Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لندن لیٹر

قرۃالعین حیدر

لندن لیٹر

قرۃالعین حیدر

MORE BYقرۃالعین حیدر

     

    معززناظرین! لندن لیٹر کی بہت سی اقسام ہیں۔ پہلی قسم وہ ہے جوایک زمانے میں ہمارے ملک کے زنانہ رسالوں میں چھپاکرتی تھی۔ عزیزہ سعید بانو سلمہا اپنی باجی جان کو لکھتی تھیں، آپابیگم میں خیریت سے ہوں۔ بمبئی سے دلہن بھابی نے جوآم کااچارمیرے ساتھ کردیاتھا، وہ ختم ہوگیا۔ یہاں ہندوستانی دکان میں مرچ اورمسالہ بہت مہنگاملتاہے۔ ایک شلنگ کی ایک پڑیادھنیے کی سمجھ لیجیے۔ گرم پانی کے پائپ کے ذریعہ میرا کمرہ گرم رہتاہے۔ (پھرکچھ لینڈلیڈی کاذکرخیرہوتاتھا) یہاں آپا جانی زمین دوزریلیں چلتی ہیں (لندن ٹرانسپورٹ کامفصل بیان) میں نے کل یہاں پلاؤ تیارکیا جوبہت پسندکیاگیا(ہندوستانی اورانگریزی کھانوں کاموازنہ اورآپا بیگم کے لیے انگریزی کھانوں کی چند آسان ترکیبیں)آپ کا زکام اب کیساہے؟ اگلے خط میں برائٹن اور بلیک پول کا حال لکھوں گی۔ آپ کی پیاری دور افتادہ بہن، سعیدہ۔ 

    جب پیاری سعیدہ بانوواپس جاتی تھیں تودور نزدیک سے رشتے دار، عزیز دوست اورمحلے والے ان سے ملنے کے لیے آتے تھے۔ وہ ایک خاص دیکھنے اورسننے کی چیزخیال کی جاتی تھیں اوراپنی باقی عمروہ وطن کے کسی گمنام مدرسے میں ہیڈمسٹریس یاپھراسکول انسپکٹر بن کرگزاردیتی تھیں۔ 

    حضرات! اب میں لندن لیٹر کی دوسری اقسام کا بیان کروں گی۔ ایک آغااشرف کا’’بی بی سی سے آداب عرض‘‘ تھا کہ کس طرح انگریز ناتسی بمباری کابہادری سے مقابلہ کررہے ہیں اور فتح انشاء اللہ اتحادیوں کی ہوگی۔ 

    اتحادیوں کی فتح کے بعد سے جولندن لیٹر السٹرٹیڈویکلی آف انڈیامیں چھپتا ہے، وہ اس طرح شروع ہوتاہے، کل ہاؤس آف لارڈزمیں جب بحث چلی اورجب فلاں ہائی کمشنر سے میں ملااوردیگریہ کہ میرے باغ میں کیناخوب پھل رہاہے اور فوڈمنسٹری نے انڈوں کا کوٹابڑھادیاہے۔ آئندہ اگلے ہفتے۔ 

    لندن لیٹر کی آخری قسم وہ ہے جب کہ ’’تماشائی‘‘ اور ’’آئینے‘‘ کانامہ نگار خصوصی ان حسین وجمیل رسالوں کے کالموں میں یو ں رقم طرازہوتاہے، ’’پچھلے اتوار کو میں نے بیگم فلاں کولیڈی فلاں کی گارڈن پارٹی میں اس حسین نیلی ساری میں ملبوس دیکھا جو انہوں نے مجھے بتایاکہ جنیوا میں خریدی ہے۔ کمانڈرفلاں بھی پارٹی میں موجودتھے، جنہیں میں نے بریگیڈ یرفلاں کی دل کش بیوی کوایک لطیفہ سناتے پایا۔ کمانڈر فلاں کل ایسکٹ میں بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایاکہ اتفاق سے ان کوبرسلز کی ایک گمنام دکان میں ایک بہت ہی عمدہ کیمرہ دستیاب ہوگیا۔ صاحب فلاں نگرکی بے حد خوش پوش صاحبزادی ہیں، کمانڈر صاحب کے کیمرہ میں بہت دلچسپی کا اظہار کررہی تھیں۔ ان کوبھی فوٹوگرافی کابہت شوق ہے، اس مرتبہ ASCOTمیں وغیرہ وغیرہ۔ 

    اوریہ سلسلہ چلتارہتاہے۔ ہرمہینے یہی گوسپ ہوتی ہے، یہی خبریں، یہی لوگ۔ 

    ان بین الاقوامی طیارہ گاہوں، ان کلبوں اورریس کورسوں کی رونق دیکھنے ہزاروں کی تعدادمیں یہ لوگ روزانہ ادھرادھر آجارہے ہیں۔ بغداد، بیروت، استنبول، روم، پیرس، جنیوا، نیویارک، کیاگہماگہمی ہے۔ کیا کانفرنسیں اورگارڈن پارٹیاں ہیں، اللہ اکبر! 

    آئیے! کیوں نہ ’’لندن لیٹر‘‘ کے ایک اورنامہ نگار یعنی اس خاکسار کے ہمراہ اس منظر کو ذراقریب سے دیکھیے۔ 

    ملاحظہ فرمائیے۔ ہارون الرشید کاعراق جہاں چاروں طر ف بیکراں ریگستان ہیں اورجھلسی ہوئی زندگی ہے، کہیں کوئی پائپ لائن دور سے نظرآجاتی ہے یا کوئی بدوخچر پربیٹھا سرجھکائے آہستہ آہستہ اپنی راہ چلاجاتاہے یاکبھی ٹھٹھک کرآسمان کودیکھ لیتا ہے، جس پراڑن قلعے پرواز کررہے ہیں۔ کیاوقت آن لگاہے! کیاکبھی وہ سوچتا ہے کہ اس کے نگڑداداؤں نے اسی ریگستان سے نکل کر بحرظلمات میں کیا سرپٹ گھوڑے دوڑایے تھے؟ مشرق وسطی کے شہروں میں اب آپ کوصرف اطلانتک کے اس پار رہنے والے گھومتے نظر آئیں گے۔ بدواسی طرح باہرراستے کے کنارے کنارے چلاجارہاہے۔ 

    اس ریستوراں میں ایک اورخاصا بین الاقوامی مجمع موجود ہے۔ دیواروں پرکوکاکولا کے اشتہار لگے ہیں۔ ایک آدھ عراقی مادموذیل اونچی سینڈل پہنے سرعت سے گیلری میں سے نکل جاتی ہے۔ کس قدر گرمی ہے۔ اطلانتک پاروالے پسینہ پسینہ ہوئے جارہے ہیں۔ یواین اونے انہیں یہاں عربوں کوتہذیب وتمدن سکھانے بھیجاہے۔ یہ دورافتادہ قصبوں اور کچی مٹی کی بستیوں میں جاکر دوائیں تقسیم کرتے ہیں اور اپنے کیمروں سے تصویریں اتارتے ہیں۔ 

    صلیبی جنگوں کے زمانے سے مشرق وسطی کی زمین نے ان سفیدفام قوتوں کے وجود کواپنے اوپراسی طرح صبراورقناعت سے سہا ہے۔ جوانگریز یاڈچ یافرانسیسی اس وقت جیپ پر جارہاہے، جس کے پیچھے پیچھے عرب بدو کااونٹ بھی ہے (تصویراونٹ کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔ کیارومانٹک پس منظر ہے) اس کے نگڑدادا رچرڈشیردل کے ساتھ مسلمانوں کاقلمع قمع کرنے آتے تھے۔ اب وہ انہیں تہذیب سکھانے آیاہے۔ اگریہ لوگ اڑکروہ صلیبی جنگیں نہ کرتے اورسبھی یورپ کا لوہامان لیتے اورساتھ ساتھ عیسائی بھی ہوجاتے توانہیں کاہے کایہ برے دن دیکھنے پڑتے۔ اب بہرحال یہ انڈرڈیویلپڈ ممالک ہیں اوریہ عالمگیرہمدردی اوربھائی چارے کازمانہ ہے اوراس ایمرجنسی پیریڈ میں تثلیت اورتوحید گویاخدا کے سارے ماننے والے ایک محاذپر اکٹھے ہورہے ہیں۔ 

    توحید کاپجاری ایک عرب ریستوران کے ایک کونے میں بیٹھا کسی مصری رسالے کی ورق گردانی کررہاہے جس میں مووی ایکٹرسوں کی تصویریں ہیں (مصری فلم انڈسٹری نے اتنی ترقی کرلی ہے۔ مادموذیل ام ریحان اورشرلے ونٹرزمیں ذرابھی کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا اورمادموذیل ام ریحان، بلکہ ان کے ساتھ خود ہماری اپنی نرگس اورثریا اور مدھوبالا اپنے اسٹریم لائنڈ شام کے لباس میں سب ایک ساتھ آواگارڈنر کے ساتھ فخر سے سراونچا کرکے کھڑی ہوسکتی ہیں)

    بہرکیف تو یہ بوڑھا عرب چپ چاپ رسالہ پڑھ رہاہے۔ اس عرب کودیکھ کر میرے دل میں محبت اوریگانگت کاجذبہ پیدا ہوتاہے۔ یہ میرے رسول اللہ اور میرے ائمہ کی قوم کا ایک فرد ہے۔ وہ لوگ بھی اسی شکل وصورت کے رہے ہوں گے۔ یہی لباس پہنتے ہوں گے۔ دریچے کے باہرفرات بہہ رہاہے۔ جہا ں پرمیرے امام مظلوم کوپیاسا ماراگیا تھا۔ میرے اوپرکافی جذباتیت کاموڈطاری ہورہاہے۔ عرب نے کولڈڈرنک کاگلاس ہاتھ میں اٹھایا۔ میں اس سے کہناچاہتی ہوں میرے پیارے عرب بھائی! کوکاکولا پیوتویادکروپیاس حسینؑ کی۔ 

    وقت اپنی جگہ پرٹھہرگیاہے۔ آرکسٹرا نے ’بلیوز‘بجانے شروع کردیے ہیں۔ عرب بڑے سے مشہدی رومال سے اپنی پیشانی صاف کررہاہے۔ میرے پیارے بوڑھے عرب! تم جوایک پوری تاریخ کے، ایک عظیم تمدن اورروایت کے بہت پیارے نمائندے ہو اورتمہارے ہاتھوں میں یہ موویز کارسالہ ہے اورتمہاری آنکھیں زندگی کی روشنی سے عاری ہیں، تمہار پرکھوں نے توان بزرگان دین کاساتھ دیاہوگا۔ تم جوصدیوں کابہت اذیت ناک اورعبرت انگیز سفرطے کرتے ہوئے اس لمحے تک پہنچے ہوکہ تمہارے رعشہ زدہ ہاتھوں میں کوکاکولا گلاس ہے، اب تم کدھر جانے والے ہومیرے بھائی! میرے پیارے ساربان۔۔۔! 

    یہ بیروت ہے۔ ایک ترک میرے سامنے بیٹھاہے۔ مذہبی اورقومی جذباتیت کا ایک اورسمبل، کیاشاندار ترک ہے، پلونہ اورادرنہ اورسالونیکاسب ایک جھنکار کے ساتھ کانوں میں گونج گیے۔ وہ کوریاسے لوٹ رہاہے اوروہ بھی یواین اوکا ایک اہم رکن ہے۔ کوریا کسی کانفرنس کے سلسلے میں گیاتھا۔ اس نے ترک بریگیڈ کاذکرکیااور ترکی کی جمہوریت کا۔ میں نے جنرل فخری پاشا کاقصہ اسے سنایا جومیرے والد کے بہت پیارے دوست تھے اور جنرل انورپاشا اورکمال اتاترک وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی ساری خلافت تحریک کی داستان میں نے مختصراً اس کے گوش گزارکردی۔ اس نے کسی خاص دلچسپی کا اظہارنہ کیا۔ میرے بھائی چارے اور اسلامی دوستی کے جذبے پر کچھ ٹھنڈا پانی سا پڑگیا۔ 

    وہ اطمینان سے صرف یواین او میں اپنے کام کا تذکرہ کرتارہا۔ پھراس نے قدرے جذباتیت سے اپنی بوڑھی ماں کاذکرکیا جوبیمارتھی اور جس نے اس کی روانگی کے وقت کہا تھا کہ میرے بیٹے میں تم کو آزادی اور سچائی کی فتح کی خاطر کوریابھیج رہی ہوں، کامران لوٹنا! بیٹوں کو لڑائیوں پربھیجناترک ماؤں کی اچھی خاصی ہوبی اورعادت ثانیہ بن چکی ہے۔ میں نے اس کی ماں کی خیریت دریافت کی۔ 

    ادھر دوبرطانوی بیٹھے ہیں۔ ہم فلاں فلاں کوسبق سکھادیں گے۔ وہ آپس میں کہہ رہے ہیں۔ تذکرہ غالباً تیل کا ہے۔ 

    سڑک پرجنگلے کے سہارے ایک بہت کم سن پنجابی ہندولڑکاکھڑا ہے، جانے وہ یہاں کدھرسے آنکلا۔ وہ انگریزی نہیں جانتا حتی کہ اردوبھی مطلق نہیں بول سکتا۔ 

    سبزپہاڑیوں کی ڈھلان پر پھیلاہوا اورسمندر کے کنار کنارے بکھرا ہوا بیروت دھوپ میں جگمگارہا ہے۔ سمندر نیلا میڈی ٹیرنین! نیلے میڈی ٹیرنین اورلبنان خدا تم دونوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے! لبنان۔۔۔! خلیل جبران کے ملک، تم بہت پیارے ملک ہو۔ یہ سب بہت پیارے لوگ ہیں۔ یہ سارے انسان جوخلیل جبران کی کہانیوں کے کردار ہیں۔ 

    لبنان کی کیتھولک لڑکیوں کاایک گروہ سمندر کے کنارے والی سڑک پرسے ٹہلتا میری سمت آرہاہے۔ غالباً وہ لوگ میری ساری کوقریب سے دیکھناچاہتی ہیں۔ دھوپ میں ان کے سنہری اورچاکلیٹ بال جھلملارہے ہیں۔ خوبصورت چہروں والی کیتھولک لڑکیاں عربی میں ایک دوسرے سے آہستہ آہستہ باتیں کررہی ہیں۔ تذکرہ ساری کاہے۔ تم انگریزی یا فرنچ بول لیتی ہو؟ میں ان سے پوچھتی ہوں۔ 

    فرنچ ویری گڈ۔ انگلیس نو۔۔۔ پھر وہ کھلکھلاکرہنستی ہیں۔ ان کی راہبہ جوخود بہت کم عمراور خوبصورت ہے، سکرن سے مسکراتی ہے۔ 

    یہاں دوردور انجیر اورزیتون کے درخت ہیں جن کے جھنڈوں میں صدیوں پرانی کیتھولک خانقاہیں چھپی ہوئی ہیں۔ جن کی سمت جانے والے سایہ دار خوابیدہ راستوں پرسے کبھی کبھی کوئی پیکارڈیاجیپ تیزی سے اس الوہی سکون کومنتشرکرتی ہوئی گزرجاتی ہے۔ 

    باسفورس پرسورج غروب ہورہاہے۔ سارے میں شفق پھیل گئی ہے۔ اس شفق میں اباصوفیہ کے مینار نظروں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں، مارمورہ کے پانیوں پر روشنیاں ناچتے ناچتے تھک گئی ہیں اور اس شفق کے دھندلکے میں سارا مشرقی یورپ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے لیکن نظروں کے سامنے ہے۔ 

    الپس، جرمنی۔ 

    المانیہ! آہ المانیہ! (واہ ا لمانیہ!)

    بون، کولون، فرینک فرٹ۔ 

    ان ناموں میں کتناسحر ہے۔ لوہے کاجگمگاتا شہرفرینک فرٹ۔ 

    فراولین کیاچاہیے۔۔۔؟ ایک ویٹرجھک کرپوچھتاہے۔ 

    فراولین کے پیارے بھائی فراٹز، تم توہٹلر یوتھ میں تھے نا! اب میں تم سے کیابتاؤں مجھے کیا چاہیے۔ بڑا کنفیوژن ہے بھائی بڑا کنفیوژن ہے۔ 

    مجھے یہاں سے آگے جانے دو۔ 

    بلجیم۔۔۔ کیاخوبصورتی ہے، کیانفاست ہے۔ برسلز، برسلز، گرجاؤں میں شام کی عبادت کے لیے گھنٹے بج رہے ہیں۔ ان کی گونج شمال کے کہرآلود سمندروں پرپھیلتی جارہی ہے۔ 

    حضرات میرے پاس وہ کیمرہ نہیں ہے جوکہ میں نے برسلز میں خریدا ہوتا تو کمانڈرفلاں کے ساتھ میں اس کے متعلق تبادلہ خیالات کرتی۔ اول تومجھے فوٹو گرافی اچھی طرح سے نہیں آتی۔ دوسرے یہ کہ اگراس سے میں تصویریں اتارتی بھی تو وہ کسی کام کی نہ ہوتیں کیوں کہ میرے پاس وہ ٹورسٹ رویہ نہیں، جس کے ساتھ یہ تصویریں کھینچ کرگھرخطوں میں بھیجی جاتی ہیں۔ 

    لہٰذا ناظرین، اب میں باسم سبحانہ، لندن لیٹر بے تصویر کاآغاز کرتی ہوں۔ دیباچہ ختم ہوا۔ 

    ٭

    حضرات! اس ہوش ربا، دیوزادپری پیکرعروس البلاد سے ہماراکتناصدیوں کا پرانا قلبی وروحانی تعلق ہے۔ ذری آنربیل جان کمپنی کا خیال کیجیے کہ جب سٹی آف لندن کے تاجر مدراس اوربنگالے کے لیے یہاں سے لنگراٹھاتے تھے، یا جب آکسفور ڈ اورکیمبرج کے ہونہار فرزندوں کوسراج الدولہ اور شجاع الدولہ کے پاس ذرا کام سے بھیجاجاتاتھا۔ کیاکیامعرکے ہوئے ہیں؟ کیاکیا توپیں دغی ہیں؟ اللہ اکبر۔ چپے چپے سے یہاں کے کیسی کیسی داستانیں وابستہ ہیں؟ چارلس ڈکنز کے ناولوں کے علاوہ رَڈیارڈکپلنگ اوروِنسٹن چرچل کے اوراق بھی ان گلی کوچوں میں بکھرے ہویے ہیں۔ 

    یوں اندازہ لگالیجیے کہ پچھلے اَسّی سال سے ہمارے نوجوان یہاں ادب، قانون اور طب سیکھنے کے لیے آتے رہے ہیں۔ یہاں ہائیڈپارک میں کھڑے ہوکر انہوں نے شعلہ بار تقریریں کی ہیں۔ لندن مجلس اور قہوہ خانوں اور Embankment پرآزادی کے خواب دیکھے ہیں۔ وائٹ ہال کے دروازوں پر پہنچ کر جدوجہد کی ہے۔ ہمارے نیتاؤں نے گول میز کے گردبیٹھ کر برطانیہ کی طاقت سے ٹکرلی ہے اور اب خداوند تعالیٰ کی عنایت دیکھیے کہ بالآخر ہم آزاد ہوئے۔ سچ ہے صبر کاپھل میٹھا ہوتاہے۔ 

    ہماری آزادی کے ساتھ ہمارے نوجوانوں کے کاندھوں سے گویا ایک باراترگیا۔ ا ب ہم یہاں ایک ہلکے پھلکے ضمیر کے ساتھ آتے ہیں۔ ہمارے نیتا اب لڑائی لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بکنگھم پیلیس کی گارڈن پارٹی میں شریک ہونے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ اب اگر کوئی لینڈلیڈی ہمارے کالے رنگ پراعتراض کرتی ہے تو ہم مطلق اس کانوٹس نہیں لیتے بلکہ جی بھرکے ا س کے کمروں کوگندہ کرتے ہیں، اس کے وال پیپرز پرسیاہی کے چھینٹے گراتے ہیں اور کھانا کھانے کے بعد اس کے پردوں سے اکثر نظربچاکر انگلیاں بھی پونچھ لیتے ہیں۔ 

    یہ سب اس لیے کہ ہم آزادہیں۔ بھلاہم میں اورمثلاً۔۔۔ مثلاً کسی اورآزادقوم میں کیافرق ہے؟ 

    اے مومنین! اس وقت اس ملک میں، کفر کی اس آماجگاہ میں، چالیس ہزارکلمہ گورہتاہے، کئی مسجدیں ہیں۔ ایک آدھ فرزندکلسیا بھی گاہے بگاہے اسلام قبول کرلیتاہے۔ ہمارے ملاح ہیں جو مختلف بندرگاہوں میں رہتے ہیں۔ مزدور ہیں جوشمال کے سارے صنعتی مرکزوں میں موجودہیں۔ صرف شہرلندن میں نوے ہندوستانی اورپاکستانی ریستوران ہیں۔ ہمارے ان گنت لڑکے اورلڑکیاں یہاں کے کالج میں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ پھرہماری بیگمات ہیں جب کوئی خاتون زرتار’’غرارہ‘‘ پہنے سڑک پر سے گزرجاتی ہیں توواللہ دیکھنے والوں کی طبیعت گلیڈہوجاتی ہے۔ 

    میں نے عرض کیاتھا نا۔۔۔ بڑی گہماگہمی ہے۔ 

    انڈیاہاؤس کی عظیم الشان عمارت میں جہاں ہمارے نادرقلمی نسخے، مغل تصویریں اورسارے تہذیبی خزانے محفوظ ہیں، جس کی دیواروں پر سے میرے گوروایل ایم سین کے بنائے ہوئے فریسکوز کی تصویریں خاموشی سے نیچے جھانکتی ہیں۔ مہارانی جھانسی کے جانشین، نیے بھارت کی سررنگ بالائیں اپنے دیش کی سفارت کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ تلک جینتی منائی جاتی ہے۔ 

    جی ہاں۔۔۔ یہ بالکل ایک نئی دنیاہے۔ 

    لندن کی کلچرل زندگی میں آرٹ کی نمائشوں، تھیٹر، اوپیرا، بیلے اور کونسٹر کے ساتھ ہندوستانی رقص کے مظاہرے بھی ایک اہم حیثیت اختیارکرچکے ہیں اور اب غالباً ’آن‘ کی کامیابی کے بعد سے ہندوستانی فلموں کوبھی وہی مقبولیت حاصل ہوجائے گی۔ نمّی جوپچھلے دنوں یہاں آئی ہوئی تھی، اسے یہاں کے پریس نے کافی پبلسٹی دی اوربرطانوی اورامریکن پروڈیوسروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 

    نمی کے ذکرپر خیال آیاکہ انگریز کی نفسیات کے متعلق کچھ عرض کروں۔ 

    ’آن‘ ایک بوگس فلم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آن کے مقابلے میں ’’ہم لوگ‘‘ یا ’’دھرتی کے لال‘‘یہاں ایک روزبھی نہ چل پاتی۔ ہندوستان کے متعلق جو تصوریہاں صدیوں سے موجود ہے، یعنی مہاراجہ کے ہاتھی گھوڑے اورتلواروں کی لڑائیاں اورسونے کے محلات وغیرہ وغیرہ، وہ سب اس فلم میں بخیروخوبی پیش کیاگیاہے۔ لہذا نائٹیس برج میں کام کرنے والی ٹائپسٹ لڑکی اور سٹی آف لندن کابنک کلرک خوش خوش گھرلوٹتے ہیں کہ انہوں نے ہندوستان یعنی مشرق کے گلیمر کی ایک جھلک دیکھ لی۔ مجھ سے یہاں کے ایک بہت بڑے انٹلکچوئل اوربڑے مشہورفلم کرٹیک نے کہاکہ عالمگیر نمائش کے لیے فلم بنانے سے پہلے آپ کے ڈائرکٹر محبوب کواطالوی فلم ’’بائیسکل چور‘‘ دیکھنی چاہیے تھی یادوچار فرانسیسی فلمیں۔ 

    میں نے عرض کیاکہ پہلے ہالی ووڈ کے ان سارے ڈائریکٹروں کوبھی ’’سائیکل کاچور‘‘ دکھائیے جو ’’قسمت‘‘اور ’’دمشق کاچور‘‘ اور ’’سلیوگرل‘‘ اور’’بغداد کاچور‘‘ جیسی تصویریں بناتے رہتے ہیں یا جن حضرات نے ’’کِم‘‘ تیار کی ہے۔ محض مسٹرمحبوب کی ذہنی تربیت کے آپ اتنے خواہاں ہیں۔ 

    انگریزوں کی اس مخصوص نفسیات کاسب سے بڑا عکاس ان کا پریس ہے۔ سنسنی اور تہلکہ ان کی مرغوب ذہنی غذا ہے۔ صر ف بہت زیادہ پڑھا لکھا طبقہ ٹائمز مانچسٹر، گارجین یا نیواسٹیٹس مین اینڈ نیشن پڑھتاہے۔ اکثریت کے لیے وہ اخبار نکلتے ہیں جن میں قتل، مارپیٹ، اغوا، ڈکیتی اوراسکنڈلز کاذکرہوتاہے۔ ارسٹوکریسی اب یہاں آخری سانس لے رہی ہیں لیکن اب بھی عوام کویہ خبرپڑھ کر اچھامعلوم ہوتاہے کہ، ’’لارڈفلاں کے بیٹے آنریبل فلاں نے کل رات مے فیئر میں اپنی پارٹی کے لیے شمپین کی اتنی بوتلیں پیرس سے منگوالیں اور اسپین کی خانہ بدوش رقاصاؤں کوبذریعہ ہوائی جہاز چھ گھنٹے کے لیے میڈرڈ سے بلوایا۔ پارٹی صبح کے پانچ بجے تک جاری رہی، یایہ کہ کاؤنٹس فلاں اتنے منک کوٹ لے کراطالوی ریویرا تشریف لے گئی ہیں۔‘‘

    ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ عوام کوسیاست کی بعض بعض تفصیلات سے جان بوجھ کر لاعلم رکھا جاتاہے۔ خود یہ طبقہ گھوڑدوڑ، کتوں کی دوڑاورفٹ بال پول اور کرکٹ کا اس قدر شیدائی ہے کہ اس کے مقابلے میں بین الاقوامی صورت حال کی اسے زیادہ فکر نہیں۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ برطانوی عوام سیاست سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ لیکن ڈاربی ان کے لیے بہرحال چین سے زیادہ دلچسپ ہے۔ 

    ویسے ملایاکی دوسری بات ہے۔ 

    تحریروتقریر کی آزادی یہاں ایک حدتک ضرور موجود ہے۔ پچھلے دنوں یہاں روسی فلم ’’زوال برلن‘‘ دکھلایاجارہاتھا۔ فلم شروع ہونے سے پہلے یہ الفاظ سامنے آتے تھے، برطانیہ ایک آزادملک ہے اورہم اس کے باشندے، اس چیز پریقین رکھتے ہیں کہ ہمارے علاوہ دوسرے شخص کوبھی اس کاحق ہے کہ وہ اپنا نظریہ اوراپنی رائے آپ کے سامنے پیش کرے۔ ہمیں اس فلم میں پیش کی ہوئی بہت سی باتوں سے اتفاق نہیں اورروسیوں کوفتح ان کی بے مثا ل بہادری کے علاوہ برطانوی اورامریکن اسلحہ جات کی وجہ سے بھی ہوئی تھی۔ لیکن بہرحال یہ ایک بہت عظیم فلم ہے۔۔۔ وغیرہ۔ 

    یہ فلم اس طرح کے تعارف کے ساتھ امریکہ میں قطعی نہ دکھلایاجاسکے گا۔ 

    آزادی تقریر کا دوسرا مشہور ومعروف مرکزہائیڈپارک ہے، جہاں لکڑی کے ڈبوں پر کھڑے ہوکر ساری دنیا کے سیاست داں، احتجاج کرنے والے، مصنف اورادیب ہر زمانے میں گلاپھاڑپھاڑ کرچلاتے رہے ہیں۔ ایک طرف کوئی صاحب کمیونسٹ پارٹی کا پوسٹر لگائے جراثیمی جنگ کے متعلق کچھ کہہ رہے ہوں گے، ان سے چندقدم ہٹ کرڈین آف کنٹربری کے خلاف چلاچلاکرکچھ ارشاد کیاجارہا ہوگا۔ دوسری طرف سوشلسٹ پارٹی کے نمائندے اپنا بیان دیتے ہوں گے۔ ایک سمت خداوند تعالیٰ کوسخت وسست کہا جاتا ہوگا۔ ان کے ساتھ ہی دوسرے اسٹینڈپریسوع مسیح کا پیغام پیش کیاجاتاہوگا۔ ایک روزایک نومسلم انگریز اورایک پاکستانی مولوی صاحب بھی جوش وخروش سے کچھ فرمارہے تھے اور مجمع قہقہے لگارہاتھا۔ مقرر اور سامعین کے مابین تکرار بھی ہوجاتی ہے۔ مجمع ہرایک کی سنتا ہے اوراسی طرح قہقہے لگاتا آگے بڑھ جاتاہے۔ 

    پچھلے دنوں چنداخبار فروخت کرنے والوں نے طے کیاکہ وہ ڈیلی ورکر نہ بیچیں گے۔ ٹائمز نے اس پر بڑا زوردار نوٹ لکھا کہ یہ رویہ غلط ہے۔ اگروہ ڈیلی ورکرنہ بیچیں گے تو ہم ان کوٹائمز بھی بیچنے کے لیے نہ دیں گے، کیوں کہ یہ رویہ جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے۔ کل کوٹائمز یاکسی اور اخبار کے لیے بھی یہی فیصلہ کیاجاسکتاہے۔ آزادی تحریر پائندہ باد۔ چنانچہ اخباربیچنے والوں کواپنافیصلہ واپس لیناپڑا۔ یہ برطانوی اصول پرستی کی ایک مثال تھی۔ تصویرکادوسرا رخ یہ ہے کہ اس کے باوجود پہلے کی طرح اب بھی یہ اخبار ہرنیوز اسٹینڈ پر آٖپ کودستیاب نہیں ہوسکتا۔ ایسٹ اینڈ اور چوراہوں پرپارٹی کے افراد اسے فروخت کرتے نظرآجائیں گے۔ 

    ایسٹ اینڈ۔۔۔! پکیڈلی سے ٹیوب میں بیٹھ کر آپ وائٹ چیپل یااسٹیپنی گرین اتریے۔ بیس پچیس منٹ کے اندر اندرآپ بالکل ایک دوسری دنیا میں موجودہوں گے جہاں بمباری سے تباہ شدہ محلے موجود ہیں اوردھوئیں سے جلے ہوئے مکانات اورتاریک گلیاں۔ جہاں کی سڑکوں پرسے آپ رات گئے تنہا گذریے توآپ کی جیب ضرور تراش لی جائے گی۔۔۔ ناتسیوں نے اپنی بمباری کا نشانہ خاص طور پر اس علاقے کوبنایاتھا، جہاں لندن کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدووں کی گنجان آبادی واقع ہے۔ یہاں کوئی کنونشن نہیں ہے۔ ہرشخص دوستی کی موڈ میں رہتاہے۔ افلاس اور گندگی کے معاملے میں یہ علاقے ہمارے اپنے محلوں سے کچھ کم نہیں ہیں۔ یہاں ان گنت ہندوستانی، پاکستانی اورلنکا کے مزدور رہتے ہیں۔ برسوں سے رہتے آئے ہیں اوراس آبادی میں مدغم ہوگیے ہیں۔ ان کے لباس بھی اتنے ہی بدنما اور شکستہ ہیں جتنے ان کے سفید فام ہمسایوں کے۔ 

    چھوٹے چھوٹے نیم تاریک ہندوستانی طعام خانے ہیں، جہاں اتوار کے روز دن بھر جازکی موسیقی بجتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نیگرولڑکے اچکتے رہتے ہیں۔ ایک چائے خانے میں ایک روزہم لوگ گئے۔ اس میں دیوار پرپرانا مسلم لیگ کاکیلنڈر لٹک رہاتھا، جس پرقائداعظم کی تصویرتھی۔ بے رنگ کرسیاں اوربھدی میزیں۔ ایک کونے میں ایک افلاس زدہ انگریز دال بھات کھانے میں مصروف تھا۔ کاؤنٹر پرسے سیاہ فام، غالبا سلہٹ کارہنے والا ویٹرچلایا، ’’ون ٹی۔ ون رول۔‘‘ عین مین کراچی کے بندرروڑ کا کوئی ریستوران معلوم ہوتاتھا۔ ڈورچسٹر، کلریجز، مے فیئر؟ جی ہاں۔ ان الف لیلوی جگہوں کے علاوہ جن کے اندرداخل ہوکرلو گوں کی عقل چکراجاتی ہے اورآنکھیں چکاچوندہوجاتی ہیں، ان کے علاوہ یہ چائے خانے بھی موجود ہیں۔ انگلستان محض دریائے ٹیمز کا مغربی کنارہ ہی نہیں ہے۔ 

    اتوار کے روزایسٹ اینڈ کی مشہورپیٹی کوٹ لین میں ہاٹ لگتی ہے۔ وہی ٹھیلے والوں کی بھانت بھانت کی صدائیں مونگ پھلی بیچتی ہوئی بڑھیاں، سیکنڈہینڈمال کے انبار، دورویہ فٹ پاتھ پرپڑے ہیں۔ وہی رنگ اورماحول ہے جواپنے پیارے نخاس کے بازار میں تھا۔ پھریہ گلیاں ہیں جن کے دونوں طرف شکستہ مکانات کے سلسلے ہیں، جن کے دروازوں پرعورتیں بیٹھی دھوپ سینکتی ہیں اور سامنے بچے کھیل رہے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر، ملبے کے انبار، غریب یہودیوں کے عبادت خانے۔ یہاں سے توکوئی پیکارڈیاسن بیم بھولے سے بھی نہیں گزرتی۔ 

    یہ منظرآپ کوہرجگہ ملے گا۔ شمال کے صنعتی مرکزوں میں، شیفلڈ میں، گلاسگومیں، ویلز کی آبادیوں میں، سارے آئرلینڈ میں اورپھر چینل عبور کرنے کے بعد اٹلی، اسپین اور یونان میں، یہ سارا پچھم ہے جس پرکہراچھایا ہواہے۔ کہرا جوپچھم کے سمندروں سے اٹھتاہے۔ 

    نیچے نیلامیڈی ٹرنینن جگمگارہاہے، جس کی موجوں پر کاؤنٹس آف ٹیڈل ڈوکی یاٹ تیرتی ہے۔ حسین کاؤنٹس آف ٹیڈل ڈوم جومارکوئس آف ٹوڈل ڈو کے ساتھ پندرہ منک کوٹ لے کراطالوی ریویرا تشریف لے گئی ہیں۔ 

    میری دوست حایانے مجھ سے کہا، اس انٹرنیشنل سلم لینڈ سے کم از کم ہم اپنے یہودیوں کونکال کراسرائیل لے گئے ہیں۔ ہمارے اجتماعی فارم دیکھو، ہماری نئی موسیقی، ہمارا کلچر، ہماراجذبہ، نیاملک ہے۔ نئی اجتماعی طاقت جوپرانی تاریکی کی طاقتوں سے ٹکرلے رہی ہے لیکن پھربھی ہم اورپاکستان ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ بتاؤ ہم میں اورپاکستان میں اورعربوں میں کیافرق ہے۔۔۔ وہ خاموش ہوگئی۔ 

    ہم نے کئی بارکوشش کی کہ عربوں کے ساتھ مصالحت کرلیں لیکن ہمیشہ کوئی نہ کوئی شاخسانہ کھڑاکردیاگیاتاکہ مشرق وسطی میں عربوں اور یہودیوں میں باہمی مفاہمت، سمجھوتہ اورامن نہ پیداہوجائے۔ 

    وہی ہندومسلم مسئلہ تھا۔ حایانے پھرکہا۔ 

    اب وہ چپ چاپ بیٹھی ہے۔ حایا کاف من، روسی نژاد ہے۔ یوکرین میں پیداہوئی تھی۔ بارہ سال کی عمر سے اس نے فلسطین کی انڈرگراؤنڈتحریک میں کام کرنا شروع کیا۔ اس نے ڈبلن سے انگریزی ادب میں ڈاکٹریٹ لیاہے۔ حایابے حد خوبصورت لڑکی ہے۔ ایک تویہودی ویسے ہی دلکش اورذہین ہوتے ہیں۔ اس لیے حایا کوکیمبرج میں بہت پسندکیاجاتاہے۔ حایایعنی حیایعنی حیات، عبرانی میں حایازندگی کوکہتے ہیں۔ 

    لیکن میں بنی اسرائیل کی نئی زندگی کے اس سمبل سے ہروقت الجھی رہتی ہوں۔ میں حایا کو کبھی معاف نہیں کرسکتی۔ اس نے اپنے دستی بموں سے کتنے عربوں کی جان لی ہوگی، یہ سوچ کرمجھے اس کے وجود سے نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ اطمینان سے بیٹھی پیانو پرکیکووسکی بجاتی رہتی ہے۔ جب وہ جذباتی ہوجاتی ہے توروسی گانے الاپنے شروع کردیتی ہے۔ روسی اس کی مادری زبان ہے، عبرانی مذہبی اورسیاسی، انگریزی ادبی اورفرنچ اس کی کلچرل زبان ہے۔ وہ بڑی کٹر اینٹی برٹش عورت ہے۔ فلسطین کی جنگ کے زمانے میں کئی دفعہ برطانوی فوج نے اسے جیل میں بندرکھا اور برطانوی پولس نے اس کی پٹائی بھی کی۔ سیاسی طورپر وہ اشتراکی ہے۔ اس کا باپ اسرائیلی حکومت کاایک اہم رکن ہے۔ قصہ مختصریہ ہے کہ ان سردمزاج انگریزوں کووہ بحیثیت مجموعی کافی پراسراراورپرکشش نظرآتی ہے۔ پائندہ باد حایایعنی حیات۔ 

    اس وقت حایا ڈاکٹرالٹ ملر سے ایلیٹ کے معاملے میں الجھ رہی ہے۔ ڈاکٹر الٹ ملرہمبرگ کاانٹلکچوئل ہے۔ مجھے وہ ہمیشہ نمستے کہتا ہے اورکماری کہہ کرپکارتا ہے کیوں کہ سنسکرت اورکالی داس کاوہ بہت بڑا عالم فاضل ہے۔ سات سال تک وہ مشرقی محاذ پرروسیوں سے لڑتا رہا۔ روس میں نظربندی کے زمانے میں اس نے پہلی بار ’’جرم و سزا‘‘ کوپڑھا۔ اب وہ ہمبرگ میں ادب کا پروفیسر ہے۔ یروشلم کی انٹلکچوئل حایا کی، ہمبرگ کے اس انٹلکچوئل سے بالکل نہیں بنتی، کیوں کہ حایا کو جرمنوں سے نفرت ہے۔ ڈاکٹرالٹ ملرکی عدم موجودگی میں وہ اکثرمجھ سے کہتی ہے، ذرادیکھو تو اس منحوس مہاکوی کالی داس کے بچے کو، یوکرین میں اس نے کتنے روسی یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہوگا۔۔۔ یوکرین جومیراوطن ہے۔ 

    یوکرین تمہارا وطن کہاں سے آیا؟ تم اسرائیلی ہو؟ میں اس سے بگڑکر کہتی ہوں۔ 

    اب ہم خطرناک پانیوں کی طرف سفرکررہے ہیں۔۔۔! رونلڈ دوسرا سگریٹ رول کرتے ہوئے آہستہ سے کہتاہے۔ رونلڈ برطانوی ہے، نسلاًاینگلوسیکسن۔ اس گروہ کاایک اورانٹلکچوئل، سارے جدیدانگریزی ادب پروہ بھی ہم سب کی طرح بے تحاشاحاوی ہے اور اپنے آپ کو ڈاکٹرلیوس سے زیادہ سمجھدار نقاد خیال کرتاہے۔ ڈاکٹرلیوس نے جوکیمبرج کے بڑے گروؤں میں سے ہیں۔ وہ اکثر الجھتا رہتاہے۔ تم برصغیر ہند کی ساری خرافات سیاست کا ذمہ دار محض مجھے ٹھہراتی ہو۔ یہ تمہاری بھول ہے۔ وہ انگلی اٹھاکر پیغمبر انہ انداز میں مجھ سے مخاطب ہوتاہے۔ 

    ڈاکٹرالٹ ملر کوسیاست کی خرافات سے چنداں دلچسپی نہیں۔ وہ ٹیگور کے فلسفے کے متعلق کرسٹفرلی سے کچھ فرمارہے ہیں۔ کرسٹفرلی لوئی مک سینس کے رفقا میں سے ہیں اور جدیدشاعروں اورنقادوں کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 

    ٹیگور ٹیگورچلاتے ہیں۔ آپ نے کبھی ابن خلدون کا مقدمہ پڑھاہے؟ میں غصے سے ان دونوں سے کہتی ہوں۔۔۔ مشرق کا ساراذہن وفلسفہ محض ٹیگور ہی نہیں ہے۔ حصرت علیؓ اورامام غزالیؒ اورابن خلدون اوراقبال کابھی تومطالعہ کیجیے۔۔۔ لیکن بھلا آپ عیسائیوں کاتعصب کب مٹے گا۔۔۔؟ 

    ہم خطرناک پانیو ں کی طرف۔۔۔ رونلڈ آہستگی سے تیسرا سگریٹ جلارہاہے۔ 

    چنانچہ چاروں اور یہ خطرناک پانی ہیں اورہم سب ایک ناؤ میں سوارہیں۔ 

    کیم آہستہ آہستہ بہتاجارہاہے۔ تیرہویں اورچودھویں صدی کے کالجوں کے پیچھے سے یہ سیکڑوں برس سے یونہی بہتاآیاہے۔ اس کے دونوں طرف پرم روزکھلے ہیں اوربے انتہا سرسبز درخت ہیں۔ موسم بہار کے سارے پھول امنڈرہے ہیں۔ ویپنگ ونور کی شاخیں پانی کی سطح پرجھکی رہتی ہیں۔ صدیوں سے یہ پھول اوریہ پرانی دیواریں اوریہ پل، یہ انڈرگریجویٹ بحثیں سنتے آئے ہیں۔ بے حد پرسکون----اوربے تحاشہ خوبصورت منظر ہے جو کرسمس کارڈوں اور کیلنڈروں پر منتقل ہوکر دنیابھر میں فروخت ہوتاہے۔ چیری کے درخت ہیں اور ان میں چھپے ہویے کاٹج اور ٹی گارڈن گرانچسٹر ہے جہاں ریوپرٹ بروک رہتاتھا۔ گرانچسٹر گرجا کے قبرستان میں ریوپرٹ بروک رہتاتھا۔ گرانچسٹر گرجاکے قبرستان میں ریوپرٹ بروک کے میموریل پرایک اکیلی ریتھ مرجھائی پڑی ہے۔ 

    ایک تیزرفتار موٹرلانچ یونین جیک لہراتی زناٹے سے سطح پر سے نکل جاتی ہے۔ گڈ اولد یونین جیک۔۔۔! کوئی آہستہ سے کہتا ہے۔۔۔ ہولی ڈے میکرز اورانڈرگریجویٹس کناروں پر دوردر تک ٹولیوں میں منتشر ویک اینڈمنارہے ہیں۔ پانی کی لہروں پر ان گنت ڈونگیاں تیررہی ہیں۔ ابھی قریب سے جو پنٹ گذری ہے، اس کے سرے پرکھڑی ہوئی حایا نے جوش میں آکرزور زور سے کوئی عبرانی لوک گیت شروع کردیا ہے، جواسرائیل کے کھیتوں میں لڑکیاں گاتی ہیں۔ ڈاکٹر الٹ ملر آہستہ آہستہ ایک جرمن نغمہ الاپ رہا ہے۔ ڈاکٹر سی روحانی گیت، گنگنانے لگتی ہے۔ انٹرنیشنل سمفنی شروع ہوجاتی ہے۔ 

    نینسی آنکھیں نیم واکیے اپنے وطن جنوب کے Plantaionکے گیت گارہی ہے۔ 

    ڈاکٹر نینسی کارلن، یہ میری دوسری پیاری دوست ہے۔ اس کی دادی حبشی سلیو گرل تھی، جسے نیو اور لینز میں فروخت کیاگیاتھا۔ اس کاباپ ورجینیا میں پادری ہے۔ نینسی کو ورجینیا کے کسی کالج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ لہذا اس نے شمال کی کسی یونیورسٹی میں جاکرپڑھا اور امریکن ناول میں نیگرو پادری کے کردار پرمقالہ لکھ کر اس نے کولمبیا سے ڈاکٹریٹ لیا۔ اب وہ جنوب کی کسی بہت بڑی نیگرو یونیورسٹی میں ادبیات کی پروفیسر ہے۔ نینسی ہروقت بشاش رہتی ہے اور بات بات پر زور زورسے قہقہے لگاتی ہے۔ 

    ’’دیکھو۔۔۔ تم لوگ ہمیشہ اپنی مظلومیت پربسورتے ہواورزندگی سے بیزارنظر آتے ہولیکن نینسی کودیکھو۔ اس کی قوم نے کتنے ظلم سہے ہیں اوریہ کس طرح ہر سمے ہنستی اور دوسروں کو ہنساتی رہتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی اپنی سیاسیات اور اپنے کلرپروبلم کے بارے میں تمہاری ہی طرح حساس ہے۔۔۔ بلکہ اس نے تم سے زیادہ دکھ سہے ہیں۔۔۔‘‘رونلڈ مجھ سے کہتا ہے۔ 

    نینسی واقعی بہت عظیم ہے۔ ہمارے ساتھ تین چارامریکن اورہیں جو سب کے سب کسی نہ کسی مشہور یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرچکے ہیں یاکررہے ہیں۔ سب بڑے ذہن پرست ہیں۔ مثلایہ لڑکارسل فریزر جونیویارک کے ایک مشہور ادبی رسالے کاجوائنٹ ایڈیٹر ہے اورامریکہ کے نیے نقادوں میں اس کاشمارہوتاہے لیکن ہم کبھی ایک دوسرے سے سیاست کی بات نہیں کرتے۔ صرف ایذراپاؤنڈ کاتذکرہ ہوتا ہے۔ نینسی ان سب کی دوست ہے کیوں کہ بہرحال وہ بھی امریکن ہے اوربڑی پکی امریکن لیکن ان سب سے مختلف ہے۔ ایک بات آپ کو اوربتادوں۔ نینسی، حایا اوررونلڈ کی طرح اشتراکی خیالات کی حامی نہیں ہے۔ امریکی طرز جمہوریت کی پرستار ہے۔ پھربھی اس سمے کتنی گمبھیرتا اورکتنے دکھ سے وہ نیگرو روحانی نغمہ الاپ رہی ہے۔ 

    نینسی کارلن بہت عظیم عورت ہے۔ 

    کل ایک انگریزلڑکی نے بریک فاسٹ کی میز پر اس سے بہت بشاشت سے کہہ دیا، ’’ہلوٹوپسی۔۔۔!‘‘

    نینسی نے اس سے کہا، ’’دیکھو ڈارلنگ، مجھے معلوم ہے کہ تم نے کسی بری نیت سے نہیں بلکہ محض خوش دلی سے ٹوپسی کہہ کرپکارا ہے لیکن آئندہ کسی نیگرو کواس نام سے مخاطب نہ کرنا۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔‘‘ بعد میں نینسی نے مجھ سے مخاطب ہوکرآہستہ سے کہا، ’’یہ بالکل اسی طرح ہے جب یہ لوگ نیگرو عورتوں کی ٹوپسی یانیگرس کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں تم سمجھتی ہونا۔۔۔ میرامطلب ہے کہ۔۔۔ .‘‘

    ’’الفاظ میں کیارکھا ہے۔۔۔!‘‘رونلڈ نے ایک اورسگریٹ رول کرتے ہویے کاہلی کا سوال کیا۔ 

    ’’الفاظ۔۔۔؟ آپ کسی چینی کوچائنامین کیوں کہتے ہیں اور کیا تم کو پتہ ہے کہ لفظ ’’ایشیاٹک‘‘ کے پیچھے کتنی حقارت چھپی ہوئی ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے جواب دیا۔ 

    ’’اوہو۔۔۔! اسی لیے اب تم لوگ اپنے آپ کو ایشیاٹک کے بجایے ایشین کے نام سے یاد کرتے ہو۔۔۔!‘‘رونلڈ نے کہا۔ 

    ’’جی ہاں جناب۔۔۔‘‘میں غصے سے کود کردریچے میں جابیٹھی۔ 

    ’’اچھااچھا۔ ایشین، ایشین۔۔۔ ٹھیک ہے؟‘‘رونلڈ نے کہا۔ 

    ’’ٹھیک ہائے۔۔۔‘‘میں نے نقل اتارتے ہوئے جواب دیا۔ 

    سورج کنگز کالج کے پیچھے غروب ہوتا جارہا ہے۔ کورٹ یارڈ پرسائے طویل ہونے لگے ہیں۔ پیٹرہاؤس کوئنز کالج۔ ایمونٹل سڈنی سکس۔ ان ساری سحرانگیز عمارتوں پرتاریکی چھارہی ہے۔ تاریکی میں ایسا لگتاہے کہ ابھی ان صدیوں پرانے گھسے پتھروں والے کوریڈورز میں سے قرون وسطی کے راہب اوراسکالر کالے گاؤن پہنے شمعیں لیے ادھرسے ادھر گذرجائیں گے۔ ان کمروں میں، ان سیڑھیوں پراور ان کورٹ یارڈز کے درختوں کے نیچے کرسٹفرمایو، روجربیکن، اولیورکروم ویل اوران کے بعدکیٹس، بائرن اورجانے کس کس نے اپنے طالب علمی کے زمانے بتائے ہیں۔ اس پراسرار نیم تاریک ماحول میں اب تک ذرا سی بھی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔ 

    کیم اسی طرح بہتارہے گا۔ 

    اب ہم اپنے گرینڈکونسرٹ کی ریہرسل کررہے ہیں۔ بارش ابھی تھمی ہے۔ فضا میں پھولوں کی دھیمی دھیمی خوشبوبہہ رہی ہے۔ تیزسبز گھاس نم ہے اورپتوں پر سے بارش کے قطرے نیچے گررہے ہیں۔ پورب کے کھیتوں اورکنجوں پربھی یونہی بارش اسی طرح ہوتی ہے۔ پھلیندے اورکھرنی کے درختوں پر بخشی کاتالاب اس وقت پانی سے بالکل لبریز ہوجاتاہے اورپیلے کنول وہاں تیرتے ہیں۔ گومتی کے کاٹھ کے پل سے لوگ چولائی اور بتھوے کے جھوے اٹھائے گذرتے رہتے ہیں، ساون الاپاجاتاہے کیوں کہ اگست کامہینہ ہے۔ 

    نوسٹیلجیا۔۔۔؟ نینسی آہستہ سے دریافت کرتی ہے۔ لان پرہمارے ساتھی ادھرادھر گروہ بنائے گھاس پربیٹھے پروگرام کے مختلف حصوں پرنظرثانی کررہے ہیں۔ شاہ بلوط کی لکڑی کی دیواروں والے نیم روشن کمرے میں اس اسکٹ کی مشق کی جارہی ہے جوہم نے ایلیٹ کے ’’سوینی ایگنسٹیس‘‘ کی پیروڈی میں لکھا ہے۔ ہم ایک ایک جملے اورسین پرقہقہے لگاتے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک امریکن لڑکی وائلن پرویبر بجارہی ہے۔ اس کے ساتھ انٹرنیشنل لاء کا اطالوی طالب علم گٹار بجانے میں مصروف ہے۔ آتش دان کے اوپر سے لیڈی سڈنی کی روغنی تصویر کاہلی سے جھانک رہی ہے، جنہوں نے پندرہویں صدی میں یہ کالج قائم کیاتھا۔ 

    رسل فریزرفرش پرپڑے ہوئے گھنگروؤں کوبڑے غور اور دھیان سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہاہے۔ نینسی کارلن پیانوپرتن دہی سے وہ دھن بجانے کی کوشش کررہی ہے جو میں نے ناچ کی لے کے لیے اسے سکھائی ہے۔۔۔ رے واگے بندرابن مابانسریا کھوب کھوب بجادینا۔۔۔ رے واگے۔ 

    دھیم تانادھیری نا، تانادھی ری نادھیم۔۔۔ سب مل کر الاپنے لگتے ہیں۔ 

    ٹیرفک۔۔۔! رسل فریزرچلاکرخوشی سے کہتاہے۔ 

    ان سفیدقوموں کا آرکسٹرا اب بندرابن کاگیت بجارہاہے۔ یہ دھنیں انہوں نے آج تک نہ سنی تھیں جو میں ابھی انہیں سکھلائی ہیں۔ سب کے سب بچوں کی طرح اکسائٹیڈ ہیں۔ 

    اوہ بوائے! نینسی چلاکرکہتی ہے۔ 

    کیاکلچرل ہارمنی پیداہوئی ہے، واللہ۔۔۔! میں سوچتی ہوں۔ 

    شام کوای ایم فارسٹرمجھ سے کہتے ہیں۔۔۔ میں ہندوستان کوبھلاکس طرح بھول سکتاہوں؟ کبھی نہیں۔۔۔! 

    یس سر۔ میں کہتی ہوں۔ 

    خصوصا ًتمہارا لکھنؤ۔ 

    یس سر۔ 

    تمہاری تہذیب۔ 

    یس سر۔ 

    تمہاری ساری جدوجہد۔ 

    یس سر۔۔۔ ٹوچیرزفارڈیموکریسی۔ 1

    فارسٹرکھلکھلاکر ہنس پڑتے ہیں۔ 

    سارے ایسٹ انگلیاپر جنوبی انگلستان پرموسم گرما کے خوشگوار بادل چھائے ہوئے ہیں۔ پھر دھوپ نکلتی ہے۔ سیزن اپنے عروج پرہے۔ ویسٹ اینڈمیں پیٹراسٹنوف، ایڈتھایوانز اور میری مارٹن کے کھیل بے پناہ ہجوم اپنی اورکھینچ رہے ہیں۔ شہزادی مارگریٹ نے نیے فیشن ایجاد کیے ہیں۔ کورٹ آف سینٹ جیمز سے ذرا پرے اوورسیزلیگ کی بھوری مہیب عمارت ہے جس میں بوڑھے آئی سی ایس اورنوآبادیات کے سابق گورنردن بھرچپ چاپ وہسکی پیتے اورٹائمز پڑھتے رہتے ہیں یا کبھی کبھی اخبار پر سے سراٹھاکر گڈاولڈ جے پورریذیڈنسی یاڈیراولڈچھترمنزل کلب کاتذکرہ کرلیتے ہیں، جہاں ۱۹۲۰ میں یا ۱۹۳۰ میں کتنی دلچسپ برج پارٹیاں ہوتی تھیں۔ 

    ایک روز ایک پارٹی کے دوران میں میں نے ایک بہت بوڑھے انگریز کو نوٹ کیا جو سب سے الگ تھلگ خاموش بیٹھاچائے پی رہاتھا، اس کے ہاتھوں میں رعشہ تھا۔ میں نے پیالی اسے اٹھاکردی۔ 

    آپ کبھی برصغیرجاچکے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ 

    ہاں! جاچکاہوں۔۔۔ جاچکاہوں۔۔۔ اس نے پیالی کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سنبھال کر اٹھائی۔ 

    کسی خاص جگہ۔۔۔؟ 

    بمبئی! 

    اچھا۔۔۔ کسی ملازمت وغیرہ کے سلسلے میں یا ایسے ہی۔۔۔؟ میں نے اخلاقاً مکالمہ جاری رکھنے کی غرض سے دوبارہ بات کی۔ 

    نہیں۔۔۔ ملازمت کے سلسلے میں۔ 

    اوہ۔۔۔ آرمی۔۔۔؟ 

    نہیں، آرمی نہیں۔ 

    توکافی عرصہ رہے آپ ہندوستان؟ 

    ہاں، ہاں کئی سال، کئی سال۔ 

    کیاکرتے رہے اتنے دنوں آپ وہاں۔۔۔ میرامطلب ہے بمبئی میں۔۔۔؟ 

    او۔۔۔ میں بمبئی پریزیڈنسی کاگورنرتھا۔ 

    اوہ۔۔۔ 

    ان انگریزوں کی تنہائی اب قابل رحم ہے۔ ان کے دوسرے ہم مرتبہ ساتھیوں پربھی زوال آچکا ہے۔ بڑے بڑے لارڈاور کاؤنٹ جن کے پاس لمبے چوڑے خطابات، طویل و عریض ریاستیں اورعظیم الشان محلات اورقلعے تھے، اب نوکریاں کررہے ہیں یا اپنے جواہرات اوربیش قیمت کتب خانے فروخت کررہے ہیں۔ بہت سوں نے اپنے محلوں کی نمائش شروع کردی ہے جن پرٹکٹ لگاکروہ تماشائیوں کو اپنے کتب خانے، اپنے نفیس بیڈروم اورڈرائنگ روم ایک مستعد گائیڈ کی طرح دکھلاتے پھرتے ہیں اوراس سے جوآمدنی ہوتی ہے، اس سے گھر کے خرچ میں مددلیتے ہیں۔ ’’موت کے محصول‘‘ نے ارسٹوکریسی کواقتصادی طورپربالکل تباہ کردیاہے۔ 

    انگلستان کے لارڈز اورلیڈیز کازمانہ ختم ہوا۔ 

    لہذا اے مومنوں! لازم آیاتم پرکہ عبرت پکڑو۔ 

    اب آخر میں خاں صاحب سے بھی مل لیجیے جوپچھلے تیس سال سے لندن میں رہتے ہیں۔ جوش کے قریبی عزیز ہیں جواپنی ذات سے انجمن ہیں۔ بی بی سی کے اردوسیکشن میں ان کی وجہ سے بڑی رونق رہتی ہے۔ اتنے طویل عرصے کے ولایت کے قیام کے باوجود ان کا لب ولہجہ اب تک ٹھیٹھ اورخالص اودھ والوں کاساہے۔ اردوبولتے ہیں توہمیشہ تھیٹر کوٹھیٹر اورویسٹ منسٹر کوویسٹ مینسٹر کہتے ہیں۔ سنیما کو انہوں نے ہمیشہ بائیسکوپ ہی کہا۔ لکھنؤ کے پرانے داستان گویوں کے اندازمیں قصے سناتے ہیں۔ تیس سال گزرے، ہندوستان کی آزادی کی لڑائی لڑنے یہاں آئے تھے اور پھرکبھی واپس نہ گئے۔ ہائیڈپارک میں انہوں نے بھی بغاوت کاعلم بلند کیا۔ خلافت تحریک آرگنائزکی۔ اخبارنکالے۔ لائیڈ جارج کے پاس پہنچ جاتے تھے اور اس سے بگڑکرکہتے تھے کیامعنی کہ آپ نہایت بے ایمان آدمی ہیں۔ ہند کوابھی فوراً آزاد کیجیے۔ 

    اب بوڑھے ہوگئے ہیں اور دل شکستہ ہیں کہ جوسوچا تھا وہ نہ ہوا۔ پچھلے دنوں پاکستان گئے تھے لیکن پرمٹ نہ مل سکنے کی وجہ سے وطن مرحوم ملیح آباد نہ پہنچ سکے اورپھرلندن لوٹ آئے۔ ہرشخص کے دکھ درد میں کام آنے کوتیاررہتے ہیں۔ کوئی خاندان نہیں ہے، اکیلے رہتے ہیں اوراپنے محلے بھرکے گورو اور جگت چچا ہیں۔ ایسے لوگ اب صرف قصے کہانیوں میں ملتے ہیں یاچودھری محمدعلی رودولوی کی حکایتوں میں اورچودھری محمدعلی کے قصوں کو بھی سمجھ کر پڑھنے اورسردھننے والے اب کم رہ گیے ہیں۔ 

    موسم گرما بھی گذر جارہاہے۔ سیاح ٹریفلگر اسکوائر میں کبوتروں کودانے کھلارہے ہیں۔ ٹیٹ گیلری میں پکاسواور رائل اکیڈمی میں ڈاونچی کی نمائش ہورہی ہے۔ پکیڈلی سرکس میں وہاں کی مشہورعالم ’’اسٹرٹ واکر‘‘، لڑکیاں حسین کپڑوں میں ملبوس، اونچی ایڑی کے جوتے پہنچے گہرامیک اپ کیے کونوں کھدروں یافٹ پاتھ کے کناروں پر کھڑی، راہ چلنے والوں خصوصا غیرملکیوں کو’ہلوہینڈسم‘ کہہ کراپنی اورمتوجہ کرنے میں مصروف ہیں۔ 

    پکیڈلی۔۔۔ ہارٹ آف دی ورلڈ۔۔۔! مجمع بڑھتا جارہاہے۔ سنیماگھر وں کی کھڑکیوں کے سامنے کیولگے ہیں۔ ایک خوبصور ت جوان آدمی جس کی ایک ٹانگ اوپر سے کٹی ہوئی ہے، بھیک مانگتامانگتا کیو کے ہرفرد کے سامنے جاتاہے اورٹوپی اتارکر سلام کرتا ہے۔ بہت کم لوگ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ پیسے اس کے بکس میں کوئی بھی نہیں ڈالتا۔ 

    ’’سلام میم صاحب۔۔۔!‘‘وہ ہمارے سامنے آکرکہتاہے۔ 

    میری دوست فیروز جبیں اس سے پوچھتی ہے، ’’کیا تم کبھی ہندوستان میں رہے ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ میں ڈنکرک فتح کرنے میں مصروف تھا اس لیے ہندوستان نہ جاسکا!‘‘وہ مسکراکر کہتا ہے۔ 

    ’’اچھا۔۔۔!‘‘فیروز اس کے ڈبے میں پیسے ڈال دیتی ہے۔ وہ اسی طرح مسکراکر تھینک یوکہتا آگے بڑھ جاتاہے۔ 

    ’’ڈنکرک فتح کرنے میں مصروف تھا۔۔۔‘‘فیروز دہراتی ہے اوراب ویسٹ اینڈکے تھیٹروں کے آگے بھیک مانگتا ہے اورابھی ایک جنگ اورہوگی؟‘‘

    سامنے سے اطلانتک پار والے سپاہیوں کایک غول گذرجاتاہے۔ میں اورفیروز سنیما کے اندر جاکر لارونددیکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ 

    لاروند۔۔۔ زندگی کامیری گوروانڈ۔۔۔! 

    توبھائی فیروز یہ سلسلے ہیں۔ رات کومیں آگ کے سامنے اطمینان سے بیٹھ کر فیروز سے کہتی ہوں۔ یہ ہمارا پرانا لطیفہ ہے۔ یونیورسٹی میں ہم جب اکٹھے پڑھتے تھے توشام کوہوسٹل کی ڈائننگ ٹیبل پردن بھر کے سارے ضروری واقعات یونیورسٹی پالیٹکس اوراسکنڈلز ایک سانس میں گوش گذار کرنے کے بعد میں فیروز سے کہتی تھی۔ تویہ سلسلے ہیں بھائی صاحب۔۔۔! 

    اوریہ کملا ہے یہ صاحب ہندوستان کی فارن سروس کی ایک بڑی ذمہ داررکن ہے، پراب تک لگتا ہے کہ ابھی ابھی اپنی کلاس کا کوئی پیریڈ گول کرکے کالج سے بھاگی چلی آرہی ہے۔ اس کافلیٹ چیلسی میں ہے۔ لہذا آرٹ وارٹ کاچکراس کے یہاں بہت رہتاہے۔ 

    کینیڈاکاانٹلکچوئل تاریخ اورپولیٹکل سائنس کا ماہربرنی بلیٹن برگ جامینی رائے کی ایک تصویر کوبے دھیانی سے الٹ پلٹ رہاہے۔ برنی آج کل بیک وقت دوکتابیں لکھنے میں مصروف ہے۔ ایک کینیڈا کی اقتصادی تاریخ اور دوسری کچھ اوراسی قسم کی چیزہے۔ دونوں کتابیں بڑے پروگریسیو نظریے سے لکھی جارہی ہیں۔ اپنی کم عمری کوچھپانے کے لیے ہروقت بے حدسنجیدہ رہنے کی کوشش کرتاہے۔ 

    پروگریسو۔۔۔؟ افوہ۔۔۔ افسوس یہ ہے کہ تم توپچھم کے زوال پرست انٹلکچوئل بھی نہیں ہو۔ کولونیل انٹلکچوئل ہو۔۔۔ میں اسے جلانے کے لیے کہتی ہوں۔ 

    دراصل مجھے اس لفظ انٹلکچوئل ہی سے وحشت ہوتی ہے اورپھرکینیڈا کی یہ مخلوق۔۔۔؟ افوہ۔۔۔ یہ کولونیل لوگ بھلاکیاکھاکر انٹلکچوئل بنیں گے۔ بھائی جوتمہارے باپ کے چین اسٹوزہیں کینیڈا میں، انہیں میں مگن رہو(برنی جب اپنی بے تحاشا طویل و عریض امریکن کارمیں سڑکوں پر سے گزرتا ہے، خصوصاً کنٹری سائٹ کے قصبوں کی پتلی پتلی سڑکوں پرسے توراہ گیررک کرکارکوغورسے دیکھنے لگتے ہیں۔ امریکن کاریں انگلستان میں بہت کم نظرآتی ہیں۔ انگلش کاریں جوان کے سامنے بالکل کھلونا ایسی دکھلائی دیتی ہیں۔ راہ گیر حیرت سے امریکن کاروں کوکبھی کبھی چھوکر بھی دیکھ لیتے ہیں۔۔۔)

    اورپھرکینیڈا کی اقتصادی تاریخ پر ترقی پسند نظریہ۔۔۔ (جھگڑا جاری رہتا ہے)برطانیہ عظمی کے انقلابات۔۔۔! میاں انقلاب توایشیامیں آتے ہیں۔ دوسال میں ساری کایاپلٹ جاتی ہے۔ مہینوں اورہفتوں میں دنیا اھرسے ادھر کردی جاتی ہے۔ یہ تھوڑا ہی ہے کہ پہلے دوسوسال تک انڈسٹریل ریولیوشن گھسیٹا۔ پھراسٹیم انجن چلے۔ پھرکوئلے کی کانوں کا سلسلہ رہا۔ بھائی دنیا کی تاریخ توایشیا میں بن رہی ہے۔ آیاخیال میں؟ میں کہتی ہوں۔ 

    کیامیلوڈریمٹک اپروچ ہے آپ کی۔۔۔! جم کہتا ہے۔ 

    ابھی ابھی جم اپنے ایسوسی ایشن کے دفتر سے واپس آیاہے۔ جم بھی رونلڈکی طرح انگریزہے۔ جدیدسنگ تراشی اس کامشغلہ ہے اورچونکہ وہ بھی چیلسی میں رہتاہے، لہذا اسے بھی اپنے آپ کوفنکار سمجھنے پرمجبور کیاجاتارہتاہے، حالانکہ وہ مصر ہے کہ وہ بے حد پریکٹیکل آدمی ہے۔ وہ بھی ہمیشہ نمستے کرتاہے اورہمارے قدیم ہندوفلسفے اس نے گھول کرپی رکھے ہیں۔ گاندھین طرززندگی کاسخت قائل۔ دنیاکے سارے پروبلمز کاحل صرف اس نے دریافت کرلیاہے، وہ یہ کہ ہم سب کو شخصی Cellsبنانے چاہئیں، ان میں رہتے ہوئے اوران سے آگے بڑھ کرہم سوسائٹی کی اصلاح کریں گے اور زندگی لامحالہ نہایت سیدھی سادی اورپرسکون ہوجائے گی۔ 

    اسی شخصی درجہ معرفت کی آئیڈیلزم کے چکرمیں اس کی غیرسیاسی انسانیت پرست ایسوسی ایشن کی طرف سے پچھلے دنوں چنداللہ والے مہاپرش کراچی گئے تھے۔ ان میں فرانسیسی، سوئس، ڈچ اورغالبا انگریز مرداور عورتیں تھیں۔ یہ لوگ لالوکھیت میں کئی مہینے مہاجرین کے ساتھ رہے۔ دن رات لگ کرانہوں نے مکان تعمیر کیے۔ دن بھروہ اینٹ اور گارا ڈھوتے تھے اوررات کو چٹائیوں پرپڑکر سوررہتے تھے۔ کیاروحانی بلندی ہے، واللہ۔۔۔! میں جم سے کہتی ہوں۔ 

    مصیبت یہ ہے کہ جم مذہبی بھی نہیں ہے لیکن انقلاب کاقائل نہیں۔ بڑا سخت Pacifistاس کے خیال میں سوویت یونین اور مغربی ممالک دونوں تباہی کے راستے پر جارہے ہیں۔ اچھا خاصا جین مت کاپیرومعلوم ہوتاہے۔ بس ہرایک کومکمل شخصی آزادی اور امن حاصل ہوناچاہیے اورسب کوچھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں رہناچاہیے۔ 

    جم اگرخداپرست ہوتا توبڑا عمدہ رومن کیتھولک فادر ثابت ہوتا گڈاولڈجم۔۔۔ 

    کرشنامینن ریٹائرہوگیے ہیں۔ جب تک وہ ہائی کمشنررہے، پرانی انڈیالیگ ہاؤس میں انہوں نے اپنی رہائش کے لیے ایک کمرہ لے رکھا تھا، جس میں ایک طرف چائے بنانے کا سامان رکھا تھا اور باقی سارے کمرے میں کتابوں اوراخباروں کے انبار بکھرے رہتے تھے۔ 

    اوراب رات ہورہی ہے۔ سڑک کے کنارے کنارے گھومنے والی لڑکیاں اور وہ بوڑھے بھکاری جوفٹ پاتھ پر رنگین چاک سے تصویریں بناکرخاموشی سے ایک طرف دیوار کے سہارے دن دن بھر بیٹھے رہتے ہیں اور راہ گیر کودھندلی، پرامید آنکھوں سے دیکھتے ہیں، فٹ پاتھ کی ان تصویروں کے نیچے لکھا ہوتا ہے۔۔۔ یہ میں نے جھیل اورچاندنی رات کی تصویربنائی ہے لیکن چونکہ چاک سے سارے رنگ اجاگرنہیں ہوسکتے اور کاغذیا کینوس کے بجائے میرے پاس صرف یہ فٹ پاتھ کی زمین ہے، اس لیے تصویر ایسی نہ بن سکی جیسامیں چاہتا تھا۔ اگرآپ کچھ دیتے جائیں تو میں رات کوکھاناکھاکر سوسکوں گا۔ گومیرے پاس رات گذارنے کے لیے کوئی جگہ، یا سونے کے لیے کوئی پلنگ نہیں ہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

    سڑکیں سنسان ہوچکی ہیں۔ زمین دوز ریلیں اپنی آخری مسافتیں طے کررہی ہیں۔ متوسط طبقے کے باولر ہیٹ اورچھتریوں والے انگریز اپنے اپنے گھروں میں قلعہ بند ہوچکے ہیں۔ 

    کوئی سیاح اپنے دوست سے کہہ رہا ہے، کیا بدمذاق شہر ہے جہاں اتنی جلدی رات ہوجاتی ہے۔ اسی لیے میں کل پیرس جارہا ہوں۔۔۔ شب بخیر لندن۔ 

    لندن سورہاہے۔ لندن جگ رہا ہے۔ کھڑکیوں کے پردے گرادیے گئے ہیں۔ باہر خنک ہواچل رہی ہے۔ کل سردی ہوگی۔ نیچے سڑک پرشام کااخباربیچنے والے آخری بچے کھچے پرچے سمیٹ رہے ہیں، جن کی سرخیاں تاریکی میں مدھم ہوتی جارہی ہیں۔ ایواپیروں مرگئی۔ شاہ فاروق کونکال باہرکیاگیا۔ ڈاکٹرمصدق رونے لگے۔ روسیوں نے ایک اورگولڈ میڈل جیت لیا۔ 

    اب سب سورہیں گے۔ میں اورفیروز اورکملا اور حایا اور نینسی اوران کے علاوہ رونلڈ اورالٹ ملراوربرنی اورجم سب سوجائیں گے۔ کیوں کہ یہ آج کا دن بھی ختم ہوا۔ 

    کل کیاہوگا۔ یہی سوال ۱۹۳۸ء میں بھی سب کے سامنے تھا۔ 

    لیکن سامنے دیکھو۔ اب دیوار پرکیا لکھا ہے۔۔۔ دیکھو۔۔۔! 

    اب تمہاری خاطر کوئی ڈئینیل فیصلے کے لیے نہ آئے گا۔ 



    حاشیہ
    (۱) فارسٹر کی نئی کتاب کا نام

    مأخذ:

    ستمبر کا چاند (Pg. 8)

    • مصنف: قرۃالعین حیدر
      • ناشر: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے