Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سرخ زمین اور پانچ ستارے

خواجہ احمد عباس

سرخ زمین اور پانچ ستارے

خواجہ احمد عباس

MORE BYخواجہ احمد عباس

     

    (نئے چین کے قومی پرچم کی زمین سرخ ہے۔ ان شہیدوں کے خون کی طرح جن کی قربانیوں نے اس جمہوری راج کو جنم دیا ہے۔ اس سرخ زمین پر پانچ سنہری ستارے جگمگارہے ہیں۔ جن میں سے بڑا ستارہ چینی مزدوروں کا ہے، اور باقی چار ستارے درمیانی طبقے، قومی سرمایہ داروں اور اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ پرچم ۴۳کروڑ چینی عوام کے حیرت انگیز اتحاد اور ان کی قومی آبرو کا جیتا جاگتا نشان ہے۔)

    ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘


    ’’میں چین جارہا ہوں‘‘

    ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    ’’میں چین جارہا ہوں‘‘

    ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    پورے پندرہ دن اسی تذبذب میں گزرے۔

    ۱۲/ستمبر کو کل ہند امن کمیٹی کے صدر ڈاکٹر کچلو کا خط ملا کہ چین کی پانچ نمائندہ انجمنوں نے ایک ہندوستانی وفد کو چین آنے کی دعوت دی ہے۔ اور اس وفد میں میرا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ وفد ۲۱/ستمبر کو ہوائی جہاز سے روانہ ہوجائے گا۔ کیا میں اس وفد کے ساتھ چین جانا منظور کروں گا۔

    کیا میں چین جانا پسند کروں گا؟

    چین!

    ’’اطلب العلم لوکان بالسین‘‘ (علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے چین ہی جانا پڑے)

    چین!

    چین۔۔۔ جہاں پانچ ہزار برس پہلے تہذیب اور تمدن نے جنم لیا!

    چین۔۔۔ جہاں کے لوگ اس وقت ریشم اور کمخواب پہنتے تھے جب یورپ والے کھالیں اوڑھتے پھرتے تھے!

    چین۔۔۔ جس نے دنیا کو کاغذ بنانا سکھایا!

    چین۔۔۔ جس نے دنیا کو بارود کا استعمال سکھایا مگر آتشبازی سے بچوں کا دل بہلانے کے لیے۔ بموں اور مشین گنوں سے بچوں کا خون کرنے کے لیے نہیں۔

    چین۔۔۔ جس سے یورپ والوں نے کاغذ کے سکے جاری کرنا سیکھا۔

    چین۔۔۔ جس کے نام پر برتن بنانے کی سب سے نفیس مٹی ’’چینی‘‘ کہلاتی ہے۔

    چین۔۔۔ جس کے نام پر ہم شکر کو ’’چینی‘‘ کہتے ہیں۔

    دیوار چین۔۔۔ ہزاروں میل لمبی فصیل جو ہزار برس سے آج تک اسی طرح مضبوط اور مستحکم کھڑی ہے۔

    علاء الدین کا طلسمی چراغ چین کے بازاروں ہی میں ملتا تھا۔

    چین!

    فلسفیوں اور عاقلوں کا چین!

    دستکاروں اور صناعوں کاچین!

    چین!

    چین۔۔۔ غریب کسانوں، قلیوں اور رکشا کھینچنے والوں کا چین!

    چین۔۔۔ ’’ایشیا کا مریض‘‘ جسے مردہ سمجھ کر سامراجی گدھ برسوں منڈلاتے رہے!

    چین۔۔۔ جہاں انگریز اور فرانسیسی اور جرمنی اور جاپانی عیش کرتے تھے۔ اور خود چینی رکشا کھینچنے والے خون تھوک تھوک کر مرجاتے تھے!

    چین۔۔۔ جہاں ہر سال لاکھوں کال، بیماری اور بھوک کا شکار ہوتے تھے۔

    چین۔۔۔ جہاں غریبوں اور مظلوموں کی آہ انقلاب کا نعرہ بن گئی تھی!

    ڈاکٹر سن یات سین کا چین!

    ماؤسے تنگ کا چین!

    چین۔۔۔ ایک سرخ ستارہ جو ایشیا کے افق پر چمکا!

    چین۔۔۔ ایشیا کا سویا ہوا شیر جو اب جاگ گیا ہے!

    کب سے چین جانے کی آرزو تھی!

    ۱۹۲۰ء میں، میں ہانگ کانگ گیا۔ مگر وہاں سے اندرون چین نہ جاسکا کیونکہ ہانگ کانگ کینٹن ریلوے پر جاپانی بم برس رہے تھے۔ وہاں سے شنگھائی بھی جاپانی حملہ آوروں سے گھرا ہواتھا۔ برطانوی شنگھائی میں بھی جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا، رات کو جاپانی بموں کے دھماکے سنائی دیتے تھے۔ کمیونسٹوں اور دوسرے قوم پرست ترقی پسندوں کے دباؤ سے آخرکار چیانگ کائی شیک جاپانی سامراجیوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ سارے ملک کے کونے کونے میں جہاں تک بھی جاپانیوں کا قبضہ ہوا تھا وہاں انقلابی کسانوں کی باقاعدہ ’گوریلا‘ فوجیں دشمن پر اچانک اور پے درپے حملہ کر رہی تھیں۔ شنگھائی سے پندرہ بیس میل پر بھی’’ گوریلا‘‘ دستے کام کر رہے تھے۔ میں ان کے کتنا قریب تھا اور کتنا دور!

    جنگ کے دوران میں پنڈت جواہر لال نہرو کے ایما پر کانگریس نے ایک طبی وفد چین بھیجا۔ چینی قوم پرستوں سے اپنی عملی ہمدردی کا ثبوت دینے ہندوستانی ڈاکٹر مختلف مورچوں پر کام کرتے ہوئے شمال مغرب کے پہاڑوں میں یے نان پہنچے۔ یے نان۔۔۔ وہ تاریخی مقام جہاں کے غاروں میں نئے چین نے جنم لیا۔۔۔ یے نان جو ماؤسے تنگ اور جنرل چوتھے اور ان کی کمیونسٹ فوجوں کا ہیڈکوارٹر تھا۔ دوسال تک ہندوستانی ڈاکٹر یے نان اور آس پاس کے پہاڑی مورچوں پر کام کرتے رہے۔۔۔ وہاں ہی ڈاکٹروں کا ناتھ کوٹنس نے ایک چینی لڑکی سے شادی کی۔۔۔ وہیں ان کا بچہ۔۔۔ چین اور ہندوستان کے اتحاد کا جیتا جاگتا نمونہ۔۔۔ پیدا ہوا۔ وہیں ایک گمنام گاؤں میں ڈاکٹر کوٹنس نے اپنی جان دے دی اور قسمت نے ہندوستانی طبی وفد اور ڈاکٹر کو ٹنس کی کہانی لکھنے کا کام میرے سپرد کیا۔

    ANDGNEDIDNOT COME BACK لکھتے ہوئے میرا تخیل بغیر پاسپورٹ لیے کتنی ہی بار چین گیا۔ اس کے لامتناہی میدانوں میں گھوما۔ اس کی دشوار گزار گھاٹیوں میں ہوتا ہوا یے نان کی پہاڑیوں کی چوٹیوں تک پہنچا۔ کتنی ہی سرد اور برفیلی راتیں میں نے بہادر ’’گوریلا‘’ چھاپے ماروں کے ساتھ گزاریں۔ ماؤسے تنگ اور چوتھے سے ملاقاتیں کیں، جاپانی فوجوں پر شب خون مارے اور ہندوستانی ڈاکٹروں کے ساتھ زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کی۔۔۔

    مگر تخیل آزاد ہے۔ انسان ابھی تک آزاد نہیں ہے۔ جیسے ہی ۱۹۴۹ میں چینی انقلاب کی تکمیل ہوئی اور پی کنگ میں نئی حکومت قائم ہوئی میں نے چین جانے کی کوشش شروع کی۔ نئی جمہوری حکومت کو تسلیم کرنے میں ہندوستان نے سبقت کی تھی۔ اس لیے میں چاہتا تھا کہ ایک ہندوستانی اخبار نویس ہی سب سے پہلے چین جائے اور اس نئے تاریخی انقلاب کے بارے میں ہندوستان اور دنیا کو بتائے۔ مگر چین کا نیا سفارت خانہ قائم ہوئے کئی مہینے لگ گئے۔ اور جب نئے چینی سفیر آگئے تب بھی مجھے ’’ویزا‘‘ ملنے میں ایک برس لگ گیا۔ اس عرصہ میں سویت روس کے مصنفوں کی انجمن کی طرف سے دعوت نامہ ملا۔ میں نے روس جانے کے لیے گورنمنٹ کو درخواست دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا پاسپورٹ ہی ضبط کرلیا گیا۔

    ۱۲/ستمبر کو جب مجھے ڈاکٹر کچلو کا خط ملا تو میرے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ نہ واپس ملنے کی امید تھی۔ کیونکہ بمبئی کی حکومت کی رائے میں، میں خطرناک کمیونسٹ ہوں۔ دوستوں کی رائے میں میں ’’انقلاب دشمن‘‘ ہی نہیں ’’انسانی دشمن‘‘ بھی ہوں۔ پھر اگلے دن گورنمنٹ کو درخواست دی کہ میرا پاسپورٹ واپس کردیا جائے اور مجھے چین جانے کی اجازت دی جائے۔ جواب ملا کہ غور کیا جائے گا۔ مگر فیصلہ مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ نئی دہلی ایک دو نہیں درجنوں خط لکھے۔ تار دیے کسی کا جواب نہیں آیا۔ اور تار دیے ٹرنک کال ٹیلیفون کیے، معلوم ہوا کہ غور ہو رہا ہے۔

    سات دن اسی طرح گزر گئے دل اور دماغ کے دوٹکڑے ہوگئے، ایک کہتا تھا ’’میں چین جارہا ہوں‘‘ دوسرا کہتا تھا۔ ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘۔

    ’’میں چین جارہا ہوں‘‘

    ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    اسی تذبذب کی حالت میں Blitzکا کام بھی ہوتا رہا۔ میری فلم کی شوٹنگ بھی ہوتی رہی۔ ناگپور کے لا کالج سے بلاوا آیا ہوا تھا وہ بھی مشروط طور پر منظور کرلیا، مگر طے نہ ہوا کہ میں چین جارہا ہوں یا نہیں جارہا ہوں۔

    ۱۹/ستمبر کو ڈاکٹر ملک راج آنند دہلی روانہ ہوگئے۔ ۲۰/کی صبح کو ان کا تار ملا کہ تمہارا چین جانا بہت ضروری ہے۔ پاسپورٹ کی پوری کوشش کرو۔ اب ایک ہی ذریعہ رہ گیا تھا۔ سوپنڈ جواہر لال نہرو کو ایک لمبا تار بھیجا کہ شاید ان کی مداخلت بارآور ثابت ہو۔

    ۲۰/ستمبر کو وفد کا پہلا دستہ پنڈٹ سندرلال کی قیادت میں دہلی سے روانہ ہوگیا مگر مجھے پاسپورٹ نہ ملا۔ اب بھی امید کی ہلکی سی کرن باقی تھی کیوں کہ وفد کے باقی اراکین ۲۱/کو اور ۲۳/کو جانے والے تھے۔

    ۲۱/ستمبر کو بمبئی سے بلٹز کے ایڈیٹر کرنجیا اور ہتھی سنگھ بھی روانہ ہوگئے۔ اور اسی دن وفد کا دوسرا دستہ دہلی سے ہانگ کانگ کے لیے روانہ ہوگیا۔

    دہلی سے ایک تار آیا کہ عباس کا پاسپورٹ ملنے کی امید نہیں ہے۔ اس لیے وفد میں اس کی جگہ پر کردی گئی ہے۔۔۔ مگر ۲۲/کی دوپہر کو مجھے پاسپورٹ مل گیا۔ کیوں؟ کیسے؟ پہلے کیوں نہیں ملا؟ ۔۔۔ یہ حکومت کے بھید ہیں۔ جو کھولے نہیں جاتے۔ پاسپورٹ مل گیا۔۔۔ مگر ایک نئی مشکل کا سامنا ہوا۔ ۲۳/کے ہوائی جہاز میں سیٹ نہ ملی۔ اور کیونکہ کینٹن سے پی کنگ تک ریل کا پانچ دن کا سفر طے کرنا تھا۔ اس لیے یکم کے جشن جمہوریت میں شامل ہونے کے لیے یہ آخری ہوائی جہاز تھا۔ اس لیے میں نے پاسپورٹ کو الماری میں بند کردیا۔ اور اپنے دل و دماغ سے چین جانے کے خیال کو ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ نکال دیا۔ جو گرم کپڑے دوستوں سے مانگے تھے وہ واپس کردیے۔ فلم کی شوٹنگ پھر شروع کردی تذبذب اب مایوسی کے یقین میں بدل گیا۔

    ’’چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    ’’میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    اور پھر ۲۶/ستمبر کی دوپہر کو ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ’’ٹرنک کال نئی دہلی سے‘‘ ٹیلیفون آپریٹر نے کہا۔

    ’’میں چینی سفارت خانے سے بول رہا ہوں‘‘ ایک چینی آواز آٹھ سو میل سے آئی۔ ’’ہمیں پی کنگ سے ہدایات ملی ہیں کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح فوراً روانہ کردیا جائے۔ کل شام کو ایک ہوائی جہاز ہانگ کانگ کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ مگر کینٹن سے پی کنگ تک ریل میں پانچ دن لگتے ہیں۔ میں نے کہا ’’میں یکم اکتوبر تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟‘‘

    ’’اس کی فکر نہ کیجیے کینٹن سے آپ کو ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک دن میں پہنچا دیا جائے گا۔ آپ آج رات کے ہوائی جہاز سے دہلی آجائے۔‘‘

    اور ٹیلیفون بند کرتے ہی میں ایئرانڈیا کے دفتر کی طرف بھاگا۔ راستہ میں ایک دوست سے مڈبھیڑ ہوگئی۔

    ’’ارے کہاں بے تحاشہ بھاگے جارہے ہو؟‘‘

    ’’میں۔۔۔ میں چین جارہا ہوں‘‘

    ’’چین۔۔۔! مگر کل شام ہی تو تم کہہ رہے تھے میں چین نہیں جارہا ہوں‘‘

    میں جواب دیے بغیر ہی ایک ٹیکسی کی طرف لپکا۔ اور میرا دوست وہاں کھڑا میری بوکھلاہٹ پر مسکراتا رہا۔

    پندرہ گھنٹے امریکہ میں
    نقشے پر دیکھیے تو دہلی سے ہانگ کانگ تک ہوائی سفر کرنے کے لیے ہندوستان، برما اور تھائی لینڈ (سیام) پر سے گزرنا ہوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی اصلیت جغرافیے کی حدوں کو نظرانداز کرجاتی ہے۔ مجھے چین جانے کے لیے پندرہ گھنٹے ا مریکہ میں گزارنے پڑے۔

    یہ ’’امریکہ‘‘ صرف بارہ فٹ چوڑا اور کوئی ساٹھ فٹ لمبا Pan American کمپنی کا ہوائی جہاز ہے جو امریکہ سے چل کر یورپ اور ہندوستان ہوتا ہوا ہانگ کانگ اور جاپان کے راستے واپس امریکہ لوٹ رہا ہے۔ ساری دنیا اس ’’امریکہ‘‘ کی لپیٹ میں آچکی ہے۔

    رات کے دوبجے دہلی کے پالم ہوائی اڈے پر اس ہوائی جہاز میں جیسے ہی میں نے قدم رکھا اور اس کا بھاری دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ بند ہوا، میں ہندوستان سے امریکہ پہنچ گیا۔ اسٹیورڈ نے ایک مائکروفون پر ٹھیٹ امریکی لہجے میں ناک میں سے گنگنا کر ہمارا استقبال کیا۔ مگر لاؤڈاسپیکر کی گونج میں کم سے کم میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ ایئرہوسٹس (جو اپنے رنگے ہوئے سنہری بالوں اور پینٹ پاؤڈر لپ اسٹک کے ساتھ ہالی وڈ کی مکمل پیداوار معلوم ہوتی تھی) اپنے دانت کھول کر اس طرح مسکرائی جیسے بٹن دباکر بجلی کی روشنی کی جاتی ہے۔ یہ مسکراہٹ اس نے بلاتفریق سب مسافروں پر بکھیری اور پھر بٹن دباکر غائب کردی۔ ایک ایک کرکے مسافروں نے اپنی اپنی کرسیوں کی کمر جھکائی اور روشنی بجھاکر سونے کے لیے تیار ہوگئے۔ ’’امریکہ‘‘ اندھیرا ہوگیا۔ مگر چار ہزار فٹ نیچے نئی دہلی کی روشنیاں دیر تک جھلملاتی رہیں۔۔۔ یہاں تک کہ ’’امریکہ‘‘ اور نئی دہلی اور میرے دماغ سب پر نیند کا اندھیرا چھاگیا۔

    آدھ گھنٹے ٹھہر کر جب کلکتے سے طلوع آفتاب کے وقت ہوائی جہاز روانہ ہوا۔ تب جاکر ٹھیک طرح سے امریکہ کے درشن ہوئے۔ امریکہ کی طرح یہ ہوائی جہاز بھی میکانیکی تمدن کا بڑھیا اور شاندار نمونہ ہے۔ پچاس مسافروں کے بیٹھنے کے لیے آرام دہ کرسیاں، مردوں کے لیے داڑھی بنانے کے بجلی کے استرے، پلاسٹک کی کشتیوں میں بڑی نفاست سے لگا ہوا امریکی قسم کا ناشتہ، پڑھنے کے لیے رنگین تصویروں اور اشتہاروں سے بھرے ہوئے امریکن رسالے اور اخبار، عورتوں کے سنگھار کے لیے ایک علیحدہ ’’پاؤڈرروم‘‘، کوٹ اور کپڑے ٹانگنے کے لیے ہینگر، دانتوں کی ورزش کے چیوئنگ گم CHEWING GUM، پینے کے لیے کوکا کولا اور برف کا پانی اور ایئرہوسٹس کی وہ ’’میڈ ان ہالی وڈ‘‘ مردہ مسکراہٹ جو بٹن دبانے سے پیدا ہوتی ہے اور بٹن دبانے سے غائب ہوجاتی ہے۔

    میرے سامنے کی سیٹوں پر ایک بوڑھا پادری اور اس کی بیوی بیٹھے ہیں۔ جو برسوں چین میں عیسائیت کی تبلیغ کرتے رہے، صورت شکل سے بہت بھلے لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ مگر چین کا انقلاب ان کی سمجھ سے باہر ہے اور اس لیے وہ اب جاپان جارہے ہیں۔ ان کے آگے ایک موٹا انگریز تاجر ہے جو مدتوں شنگھائی میں کاروبار کرتا رہا ہے۔ وھسکی پی پی کر چہرہ سرخ ہوگیا ہے۔ اس کی گردن پر چربی چڑھی ہوئی ہے، اور شاید دماغ پر بھی۔ وہ اپنے برابر والے سے چین کے بارے میں باتیں کر رہا ہے۔ کہتا ہے پرانے دنوں میں شنگھائی کتنا رنگین اور شاندار شہر تھا، ایشیا کا پیرس کہلاتا تھا۔ اور اب؟ اب تو وہاں کمیونسٹ لڑکے اور لڑکیاں حکومت کرتی ہیں۔

    ہنھ! ڈھنگ کے کپڑے بھی تو نہیں ہیں ان کے پاس! ۔۔۔ مگر اپنے ساتھی کے سوال پر اسے یہ ماننا پڑتا ہے کہ جب کمیونسٹ فوجیں شنگھائی میں داخل ہوئیں تو لوٹ مار بالکل نہیں ہوئی اور غیر ملکیوں کے ساتھ براسلوک نہیں ہوا۔ ’’مگر۔۔۔ مگر۔۔۔ سوچو تو سہی۔۔۔ اب کوئی چینی افسر یا پولس کا سپاہی بغیر اجازت کے میرے گھر میں تلاشی لینے گھس آتا ہے۔۔۔ کم سے کم میں تو یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لیے میں تو ہانگ کانگ چلا آیا ہوں۔‘‘

    ایک نوجوان امریکن فوجی سپاہی ہے جو جاپان جارہا ہے، اور وہاں سے شاید کوریا جائے گا۔ ایک نوجوان ہندوستانی بیوپاری ہے جو ہانگ کانگ سے ہوائی جہاز بدل کر منیلا جائے گا۔ اور اپنی رنگارنگ ٹائی اور بناوٹی لہجے سے امریکن طرز زندگی کا منہ چڑا رہا ہے۔

    ایک چینی نوجوان ہے جو پانچ برس کے بعد آکسفورڈ سے پڑھ کر لوٹ رہا ہے۔ اس کا باپ ہانگ کانگ میں بیوپاری ہے۔ اس کی غیرحاضری میں چین میں انقلاب آگیا ہے۔ میں نے اس سے بات کی تو اس نے کہا ’’میں کمیونسٹ تو نہیں ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ہوا ہے ٹھیک ہی ہوا ہے۔‘‘

    ایک امریکن گورنمنٹ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ’’ہرکارہ‘‘ جو ہر ہوائی اڈے پر ایک مہر لگا ہوا تھیلا وہاں کے امریکی سفارت خانے کے لیے چھوڑتا چلا جارہا ہے۔ ان تھیلوں میں واشنگٹن سے آئے ہوئے احکامات ہیں جن کا انتظار امریکن سفیر ہی نہیں ان کے مقامی ’’دوست‘‘ اور ایجنٹ بھی کر رہے ہوں گے۔

    کسی زمانے میں ایشیا کے اس علاقے میں انگریزوں کی عملداری تھی، اب ان کی جگہ امریکنوں نے لے لی۔ دہلی سے روانہ ہوتے وقت میں نے ہوائی جہاز کی کمپنی کے دفتر والوں سے کہا کہ ان کا ہوائی جہاز بنک کاک ٹھہرے گا، مگر میرے پاسپورٹ پر تھائی لینڈ کا ویزا نہیں ہے۔ جواب ملا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ انگریزی ہوائی جہاز سے جاتے تو اس کی ویزا کی بے شک ضرورت پڑتی مگر امریکن ہوائی جہازوں کے مسافروں کو ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ایسا ہی ہوا جب ہوائی جہاز بنک کاک کے ہوائی اڈے پر اترا تو ہم میں سے کسی سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔ حالانکہ اسی وقت ایک انگریزی جہاز اور ایک فرانسیسی ہوائی جہاز کے مسافر بھی اترے اور ان میں سے ہر ایک کو پاسپورٹ پر ویزا کا معائنہ کرانا پڑا۔ ویسے بھی بنک کاک کے ہوائی اڈے پر نئے امریکی سامراج کے پھیلتے ہوئے اقتدار کا پورا پتہ چلتا ہے۔ مقامی افسر معمولی سے معمولی امریکن کے سامنے اس طرح بچھے جارہے تھے جیسے کسی زمانے میں ہندوستانی سرکار پرست ’’ٹوڈی‘‘ انگریزوں کی خوشامد کرتے تھے۔

    بنک کاک میں کوکا کولا پیتے وقت باتوں باتوں میں بہت سے امریکن مسافروں کو معلوم ہوگیا کہ میں ہانگ کانگ سے اندرون چین بلکہ پی کنگ جارہا ہوں۔ اس کے بعد تو مجھ پر ہر طرف سے حیرت اور شبہہ کی نگاہیں پڑنے لگیں۔ ایک صاحب نے تو مجھ سے پوچھا بھی کہ وہاں کیا کرنے جارہے ہو۔ میں نے جواب دیا کہ میں اخبار نویس ہوں نئے چین کو دیکھ کر اس کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں۔ اس پر ایک صاحب نے بڑے مشفقانہ انداز میں میری کمر تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’ارے وہ تم کو کچھ دکھائیں گے ہی نہیں۔ جانتے نہیں ہو تم ایک کمیونسٹ ملک میں جارہے ہو وہاں کی ہر چیز پر فولادی پردا IRON CURTAIL نہیں تو بانس کا پردا BAMBOO CURTAIL ضرور پڑا ہوا ہے۔‘‘

    اس انداز پر وہ خود ہنس پڑا اور جب ہم ہوائی جہاز میں واپس آئے تو یہ لطیفہ باقی سب مسافروں نے ایک دورے کو سنایا اور ’’امریکہ‘‘ ان کے قہقہوں سے گونج اٹھا اور پیچھے مڑ مڑ کر ہر کوئی مجھے دیکھنے لگا۔۔۔ عجیب الخلقت دو ٹانگ کا جانور جوٹرومین کا امریکہ اور میک ارتھر کا جاپان اور چیانگ کائی شیک کا فارمولا چھوڑ کر ماؤسے ننگ کے چین جارہا تھا۔ ’بیچارہ!‘ ان کی نگاہیں مجھ پر ترس کھاکر کہہ رہی تھیں۔ ’’بیچارہ!‘‘ نہ جانے وہاں اسے کھانے کو کچھ ملے گا یا نہیں‘‘ اور پھر ان میں چند نگاہوں میں شبہہ اور حقارت کی چمک پیدا ہوگئی جیسے کہہ رہی ہوں، ’’کہیں یہ کمبخت خود بھی تو کمیونسٹ نہیں ہے۔‘‘ اور اس کے بعد کئی شریف عورتوں نے میری طرف سے پیٹھ موڑلی اور میں رابرٹ پین کی لکھی ہوئی ماؤسے تنگ کی سوانح عمری پڑھنے لگا۔

    اور اس طرح یہ ’’امریکہ‘‘ برما اور تھائی لینڈ اور ملایا پر اپنا مہیب سیاہ سایہ ڈالتا چلا گیا۔۔۔

    اور سب ’’امریکہ‘‘ والوں پر دوپہر کے کھانے کے بعد کی غنودگی چھاگئی۔۔۔ یہاں تک کہ اسیٹورڈ کی گنگناتی ہوئی آواز نے ان سب کو جگادیا۔ ہوائی جہاز سمندر کے کنارے نہایت خطرناک پہاڑیوں کے بیچ میں سے اتر رہا تھا۔ اور سیٹورڈ اعلان کر رہا تھا۔

    OUR NEXT STOP IS HONG KONG CHINA…

    (ہمارااگلا مقام ہانگ کانگ چین ہے۔۔۔)

    سب نے باپنی اپنی پیٹیاں کس کر اپنے آپ کو اپنی کرسیوں سے جکڑ کر محفوظ کرلیا۔ اس لیے کہ اس وقت ’’امریکہ‘‘ نہایت تیزی سے نیچے کی طرف جارہا تھا اور اسی تیزی سے چین کی طرف جارہا تھا اور اسی تیزی سے چین کی سرزمین ہماری طرف اوپر اٹھ رہی تھی۔

    پستول اور پھول
    برطانوی ہانگ کانگ کی سرحد پارکرکے جوں ہی میں نے آزاد جمہوری چین کی سرزمین پر قدم رکھا۔ پہلے میرا استقبال ایک پستول سے کیا گیا۔ اور اس کے چند منٹ بعدہی پھولوں سے یہ کیوں اور کیسے ہوا۔۔۔ یہ واقعہ دلچسپ بھی اور معنی خیز بھی۔

    ہوا یہ کہ ٹائم ٹیبل کے مطابق میرے ہوائی جہاز کو دوپہر سے قبل گیارہ بجے ہانگ کانگ پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ہوائی اڈے سے ہانگ کانگ اور جمہوری چین کی سرحد پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ راستہ پہاڑیوں میں سے گزرتا ہے، اس لیے دشوار گزار ہے، پھر بھی زیادہ سے زیادہ مجھے سرحد پر دوبجے جانا چاہیے تھا۔ اور اسی حساب سے سرحد کی چوکی کے سپاہیوں کو ہدایات دی گئی تھیں۔ سرحد کے قریب کے گاؤں کے نمائندے بھی ’’ہندی مہمان‘‘ کے استقبال کے لیے ایک بجے سے تین بجے تک سرحد پر کھڑے رہے تھے۔ مگر میرا ہوائی جہاز دہلی سے پہلے کراچی ہی سے آٹھ گھنٹے لیٹ چلا تھا۔ اس لیے ہم ہانگ کانگ پہنچے پانچ بجے کے بعد ’’نیو چائنا نیوز ایجنسی‘‘ کے نمائندے مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے چند منٹ ہی میں میرا سامان کسٹم سے پاس کراکے موٹر میں ڈالا اور موٹر روانہ ہوگئی۔

    ہانگ کانگ کے گنجان بازاروں میں سے موٹروں کی رفتار کے سب قاعدے قانون توڑتے ہوئے ہم جلد ہی شہر کے مضافات میں پہنچ گئے۔ مگراس کے آگے سڑک پہاڑیوں میں گزرتی ہے اس لیے مجبوراً ڈرائیور کو رفتار ہلکی کرنی پڑی۔ جگہ جگہ برطانوی فوج کی چوکیوں پر ٹھہرنا پڑا۔ آخری چوکی پر پاسپورٹ دکھا کر ’’پرمٹ‘‘ لینی پڑی۔ اب ایک پہاڑی کی ڈھلان پر جاکر سڑک بند ہوگی۔ اور ہمیں موٹر سے اترنا پڑا۔ یہاں دوفوجی سپاہی پہرا دے رہے تھے ان کی بات چیت سے اندازہ ہوا کہ ہندوستانی ہیں۔ میں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا:

    ’’کیوں بھائی ہندوستانی ہو؟‘‘ ان میں سے ایک نے پنجابی لہجے میں جواب دیا: ’’ہاں جی۔۔۔ ہندوستانی تھے مگر اب تو پاکستانی ہیں۔ میں نے سوچا کمال ہے کہ ہندوستانی اور پاکستانی فوجی سپاہی اب تک چین کی سرزمین پر برطانوی علاقے کی حفاظت کر رہے ہیں۔ اب ہمیں ریل کی پٹری کے کنارے کنارے کوئی دوفرلانگ پیدل چلنا پڑا۔ یہاں ہانگ کانگ سے آنے والی ریل لووو کے اسٹیشن پر ختم ہوجاتی ہے۔ ریل کی لائن پر کانٹوں اور تار کی باڑھ بندھی ہوئی ہے۔ یہ برطانوی علاقے کی سرحد ہے۔ اس کے بعد چند گز ادھر ایک اور کانٹوں دار تار کی باڑھ ہے۔ اس کے بعد آزاد جمہوری چین کا علاقہ ہے۔

    ہم سورج ڈوبنے کے بعد پہنچے تھے اس لیے دونوں طرف کے دروازے بند ہوچکے تھے۔ اور کل صبح تک کے لیے سرحد پر آنا جانا بند تھا۔ صورت حال سمجھانے پر انگریز فوجی افسر اپنی طرف کا دروازہ کھولنے پر راضی ہوگیا۔ مگر مجھے چڑانے کے لیے کہنے لگا۔ ’’ہم تو جانے دیتے ہیں، مگر دوسری طرف کیا ہوگا۔ اس کے لیے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ میرے خیال میں تو وہ کمیونسٹ لونڈے جانے نہیں دیں گے۔‘‘ میں نے جل کر جواب دیا ’’تم فکر نہ کرو میں چینی حکومت کا مہمان ہوں۔‘‘

    برطانوی دروازہ پھر بند ہوگیا۔ اب ہم No man's land میں تھے۔ چند قدم چلنے پر دوسرا دروازہ آیا۔ اس کی حفاظت کے لیے تین نوجوان فوجی سپاہی پہرہ پر کھڑے تھے۔ دوسری طرف کھڑے انگریز افسروں کی کلف لگی استری کی ہوئی یونیفارم کے مقابلے میں نئے چین کے ان سپاہیوں کی وردیاں میلی اور مسلی ہوئی سی لگیں۔ ہر ایک کے کندھے پر ایک پرانی سی بندوق تھی۔ اور پیٹی میں پستول۔ بالکل لڑکے معلوم ہوتے تھے۔ شاید پندرہ سولہ برس سے زیادہ عمر نہ ہوگی۔ تین نوجوان کسانوں کی اولاد۔۔۔ میلی مسلی ہوئی وردیاں پہنے، پرانی بندوق پستول لیے دنیا کے سب سے بڑے ملک کی سرحد کی حفاظت کر رہے تھے۔۔۔

    وہ ملک جس کا رقبہ۔۔۔ مربع میل ہے، اور آبادی ۴۳کروڑ ہے اور جس کی تاریخ پانچ ہزار سال لمبی ہے۔ ان نوجوان سپاہیوں کو دیکھ کر میرے دماغ میں چین کی پوری انقلابی تاریخ گھوم گئی۔ ہر دور میں ایسے ہی کسان نوجوانوں نے ظلم اور استبداد کا مقابلہ کیا تھا۔ ہزار برس پہلے جب عوام نے انقلاب کا راستہ دریافت نہ کیا تھا بادشاہوں اور نوابوں اور زمینداروں کے ظلم اور اپنے افلاس سے تنگ آکر کسان ڈاکو بن جاتے تھے۔ اور پہاڑیوں میں پناہ لے کر وہاں سے امیروں کے محلوں پر چھاپے مارتے تھے۔ مگر ڈاکو ہونے پر بھی ان کے دل انسانی ہمدردی سے خالی نہیں تھے۔ وہ امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ ایسے ہی ڈاکوؤں کے بارے میں کئی سوبرس پہلے چین کا سب سے مشہور ناول لکھا گیا تھا۔۔۔ ’’سب انسان بھائی بھائی ہیں۔‘‘

    ’’سب انسان بھائی بھائی ہیں!‘‘ انسانیت اور بھائی چارے کا یہ سنہری اصول چین کے انسان دوستوں نے ہزاروں برس پہلے دریافت کرلیا تھا۔ مگر اسے عملی جامہ پہنانے میں کتنی صدیاں لگیں، کتنا خون خرابہ ہوا، اندرونی جبر و استبداد اور بیرونی سامراج کے خلاف عوام کو کتنی ناکام لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ کتنی قربانیاں دینی پڑیں۔۔۔

    مگر اب صدیوں انقلابی کش مکش کا پھل مل چکا ہے۔ چینی انقلاب کامیاب اور مکمل ہوگیا ہے۔ اور ان تمام انقلابیوں کے جانشین یہ تین نوجوان کسان ہیں جو میلی اور مسلی ہوئی پیوند لگی ہوئی وردیاں پہنے، کندھوں پر پرانی بندوقیں دھرے، پیٹیوں میں دقیانوسی پستول لگائے اپنے ملک، اپنی آزادی اور اپنے انقلاب کی حفاظت کر رہے ہیں۔

    یہ سب کچھ ایک پل سے بھی کم میں میرے دماغ میں گھوم گیا۔ اور اسی پل میں جیسے ہی دروازہ کھلا۔۔۔ اپنے چینی ساتھی کا انتظار کیے بغیر میں نے آزاد جمہوری چین کی سرزمین پر قدم رکھا۔ جی چاہتا تھا کہ اس مبارک موقع کی تقریب میں کسی طرح اپنی خوشی اور جوش کا اظہار کروں۔ ’’نیا چین زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاؤں! گاؤں! ناچوں، کودوں، اچھلوں، دوڑوں؟ ۔۔۔

    سامنے ہی کوئی سو گز پر ریل گاڑی تھی۔ ایک سپیشل ٹرین جو مجھے سرحد سے کینٹن لے جانے والی تھی۔ نہ جانے کیوں میں بے تحاشا اس کی طرف دوڑ پڑا۔ شاید اس لیے کہ میں چاہتاتھا کہ جلد سے جلد میں اس ٹرین میں سوار ہوجاؤں اور یہ ٹرین چل پڑے، اور مجھے کینٹن اور کینٹن سے پی کنگ پہنچا دے۔ مگر میں چند قدم بھی نہ جا پایا تھا کہ ایک کڑی، فوجی آواز کان یں پڑی۔ چینی الفاظ کے معنی تو نہ سمجھ سکا مگر اتنا ضرور سمجھ گیا کہ مجھے ٹھہرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ ٹھٹھک کر میرے قدم رک گئے۔ اور جیسے ہی میں مڑا میں نے ایک پستول کی نالی کو اپنی ناک کی چند انچ کے فاصلے پر پایا۔ گھبراکر میں ہندوستانی ہی میں بول پڑا۔ ارے بھائی یہ کیا مذاق ہے یہ بندوق پستول کبھی بے بھرے بھی چل جایا کرتے ہیں۔ پستول کی نالی نے اشارہ سے مجھے حکم دیا کہ ایک طرف کو ہوجاؤں اور سپاہیوں کے ساتھ ساتھ چلوں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسی پل میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

    مگر اتنی ہی دیر میں میرے چینی ساتھی جو میرا سامان سرحد کے پار لانے کے سلسلے میں پیچھے رہ گئے تھے، وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے چینی میں سپاہیوں کو بتایا کہ یہ بے ڈھب اجنبی چیانگ کائی شیک کا ایجنٹ نہیں ہے۔ بلکہ چینی عوامی حکومت کا مہمان ہے۔ پھر ٹارچ کی روشنی میں میرے پاسپورٹ پر لگی ہوئی چینی سفارت خانے کی مہریں دکھائی گئیں۔ پستول واپس پیٹی میں پہنچ گیا۔ تینوں سپاہیوں کے چہروں پر جھینپی اور شرمندہ سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ اور اس کے بعد تو ہر ایک نے دو دو تین تین بار مجھ سے ہاتھ ملایا۔

    اسپیشل ٹرین میں صرف ایک گاڑی تھی۔ اس میں چھ سونے کے کمرے تھے، پانچ خالی۔ صرف ایک میں میرے لیے بستر لگا ہوا تھا۔ میز پر گرم چائے سے بھرا ہوا چائے دان فوراً لاکر رکھ دیا گیا۔ ابھی میرا سامان رکھا ہی جارہا تھا کہ جنگلی پھولوں کے بڑے بڑے گلدستے لیے ایک نوجوان لڑکی اور دو نوجوان لڑکے داخل ہوئے۔ وہ تینوں اس سرحدی گاؤں شم چن کے نمائندے تھے۔ ایک مزدور یونین کا نمائندہ، ایک طالب علموں کا نمائندہ اور لڑکی عورتوں کی انجمن کی نمائندہ۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ وہ لڑکی گاؤں کے ہسپتال میں نرس ہے۔ دونوں لڑکے اور لڑکی تینوں نیلے رنگ کے بند گلے کے کوٹ اور پتلون اور ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے جو نئے چین کے کارکنوں کی وردی ہے۔ اور جسے ریل کے خلاصی سے لے کر چیرمین ماؤسے تنگ تک ہر کوئی پہنتا ہے۔

    بعد میں وفد کے دوسرے اراکین کے ساتھ کتنے ہی بڑے بڑے جلسوں میں شریک ہوا جہاں غیرملکی مہمانوں کا استقبال بڑی شان سے قیمتی پھولوں اور بینڈ باجوں اور جھنڈوں اور گانوں اور ناچوں اور تالیوں سے کیا گیا۔ مگر اپنے خلوص اور سادگی اور بے ساختگی کے لیے مجھے شم چن کا یہ استقبال ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان تینوں نوجوان نمائندوں میں سے کسی کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ مگر ان کی مسکراہٹ، ان کی آنکھوں کی چمک، ان کے ہاتھوں کی گرمی جس محبت اور خلوص سے میرا استقبال کر رہی تھی اسے الفاظ کی ترجمانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

    تھوڑٰی دیر میں ہی یہ میرے نئے دوست رخصت ہوگئے۔ اور ریل روانہ ہوگئی۔ اسی راستے سے چالیس برس پہلے سن یات سین انقلاب برپا کرنے ہانگ کانگ سے کینٹن گئے تھے۔ کینٹن جنوبی چین کی راجدھانی جہاں چینی انقلاب ۱۹۱۱ میں شروع ہوا، اور جہاں ۱۹۴۹کے اخیر میں چینی انقلاب کی تکمیل ہوئی اور کل ہوائی جہاز سے میں پی کنگ پہنچ جاؤں گا۔ اور دس گھنٹے میں وہ تاریخی راستہ طے کرلوں گا جسے طے کرنے میں چینی انقلابیوں کو چالیس خونی سال گزارنے پڑے۔ یہ سوچتا ہوا میں سوگیا۔۔۔ مگر ان جنگلی پھولوں کی دھیمی دھیمی خوشبو رات بھر میری نیند کو معطر کرتی رہی۔

     

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 342)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے