Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناچ، گیت، پتھر

انور عظیم

ناچ، گیت، پتھر

انور عظیم

MORE BYانور عظیم

     

    پنجاب میل ۱۵/ اپریل
    نئی دہلی کا ریلوے اسٹیشن ہے، کتھئی رنگ کے تھرڈ کلاس ڈبے میں کھلبلی سی مچ گئی ہے۔ ہم تیس ہیں اور ہمارے چہرے کھڑکیوں سے آلگے ہیں۔ ہم میں سے چند پلیٹ فارم پر اُتر گئے ہیں۔ سیٹی کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ہمارے ہاتھ گھنے جنگلی درخت کی ہوا سے لڑتی ہوئی شاخوں کی طرح کھڑکیو ں سے باہر نکل پڑے ہیں۔ انگلیاں لرز رہی ہیں اور دھوپ میں ہتھیلیاں چمک رہی ہیں۔ گاڑی سانس لیتی ہے اور ان تڑپتی ہوئی گوشت اور ہڈیوں کی شاخوں پر ایک نرم و نازک ہاتھ ایک تھکے ہوئے پرند کی طرح پر سمیٹ کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ شیلا بھاٹیہ کا ہاتھ ہے جو کہ ان ہاتھوں میں پھول کی طرح کھلا ہوا ہے، کنول کی طرح جل اٹھا ہے۔

    سینہہ ہمارے وفد کی لیڈر ہے، وہ اپنے باوقار بھاری بھرکم جسم کے ساتھ آگے آتی ہے۔ اس وقت اس کا گورا چہرہ تمتما اٹھتا ہے اور گوشت سے بھرے ہوئے گول گالوں کے اوپر موٹے شیشے کے اندر بڑی بڑی آنکھیں پھیل کر اور بڑی ہوگئی ہیں۔ اس کے ہاتھ میں پھولوں کا ایک گچھا بھی ہے۔

    ’’شیلا تم یہ پھول لے جاؤ۔ جب تک ہم بمبئی سے واپس نہ آئیں یہ پھول تمہارے گھر میں ہماری جگہ رہیں گے۔‘‘

    زور سے تالیاں بجتی ہیں۔ اور سینہہ کی آواز ہمارے حلق میں آکر پھنس جاتی ہے۔ ہمارا دل زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ شیلا کی آنکھیں نم ہوگئی ہیں۔ اس کے لب پھیل گئے ہیں اور سفید دانتوں کی درخشندگی کی طرح معصوم اور سفید مسکراہٹ میں تمناؤں کا ایک طوفان ننھے سے بچے کی طرح آنکھے کھولے جاگ رہا ہے، ہمک رہا ہے۔

    جاؤ۔۔۔ جاؤ۔۔۔ پیارے ساتھیوں جاؤ۔ یہ پھول میرے پاس رہیں گے۔ اور تم سب کامیاب اور بامراد آؤگے۔‘‘

    شیلا پھولوں کو اپنے سینے سے لگائے کھڑی ہے۔ گاڑی سرکنے لگی ہے۔ حالی (شیلا کا شریک حیات) ایک ہاتھ سے گاڑی کا ہینڈل پکڑتا ہے اور دوسرا ہاتھ شیلا کی گردن میں ڈال دیتا ہے اور ہلکے سے اس کا منہ چوم کر الوداع کہتا ہے۔

    گاڑی نئی دلّی کے پلیٹ فارم سے نکل چکی ہے لیکن تیس ہاتھ کھڑکیوں سے باہر اب بھی ہل رہے ہیں۔ اور پلیٹ فارم پر برف کی طرح سفید رومالوں کی پرواز ربط دل کا پتہ دے رہی ہے جو بڑھتے ہوئے فاصلے سے لڑ رہی ہے اور رفاقت کے جذباتی تقاضوں کی لاج رکھ رہی ہے۔

    ہم سب خاموش ہوگئے ہیں۔ صرف ایک سوال ڈبے میں چکر لگارہا ہے اور اس کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ گاڑی کی گھڑگھڑاہٹ سے زیادہ بلند آہنگ ہے۔

    ’’بھئی شیلا ہمارے ساتھ کیوں نہیں جارہی ہے۔ دہلی آرٹ تھیٹر جارہا ہے، اس کی روح رواں بمبئی کیوں نہیں جارہی ہے ایں؟‘‘

    دیر تک یہ سوال گونجتا رہتا ہے۔ سب اپنی اپنی جگہ لے لیتے ہیں۔ میں بھی کھڑکی کے پاس ایک اکیلی جگہ پر بیٹھ گیا ہوں۔ سامنے نروتم ناگر ہے۔ اس کے منہ میں پان ہے۔ آنکھوں میں ٹھنڈک ہے۔ راکھ کے رنگ کے بال قاعدے سے سجے ہوئے ہیں۔ اس کا بوٹا سا قد بیٹھنے سے اور بھی مختصر ہوگیا ہے۔ اس ڈبے میں تین خانے بنے ہوئے ہیں سب سے آخری کنارے والے خانے میں سریندر کور، اس کا شوہر سوڈھی، بلونت گارگی، سیٹھی اور ایلندو بیٹھے ہیں۔ درمیانی خانے میں حالی، بے بی (ویسے بیس بائیس سے اوپر ہی ہوگی)، اشیم، پمی، سینہہ بیٹھے ہیں۔ اس خانے میں خوش گپی شروع ہوگئی ہے۔

    جہاں اشیم ہوگا گپ ہوگی، چشمکیں ہوں گی، قہقہہ ہوں گے، شانوں کی جنبش ہوگی، کولہوں کا مسخراپن ہوگا، وہ ساری تڑپ ہوگی جس کے بغیر اشیم کاکردار مکمل نہیں ہوسکتا۔ میری سیٹ کے ٹھیک سامنے جو خانہ ہے، اس میں ہمارا سارنگی اور ایک ساتھی جو اپنی بیوی کے پاس بیٹھا بڑی سعادت مندی سے اپنے ننھے سے بچے کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہے اور جس کی بیوی غرور سے مسکراکر اس کی سعادت مندی کی داد دے رہی ہے، اور اپنی ایک ایک حرکت سے اس کی بیوی ہونے کی بجائے اس کی گارجین معلوم ہو رہی ہے۔

    اس کے سامنے ایک شخص جس کی عمر چالیس پینتالیس سال کی ہوگی، بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا پاجامہ اور اس کا کوٹ دونوں میلے ہیں۔ اس کے پہلو میں ایک بارہ تیرہ سال کی لڑکی سکڑی ہوئی بیٹھی ہے۔ اس کی آنکھوں کی ہیجانی کیفیت بتارہی ہے کہ وہ کوئی نوگرفتار پرندہ ہے۔ اس کا برقعہ کمر تک سرک آیا ہے اور اب وہ ادھیڑ عمر انسان اسے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، جیسے حلوائی اپنے سامنے رکھی ہوئی مٹھائی کی سینی کو گھور کر دیکھتا ہے اور اپنے لبوں پر بے نیازی کے ساتھ زبان پھیرتا ہے۔

    کھانے کا دور شروع ہوتا ہے۔ سب اپنا اپنا کھانا ساتھ لائے ہیں۔ میرا کھانا پچھلی شام کو ہی چٹ ہوچکا ہے۔ میں، رئیس مرزا، امیر اللہ اور نثار کے ساتھ ہوگیا ہوں۔ سینہہ کو کباب بہت پسند ہیں۔ اس لیے وہ بھی ہمارے خیمے کی طرف آگئی ہے، اور پورے جوش و خروش کے ساتھ کباب کھارہی ہے، اور تعریف اس طرح کر رہی ہے جیسے اس کے منہ میں کباب کی بجائے شعر پگھل رہے ہیں۔

    کھانے کے بعد گانوں کی ریہرسل شروع ہوجاتی ہے۔ اور درمیانی خانہ بھر جاتا ہے۔ بلونت گارگی کا سر بھی گانے کی تال پر آہستہ آہستہ ہل رہا ہے اور وہ تالیاں بے تال ہوکر بجارہا ہے۔

    آگرہ پیچھے چھوٹ گیا ہے، جھانسی پیچھے جھوٹ گئی ہے۔ سورج کی روشنی مدھم پڑتی جارہی ہے۔ اس بیچ میں کئی بار کتاب پڑھنے کی کوشش کرچکا ہوں لیکن ماحول سازگار نہیں ہے، صرف سگریٹ رفاقت برت رہی ہے۔

    رات اندھیری ہے ار سب ساتھی سونے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ تاش کے پتے بھی چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ میں اپنی ٹفن کیریئر سے نمک پارے نکال کر کھارہا ہوں، اور ساتھیوں کو کھلا رہا ہوں۔ آنکھوں میں نیند بھر رہی ہے۔ اعلان ہوتا ہے ’’اپنے اپنے سونے کا انتظام کرلو۔‘‘ فوراً بکس کھینچے جانے لگتے ہیں۔ ہول ڈال پھیل جاتا ہے میں بھی اپنا بکس اپنے اور نروتم ناگر کی سیٹ کے درمیان رکھ کر اس پر پمی کا سوٹ کیس رکھ دیتا ہوں۔ اس پر نروتم ناگر کا بستر پھیل جاتا ہے۔ پچھلے خانے سے بے بی اور اشیم کے ہنسنے اور چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ حالی کوئی لطیفہ سنارہا ہے اور سنگترے کھا رہا ہے۔

    گاڑی رک جاتی ہے، یہ بھوپال کااسٹیشن ہے۔ ہمارے ڈبے پر یلغار ہوتی ہے یلغار کرنے والوں کی رہنمائی ایک ٹکٹ ایکزامنر کر رہا ہے۔

    ’’یہ ڈبہ ریزرو نہیں ہے، سب مسافروں کو گھسنے دو۔‘‘

    سیٹھی اپنے بھاری بھرکم ڈیل ڈول کی وجہ سے اس ڈبہ میں سپہ چالاکاعہدہ حاصل کرچکا ہے۔ وہ اپنی عینک کو چمکاتا ہوا اور اپنی مرعوب کن مونچھوں کو پھڑکاتا ہوا دروازے پر ڈٹ گیا ہے، اس کے ساتھ ہی پتلا دبلا سریش بھی لڑ رہا ہے۔

    ’’اس ڈبے میں پچیس آدمیوں کی جگہ ہے۔ ہم پینتیس ہیں۔ اب کوئی اس میں نہیں آسکتا۔‘‘

    ’’لاتا ہوں ابھی پولیس انسپکٹر کو بلاکر۔‘‘ ایک جوشیلا مسافر چیختا ہے اور وہیں ڈٹا رہتا ہے۔

    اسی جوش سے سریش جواب دیتا ہے، ’’جاؤ ریلوے منسٹر کو بلالاؤ۔ دیکھتے نہیں نکل کتنا چمک رہا ہے۔ نئی پالش ہے۔ اندھا آدمی بھی پڑھ سکتا ہے۔ پچیس، پچیس، پچیس۔‘‘

    حملہ آور پسپا ہوجاتے ہیں۔ اور ہم اپنی کامیابی پر ایک دوسرے کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ تحسین و آفرین کے نعروں سے ڈبہ بھی دھڑکنے لگتا ہے۔

    گاڑی سرکنے لگتی ہے تو سریندر کور کا شوہر سوڈھی اپنے دیوہیکل جسم کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ ’’ہونہہ، تم لوگوں سے اتنا بھی نہیں ہوا کہ حملہ آوروں کو گردن پکڑ کر ڈبے سے دور اٹھا پھینکو۔ اچھا اب کے دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔‘‘ گاڑی اسٹیشن سے بہت آگے نکل آئی ہے۔ اس لیے سوڈھی کی یہ مثالی بہادری لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کردیتی ہے۔

    رات اندھیری ہے لیکن بھوپال کے کسی میدان میں بڑی روشنی ہو رہی ہے اور انسانوں کا بہت بڑا مجمع نظر آتا ہے۔

    ہمارے ڈبے کے دوسری طرف دروازے کا ہینڈل پکڑے ہوئے ایک مزدور ڈبے کے اندر جھانک رہا ہے۔ ہم اسے اندر بلالیتے ہیں۔ وہ بتا رہا ہے،’’یہاں مزدوروں کاجلسہ ہو رہا ہے۔‘‘ اور ہم سب کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتے ہیں۔ روشنی دور ہوتی ہے۔ امریکی انجن کی دلخراش چیخ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے، اور ہم لمبے ہوجاتے ہیں۔ میرے پیر نروتم ناگر کے رخساروں کو بوسہ دیتے ہیں، اور اس بیچارے کی ڈیڑھ فٹ کی ٹانگیں میری گردن سے قریب تشنۂ انتقام ہل رہی ہیں۔ کنوئیں سے پانی نکالنے کے لیے ڈور کو پانی کی سطح تک پہنچنا ہی چاہیے۔ ’’نروتم ناگر۔۔۔ اپنی اس چھوٹی ڈور سے تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘ نروتم ناگر نے اپنی آنکھیں کھولیں، پان کی ڈبیہ کھول دی ہے، ایک پان اپنے منہ میں رکھ کر، پان کی ڈبیہ بند کی اور آنکھیں بند کرلی ہیں۔۔۔ اور یہ جا، وہ جا۔۔۔ سینہہ اوپر سامان ہٹاکر سوگئی ہے۔

    ہر طرف نیند ہے۔ بلونت گارگی گورمکھی زبان میں کچھ لکھ رہا ہے۔ گاڑی کی آواز ہے، اندھیرا ہے اور نیند ہے۔ اور یہ نیند نروتم ناگر کی آنکھوں میں پہنچ کر دبے پاؤں ہونٹوں تک پھیل گئی ہے اور آہستہ آہستہ پان کا رس چوس رہی ہے (ہونٹ نہیں) ۔

    ۱۶/اپریل۔۔۔
    دھوپ کھلی ہوئی ہے۔ ہم رات بھر خوب سوئے ہیں۔ ایک طرف ریہرسل کا شور ہے۔

    گاڑی اب نئی دھرتی پر دوڑ رہی ہے۔ ہمارے ساتھی میک اپ میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سب غسل خانے میں جاتے ہیں اور ایک ایک گھنٹہ شیو پر صرف کرتے ہیں۔ میں نے طے کرلیا ہے کہ میں سب سے آخر میں شیو کروں گا۔ اور اب ڈبہ میں ایک سفید ریش سردار جی ٹکٹ ملاحظہ فرمارہے ہیں۔ وہ ہمیں بڑے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ رئیس مرزا نے اپنے تیس روپے والے ٹکٹ پر اپنے دستخط نہیں کیے ہیں۔ ہم سب کے پاس ریلوے کی مہربانی سے تیس روپے کے ٹکٹ ہیں۔ اس ٹکٹ پر ہم چودہ دن میں چھ ہزار میل کا سفر کرسکتے ہیں۔ لیکن سردار جی نے رئیس مرزا کا ٹکٹ ضبط کرلیا ہے۔

    وہ مسکرا رہا ہے اور کہہ رہا ہے۔ ’’لائیے ابھی دستخط کردوں۔‘‘ سردارجی نہیں دیتے ٹکٹ۔ وہ سامان کی چھان بین کر رہے ہیں۔ بحث شروع ہوچکی ہے۔ معاملہ گرم ہوجاتاہے۔ سردارجی بھی گرم ہوجاتے ہیں۔ ٹکٹ دیکھتے ہوئے وہ سریندر کور کے پاس جاتے ہیں۔ سریندر کور انہیں اپنا گیت سناتی ہے۔ سردارجی پہلی بار مسکراپڑتے ہیں۔ وہ فرمائش شروع کردیتے ہیں۔ رئیس مرزا کا ٹکٹ واپس مل جاتا ہے۔ وہ پہلی فرصت میں دستخط کھینچ مارتا ہے۔ اسی دوران میں ایلندو سردارجی کا اسکیچ کرلیتا ہے اور بلونت گارگی انہیں دکھاکر اس پر آٹو گراف لے لیتا ہے۔ اگلے اسٹیشن پر سردارجی مسکراتے اور دعائیں دیتے ہوئے اترجاتے ہیں۔

    ڈبے میں میک اپ کا دور ابھی جاری ہے کہ گاڑی پہاڑی سرنگ میں گھس پڑتی ہے۔ سب لوگ چونک پڑتے ہیں۔ ڈبہ میں اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اشیم امریکی فہم کے اس ہیرو کی طرہ قہقہہ لگاتا ہے جس نے ایک عورت کے پہلے ایک تھپڑ رسید کیا ہے اور اس کے بعد زبردستی اس کابوسہ لیا ہے۔ اور اس کے بعد شراب کا پورا گلاس منہ میں انڈیل گیا ہے۔ وہ دراصل اس وقت بھی اچھے رول کی ریہرسل میں کھویا ہوا ہے۔ وہ ایک محنتی آرٹسٹ ہے اور اس کا پارٹ اس کی زندگی میں رچ گیا ہے۔

    جب دوبارہ گاڑی روشنی میں چیختی ہوئی نکلتی ہے تو نروتم ناگر کے لب کھلتے ہیں۔ ’’دیکھو، دیکھو، ادھر زمین ہماری زمین سے کتنی مختلف ہے، اس کا رنگ، اس کا پھیلاؤ۔۔۔ اور وہ درخت، ناٹے، گول او رگھنے۔‘‘

    میں بھی دیکھتا ہوں تو زمین کا رنگ بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ پہاڑی زمین ہے۔ اور یہ پہاڑیاں مختلف ہیں۔ ان کی شکل تودوں کی ہے، سربلند اور اوپر سے تھپکے ہوئے۔ سرمئی رنگ پر کہیں کہیں جھاڑیوں کا کاہی رنگ بھی بکھرا نظر آتا ہے۔

    دور سے ہی چمنیاں نظر آرہی ہیں۔ ’’دوستو، تیار ہوجاؤ۔‘‘ میں جلدی جلدی اپنا شب خوابی کا قمیض اور پاجامہ اتارتا ہوں اور اپنی پتلون اور شرٹ پہن لیتا ہوں۔ ایک طرف سے آواز آتی ہے۔ ’’یار یہ بھی کوئی لباس ہے، تم عورتوں کا لباس کیوں پہنتے ہو؟‘‘

    ’’یہ عورتوں کا لباس ہے؟‘‘

    ’’اور کیا۔۔۔ اس میں اور بلاؤز میں کیا فرق ہے؟‘‘

    میں اپنے دوست کو گھور کر دیکھتا ہوں۔۔۔ ’’تمہارے سر میں اور فٹ بال میں کیا فرق ہے؟‘‘

    گاڑی کھڑی ہوجاتی ہے۔ پلیٹ فارم پر لکھا ہوا ہے ’’دادر۔‘‘ اور ابھی ہم اپنے سامان کا جائزہ لے رہے ہیں کہ پلیٹ فارم سے دوستانہ صدائیں اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ اب ہم پلیٹ فارم پر عباسی سے مل رہے ہیں۔ وہ استقبالیہ کمیٹی کی طرف سے ہمارا خیر مقدم کر رہا ہے۔ سری نیواس سے گلے مل کرخاصی راحت ہوتی ہے۔ دکھنی ہند کا یہ موسیقار اپنی عینک کے باوجود اپنی آنکھوں سے خلوص اور محبت کی روشنی برساتا ہے اور اپنے مضبوط ہاتھوں سے ساتھیوں کے ہاتھ دباتا ہے، شانے تھپکتا ہے اور جب یہ بھی کافی نہیں ہوا تو اپنے سیاہ پتھریلے لبوں سے ایک چاندی کی طرح سفید قہقہہ اگل دیتا ہے۔ اچلا سچدیو عورتوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں کہ زاہدہ کچلو اپنی حیران مسکراہٹ کے ساتھ طلوع ہوتی ہے۔ انھیں اس بات کا بڑا رنج ہے کہ ہمارے لباس سیاہ نہیں، ہمارے سروں میں کوئلے کی گرد نہیں۔ اور ہم چہرے سے پہنچے ہوئے چور اچکے نظر نہیں آرہے۔ ہم تو کل بالکل پسینے اور میل میں بس گئے تھے۔

    ٹرک میں سامان بھرجاتا ہے، عورتیں اچلاسچدیو کے ساتھ چلی جاتی ہیں۔ اس فلمی اداکارہ کے یہاں ان عورتوں کو کافی آرام ملے گا۔ یہ سوچ سوچ کر میں دل ہی دل میں جل رہا ہوں۔ کیوں نہ ان عورتوں کو ایسی جگہ ٹھہرایا جائے جہاں یہ بھی ہماری طرح اچار بنیں۔ لیکن عورتیں تو پھر عورتیں ہیں۔

    ہم ایک والنٹیر کے ساتھ ٹرام سے اترتے ہیں اور پریل میں اس جگہ کی تلاش شروع کردی جاتی ہے جہاں ہمیں ٹھہرنا ہے۔ اس لیے خود والنٹیر بھی جو کسی اسکول کاطالب علم معلوم ہوتا ہے، اس جگہ کو نہیں جانتا ہے۔ مگر وہ اپنی بمبئی دانی کا بار باراظہار کر رہا ہے۔ اس کی مدد کو ہمارا ساتھی آرٹسٹ بھارتی آگے بڑھتا ہے۔ اور اب ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ وہ منزل کبھی نہیں آئے گی جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔

    اونچی اونچی عمارتیں اور بمبئی کی عمارتیں ہیں،ہنگامہ ہے۔۔۔ ٹرامیں سرخ ہیں اس لیے کہ بمبئی کی ٹرامیں ہیں، یہ ٹرامیں کلکتے کی اس لیے نہیں ہوسکتیں ہیں کہ وہاں کی ٹرامیں سفید ہوتی ہیں اور وہاں کی دومنزلہ نہیں ہوتیں۔ وہاں ٹراموں میں دو ڈبے ہوتے ہیں اور ان خرام زیادہ سبک ہوتا ہے اور جسامت زیادہ خوبصورت۔ اور بمبئی کی سڑک کا ایک موڑ ہے اور یہاں اتفاق سے ہمیں وہ ٹرک کھڑا ہوا مل جاتا ہے جس میں ہمارا سامان بھرا ہوا ہے۔ گیٹ کے اندر پہنچ کر ہمیں بتایا جاتا ہے، ذرا ہم امرشیخ کاانتظار کریں۔ بلونت گارگی، حالی، میں اور دوسرے ساتھی باہر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم اس وقت ایک دوسرے سے مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن ہر شخص ٹھہرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

    گیٹ میں دندناتا ہوا امرشیخ سائیکل پر داخل ہوتا ہے وہ ایک سفید کرتا اور دھوتی باندھے ہوئے ہے۔ وہ جوش کے ساتھ ملتا ہے اس کے سیاہ چہرے پر جو مسکراہٹ پیدا ہوتی ہے اور گالوں میں جو بھنور سے بن جاتے ہیں، ان سے اس تردد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا جو اس وقت اس کے پورے وجود کو اپنی مٹھی میں لیے ہوئے ہے۔

    ’’آپ لوگ بھی اپنا سامان وہیں لگادیجیے۔‘‘ امرشیخ خود ہمارا سامان ٹرک سے نیچے اتارنے لگتا ہے، دیکھتے دیکھتے ہال کھچاکھچ ہوجاتا ہے۔ ہم اپنے سامانوں کے اسٹیج کے پاس احاطہ کرلیتے ہیں۔ امرشیخ بال کونی پر چڑھ جاتا ہے، وہ وہاں سے تقریر کے انداز میں پکارتا ہے۔ ’’ساتھیو! جگہ کم ہے۔ کچھ ساتھی ابھی ابھی آئے ہیں وہ اور آپ سب آرام کرناچاہیں گے اس لیے اگر گفتگو پر تھوڑا کنٹرول کیاجائے تو بڑا اچھا ہو۔‘‘ امرشیخ تقریر نہیں کرسکتا۔ وہ صرف گاسکتا ہے یا شاید محض اس لیے کہ وہ اتنا اچھا گاتا ہے کہ اس کے منہ سے تقریر اچھی نہیں معلوم ہوتی۔

    ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہمارے چند ساتھیوں نے بستر بچھا لیے ہیں اور لیٹ گئے ہیں۔ بلونت گارگی بکسوں اور بندھے ہوئے بستروں پر گرپڑا ہے اور سوتا بن گیا ہے۔ لحیم شحیم امرت نے آکر چھیڑا تو مزے میں کہہ رہا ہے۔ ’’اوہ! مجھے نہ ستاؤ میں سو رہا ہوں۔‘‘ اب تو غسل خانے پر حملہ شروع ہوگیا ہے اور نروتم ناگر بھی اس کیو میں ایک تولیہ لپیٹ کر کھڑا ہوگیا ہے۔

    میں باہر نکل کر بمبئی کی سڑکوں پر مارا مار پھر رہا ہوں۔ میری طبیعت بہت گھٹ رہی ہے۔ ہال میں سب اپٹا کے نمائندے ہیں اور ان سب کو کانفرنس میں اپنا اپنا پروگرام دینا ہے۔ اس لیے وہ سب ریہرسل میں مست ہیں۔ کہیں طبلہ ٹھنک رہا ہے، کہیں ستار اور سارنگی کسمسارہی ہے۔ اور میں گھبرا رہا ہوں۔ میں اسے اسٹیج پر دیکھ کر خوش ہولوں گا لیکن ہر وقت تھن تھان کا سلسلہ جاری رہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیند گئی، تصور گیا۔۔۔ اور پتہ نہیں کیا گیا۔

    میں جب لوٹ کر واپس آتا ہوں تو عباسی اپنی جیپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ میں اس کو اپنی بپتا سناتا ہوں اور وہ میرا سامان جیپ میں رکھ لیتا ہے اور میں کیڈل روڈ پر اس چھوٹے سے گھٹے ہوئے کمرے میں پہنچ جاتا ہوں جہاں عباسی کی بیوی رہتی ہے اس کے دو بچے رہتے ہیں اور جہاں پڑوس میں ایک بوڑھی یہودن رہتی ہے۔ اس کی انگریزی بات چیت بھی اتنی تیز ہے کہ انجن کے چیخنے کا گمان ہوتا ہے۔ میں نہاتا ہوں چائے پیتا ہوں اور گلی سے نکل کر سمندر کے کنارے چلا جاتا ہوں۔ سمندر بے چین ہے اور اس کی ایک ایک لہر میں سینکڑوں آئینے چمک رہے ہیں۔ ہوا ٹھنڈی اور زوردار ہے اور مجھے اڑائے لیے جارہی ہے۔

    چھوٹی چھوٹی ونیگیاں سمندر میں تڑپ رہی ہیں۔ ان کی شکل شٹل کارک کی ہے , اور ان کا رنگ کالا ہے۔ مچھیارے کمر تک پانی میں ہیں۔ پانی کی لہریں آتی ہیں اور دور تک ریت پر دوڑتی چلی آتی ہے اور پھر کف تھوکتی ہوئی سورج کی طرف واپس لوٹ جاتی ہیں۔ پانی کا رنگ مٹیالا ہے لیکن موجوں کی جھاگ سے خوشبو سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ممکن ہے یہ محض میرے خیال کی خوشبو ہو۔ اندر دل میں وسعت سی پیدا ہو رہی ہے اور خون میں تلاطم پیدا ہو رہا ہے۔ موجیں چیخ رہی ہیں اور ہوا سنسنا رہی ہے۔ سمندر دل میں نئی نئی خواہشیں اور حوصلے جگارہا ہے، لیکن میں اس کا تقاضا کہاں سے پورا کروں۔ اس لیے میں واپس لوٹ جاتا ہوں۔

    شام ہو رہی ہے۔ رانا ڈے روڈ پر چہل پہل نے ایک جلوس کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ کانفرنس سات بجے شروع ہوگی اور اب سات بجنے والے ہیں۔ یہ ڈی سلوا اسکول کا میدان ہے۔ اس میدان میں ایک بڑا سا پنڈال کھڑا ہے۔ کپڑے کی چہاردیواری سرخ ہے۔ متصل ریسٹوران میں کانفرنس میں آنے جانے والے ساتھی چائے پی رہے ہیں۔ میں بھی چائے پی رہا ہوں۔

    پنڈال کے آگے پھونس کاگیٹ ہے جو کسی مندر کے دروازے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اس سہ منزلہ گیٹ کے دونوں طرف شہنائیاں بج رہی ہیں۔ گیٹ کے دونوں طرف ناریل کے درخت ہیں۔ دونوں چبوتروں کی دیواریں، جہاں شہنائیاں بجائی جارہی ہیں، رنگ سے نقشین بنائی گئیں ہیں۔ دیواریں مٹیالے رنگ کی ہیں۔ ان کے درمیان ایک چوکور چٹائی کی سی بناوٹ ابھرتی نظر آتی ہے۔ گیٹ سے بالکل برابر ایک سرخ کپڑے کی دیوار ہے، وہاں ایک قدِ آدم فریم رکھا ہوا ہے۔

    سرخ کینواس سے تین عورتوں کی تصویریں ابھر رہی ہیں۔ ان تصویروں کے اندر سے جھانکتی ہوئی الھڑ آنکھیں، موٹی اور زوردار نیلی لکیریں، ابھری روشن پیشانی، گداز بازو، شانوں پر پھینکے ہوئے ساریوں کے پلو، جیمنی رائے کے فن کا عکس معلوم ہوتے ہیں۔ ان میں ہندوستانی نقوش کی سادگی اور گاؤں کی فضاء کی بے باکی اور معصومیت ہے۔ سبزپتوں کی جھالریں گیٹ کے اندر دوطرفہ جھول رہی ہیں۔ گیٹ کے پاس ہی ایک طرف کیلے کے کئی پیڑ ہیں جو شہنائی کی نرم اور دھیمی آواز کے ساتھ سر دھن رہے ہیں، بلکہ پورے بدن سے کانپ رہے ہیں۔ فرسٹ ایڈ والے خاکی وردی پہنے ٹہل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ والنٹیروں کی بڑی تعداد مجمع کو منظم طریقے سے گیٹ میں داخل ہونے میں مدد دے رہی ہے۔ ان میں لڑکیوں کی کافی تعداد ہے۔

    میں جب گیٹ کے اندر داخل ہوتا ہوں تو دل بار بار ناچ اٹھتا ہے۔ سامنے سرخ دیوار سے لگا ہوا ایک بورڈ ہے جس میں دو عورتیں ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑی ہیں، جن کے چاروں طرف ایک سبز بیل حلقہ بنائے ہوئے ہے۔

    اندر ہزاروں کامجمع ہے۔ دائیں ہاتھ کو ایک زرد شامیانہ ہے۔ اسٹیج پر کاسنی رنگ کا مخملی پردہ پڑا ہوا ہے۔ شامیانے کے نیچے ابھی میں مجمع کا اندازہ لگارہاہوں کہ ساحرؔ سے ملاقات ہوجاتی ہے اور میں چھوٹتے ہی انجمن ترقی پسند مصنفین کے روپے کا تقاضا شروع کردیتا ہوں۔ ساحرؔ سگریٹ پیتا جاتا ہے اور کہتاجاتا ہے ’’میں کیا کروں مجھے مرکز والوں نے فنا کردیا ہے۔ وہ روپیہ مرکز کے لیے چاہتے ہیں۔‘‘

    ’’ہم نے کانفرنس کی ہے اور اس کا ابھی بل چکانا ہے۔ وہ کون کرے گا۔ کیا مذاق ہے۔‘‘

    میں ذرا آگے بڑھتا ہوں اور ابھی میں بھنایا ہوں کہ سردار کی مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ میں فوراً تقریباً لڑائی کے موڑ میں آگے بڑھتا ہوں اور اس کی مسکراہٹ کو گرفتار کرلیتا ہوں اور وہی مسئلہ چھیڑ دیتا ہوں۔ لیکن تھوڑی سی بات چیت کے بعد یہ طے ہوجاتا ہے کہ راجندر سنگھ بیدی کا روپیہ دہلی کو جائے گا۔ اور ساحر کا روپیہ مرکز اپنے کام میں لائے گا۔ پنڈال میں پہنچتے ہی ایک بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے اس لیے اب میں کافی خوش ہوں۔ سوچتا ہوں کہ دہلی کے ساتھیوں کو منھ دکھاسکوں گا۔۔۔ (ورنہ وہ گہرا سمندر اور اپنی جان عزیز) میں ابھی مہندر ناتھ سے خیریت ہی پوچھ رہا ہوں کہ اعلان ہوتا ہے کہ کانفرنس شروع ہو رہی ہے۔ میں بھی دوڑ کر نمائندوں کے درمیان بیٹھ جاتا ہوں۔

    بھاری پردہ سرکتاہے۔ اسٹیج پر اور نیلی روشنی کی دھوپ چھاؤں ہو رہی ہے۔ آہستہ آہستہ آواز بلند ہو رہی ہے۔ اسی کے ساتھ روشنی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ نیلا پس منظر چمک رہا ہے۔ بڑے سے چمکیلے نیلے پردے پر ایک شخص بڑے سے ڈھول کو پیٹ رہا ہے۔ سامنے گملے رکھے ہوئے ہیں اور ہر رنگ کے پھول جھوم رہے ہیں۔

    امرشیخ کی آواز ہے یا صدائے جرس ہے۔

    آؤ کلا کار گائیں جیون کے گانے
    ایسے گانے جن پر ساری دنیا کرے ابھیمان

    اودے شنکر، ہندوستان کا محبوب کلاسیکل رقاص، اپنے سفید لباس میں تن کر کھڑا ہے۔ وہ کانفرنس کا افتاح صرف ایک جملے میں کرتا ہے اور بیٹھ جاتا ہے۔

    بمل رائے کی آنکھوں پر دبیز عینک ہے اور وہ اپنی تقریر میں آزادی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ بولنے کی آزادی، لکھنے کی آزادی، گانے کی آزادی اور ناچنے کی آزادی۔ اور مستقبل کا خواب دیکھنے کی آزادی۔ ساٹھے کی تقریر کے بعد اب خواجہ احمد عباس دوبارہ اودے شنکر کو بولنے کے لیے کہہ رہا ہے، جب دوبارہ اودے شنکر مائیک پر آتا ہے تو مجمع خوش ہوکر تالیاں بجاتا ہے۔ اودے شنکر مسکراتا ہے۔ ’’میں تقریر کرنا نہیں جانتا، میں اتنا بڑا مجمع دیکھ کر گھبراجاتا ہوں۔ میں تو بس اپنے فن سے آپ کی بہتر خدمت کرسکتا ہوں۔۔۔ لوگ مجھ سے کہتے ہیں آپ امریکہ اتنا سازوسامان لے کر کیوں جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ امریکہ میں لوگ میرا فن دیکھنے کے بجائے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس کتنے قسم کے ساز ہیں، اسی لیے میں ڈیڑھ سو قسم کے ساز لے جاتا ہوں۔ وہ اس سے بہت مرعوب ہوتے ہیں۔ لیکن میں اپنے ملک میں عوام کی زندگی کو اپنے فن میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    مبارک باد کے پیغامات اور سچن سین گپتا کی تقریر کے بعد البرٹ مارشل بولتا ہے۔ وہ ایک نیلی قمیض، کتھئی پینٹ اور زرد چمکتی ہوئی ٹائی میں آہستہ آہستہ ہلتا ہوا بول رہا ہے،

    ’’میں ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسے میں گھر میں ہوں،

    اس ملک میں عوامی فارم زندہ ہیں۔۔۔ ہمارے یہاں مصنوعی حالات نے عوامی فارموں کا قلع قمع کردیا ہے۔‘‘

    تقریروں کے سلسلے کے بعد کلچرل پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ میں ٹہلتا ہوا باہر نکل آتا ہوں۔ کیفی سے مڈبھیڑ ہوجاتی ہے۔ ہم ایک ساتھ ریسٹوران میں جاکر چائے پینے لگتے ہیں۔ کیفی کے گفتگو کے انداز میں وہی گمبھیرتا ہے جو چار سال پہلے پہلی امن کانفرنس کے دوران میں محسوس ہوتی تھی۔ ’’آخر کیا بات ہے بھئی۔۔۔ شاعری تمہاری سمجھ کو کیوں رہ گئی؟‘‘

    وہ مسکراتا ہے اور کہتا ہے، ’’میری سمجھ میں بھی نہیں آتا۔ میں کام کرتا ہوں۔ ہر طرح کا انسپریشن ملتا ہے۔ مجھے اپنے مستقبل پر، اپنے عوام پر یقین ہے۔ میں پہلے سے زیادہ پرحوصلہ ہوں۔ لیکن شاعری نہیں ہوتی۔‘‘

    ’’ہونی چاہیے۔۔۔‘‘

    ’’ہاں ہوگی۔۔۔‘‘ ہم دونوں مفصل ملاقات کا فیصلہ کرتے ہیں اور جدا ہوجاتے ہیں۔

    بنگالی دستہ گارہا ہے۔ آواز میں درد اور مٹھاس ہے۔

    دھرتی کے بیٹوں اور بیٹیو! اٹھو اور ناپاک طاقتوں کا سرکچل دو اور نئی صبح امن پیدا کرو۔ اسی میں عام انسانوں کی زندگی اور مسرت کا راز پنہاں ہے۔

    امرشیخ دوبارہ اسٹیج پر آتا ہے۔ اس کی آواز میں تازگی اور للکار ہے،

    مل کے چلو۔۔۔ مل کے چلو
    یہ وقت کی آواز ہے مل کے چلو
    یہ زندگی کاراز ہے مل کے چلو

    اسامی زبان میں مانجھی گیت ابل رہا ہے۔ ایک تھکا ہوا مانجھی اپنے جھونپڑے کی طرف لوٹ رہا ہے اور اس کی بیوی انتظار کا گیت گارہی ہے۔ زبان سمجھ میں نہیں آرہی ہے لیکن یہ انتظار سمجھ میں آرہا ہے۔ یہ انتظار ہر زبان کا دل ہے، جس میں درد کا شعلہ لپکتا ہے اور انسان کی پوری شخصیت کو سونے کی طرح چمکا دیتا ہے اور اسے دل بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس انتظار کی اور میرے دل کی ایک زبان ہے۔

    امر شیخ پھر اپنے گیت میں یہ بتارہا ہے کہ سنیکت مہاراشٹر کو انگریزوں نے تین حصوں میں بانٹ دیا۔ اور اس کا ایک ایک حصہ نوچ کر مدھیہ پردیش اور حیدرآباد کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔

    راجستھان کا گھمرا ناچ ہو رہا ہے۔ مزدور سڑک بنارہے ہیں۔ تالیوں کے ساتھ سڑک کوٹنے کی آواز پیدا ہوتی ہے اور گیت کاوجدان بڑھتا جاتا ہے۔

    ’’پیچھے دھرتی کی ہریالی اوپر لال سہاگ۔‘‘

    سریندر کور کا نغمہ اپنی لطافت اور شیرینی میں شہد کی چاشنی رکھتا ہے اس کے گیت میں ایک لڑکی اپنی ماں سے کہہ رہی ہے، جب وہ چھوٹی تھی تو اس کی تمناؤں کے کئی روپ تھے۔

    اب اسامی دستے کی طرف ایک حب الوطنی کاناچ ہو رہا ہے اس میں بدیسی حکمرانوں کے ظلم اور خوں آشام لوٹ کی کہانی ہے۔

    ابھی ہم سنبھلے بھی نہیں ہیں کہ ایک بجلی سی تڑپتی اسٹیج پر آتی ہے۔ یہ مدراس کی اندارنی ہے۔ چھلاوے کی طرح لپک لپک کر وہ بیج بو رہی ہے، اور دوسرے ہی لمحے اس کا ہاتھ درانتی سے فصلیں کاٹنے لگتا ہے۔

    پروفیسر نرنجن سنگھ نے امرتا پریتم کا گیت شروع کردیا ہے۔ آواز میں درد اور ایک فریاد کناں ارتعاش ہے۔ اس کی آواز بتارہی ہے، پنجاب بٹ گیا لیکن وارث شاہ نہیں بٹ سکا۔

    ’’وارث شاہ قبر کے بیچ سے بولو۔۔۔ جب ایک لڑکی روئی تھی تو تم نے درد بھرے گیت گائے تھے۔ یہ گیت محبت کرنے والے دلوں کاخون، آنکھوں کا آنسو بن گئے ہیں۔۔۔ لیکن آج جب سارا پنجاب رورہا ہے تو بولو وارث شاہ تم خاموش کیوں ہو۔۔۔

    قبراں وچاں بول۔

    مدھیہ بھارت اور مشرقی پاکستان کے پروگرام کے بعد ماما واریرکر کا ڈرامہ ہو رہا ہے۔

    دو متضاد کردار اسٹیج پر چکر لگا رہے ہیں اور باتیں کر رہے ہیں۔ مراٹھی سمجھنے والے مکالموں کا لطف اٹھارہے ہیں۔ لیکن ہمیں بھی ان کی حقیقت پسند اداکاری پر کم لطف نہیں آرہا ہے۔

    بارہ بجے ہم پھر اپنے میزبان کے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ عباسی کی بیوی کے علاوہ ایک اور نوجوان لڑکی زمین پر سوئی ہوئی ہے۔ اس کی بھری بھری کالی ٹانگیں سائے سے باہر نظر آرہی ہیں۔ میں ایک سگریٹ پیتا ہوں اور آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرنے لگتا ہوں۔

    سمندر زور زور سے ساحل پر سرپٹک رہا ہے اور اس کی آواز سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا سمندر امڈتا ہوا آئے گا اور بمبئی کی ان خاموش عمارتوں پر چڑھ آئے گا، اوراپنے ساتھ ان کی گھٹن اور ان کی تاریکی، ان کی خاموشی۔۔۔ ہر چیز بہالے جائے گا۔

    ۷۔۔۔ ۱۲/ اپریل
    چھ دن تیزی سے ایک طوفان کی طرح گذرتے جارہے ہیں۔ بارہ بجے تک گھومنے گھامنے کی فرصت رہتی ہے۔ اس دوران میں پنڈال میں اسٹیج پر ریہرسل ہوتی رہتی ہے۔ طبلوں کی گمک اور گھنگھروؤں اور جھانجنوں کی چھم چھم گونجتی رہتی ہے۔ پنڈال کے اندر دفتر میں لڑکیاں اور نوجوان کاغذ پر جھکے رہتے ہیں۔ عباسی ہر صبح بلیک بورڈ پر رات کے خاص پروگرام لکھ دیتا ہے۔ آرٹسٹ چاک سے بلیک بورڈ پر اپٹا کا سمبل بنادیتا ہے۔

    قہقہے اور گپیں، ہمت اور حوصلے، کامیابیاں اور خوش خرامیاں۔۔۔ ایک اٹوٹ سلسلہ ہے۔ ساتھی آرہے ہیں اور جارہے ہیں۔ ان کے چہروں پر فکر اور سرشاری کی جلا ہے۔ نئے دوست بن رہے ہیں اور پرانے دوست گلے مل رہے ہیں۔ اور اس وقت بھی اسٹیج پر ’’دادی کی پکار‘‘ کی ریہرسل جاری ہے۔ میں سوچ رہا ہوں یہ کیا بات ہے۔ اس وقت اسٹیج پر ہر شخص ہدایت کار بنا ہوا ہے۔ سریندر کور کو ہر شخص بتارہا ہے ہمیں کس طرح گھومنا چاہیے۔

    سریش چاک سے اسٹیج پر لکیریں کھینچ رہا ہے اور بتارہا ہے اس سے آگے نہ بڑھو ورنہ پردہ تمہیں سمیٹ لے جائے گا لیکن سریش کی اچھی خاصی ہدایت کاری کے باوجود کوئی اپنی رائے دیے بغیر نہیں رہتا۔ ہاں جب بڑی گربڑمچ جاتی ہے اور مچھلی بکنے لگتی ہے تو پھر سب سے بلند سینہہ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اس کے صحت مند تمتماتے ہوئے گلنار چہرے کا بڑا اثر پڑتا ہے۔ سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک بات صاف ہے۔ ہر شخص شیلا بھاٹیہ کی غیرموجودگی میں اس کے خون جگر کو زیادہ سے زیادہ فنی حسن بخشنے کے لیے بے تاب ہے، اور یہ بڑی بات ہے۔ اس سنہری زنجیر کی ایک کڑی شیلا غائب ہے۔ اس لیے اس کی مسکراہٹ، اس کی ڈانٹ، اس کی جھنجھلاہٹ، اس کا پیار، اس کا حسنِ انتظام غائب ہے۔

    میں پھر جب دفتر کی طرف لوٹتا ہوں تو دیکھتا ہوں، ڈیوڈ کوہن ٹائپ رائٹر پر جھکا ہوا کچھ ٹائپ کر رہا ہے۔ اس کی دمکتی ہوئی صندلی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے ہیں۔ لیکن وہ مجھے دیکھ کر مسکرا پڑتا ہے۔ میں کہتا ہوں۔ ’’اجنتا چلو گے؟‘‘ ہنستا ہے۔ سگریٹ پلاتا ہے اور کہتا ہے ’’ہاں، ہاں ضرور چلیں گے۔‘‘ اور وہ پھر ٹائپ رائٹر پر جھک جاتا ہے۔ او رمیں جب وہاں سے باہر نکلنے لگتا ہوں تو سامنے سے راجندر سانگھ بیدی آجاتے ہیں۔ ان سے گپ کر رہا ہوں کہ سچن سین سے تعارف ہونے لگتا ہے۔

    ’’میں فلم کے لیے نہیں اسٹیج کے لیے لکھتا ہوں۔‘‘ سچن سین اپنے شانے پر کوردار چادر کو تھپکتے ہوئے اور اپنی چھڑی گھماتے ہوئے کہتا ہے۔ اس کے نرم ہلکے بال تیل سے چمک رہے ہیں۔ اور اس کی گفتگو کے لہجے میں بڑی بے ساختگی اور اپناپن ہے۔

    ’’کیوں، آپ کو فلم کے لیے بھی لکھنا چاہیے۔‘‘ راجندرسنگھ بیدی کہتا ہے۔

    ’’نہیں میں اس کو ENJOY نہیں کرسکتا۔ آپ وہاں وہ سب نہیں لکھ سکتے جو آپ لکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

    میں راجندر سنگھ بیدی سے مجروح کا پتہ پوچھتا ہوں۔ وہ بیمار ہے اور میں عیادت کے لیے جارہا ہوں۔ سانتا کروز جوہو روڈ تک برابر پیدل چلتا رہتا ہوں، یہاں تک کہ لیڈو سینما کے پاس پہنچ کر چکرا جاتا ہوں۔

    سامنے ہوائی اڈے کی طرف حسرت سے نظر ڈالتا ہوں اور دور پہاڑیاں دھواں دھواں نظر آرہی ہیں۔ لیکن جب پوری سخت جانی سے دروازے کھٹ کھٹانے کا بیڑا اٹھا لیتا ہوں تو اتفاق سے ایک ایسا دروازہ کھلتا ہے جس کے اندر مجروح اپنے لحیم شحیم ریڈیو کے کان مروڑتا ہوا نظر آجاتا ہے۔ بغل گیر ہونے کے بعد میں اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتا ہوں کہ وہ کانفرنس میں کیوں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ وہ اس کے کے جواب میں اپنا رومال لہراکر دکھاتا ہے، ’’ایسے ایسے چار رومال روز تر ہوجاتے ہیں۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ شاعر کی ناک بھی موزوں واقع ہوئی ہے۔ دیر تک باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی جیل کی باتیں، کبھی غزل کے امکانات کی باتیں، کبھی جیل میں رہ کر مجروح کی اپنی بچی کا نام رکھنے کی باتیں۔ وہ کہتا ہے میری فردوس نے مجھے جیل میں لکھا کہ میں اپنی بچی کا اچھا سا نام رکھ دوں۔ اس وقت میں۔۔۔ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اس میں اس وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا،

    آنکھوں میں آشنا تھا مگر دیکھا تھا کہیں
    نوگل کل ایک دیکھا ہے میں نے صبا کے ہاتھ

    مجروح نے الٹی میٹم دیا ہے۔ میرا سامان وہاں پہنچ جانا چاہیے، اور میرا سامان تیسرے دن وہاں جوہو روڈ پر پہنچ جاتا ہے۔ کھانے کی میز پر جہاں مجروح سے غزل کے دھیمے پن اور جذباتی اپیل کی بات ہوئی ہے، وہاں مجروح اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ جاگیرداری نے ہماری تہذیب کو بہت حسین چیزیں دی ہیں اور وہ ان کی بقا چاہتا ہے۔ وہ کھاتا جاتا ہے۔ ’’یہ واقعہ ہے کہ بعض تہذیبیں اچھی ہیں اور بعض اچھی نہیں ہیں۔ مثلاً میں یہ کھانا پسند کرتا ہوں اور کھانے کا یہ طریقہ بھی۔‘‘

    ’’اردو زبان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔؟ اور لباس کے بارے میں؟ تم کہوگے بعض زبانیں اچھی ہوتی ہیں اور بعض زبانیں اچھی نہیں ہوتیں۔‘‘

    ’’ہاں یہ تو واقعہ ہے۔ دیکھتے نہیں ملیالم اور دوسری دکھنی زبانیں اپنے اندر کوئی موسیقی نہیں رکھتیں۔ میرے کان پر تو چوٹ سی پڑتی ہے۔‘‘

    ’’لیکن زبانوں سے قومیں بنتی ہیں۔ توپھر بعض قومیں اچھی ہوتی ہوں گی اور بعض اچھی نہیں ہوتی ہوں گی۔ کیوں۔‘‘ کھانا مجھے بھی بہت اچھا معلوم ہورہا ہے لیکن اس کے نکتے سے پورے طور پر اتفاق نہیں کر رہا ہوں۔ پھر وہ دیر تک کھانے کے ذائقے، لباس کے کتربیونت، تہذیب کے زاویوں اور پیچ و خم پر باتیں ہوتی رہیں۔ تہذیب کے کتنے رنگ ہیں۔ تہذیب کی کتنی آوازیں ہیں۔ تہذیب کے کتنے آئینے ہیں۔ ان میں کتنی جھلمل ہے۔ ان میں کتنی چمک دمک ہے۔۔۔

    اور پھر اُٹھ کر میں مجروح کی چھوٹی سی بچی نوبہار کو گود میں اٹھالیتا ہوں۔ وہ ہنسنے لگتی ہے اور وہ میز پر رکھی ہوئی اپنی ہی طرح مسکراتی ہوئی کتابوں کی طرف دیکھنے لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے، ’’مجروح انگریزی نہیں جانتا اس لیے سنجیدہ اور فلسفیانہ ادب اس کی پہنچ سے باہر ہے۔‘‘ لیکن میں جب اس کی میز پر لینن اور مارکس کی موٹی موٹی کتابیں فارسی میں چھپی ہوئی رکھی دیکھتا ہوں تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ علم و ادب پر انگریزی زبان کا اجارہ نہیں ہے۔ دیواریں ٹوٹ رہی ہیں اور روشنی کا سیلاب تاریکیوں کو چیرتا ہوا بڑھ رہا ہے۔

    میں شام کے وقت دو دن جوہو کے ساحل پر سمندر کا نظارہ کرنے کے لیے جاتا ہوں۔ ایک دن نروتم ناگر ساتھ ہے اور دوسرے دن فردوس اور نوبہار۔ نوبہار ریت میں اترکر ربڑ کی گیند سے کھیلنے لگتی ہے۔ اور ایک فلم کی اکسٹرا گرل آکر مجروح کی بیوی سے گپ کرنے لگتی ہے۔ میں سمندر می بے قرار کالی موجوں کو سورج کے گلنار چہرے کو چاٹتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ سورج کے چہرے میں روتی ہوئی عورت کے چہرے کا اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ اضطراب سرخ پیرہن بن کر سمندر پر پھیل جاتا ہے۔

    اس وقت یہ اداسی پام گروو ہوٹل پر چھا جاتی ہے۔ ناریل کے پیڑوں میں ہوا آکر پھنستی ہے اور بے اختیار چیخنے لگتی ہے۔ دوتین بچے گھٹنوں تک سمندر کی موجوں کے اندر ہاتھ ڈال کر کچھ تلاش کر رہے ہیں۔ عورتیں اور بچے چاٹ والے کے چاروں طرف چکر لگارہے ہیں۔ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر سمندر کے کنارے کنارے اس نرم اشیاء سے گزر رہے ہیں جہاں سے سمندر کی موجیں ہمت ہار کر واپس لوٹ گئی ہیں۔ ایک جوان لڑکی اپنے محبوب کے بازو میں ہے۔ وہ اسے پانی کی گہرائی کی طرف کھینچ رہا ہے اور وہ ڈر کر، سہم کر اس سے لڑ رہی ہے۔ اس کے ترشے ہوئے بال ہوا میں اڑ رہے ہیں اور موجوں کی گستاخیوں نے بڑھ کر اسے رانوں تک بھگودیا ہے۔ اندھیرا بڑھتا جاتا ہے۔ میں اور نروتم ناگر ڈریم لینڈ ہوٹل میں چائے پیتے ہیں اور اس کے بعد میں اور نروتم ناگر دونوں سمندر میں اترتے ہیں۔ اب تک شفق کی چمکیلی سرخی ہلکے ہلکے موجوں میں بکھر رہی ہے۔

    ’’ذرا سمندر کا پانی پی کر دیکھو‘‘ نروتم رائے دیتا ہے۔

    میں اپنی پتلون کو گھٹنے تک چڑھا لیتا ہوں اور ایک چلو میں پانی لے کر منہ میں ڈال لیتا ہوں۔ سارے منہ میں نمک بھر جاتا ہے۔ میں تھوکتا ہوا سمندر سے باہر آجاتا ہوں۔ نروتم ناگر کو میری اس بیوقوفی پر کافی ہنسی آتی ہے۔ اور میں اس بات پر خوش ہوتا ہوں کہ نروتم ناگر کو بھی ہنسی آسکتی ہے۔ سائیبریا کے ریگ زاروں میں پھول کھل سکتے ہیں اور پھلوں کے باغ ہوسکتے ہیں۔

    راتیں آتی ہیں تو کانفرنس کی روح گانے ناچنے لگتی ہے۔ دکھن کے ناچ، آسام کے گیت، مہاراشٹر کے گیت، شکیل چودھری کے مچھیروں کی لے۔ ایک نئی دنیا آباد ہوجاتی ہے۔ ایک نیا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ یہ دل ہزاروں دلوں کے آہنگ سے بنا ہے اور یہ دل اتنا بڑا ہے کہ اس میں ساری دنیا کا حسن، ساری کائنات کی محبت سماجاتی ہے۔

    دن کے وقت بحثیں ہوتی ہیں۔ موسیقی، ڈرامہ اور فلم کے کمیشنوں میں ہندوستانی تہذیب کے بہترین نمائندے اپنے فن اور عوام کی قربت سے پیدا ہونے والے مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں۔ عوامی طرزوں، عوامی قصوں کی کیا اہمیت ہے۔ بربریت مارشل، رتک گھٹک بنگالی فلمی اداکار، شکیل چودھری،ر انیل بسواس، سریندر کور، گارگی سب اپنے اپنے بیان سے بحثوں میں بڑی زندگی پیدا کر رہے ہیں۔

    ایک طرف گرین روم کے پاس اچانک میری نظر نرنجن سین پر پہنچتی ہے، جس کا رنگ مجھ سے بھی زیادہ اسودی ہے اور اسے دیکھ کر میری بڑی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ ایک طرف کانفرنس چل رہی ہے اور دوسری طرف وہ وہاں بیٹھا اپنے بال کٹا رہا ہے۔

    ’’نرنجن مبارکباد۔۔۔‘‘ میں اس کے شانے کو تھپک کر کہتا ہوں اس کے دانت نکل پڑتے ہیں۔

    ’’کیوں کانفرنس پسند آئی۔ ہے نا شاندار؟‘‘

    ’’تم بہت شاندار ہو۔ میں تمہیں مبارک باد دے رہاہوں۔ آخر تمہاری حجامت بن گئی ہے؟‘‘ وہ بہت خوش ہوتا ہے اس لیے کہ دیکھتے دیکھتے کئی مبارکبادیاں مل جاتی ہیں۔ وہ ایک حد تک شرماجاتا ہے۔

    رات کا وقت ہے۔ ہزاروں کا مجمع بیٹھا ہوا ہے۔ آج ہجوم زیادہ ے۔ ’’وادی کی پکار‘‘ نے مقناطیس کی طرح لوگوں کو کھینچ لیا ہے۔ اسٹیج پر طبلے کی آواز اس طرح ابھر رہی ہے جیسے گھوڑے برف زاروں کو اپنے سموں سے روندتے ہوئے گزرتے ہیں۔ یہ کہانی ہے کشمیر کے ڈوگروں کے ہاتھوں بکنے کی، یہ کہانی ہے راجہ ہری سنگھ کی سنگینوں اور بہادر کشمیریوں کے خون کی۔ یہ کہانی ہے انگریزوں اور امریکیوں کی سازش کی جو کشمیر کو درمیان سے کاٹ رہی ہے، لیکن کشمیری راستے میں کھڑے ہیں، اور اپنی قربانیوں سے اس مصنوعی خلیج کو پاٹ رہے ہیں۔

    ’’دلیل‘‘ بنگالی ڈرامہ ہے۔ مشرقی پاکستان سے شرنارتھی بھاگ کر آرہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ بھارت میں ان کے ساتھ انسانوں کا سلوک ہوگا، ان کو گھر ملیں گے، ملازمت ملے گی، پارک اور خوش حال ماحول ملے گا۔۔۔ لیکن انہیں گولیاں ملتی ہیں اور ایک نوجوان لڑکی ایک بوڑھے سے لپٹ جاتی ہے۔ اشک آور بموں کے دھماکے ہو رہے ہیں۔ وہ لڑکی چیخ رہی ہے۔ اسٹیج پر دھواں پھیل رہا ہے۔

    ’’یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ چیخ ابھرتی ہے۔

    ’’ظلم ہو رہا ہے۔ روٹی چھینی جاتی ہے۔ اور گولیاں سینے میں اتر رہی ہیں۔‘‘

    آسام سے ایک اسکول کا طالب علم آیا ہے۔ وہ شیر کی کھال اوڑھے ہوئے ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک نیزہ ہے۔ وہ گھن گرج کے ساتھ شیر پر حملہ کررہا ہے۔ دھم دھم چھن۔ اس کا نیزہ آخر شیر کو ہلاک کردیتا ہے، اور وہ شاداں اور فتح یاب اپنے نیزے کو لہراتا ہوا جنگل میں نکل جاتا ہے۔

    یہ گیت، یہ ناچ، یہ ڈرامے زندگی کی کتنی حقیقتوں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ یہ زندگی دکن کی پہاڑیوں سے آئی ہے۔ یہ زندگی کشمیری سمن زاروں سے آئی ہے، جہاں غربت شاخوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی ہے اور فضا میں پھیل جاتی ہے۔ یہ زندگی آسام کے جنگلوں سے آئی ہے، یہ زندگی بنگال کے کھیتوں سے آئی ہے، جہاں دھان کی فصل کیسی ہی ہو فاقہ رہتا ہے اور جہاں لاکھوں انسان بھوک سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں۔

    یہ آخری رات ہے۔ کرشن، مجروح اور فردوس کے ساتھ میں بھی الیکٹرک ٹرین میں جارہا ہوں۔ کرشن اندھیری جارہا ہے۔ اسے ڈر ہے کہ اسے بس نہیں ملے گی اور ٹیکسی کے پیسے خرچ کرنا پڑیں گے۔ لیکن ساتھ ہی وہ فلمی زندگی کی ابتری کے قصے بیان کر رہا ہے۔ اور ان طریقوں پر روشنی ڈال رہا ہے جن کے ذریعہ فلمی زندگی میں ایک نئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ ہزاروں محنت کش وہاں اپنی روٹی کماتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں بڑی قوت ہے اس قوت کو ابھارنے اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

    رات بہت آگے نکل چکی ہے لیکن کانفرنس کے تجربات ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ بلراج ساہنی اور رامانند ساگر میرے سوال کے جواب میں اپنی معصومیت اور فلمی دنیا کی پیچیدگیوں کا یقین دلا رہے ہیں۔ لیکن میں ان کا ہم خیال نہیں ہوں۔ اور ان بحثوں میں وہ ترقی پسند ادیب اور فنکار نہیں ہیں جن کے بارے میں نمائندوں کے کچھ اعتراضات ہیں اور جن سے کچھ توقعات ہیں۔

    رات کے بارہ بج چکے ہیں۔ جیپ میں مناڈ کی عورتیں بھری ہوئی ہیں۔ وہ کانفرنس میں دیر سے آئی ہیں اور وہ سب امرشیخ کے گھر جارہی ہیں۔ عباسی ایک طرف دھنسا ہوا ہے۔ امرشیخ میری مدد سے اپنے خیالات ان عورتوں تک پہنچارہا ہے۔ وہ انگریزی نہیں جانتا اور وہ عورتیں اپنی زبان یا انگریزی بولتی ہیں۔ رات سنسان ہے۔ بمبئی کی سڑک پر جیپ اڑی چلی جارہی ہے۔ امرشیخ صرف بنیان اور دھوتی پہنے ہوئے ہے۔ پسینہ سے اس کا کرتا بھیگ چکاہے۔ فٹ پاتھ پر دونوں طرف ہزاروں انسان سوئے ہوئے ہیں۔ اور یہ بمبئی ہے۔

    اس بمبئی سے اس وقت میں واپس جارہا ہوں، جہاں اتنی شاندار کانفرنس ہوئی ہے۔ سندر بائی ہال کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ ’’وادی کی پکار‘‘ کا خاموش تماشہ ہو رہا ہے۔ اندھیرے میں، میں ڈیوڈ سے کہتا ہوں،

    ’’تو دوست میں جارہا ہوں اجنتا۔ تمہاری بے وفائی یادر ہے گی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، تم نہیں جانتے مجھے پندرہ تک کام ہے۔‘‘

    جیسے ہی میں باہر نکلتا ہوں ’’انور‘‘ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ باہر ایک بنچ پر کیفی بیٹھا ہوا ہے۔ اس کا ہاتھ گرم ہے۔ شوکت نے پہلے ہی بتایا ہے وہ بہت کمزور ہوگیا ہے اور کانفرنس کے دوران میں ایک دن چکرا کر گرچکا ہے۔ وہ اس وقت بہت تھکا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ اس کی آخری سگریٹ بھی پی کر چل دیتا ہوں۔

    نروتم ناگر ناگپور اکسپریس کے تھرڈ کلاس میں پیر پھیلاکر لیٹ گیا ہے۔ شنکر شیلیندر رخصت کرنے کے لیے اسٹیشن آیا ہے۔ میں اس کے لیے آئس کریم لینے کے لیے اُترتا ہوں اور جب واپس آتا ہوں تو وہ واپس جاچکا ہے۔ اس کابچہ بخار میں جل رہاہے۔ اور اب پھر ہم اکیلے رہ گئے ہیں لیکن ہمارے ساتھ روح کو گرمانے والی کتنی یادیں ہیں۔ کتنے چہروں کا تصور، کتنے ہاتھوں کا لمس، قہقہوں کا گداز۔۔۔ یہ سب ہمارے ساتھ جارہے ہیں۔

    بمبئی میں تمہیں سلام کرتا ہوں۔ تمہیں دیکھ کر مجھے میکسم گور کی کا ’’زرد بھوت کا شہر‘‘ یاد آتا ہے۔ تمہاری آغوش میں ہزاروں بیروزگار ہیں، ہزاروں محبوب نا آشنا دل ہیں۔ ہزاروں فٹ پاتھ پرسوتے ہیں اور ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔ تمہارے سینے میں کتنے کارخانے ہیں اور ان کا دھواں پوری فضا میں رقصاں رہتا ہے۔ تمہاری آغوش لیٹا ہوا ناپیدا کنارہ سمندر ہے۔

    تمہارے بازؤں میں کتنی قوت ہے۔ کتنی اونچی عمارتیں ہیں اور کتنے گھٹے ہوئے جھونپڑے ہیں۔ بمبئی۔۔۔ ایک طرف میں اس فقیر کو دیکھتا ہوں جو دیر سے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہے اور اس کی فریاد کوئی نہیں سنتا۔ دوسری طرف پھولوں کی دوکان ہے جہاں سے لوگ پھول خریدتے ہیں اور اپنے ساتھ والی عورت کے جوڑے میں لپیٹ دیتے ہیں۔ بمبئی ایک طرف تمہارے بیٹے گالیاں بکتے ہیں اور ایک دوسرے کا گریبان چاک کردیتے ہیں اور دوسری طرف ہزاروں انسان گیت سنتے ہیں، ناچ دیکھتے ہیں، ڈرامہ دیکھتے ہیں اور تالیوں کی گونج میں بمبئی گرم ہونے لگتی ہے۔ بمبئی۔۔۔ میں تمہارے اجالوں کو سلام کرتا ہوں اور اندھیروں سے نفرت۔ یہ نفرت بھی اپنا کام کر رہی ہے اور وہ نسبت بھی جو مجھے تمہارے مستقبل سے ہے۔

    گاڑی سرکنے لگتی ہے۔۔۔ اب میں گیت اور ناچ کی دنیا سے نکل رہا ہوں اور پتھروں کی وادی میں داخل ہو رہا ہوں۔۔۔ اور بمبئی جھلملارہی ہے، جھلملارہی ہے او ر دور ہوتی جارہی ہے۔

     

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 186)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے