پیدا شدہ حالات کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ اگر خدانخواستہ ہندوستان اور پاکستان میں جنگ ہوئی تو ہمارے ادیب ذہنی طور پر مفلوج ہوجائیں گے۔ چنانچہ اس وقت ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ ہم ہندوستان اور پاکستان کے مابین امن کے سمجھوتے کو پروان چڑھائیں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوسکیں تو بین الاقوامی امن کے تحفظ کے سلسلے میں ہمارا یہ بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ ادب میں متحدہ محاذ کا ذکر کرتے ہوئے ہیرن مکرجی نے کہا ہمیں کسی بھی ادیب کو کوئی چیز Dictate نہیں کرنی چاہیے کیونکہ Dictateکرانے سے آرٹ مرجاتا ہے۔ ایسا کرنے کے بجائے ہمیں اپنی بہتر تخلیقات کے ذریعے اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ تاریخ ہماری نظروں کے سامنے بڑی تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے اور اس وقت کوئی بھی دیانتدار ادیب کبوتر کی طرح حالات سے آنکھیں بند نہیں کرسکتا۔

    متحدہ محاذ کے سلسلہ میں ڈاکٹر عبدالعلیم کی بھی یہی رائے تھی کہ ان ادیبوں کو جو ہم میں نہیں ہیں اپنے قریب لانے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم انہیں امن کے بارے میں لکھنے کو کہیں بلکہ طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی کامیاب تحریروں کے ذریعے گزشتہ جنگوں کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں سے انھیں نفرت دلائیں اور ترغیب دیں۔

    فارم کے متعلق ڈاکٹر عبدالعلیم کا خیال تھا کہ یہ وقت فارم کے نئے تجربوں کا وقت نہیں ہے کیونکہ تجربوں میں بھٹکنے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، ہمیں ان فارموں کو اپنے استعمال میں لانا چاہیے جو آج مقبول عام کی سند رکھتی ہیں خصوصاً امن کے موضوع کے لیے FOLK FORMS سب سے بہتر ہیں۔

    ڈاکٹر علیم نے ادیبوں کو اپنی تحریروں میں نعروں سے پہلو تہی کرنے کے لیے کہا اور کہا کہ جب ہم عوام کی روزمرہ زندگی کے قریب ہوں گے اور ان کی حقیقی زندگی کو پیش کریں گے تو نہ صرف ہمیں کسی نعرہ بازی کی ضرورت محسوس نہ ہوگی بلکہ ہماری وہ تخلیقات ادب کے طور پر بھی ایک بلند پایہ مقام کی حامل ہوں گی۔

    کیرالہ کے ایک ادیب نے پرانی فارموں پر قناعت کرنے کے بجائے پرانی فارموں کو نیا روپ دینے پر زور دیا۔

    اڑیسہ کے ایک نمائندہ نے امن کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہا کہ اگر ہم جنگ کے موجودہ خطرے کے بارے میں کچھ نہیں لکھ سکتے، اگر آنے والی جنگوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھ سکتے تو ہمیں گذشتہ جنگوں کے بارے میں لکھنا چاہیے۔ ہمیں اسٹالن پرائز حاصل کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ ۳۵ کروڑ عوام کی خدمت کے لیے لکھنا چاہیے۔

    کانفرنس کا سب سے اہم موضوع یہ تھا کہ آج مختلف طریقوں سے تیسری عالمگیر جنگ کے جو حالات پیداکیے جارہے ہیں ان سے ہندوستانی کلچر کو کیا خطرہ لاحق ہے اور اس سے ہمارے کلچر کے مختلف پہلوؤں پر جواثر پڑ رہا ہے اسے تفصیل سے سمجھنے سمجھانے کے لیے پانچ کمیشن مقرر کیے گئے تھے۔ ان کمیشنوں میں درجنوں پیپر پڑھے گئے، مسلسل گھنٹوں بحثیں ہوئیں اور سینکڑوں فنکاروں نے ان میں حصہ لیا۔

    (۱) کلچرل ورکروں کی زندگی پر جنگی فضا کے اثر کے ضمن میں ڈاکٹر ملک راج آنند نے اپنے پیپر میں، جو کہ پمفلٹ کی صورت میں آغاز بحث سے پہلے کلچرل ورکروں میں تقسیم کردیے گئے تھے، لکھا تھا کہ ادھر ایک سو برس سے ہمارے فنون لطیفہ اور فنکار عجیب کشمکش کی زندگی بسر کر رہے ہیں اگر کسی طرح ہمارا کلچر زندہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ادیب، شاعر اور دیگر فنکار بہت سخت جان واقع ہوئے ہیں۔ آزادی کی جدوجہد کے زمانے میں شاید یہ حالت ناگزیر تھی۔ ہمارے ادیب مالی فائدے سے قطع نظر محض جدوجہد کی غرض سے لکھتے تھے۔ کتابوں کی اشاعت کے لیے معقول اور بڑے ادارے نہیں تھے۔ چھوٹے چھوٹے ناشر انھیں جوں توں کرکے چھاپ لیتے تھے اور اس کا جو بھی منافع ہو بٹورلیتے تھے۔

    آج جنگی فضا کے باعث حالت اور بھی دگرگوں ہوگئی ہے۔ پبلشر بہت سی کتابوں کو صرف اس لیے نہیں چھاپ سکتے کہ انہیں کاغذ دستیاب نہیں ہوتا اور ذخیرہ دوزی کے باعث اس کی قیمتیں روزبروز بڑھ رہی ہیں۔ ادھر امریکہ اور یوروپی ممالک میں ٹنوں کاغذ جنگی پروپیگنڈے کی نذر ہو جاتا ہے اور جاسوسی فحش اور جرائم سے متعلقہ کتابیں چھاپ چھاپ کر دیگر ممالک کی طرح ہمارے عوام کے ذہن بھی پراگندہ کیے جارہے ہیں۔ چونکہ یہ کتابیں بہت سستی فروخت کی جاتی ہیں اس لیے ہمارے پبلشر یوں بھی ان کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔ اسی طرح مصوروں اور دیگر فنکاروں کو جو چیزیں درکار ہیں وہ ازحد مہنگی ہوگئی ہیں۔ معمولی بساط کا فنکار انہیں خرید ہی نہیں سکتا۔ معیار زندگی کا تو سوال ہی نہیں۔

    کلچرل ورکروں کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ پھر فاقوں سے تنگ آکر فنکار جنگ بازوں سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور یوں اپنی تخلیقات میں ان کے انسانیت دشمن نظریات کو شعوری یا غیرشعوری طور پر شامل کرلیتے ہیں۔ آنند نے اس اقتصادی بحران کو سمجھنے اور ان ناسازگار حالات کے مقابلے کی طرف فنکاروں کی توجہ دلائی۔

    (۲) جنگی پروپیگنڈے کی روک تھام کی بحث میں اس مسئلہ پر سب سے زیادہ زور دیا گیا کہ جنگ باز اپنے پروپیگنڈے کے لیے دیگر ذرائع کے علاوہ قدیم کتابوں اور فلسفے کا سہارا لیتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے توڑ کے لیے ضروری ہے کہ ہم کہنہ فلسفوں کی حقیقی نوعیت سے عوام کو روشناس کرائیں۔ صرف دانشوروں تک ہی نہیں ہندوستان کے امن پسند عوام تک اپنی آواز پہنچائیں۔

    (۳) امن اور کلچر کے سلسلہ میں ہندوستان کی روایت کاجائزہ لیتے ہوئے تاریخی حوالوں سے یہ ثابت کیا گیا کہ ہم جنگ کے مقابلہ میں امن کے حامی رہے ہیں۔

    مہاتما بدھ اور اشوک پھر قرون وسطیٰ میں کبیر، نانک، تکا رام، رادھا کرشنا اور اس زمانے میں ٹیگور اور مہاتما گاندھی نے ان روایات کو مضبوط تر کیا اور اس کے علاوہ مذہبی اور کلاسیکی کتابوں مثلاً مہابھارت، گیتا اور سنسکرت ڈراموں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستانی عوام ہمیشہ سے امن پسند رہے ہیں اور لوک کتھاؤں اور لوگ گیتوں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔

    (۴) مختلف زبانوں، علاقوں اور ملکوں کے درمیان کلچر کے تبادلے کی اہمیت کی خوب خوب وضاحت ہوئی۔ چند مفاد پسند لوگوں نے ہندوستان کے متعلق جو عجیب و غریب قسم کا زہر پھیلا رکھا ہے اس کے تدارک کے لیے طے پایا کہ دوسرے ملکوں کے ساتھ ہمارا آزادانہ لین دین ہو، اس کے ذرائع نکالے جائیں اور حکومت کو مجبور کیاجائے کہ وہ اس طرح کے کلچرل تبادلے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے بلکہ ہر طرح کی امداد بھی دے۔ صوبائی کلچروں کی خاطر خواہ لین دین پر بھی زور دیا گیا کہ اس طرح دوسرے ملکوں کے ساتھ ہمارے کلچر کا تبادلہ موثر اور ملک کا نمائندہ ہوگا۔

    (۵) ہمارے کلچر میں غلط نظریات کی سرایت کی سب سے اہم وجہ برطانوی سامراج کی دوسوسالہ غلامی گردانی گئی۔ ہندوستان کی پرانی روایات پر اس کا سب سے زیادہ اثر پڑا۔ بنگال میں رعیت واڑی اور زمیں داری کا نفاذ کر کے ایک نئے جاگیردار طبقے کو جنم دیا گیا جس کاوجود پہلے ہندوستان میں موجود ہی نہ تھا۔ دفتری حکومت چلانے کے لیے یونیورسٹیوں میں ناقص طریقۂ تعلیم نافذ کیا گیا، جس کا مقصد لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا نہیں بلکہ کلرک پیدا کرنا تھا۔ ہندوستان کے ادب عالیہ، فلسفہ اور تاریخ کو نظرانداز کرکے یونانی فلسفہ، عیسائی سامراجی کلچر اور مغربی خیالات کی برتری کا پرچار کیا گیا جس کے ذریعے نسلی تعصب پھیلا اور غلامانہ ذہنیت نے پرورش پائی۔

    اس سارے تجزیے کے حاصل کے طور سے کانفرنس کا جو اعلان نامہ مرتب کیا گیا اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہمیں اپنے ملک کی ان صحت مند روایات کو اپنانا اور آگے بڑھانا ہے جن کے ذریعے ہم نے ہمیشہ صداقت کو حاصل کیا ہے اور صداقت کی جستجو کرتے رہے ہیں۔

    ان کمیشنوں کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر ملک راج آنند، خواجہ احمد عباس، گوپال ہلدر، نرہری کویراج اور پروفیسر آشا رام ایسی مشہور و معروف ہستیوں نے سرانجام دیے اور پھر۔۔۔

    پھر ۶ اپریل کی سہ پہر کو چورنگی کے قریب کے وسیع آکٹر کالونی میدان میں کانفرنس کا آخری اجلاس منعقد ہوا۔ امن و آزادی اور تہذیب و تمدن کی بقا کے سلسلے میں یہ وہ کھلا اجلاس تھا جو نہ صرف کلکتہ کی تاریخ میں، نہ صرف بنگال کی تاریخ میں بلکہ پورے ہندوستان کی تاریخ میں اپنی مثال آپ تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ کی حدت لمحہ بہ لمحہ کم ہوتی جارہی تھی اور لوگ جوق درجوق آکٹر کالونی میدان کی طرف چلے آرہے تھے۔ آج کلکتہ کی گلیوں اور کوچوں میں بسنے والے متوسط طبقے کے مرد عورتوں کے ساتھ ساتھ بنگلوں کے نازک مزاج سیٹھ ساہوکار اور جھونپڑیوں اور کھلے آسمان کے نیچے زندگی کو دھکے دے کر گزارنے والے مزدور اور کسان بھی چلے آرہے تھے اور عدالتوں اور دیگر دفتروں میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے سرکاری ملازمین نے بھی ادھر ہی کارخ اختیار کرلیا تھا۔

    فنکاروں اور کلچرل ورکروں کا وہ عظیم الشان جلوس مجمع میں آ شامل ہوا جو سرکس پارک سے شروع ہوا تھا اور کلکتہ کے بڑے بڑے بازاروں سے ہوتا ہوا امن اور کلچر اور حقیقی آزادی کے نعرے لگاتا ہوا میلوں لمبا چکر کاٹ کر آکٹر کالونی میدان میں پہنچا تھا۔

    ایک لاکھ حاضرین کے اجلاس میں آسام کے اس بوڑھے شاعر رگھوناتھ چودھری کے زیرصدارت بنگالی ادب کے مشہور و معروف ادیب گوپال ہلدر نے بنگالی زبان میں کانفرنس کی پانچ روزہ کارروائی کی رپورٹ پیش کی۔ سامعین سے شمالی ہندستان کی ایک گھریلو بیوی بی بی دلجیت کور کا تعارف کرایا گیا جس نے گھر کی مصروفیات میں سے وقت نکال نکال کر پانچ بڑی طاقتوں کے معاہدہ امن کی تجویز پر ساٹھ ہزار دستخط جمع کیے تھے اور جسے بین الاقوامی امن تحریک کی طرف سے امن کی ہیروئن کا خطاب ملا تھا۔

    کانفرنس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تحریک امن کے رہنماؤں نے کہا کہ ہمارے ملک میں صرف امن کا پلیٹ فارم ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر مکتبۂ خیال سے تعلق رکھنے والے دیانت دار لوگ دوستانہ طریقے سے امن اور جنگ کے مسئلوں پر غور کرسکتے ہیں کہ جس پر ہمارے عوام اور ہمارے کلچر کے تحفظ کا انحصار ہے۔

    ڈاکٹر کچلونے شاید زندگی میں پہلی دفعہ ایسی ولولہ انگیز تقریر کی۔ اس کی آواز کے وقار، دبدبے، خلوص اور اعتماد نے سامعین کو اس درجہ متاثر کیا کہ انھوں نے فلک شگاف نعروں سے اپنے عظیم رہنما کے الفاظ کی گونج کلکتہ بھر میں گونجادی۔ ڈاکٹر کچلو کے ہر ہر لفظ کو ہیرن مکرجی بنگالی میں ترجمہ کرکے پیش کر رہا ہے۔ اور کچلو ملکی اور بین الاقوامی تحریک کا جائزہ لے رہا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر تبصرہ کر رہا ہے۔ کوریا میں امریکی خونخواروں کی جراثیمی جنگ کی پرزور مذمت کر رہا ہے۔ ان غیرملکی ایجنٹوں کی پرزور مذمت کر رہا ہے جو روپے کو پانی کی طرح بہارہے ہیں اور ہندوستان میں اپنی ناپاک اور گھناؤنی سازشیں پھیلا رہے ہیں۔

    وہ گاندھی کے اصولوں پر چلنے والی کانگریس حکومت سے گاندھی کے اصولوں پر چلنے والے کمار اپا، پنڈت سندرلال اور پانیکر اور رادھا کرشنن سے سوویت روس اور چین کی امن پالیسی کے متعلق ان کی دیانت دارانہ رائے معلوم کرنے کی سفارش کر رہا ہے، جو اپنی آنکھوں سے وہاں کے سب حالات دیکھ آئے ہیں۔ اور وہ ہندوستان کے کروڑوں عوام کی طرف سے ڈنکے کی چوٹ سے اس بات کااعلان کر رہا ہے کہ ہندوستانی عوام کسی صورت میں بھی اینگلو امریکن درندوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔

    مہاکوی ولاتھول نے، جو حال ہی میں سوویت روس کا دورہ کرکے آئے تھے، ٹرومین اور چرچل کی طاقت اور ہتھیاروں کے ذریعے ’امن‘ قائم کرنے کے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سوویت یونین کے چشم دید واقعات کا ذکر کیا۔ اور بتایا کہ وہاں ہر شخص کی تمام تر قوت امن کی حفاظت اور تعمیری کاموں میں صرف ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے ایک ایسا ملک جو تعمیر میں مصروف ہو کبھی جنگ کی خواہش نہیں کرسکتا۔

    بنگال کے مشہور اور محبوب فلم اداکار منورنجن بھٹاچاریہ نے اپنی پرمغز تقریر میں تحریک امن کے مخالفوں کو انسانیت دشمن گردانتے ہوئے ان کے مجرمانہ پروپیگنڈے سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی اور بنگالی عوام نے خوب خوب تالیاں بجاکر اپنے محبوب اداکار کے خیالات کی تائید کی۔

    حیدرآباد کے مایۂ ناز عوامی رہنما مخدوم محی الدین نے جو ادھر حال ہی میں جیل سے پیرول پر رہا ہو کر آیا تھا ہندوستانی زبان میں کانفرنس کی پانچ روزہ کارروائی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امن صرف ہمارے کلچر ہی کے لیے نہیں بلکہ ہمارے وجود اور ہماری ہستی کے لیے اشد ضروری ہے۔ اس نے تمام دیانت دار ادیبوں اور فنکاروں سے باہمی رشتہ استوار کرنے کی اپیل کی۔ دوسرے ممالک کے ادیبوں کے دوش بدوش امن کی جدوجہد میں کارہائے نمایاں سرانجام دینے کی اپیل کی اور سامراجیوں کے پریس اور فلم اور ریڈیو کے ذریعے پھیلائے جانے والے زہریلے پروپیگنڈے کو ناکام کرنے کے لیے سرگرم عمل ہونے کو کہا۔

    اور پھر ہندوستان کے مختلف علاقوں کے تہذیبی کارکنوں نے موسیقی رقص اور ڈراموں کے ذریعے سامعین کے دلوں کو برمانا شروع کیا۔

    ’’راجندرسنگھ بیدی کیوں نہیں آئے؟‘‘ میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے مجروح سلطان پوری سے پوچھا۔

    ’’ان کی بیوی سخت بیمار تھی۔‘‘

    ’’اور عصمت آپا۔‘‘

    ’’وہ فلم کی شوٹنگ میں بے طرح مصروف تھیں۔‘‘

    ’’اور مہندر ناتھ‘‘

    ’’یہ تمہیں نیاز حیدر بتائے گا۔‘‘

    نیاز حیدر نے بتایا کہ مہندر ناتھ کانفرنس میں آنے کے لیے بے طرح بے قرار تھا لیکن برسہا برس کی مسلسل بیکاری کے بعد اب اسے ایک عارضی ملازمت مل گئی تھی اور تم جانتے ہو جب ملازمت مل جاتی ہے تو چھٹی نہیں ملا کرتی۔‘‘

    ’’اور ساحر اور عادل رشید اور رامانند ساگر۔۔۔‘‘

    ’’کس کس کے بارے میں پوچھوگے؟‘‘ قریب ہی کھڑے کیفی اعظمی نے کہا۔

    ’’سینکڑوں کی تعداد میں سے ہم صرف چند لوگ آسکے ہیں۔‘‘

    بمبئی کے سینکڑوں ادیبوں اور فنکاروں میں سے صرف چند کلکتہ آسکے ہیں!

    دہلی کے سینکڑوں ادیبوں اور فنکاروں میں سے صرف چند ہی شرکت کرسکے ہیں!

    اور یوپی کے درجنوں شہروں کے سینکڑوں ادیب اور فنکار اور پنجاب اور حیدرآباد اور اڑیسہ اور مہاراشٹر اور گجرات اور اترردیش اور بہار اور آسام اور مدراس۔۔۔ ہندوستان بھر کے ہزاروں فنکاروں میں سے صرف سینکڑوں کی تعداد کانفرنس میں شرکت کرسکی ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کی تاریخ میں ایسی تہذیبی کانفرنس کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی تاریخ کا یہ سنہری ورق آنے والی نسلوں کے لیے سب سے بڑے تہذیبی ورثے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

    ہنس راج رہبر! کاش تم کلکتہ جاسکتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ یہاں ہندوستانی عوام کے رہنماؤں نے کس طرح امن اور تہذیب کے تحفظ کے لیے سردھڑ کی بازی لگادینے کاعہد کیا ہے۔

    ڈاکٹر سلامت اللہ صاحب! ایسے موقعے زندگی میں کبھی کبھار میسر آتے ہیں جب کروڑوں عوام کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوکر بیک زبان اس بات کااعلان کرتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیب اور تمدن کے حقیقی وارث ہیں، اور وہ کسی صورت میں بھی اپنے گنگناتے ہوئے چشموں اور اٹھلاتی ہوئی ندیوں پر، پربہار سبزہ زاروں اور پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر، گیہوں کی سرسراتی ہوئی بالیوں اور آموں کے بور کی مہک پر، پاؤں کی جھانجنوں اور نشیلے نینوں کے تیروں پر، سنگلاخ چھاتیوں اور بازوؤں کے محنتی پٹھوں پر کسی کو نظربد نہ ڈالنے دیں گے۔

    فکر تونسوی! تم اگر کلکتے جاسکتے تو تمہارے اسی سوال کاتمہیں عملی جواب مل جاتا کہ جب سامراجی ممالک کے نام نہاد دانشور ہمارے ملک کی سرزمین کوناپاک کرنے کے لیے اور جنگ کی زہریلی گولیوں پر امریکی کلچر کی شکر چڑھا کر ہمارے حلق میں ٹھونسنے کے لیے آتے ہیں تو ان کے اعزاز میں کیوں بڑی بڑی شاندار دعوتیں دی جاتی ہیں اور خود ہماری حکومت کے وزیر ہر طرح سے ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ہمارا پریس جو کہ بدقسمتی سے ہمارا نہیں ہے، کیوں ان کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے، اور ان کے آگے گڑگڑاتا ہے اور گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

    تمہیں یہ سب اسی وقت معلوم ہوجاتا جب کلکتہ میں داخل ہوتے ہی دیواروں پر چسپاں ان بڑے بڑے پوسٹروں پر تمہاری نظر پڑتی جن میں کلکتہ کے عوام کو ’’کمیونسٹوں کے اس کلچرل فراڈ‘‘ سے بچنے کی تلقین کی گئی تھی۔ پھر تم اخبارات میں حکومت امریکہ کے انڈر سکریٹری کا بوکھلاہٹ سے بھرا ہوا وہ بیان پڑھتے جو اس نے خاص اس موقعے کے لیے اپنی حکومت کے مشورہ سے تیار کر رکھا تھا اور ہزاروں سامعین کی طرح مارے غم و غصہ کی تمہاری آنکھوں میں بھی خون اتر آتا، جب ۲ اپریل کی رات کو کشمیر کے موسیقاروں سے کشمیری گیت سنتے سنتے اچانک ایک شور کھڑا ہوتا اور تم دیکھتے کہ پنڈال کااسٹیج آگ کے شعلوں کی زد میں آگیا ہے اور پھر اگلے روز جب تم اخبارات اٹھاکر بڑی تشویش سے رات والے واقعے کی خبر دیکھنا چاہتے تو تمہاری سٹپٹاہٹ کی انتہا نہ رہتی۔ آگ اور ان پوسٹروں اور امریکی حکومت کے اس زہریلے بیان کی مذمت تو کیا تمہیں ان اخبارات میں کانفرنس کے متعلق ایک سطر تک نظر نہ آتی۔

    لیکن چونکہ تم کلکتہ نہیں جاسکے اور تمہارے علاوہ ہندوستان کے ہزاروں فنکار کلکتہ نہیں جاسکے اور وہ مناظر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکے اور ان کے متعلق اخباروں میں کچھ نہیں پڑھ سکے اس لیے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ امن پسند والنٹیروں نے آن کی آن میں امریکہ کے ایجنٹوں کی لگائی ہوئی اس آگ کا نام و نشان تک مٹادیا اور دوسرے دن کلکتہ کی دیواروں پر چسپاں ان پوسٹروں میں سے کچھ ایک تو سڑکوں پر ٹکڑوں کی صورت میں ملے اور باقیوں پر لوگوں نے تھوک تھوک کر انہیں بے طرح مسخ کردیا تھا۔

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 135)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے