Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس

اظہار اثر

ترقی پسند مصنفین کی کل ہند کانفرنس

اظہار اثر

MORE BYاظہار اثر

    اور آخر ہندوستان کی دلہن دلی کا دل ۱۷/اپریل ۷۶ء کو جگمگا اٹھا۔ دلی کا یہ دل جدید و قدیم تہذیبوں کا گنگا جمنی سنگم بستی نظام الدین کا علاقہ ہے جہاں ایک طرف عالیشان ماڈرن کوٹھیاں ہیں تو دوسری طرف پرانے طرز کے بنے ہوئے کچے پکے مکانات۔ جہاں ایک طرف ہر شام سڑکوں اور پارکوں میں رنگ و نور کا سیلاب امڈ آتا ہے جو پیاسی نظروں اور بیتاب دلوں کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ تو دوسری طرف روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار مبارک ہے۔

    دلی کا یہ دل جہاں امیر خسروؔ اور غالبؔ جیسے فنکار اپنی اپنی آخری آرام گاہ میں محو خواب ہیں، جہاں چونسٹھ کھمبا نام کی پرانی شاندار عمارت ہے، وہیں ایک ماڈرن عمارت ’’غالب اکیڈمی‘‘ ہے۔

    یہی دلّی کا دل ہے۔۔۔ جو آج ایک نئے انداز سے دھڑک رہا ہے جس میں ہماہمی ہے، چہل پہل ہے۔ زندگی رواں دواں نظر آرہی ہے۔ تابناک چہرے، ستاروں کے مانند چمکتی آنکھیں، پیار بھرے الفاظ، لوگ ایک دوسرے سے مصافحے کر رہے ہیں۔ گلے مل رہے ہیں، قہقہے، سرگوشیاں۔۔۔ آخر یہ کون لوگ ہیں؟

    ان میں سے بہت سے لوگ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہ تھے۔ شاید صرف نام سنا تھا۔ لیکن اب اس طرح مل رہے ہیں جیسے صدیوں سے شناسا ہوں۔

    میں سڑک پر کھڑا اس منظر سے لطف لے رہا ہوں۔ ایک صاحب یہ رونق دیکھ کر مجھ سے سوال کرتے ہیں، ’’آج یہاں کیسا جلسہ ہو رہا ہے؟‘‘

    میں دیوار پر لگے ایک بینر کی جانب انگلی اٹھا دیتا ہوں جس پر موٹے موٹے لفظوں میں لکھا ہے، ’’اردو کے ادیبوں کی کانفرنس اور سمینار۔‘‘

    سامنے ہی ڈاکٹر قمر رئیس، ڈاکٹر اجمل اجملی اور سردار جعفری بڑے انہماک سے گفتگو میں مصروف ہیں۔ غالب اکیڈمی کے چھوٹے سے دفتر میں ممتاز مرزا رسید بک اور قلم سنبھالے بیٹھی ہیں جو مندوبین سے پانچ روپے فی کس فیس وصول رہی ہیں اور ڈیلیگیٹ بیچ دے رہی ہیں۔ اندر ہال میں عصمت آپا، قراۃ العین حیدر، غلام ربانی تابان اور کیفی اعظمی باتوں میں منہمک ہیں۔

    بھوپال، امروہہ، لکھنو، کانپور، مالیگاؤں، بمبئی غرض کہ ہندوستان کے کونے کونے سے مندوبین آئے ہیں۔

    ہلچل صرف دہلی میں ہی نہیں سارے ہندوستان میں ہے۔

    ترقی پسند اذہان میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑی ہے۔

    ترقی پسند اذہان میں زندگی کی ایک نئی امنگ پیدا ہوئی ہے۔

    ہلچل مخالف صفوں میں بھی ہے۔ کئی دن سے نام نہاد جدید مصنفین سرگوشیوں میں مصروف ہیں۔ ان کے چہروں پر حیرت کے ساتھ خوف و ہراس کے آثار بھی ہیں۔

    ترقی پسند قوتیں آج پھر نئے سرے سے اپنی تنظیم کرنے کے لیے غالب اکیڈمی میں اکٹھی ہوئی ہیں۔

    مندوبین کا اجلاس شروع ہونے کا وقت ہوچکا ہے۔ تاباں ڈائس پر آچکے ہیں۔ اور مجلس صدارت کے ناموں کا اعلان کر رہے ہیں۔

    میں بے چینی سے بار بار دروازے کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ رحمان نیر ایڈیٹر ماہنامہ روبی اور بیسویں صدی نے مندوبین کو فائلیں تقسیم کرانے کی ذمہ داری میرے سرڈال دی ہے۔ فائلیں آچکی ہیں لیکن ان کا آدمی ابھی تک پیڈ اور قلم لے کر نہیں آیا ہے۔

    مجلس صدارت کے ممبر عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ڈاکٹر محمد عقیل، کیفی اعظمی اور سردار جعفری اور استقبالیہ کمیٹی کے صدر آنند نرائن ملا اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ غلام ربانی تاباں اجمل اجملی سے جنرل سکریٹری کی رپورٹ پڑھنے کو کہہ رہے ہیں۔

    چھوٹے سے قد کے ہنس مکھ، ہینڈسم اور دل کے بیمار ڈاکٹر اجمل اجملی کس قدر باہمت شخص ہیں، ان کے دل میں کام کرنے کی کس قدر لگن ہے۔ چند دن ساتھ رہ کر مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شخص گوشت پوست کا نہیں۔ فولاد کا بنا ہوا ہے۔

    رپورٹ پڑھ رہے ہیں۔

    اسی وقت مجھے رحمٰن نیر کا چپراسی نظر آتا ہے۔ میں بھاگ کر باہر جاتا ہوں۔ فائلوں میں پیڈ اور قلم رکھنے میں کئی رضاکار مصروف ہوجاتے ہیں۔ کچھ رضاکار مندوبین کو ان کی کرسیوں پر ہی فائلیں تقسیم کرنے لگتے ہیں۔ میں ہال میں واپس آنا چاہتا ہوں کہ رئیس مرزا میرا راستہ روک لیتے ہیں۔

    رئیس مرزا دلی کی کلچرل سوسائٹی کی روح رواں ہیں۔ بیس پچیس سال پہلے کمیونسٹ پارٹی کا سنگنگ اسکواڈ دلی اور قرب و جوار کے علاقوں میں بہت مشہور اور مقبول تھا۔ جس میں رئیس مرزا اور میں شامل تھے۔

    آج رئیس مرزا مطبخ کے انچارج ہیں یعنی مندوبین کے قیام و طعام کی ساری ذمہ داری ان کے سر ہے۔ کھانے کے خرچ کی ذمہ داری شہر کے چند ادب دوست اور صاحب استطاعت حضرات نے لی ہے، ایک وقت کے کھانے کا بندوبست میرے ایک کرم فرما ع۔ حامد صاحب نے کیا ہے۔ رئیس مرزا مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ حامد صاحب کس دن اور کس وقت کے کھانے کا بندوبست کرسکیں گے۔ میں ان سے وقت طے کر کے ہال میں داخل ہوتا ہوں، اس وقت سردار جعفری مندوبین سے مخاطب ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں۔۔۔

    ’’ابتدا سے ہی ترقی پسند تحریک اور تنظیم میں مختلف سماجی اور سیاسی نظریات رکھنے والے ادیب شامل رہے ہیں۔ اس کے اولین معماروں میں اگر ایک طرف پریم چند تھے جو بنیادی طور پر گاندھی وادی اور قوم پرست تھے تو دوسری طرف سید سجاد ظہیر تھے جو کھلے ہوئے اشتراکی تھے۔ تنظیم میں شامل ہونے والے ادیب وہی تھے جو اس کے مینی فیسٹو سے اتفاق رکھتے تھے۔ لیکن تنظیم کے باہر بہت سے ادیب اپنی تخلیقات میں ترقی پسند اقدار پر زور دے رہے تھے۔‘‘

    دس پندرہ سال کے تعطل کے بعد تنظیم میں نئی روح پھونکنے کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے سردار جعفری مندوبین کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ تنظیم کی ضرورت اور اس کے نام کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظار کریں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’اگر کل ہند تنظیم اسی نام سے بنائی جائے تو ایسی دوسری انجمنوں کو اس سے الحاق کی اجازت دی جائے جو کسی دوسرے نام سے لیکن ان ہی مقاصد کو سا منے رکھ کر کام کر رہی ہوں۔‘‘

    سردار جعفری کی بات کچھ واضح نہیں تھی اس لیے قیصر شمیم، سرفراز عثمان اور میں نے کچھ اعتراضات کیے۔

    سردار جعفری دوسری بار اسٹیج پر آئے اور اپنی بات کی وضاحت کی۔ اصل بحث کا آغاز قاضی عبدالستار نے کیا۔

    چست پاجامہ، بھورے رنگ کی شیروانی، مسکراتی ہوئی آنکھوں پر عینک، پیچھے کو پلٹے ہوئے بال۔ قاضی عبدالستار ویسے تو بہت خوش مزاج ہیں لیکن اس وقت غصہ میں ہیں۔ انکا چہرہ تمتمایا ہوا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’مجھے افسوس ہے کہ علی گڑھ میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن گزشتہ بیس سال سرگرمی سے کام کر رہی ہے۔ لیکن رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں اور نہ اس کے بعض اراکین کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔‘‘

    دلچسپ بات یہ ہے کہ جن اراکین کا ذکر قاضی عبدالستار کر رہے ہیں ان میں ایک خود تاباں صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ تاباں صاحب قاضی عبدالستار کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور نہایت نرم اور سنجیدہ لہجہ میں ان کے اعتراضات کے جواب دے رہے ہیں۔

    ڈاکٹر قمر رئیس ایک طرف بیٹھے بڑی تیزی سے ’نوٹس‘ لے رہے ہیں۔

    ذرا بھاری جسم، دراز قد آنکھوں میں ذہانت کی چمک، دلآویز نقوش کے مالک ڈاکٹر قمر رئیس گزشتہ پندرہ دن سے مسلسل بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں جس کی تھکان چہرہ کی اس تابناکی کی تہہ میں محسوس کی جاسکتی ہے جو کانفرنس کے کامیاب افتتاح کے باعث ان کے چہرے پر جھلک آئی ہے۔ وہ مجھے دیکھ کر کہتے ہیں۔

    ’’اظہار۔۔۔ تمہیں اس کانفرنس کا رپوتاژ لکھنا چاہیے۔‘‘

    ’’میری خواہش بھی یہی ہے۔‘‘ میں جواب دیتا ہوں۔

    ’’لیکن میرے سر پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں ایسے میں مسلسل نوٹس نہیں لے سکوں گا۔ بعد میں آپ اپنی رپورٹ مجھے دے دیں تاکہ میں اپنی کمی پوری کرسکوں۔‘‘

    قمر رئیس مجھے اپنی رپورٹ دکھانے کا وعدہ کرلیتے ہیں۔

    ڈائس پر اب مجلس استقبالیہ کے صدر آنند نرائن ملا آچکے ہیں۔ دوسری صف میں احمد جمال پاشا اور ان کی بیگم بیٹھی ہیں۔ احمد جمال پاشا کی تحریروں کے ذریعہ ان سے غائبانہ تعارف ہے۔ اس کانفرنس میں پہلی بار ملاقات ہوئی ہے۔ چھوٹے سے قد اور گورے رنگ کے وجیہہ آدمی ہیں۔ خالص لکھنوی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ نرم نرم دھیمے دھیمے لہجہ میں پائپ کے ساتھ ان کی شخصیت مشرق و مغرب کا سنگم نظر آنے لگتی ہے۔ میں ان کے برابر میں ایک کرسی پر بیٹھ جاتا ہوں۔ ملا صاحب کہہ رہے ہیں،

    ’’میرے نزدیک اپنے عہد کی قدروں کی ترجمانی کرنے والے ارتقا یافتہ ادب کا نام ترقی پسند ادب ہے۔ اسے بیشک ایک منظم لیکن وسیع تحریک کی صورت دی جائے۔‘‘

    ’’ترقی پسند ادب ماضی و حال دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔‘‘

    ’’اردو ادب کی زندگی ترقی پسند ادب سے منسلک ہے۔‘‘

    ’’لیکن وہ فنکار جن کے فکر و فن میں زندگی ہوتی ہے۔ خواہ وہ اس انجمن سے متعلق ہوں یا نہ ہوں کیا ان کو کوئی مارسکتا ہے۔‘‘

    ’’اصل میں اولیت انسانی قدروں کو دینی چاہیے۔ چالیس سال میں ترقی پسند ادب میں تخلیق کم اور مخصوص سیاسی نظریہ کا اظہار زیادہ ہوا ہے۔ تحریک کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے۔‘‘

    ’’چین کے حملے کے وقت ترقی پسند ادباء نے احتجاجی ادب تخلیق نہیں کیا۔‘‘

    ملا صاحب کو اردو سے والہانہ محبت ہے۔ وہ جج، شاعر اور ممبر پارلیمنٹ ہیں یعنی تین مختلف شخصیتوں کے مالک ہیں، لیکن کبھی کبھی جب ان کے اندر کا جج بیدار ہوتا ہے تو وہ بہت جلد فیصلے سناڈالتے ہیں۔

    ڈاکٹر سید عقیل ملا صاحب کی آخری چند باتوں کا جواب دے رہے ہیں،

    ’’جاں نثار اختر کی نظم ’’ہم ایک ہیں‘‘ چین کے خلاف احتجاجی نظم تھی۔‘‘

    لیکن وہ بھی صرف ایک حوالہ دے کر خاموش ہوگئے ہیں جب کہ مجروح کی غزل کا بھی حوالہ دیا جاسکتا تھا۔ اس کے علاوہ ’’پاک زمین ناپاک قدم‘‘ میں عشرت کرتپوری نے وہ تمام نظمیں اکٹھا کی تھیں جو چین کے خلاف اردو شعرا نے لکھی تھیں ان میں زیادہ تر ترقی پسند شاعر تھے۔ میری تین صفحات کی طویل نظم بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔

    ملا صاحب کے دوسرے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے سردار جعفری مائک پر آگئے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’ملا صاحب کی تقریر قوم پرستی کا جذبہ لیے ہوئے تھی۔ ترقی پسند تحریک کے ایک سرے پر قوم پرستی تو دوسرے سرے پر اشترکیت ہے اور ان کے درمیان ہزار رنگ۔۔۔‘‘

    شعرا اور ادبا کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنا ایسا ہی ہے جیسے مینڈک کو ترازو میں تولنا۔

    ’’تاہم تحریک کی جدید تنظیم میں ان نکات کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا جن کی طرف ملا صاحب نے توجہ دلائی۔‘‘

    اب مائک پر نیشنل پروگریسیو رائٹرز فیڈریشن کے جنرل سکریٹری اور ہندی کے مشہور ادیب بھیشم ساہنی آچکے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’زندگی اور انسانی قدروں پر ترقی پسند ادب کی بنیاد ہے۔۔۔ لہٰذا سماجی جدوجہد سے ادیب و شاعر کا منسلک ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘

    ’’ہمارے بیسویں صدی کے ادب میں تین ادوار ہیں۔ پہلا دور اصلاح پسندی کا دور تھا۔ دوسرا تحریک آزادی کا اور آج کا تیسرا دور ملک میں سماج واد کی تعمیر کا دور ہے۔ اس دور کے بے شمار مسائل ہیں۔ ترقی پسند ادیب جن سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔‘‘

    ملا صاحب کے چند اعتراضات نے مندوبین میں جوش و خروش کی ایک لہر دوڑا دی۔

    انیس جلالی شعلہ جوالا بنے مائک پر کہہ رہے ہیں۔

    ’’ملا صاحب نے انسانی قدروں پر زور دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ انسانی قدریں کیا ہیں۔۔۔ کیا وہ تغیر پذیر سماجی نظام سے اور اس کی آویزش سے الگ اپنا کوئی وجود رکھتی ہیں۔‘‘

    انیس جلالی نے اس الزام کی بھی تردید کی ہے کہ ترقی پسند ادیب تنگ نظر ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد عقیل دوبارہ مائک پر ہیں اور کہہ رہے ہیں،

    ’’آج کے ادبی اور اجتماعی حالات تیس چالیس سال قبل کے حالات سے بہت مختلف ہیں۔۔۔ نئی پود کے ادیب دوسرے ڈھنگ سے سوچ رہے ہیں۔ آج ہمارا مینی ویسٹو ہی ہماری زندگی ہے۔۔۔ ترقی پسندی یہی ہے کہ ہم زندگی کو آگے بڑھانے والی قوتوں کا ساتھ دیں۔‘‘

    کشمیری لال ذاکر اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ترقی پسند ادب کے ساتھ اردو زبان کی زندگی کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ اردو زبان کی تعلیم کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ ترقی پسند ادیبوں کو اردو زبان کی بقا کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔

    قرۃ العین حیدر تحریک کی نئی تنظیم سے بہت خوش ہیں۔ گہرے رنگوں کی پھولدار ساڑھی میں ملبوس۔ آنکھوں کے کونوں سے کاجل کی لکیریں جھانکتی ہوئیں، سلیقہ سے لپ اسٹک ہونٹوں پر سجائے وہ کہہ رہی ہیں،

    ’’آج واضع طور پر اردو ادب میں دودھارے ہیں۔ ایک ترقی پسند فکر کا دھارا ہے۔ اور دوسرا بیمار ذہنیت کا دھارا۔ مجھے خوشی ہے کہ ترقی پسند تحریک کی نئے سرے سے تنظیم کی جارہی ہے۔ لیکن ہمیں تنگ نظری کے رویہ کو ختم کردینا چاہیے۔‘‘

    کوثر چاند پوری بہت نستعلیق شخصیت ہیں۔ جب ملتے ہیں وہی سفید شیروانی، چست پاجامہ اور ہنستا ہوا چہرہ، وہی خلوص بھری مسکراہٹ۔ عمر ساٹھ کے لگ بھگ ہونی چاہیے لیکن چہرہ پر جوانوں جیسا جلال ہے۔

    ان کے قلم میں بھی جلال ہے۔ اپنے بچپن سے کوثر صاحب کو پڑھتا چلا آرہا ہوں۔ وہ زمانے کے ساتھ چلنا جانتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں۔۔۔ ’’ترقی پسند تحریک ایسا زبردست طوفان تھی جس نے ساری دنیا کے ادب کو متاثر کیا ہے۔ اور آج بھی اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔‘‘

    کوثر صاحب کے بعد ڈاکٹر خلیق انجم اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں۔ جو لوگ بحث میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ چٹوں پر اپنے اپنے نام لکھ کر مجھ تک پہنچا رہے ہیں اور مجھے بار بار اسٹیج پر جانا پڑ رہا ہے۔ خلیق انجم مائک پر کہہ رہے ہیں،

    ’’آج ترقی پسندوں کے سامنے یہ سوال ہے کہ اس کا مینی فیسٹو کیا ہو۔ رپورٹ میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ تقریباً وہی ہیں جو کانگریس بھی کہتی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ترقی پسند ادیبوں کی انجمن میں شامل ہونے والے ادیبوں کا کیا معیار ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی ادیب چاہے تحریک میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن ترقی پسند رجحانات کا حامل ہو تو ہمیں اس کو اپنا لینا چاہیے۔

    اقبال مسعود، غلام جیلانی اور احمد فاطمی کو یہ شکایت ہے کہ کانفرنس میں زیادہ سے زیادہ نوجوان ادیبوں کو بلانا چاہیے تھا۔

    لنچ کا وقت ہوچکا ہے۔ اب غلام ربانی تاباں مائک پر مندوبین کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ شام کو پانچ بجے سے سمینار کے پہلے اجلاس کا اعلان کر رہے ہیں۔

    رئیس مرزا پسینہ میں شرابور بھاگے ہوئے آئے ہیں اور دور سے مجھے بلانے کا اشارہ کر رہے ہیں۔ میں ان کے پاس جاتا ہوں وہ کہتے ہیں،

    ’’کھانے میں پندرہ منٹ کی دیر ہے، تم مہمانوں کو پندرہ منٹ بعد لے کر آنا۔‘‘

    اجلاس ختم ہوچکا ہے۔ ایک بار پھر غالب اکیڈمی کے باہر کسی جشن کا سا سماں بندھ جاتا ہے۔ عصمت آپا سفید ساڑھی، سفید بالوں اور سیاہ عینک میں ادیب سے زیادہ سیاسی رہنما نظر آرہی ہیں۔ بھوپال سے آئے ہوئے بلند قامت خوش رو، خوش لباس، اختر سعید بھی لیڈر لگ رہے ہیں۔

    لوگ ٹکریاں بنائے باتوں میں مصروف ہیں۔ اجلاس میں بحثوں پر ابھی تک تبادلۂ خیال ہو رہا ہے۔ ایک کونے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ بلراج مین را اور باقی کھڑے باتیں کر رہے ہیں۔ قمر رئیس اچانک پیچھے سے آکر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔

    ’’کھانے کا کیا ہوا بھائی‘‘

    ’’بس تیار ہے‘‘

    ’’تو مہمانوں کو لے چلو‘‘

    مندوبین کے قیام کے لیے ایک کوٹھی خالی کرائی گئی ہے، جو غالب اکیڈمی سے مشکل سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔

    باہر دھوپ کی تمازت ہے۔

    اندر جذبات کی حدت ہے۔

    قرب و جوار میں کئی ہوٹل ہیں جن سے شامی کبابوں کی خوشبو پھوٹ رہی ہے اور بو فضا میں گھل کر اشتہا بڑھا رہی ہے۔ درگاہ نظام الدین پر جانے والے عقیدت مند لوگ حیرت سے ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے گزر رہے ہیں جو گرد و پیش سے بے خبر مصافحے کر رہے ہیں، قہقہے لگا رہے ہیں، تعارف ہو رہے ہیں، شکایتیں ہو رہیں ہیں، آئندہ رسم و راہ قائم رکھنے کے وعدے ہو رہے ہیں۔ پندرہ منٹ گزرچکے ہیں، اس لیے ہر ٹکڑی کے پاس جاکر کہتا ہوں،

    کھانا تیار ہے پلیز تشریف لے چلیے۔

    ’’ارے بھئی چلیں کہاں؟‘‘ عصمت آپا کہتی ہیں۔

    ’’میرے ساتھ آئیے‘‘

    میں رہنمائی کرتا ہوں۔ ٹکڑیاں حرکت میں آتی ہیں۔ دھوپ بہت تیز ہے۔ قرۃ العین حیدر ایک کتاب سے سر پر سایہ کیے چل رہی ہیں۔ قافلے کا ایک سرا مہمان خانے تک پہنچ جاتا ہے۔

    کوٹھی میں قدم رکھتے ہی بریانی کی خوشبو ناک میں گھستی ہے۔ رئیس مرزا رضاکاروں کی فوج کے ساتھ تیار کھڑے ہیں۔ کوٹھی میں تین بڑے کمرے ہیں، مہمانوں کو الگ الگ کمروں میں بٹھایا جارہا ہے۔ سردار جعفری، تاباں، اختر سعید، کیفی اعظمی ایک کمرے میں دوستوں کے نرغہ میں گھرے باتیں کم اور کھانے کا انتظار زیادہ کر رہے ہیں۔ دوسرے کمرے میں عصمت آپا، قرۃ العین حیدر، بیگم احمد جمال پاشا، حسن نعیم، احمد جمال پاشا اور دوسرے لوگ ہیں۔ تیسرے کمرے میں عتیق احمد عتیق، متین اختر، عزیز اندوروی، رشید عارف، اویس احمد دوراں وغیرہ ہیں۔ کھانا تیار ہے صرف روٹیوں کا انتظار ہے۔ میں جس کمرے سے گزرتا ہوں ایک ہی مطالبہ ہے،

    ’’ارے بھئی کتنی دیر ہے‘‘

    آخر روٹیاں آجاتی ہیں۔ دسترخوان بچھتے ہیں۔ پلیٹیں چنی جاتی ہیں۔ کھانے میں قورمہ، بریانی اور زردہ ہے۔ بھوک اور بڑھ جاتی ہے، چہرے اور دمک اٹھتے ہیں۔ حسن نعیم کہہ رہے ہیں،

    ’’کھانا قطعی بورژوائی ہے‘‘

    ’’خالص فیوڈلزم کی یادگار۔‘‘ قرۃ العین حیدر کہتی ہیں۔ اس پر قہقہے لگتے ہیں۔ مقامی ڈیلیگیٹ بھی کھانے میں شامل ہیں۔ کھانے کے ساتھ ساتھ لطیفے بھی جاری ہیں۔

    میں تین کمرے میں بٹا ہوا ہوں۔ کسی کو کسی چیز کی کمی نہ رہے، انتظامیہ کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت یہ دیکھنا میرا کام بھی ہے۔ رضاکار بھاگ بھاگ کر کھانوں کی ڈشیں لارہے ہیں، قمر رئیس اور اجمل اجملی بھی میزبانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    کھانا کھاتے کھاتے تین بج جاتے ہیں۔ سمینار کا پہلا اجلاس پانچ بجے شروع ہونا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد مہمان وہیں کچھ دیر آرام کرتے ہیں۔ کچھ سرپھرے اس چلچلاتی دھوپ میں گھومنے نکل جاتے ہیں۔ کچھ چائے خانوں کی زینت بڑھاتے ہیں۔ مجھے کانفرنس کے سلسلے میں کچھ ضروری کام کرنے ہیں۔ اس لیے میں چپکے سے کھسک جاتا ہوں۔

    ٹھیک پانچ بجے دوسرا اجلاس شروع ہوا۔ مجلس استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے آنند نرائن ملا ڈائس پر آچکے ہیں۔ پورا ہال اوپر اور نیچے کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ ملا صاحب ایک طائرانہ نظر سامعین پر ڈال کر کہہ رہے ہیں،

    ’’ہم لوگ جو منتشر ہوگئے تھے اب وقت آگیا ہے کہ پھر ایک کارواں کے ساتھ آگے قدم بڑھائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان چند برسوں کی خاموشی سے ہماری تحریک کو اتنا نقصان ہوا جس کا اندیشہ تھا۔‘‘

    وہ ترقی پسند تحریک میں تعطل کا اپنے طور پر تجربہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں،

    ’’ایک زمانے میں ترقی پسند تحریک کو ادبی محاذ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس کے نتیجہ میں سیاسی نعروں کو اہمیت دی جانے لگی۔‘‘ اصل میں ترقی پسندی ذہن و فکر کی ترقی سے عبارت ہے۔ ’’آج اردو میں ایک نیا ادبی گروہ سامنے آرہا ہے جس کو میں گمراہ کہوں گا جو فکر و شعور کا ابلاغ تو بڑی بات ہے بچوں کی طرح ’’غوں غاں‘‘ بھی نہیں کرپاتا۔ جسے زبان و بیان پر قابو نیں۔ جو الجھی ہوئی موہوم اور مبہم باتیں کرتا ہے۔ ’’ترقی پسندوں کی مقبولیت کا راز اسی میں ہے کہ انہوں نے اجتماعی درد کو انفرادی درد پر ترجیح دی۔‘‘

    ملاّصاحب ادب سے سیاست کی طرف آجاتے ہیں۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ان کے یہاں سیاسی، قانونی اور ادبی تین شخصیتیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں، وہ کہہ رہے ہیں۔

    ’’ایک فلاحی ریاست اور سوشلسٹ ریاست میں جو فرق ہے، وہ تشدد کافرق ہے۔ میں تشدد کا روادار نہیں۔‘‘

    (ملا صاحب کا مقصد ہے کہ سوشلسٹ ریاستیں تشدد سے کام لیتی ہیں خدا جانے ویت نام، کوریا، اسرائیل کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے۔)

    سیمینار کے الاس کا موضوع ہے ’’ترقی پسند تنقید کے چالیس سال‘‘

    ڈاکٹر شارب رودولوی، قاضی عبدالستار اور ڈاکٹر محمد حسن کو مقالے پڑھنے کی دعوت دی گئی تھی چنانچہ شارب رودولوی ڈائس پر کھڑے مقالہ پڑھنے کی تیاری میں اپنی عینک کے شیشے صاف کر رہے ہیں۔ دراز قد، گورا رنگ، قفقازی نقوش، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ یہ ہے ڈاکٹر شارب کی پرکشش شخصیت۔ پہلے یونیورسٹی میں استاد تھے، آج کل ترقی اردو بورڈ کی گاڑی دھکیلنے میں مصروف ہیں جس کے پہیے پنکچر ہوچکے ہیں۔

    شارب رودولوی اپنے مقالہ کا آغاز کرتے ہیں۔ دھیما لہجہ بھاری بھرکم آواز، ایک ایک لفظ پرزور، لوگ ہمہ تن گوش سن رہے ہیں۔ اپنے مقالہ کے ذریعے وہ سامعین کو بتارہے ہیں کہ ترقی پسند نقادوں میں بالخصوص اختر حسین رائے پوری، مجنوں کورکھپوری، سید احتشام حسین، ممتاز حسین، ڈاکٹر محمد حسن اور دوسرے نقادوں نے پہلی بار نظریاتی اور عملی میدان میں کچھ اصولوں کی بنیاد پر ادب کی معروضی اور سائنسی روایات کو پروان چڑھایا ہے۔

    لیکن قاضی عبدالستار تصویر کا دوسرا رخ پیش کر رہے ہیں وہ اس وقت بھی غصہ میں معلوم ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’سماجی حقیقت نگاری کے اصول و ضوابط مرتب نہیں کیے گئے۔ فنکار نقاد کی گردن پر سوار پایا گیا ہے۔‘‘

    ہندوستان کی روح کسان ہے، گاؤں ہے جب کہ ماضی کی تنقید مزدور کے محور پر گھومتی رہی ہے۔ اس لیے وہ بے مایہ ہوجائے گی۔ اس نے سب سے بڑی سماجی حقیقت کسان کو نظرانداز کیا ہے۔

    ’’مستقبل میں ترقی پسند نقادوں کو سماجی جمالیات کی واضح آئین بندی کرنا پڑے گی۔‘‘

    تیسرا مقالہ پروفیسر محمد حسن کا ہے۔ پروفیسر محمد حسن گوناگوں شخصیت کے مالک ہیں۔ پتلے دبلے، تیکھے نقوش، گفتگو میں حلیمی، عینک کے شیشوں سے جھانکتی ہوئی ذہین آنکھیں آج کل تنقید کے ساتھ نثری نظمیں بھی لکھ رہے ہیں، وہ فرمارہے ہیں،

    ’’پریم چند کا خطبہ آج بھی ادیبوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے سکتا ہے۔‘‘

    ’’ترقی پسند تحریک بہت سے نشیب و فراز سے گذری ہے۔ اسی تحریک کا فیضان ہے کہ ادب دانش حاضر کا ایک حصہ بنا۔ عالمی ادب اور عالمی شعور سے فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ اس میں تاریخی قوتوں اور معاشی عناصر کی کارفرمائی ہوئی اور اس کے سہارے ادبی تنقید میں بھی معروضیت کے انداز پیدا ہوئے۔ لیکن ترقی پسند تنقید پر گروہ بندی اور سطحی پروپیگنڈے کے الزامات کیوں عائد ہوئے؟ ادب کے طبقاتی مطالعہ کی اہمیت ممتاز حسین کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتی۔ نظریاتی گہرائی اور فصاحت کے فقدان نے تنقید کو سیاست سے وابستہ کردیا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کس ادیب کی تحریریں کس طبقہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سماجی تبدیلی کی خواہش کس رخ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ترقی پسند تنقید نے مزدور اور کسانوں کا نام تو لیا، ان کے رنگ میں آپنے آپ کو رنگ نہ سکی۔ اس میں میکانیکی سطحیت پیدا ہوتی گئی۔ آج جدیدیت کی یلغار نے پھر ثابت کردیا ہے کہ سماجی انقلاب کے لیے ذہنی انقلاب لازم ہے۔ محنت کشوں کی تہذیبی رہبری کو قبول کرنا ضروری ہے۔ محنت کش طبقوں سے مکمل ہم آہنگی کے بغیر ادب اور تنقید آگے نہیں بڑھ سکتی۔‘‘

    ڈاکٹر محمد حسن صاحب سچ بات کہنے سے کبھی نہیں جھجھکے۔ خود تنقیدی دراصل ترقی پسند اذہان کی ایک خصوصیت ہے۔ خود تنقیدی سے ہی اپنی اور تحریک کی کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔

    ترقی پسندی اور نام نہاد جدیدیت میں یہی فرق ہے۔ جدید ادب کے نقاد جن کے سب سے بڑے رہنما شمش الرحمن فاروقی ہیں ادب اور تنقید میں ایک انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جدید نقاد صرف اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ الٹی سیدھی تنقیدیں کرکے اپنی شخصیت ابھاریں، اور نئے لکھنے والوں کو گمراہ کریں۔

    یہ بھی ایک منظم سازش تھی، ترقی پسندی کے خلاف سازش۔ فرق صرف یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک زمانہ کے ساتھ چلنا جانتی ہے، عوام سے رشتہ قائم رکھتی ہے اس لیے آج بھی زندہ ہے اور جدیدیت کا مقصد محض ترقی پسندی کی نفی کرنا تھا اس لیے ختم ہوتی جارہی ہے۔

    ایک طرح سے یہ فاشسٹ قوتوں کی ادبی محاذ پر زبردست شکست ہے۔

    پروفیسر محمد حسن کے مقالے نے بڑا گہرا تاثر چھوڑا ہے۔ سب سے پہلے قرۃ العین حیدر بحث کا آغاز کرتی ہیں،

    ’’ہم سیمیناروں میں بہت اونچی اونچی فلسفیانہ باتیں کرتے ہیں۔ مزدور طبقے اور کسانوں کا ذکر بھی ہوتا ہے۔ لیکن سماج کا بڑا طبقہ پڑھا لکھا نہیں، اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظریات اور ادب عوام تک کس طرح پہنچائیں جائیں۔‘‘

    (اس سوال سے کسی کو انحراف نہیں)

    اب عیق حنفی مائک پر ہیں۔

    چھوٹی سی نوکدار داڑھی، پستہ قد، بھرا ہوا جسم اور آنکھوں پر عینک۔ عمیق حنفی صورت سے کٹر قسم کے مارکسٹ نظر آتے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’سماجیاتی تنقید کو مارکسی اصولوں اور جمالیات پر کاربند ہونا چاہیے۔ سماجیاتی تنقید کا موضوع عالمی سطح پر افسانوی ادب رہا ہے شاعری نہیں، اس لیے کہ افسانوی ادب میں سماجی تصورات کا اظہار واضح شکل میں ہوتا ہے جو شاعری میں ممکن نہیں۔‘‘

    دوسرا مسئلہ اردو زبان کا ہے، یہ ایک ایسی زبان ہے جو مر رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ادب کا سماجی رول کیا ہوگا یہ بھی ہمیں سوچنا ہے۔

    بحث لمحہ بہ لمحہ گرم ہوتی جارہی ہے۔ مقررین کے اسٹیج پر آنے اور جانے کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ چہرے تمتمانے لگے ہیں۔

    حسن نعیم اپنے مخصوص اور دھیمے لہجہ میں کہہ رہے ہیں،

    ’’آج کے دور میں نقاد کو بھی اپنے مطالعہ کے لیے ایک خاص صنف یا خاص میدان کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ترقی پسند نقادوں کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہر صنف ادب پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔‘‘

    شاعروں اور ادیبوں کو نقادوں پر سخت غصہ ہے۔ ادبی ماہناموں میں نقاد فنکاروں کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ اس اجلاس میں فنکار مل کر نقادوں کو انہیں کے سکوں میں قرض لوٹارہے ہیں۔

    رفعت سروش ڈائس پر ہیں۔ ان کے لہجہ سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ابھی گھونسہ مار بیٹھیں گے۔ اپنے قد اور چہرے مہرے سے ویسے بھی وہ باکسر نظر آتے ہیں۔ پوری زندگی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ جب اپنی چھوٹی چھوٹی نظمیں سناتے ہیں تو سننے والوں کے ذہن پر چھا جاتے ہیں۔ ’’اوپرا‘‘ اور طویل نظموں میں بھی انہوں نے بہت سے کامیاب تجربات کیے ہیں۔ اس وقت صرف لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ ان کو نقادوں سے یہ شکایت ہے کہ آج تک نقاد فنکاروں کا استحصال کرتے آئے ہیں اب یہ طریقہ ختم ہوناچاہیے۔

    رفعت سروش اپنی پرجوش تقریر کے بعد واپس جارہے ہیں۔ اور سردار جعفری اپنے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے مخصوص انداز میں سمیٹتے ہوئے مائک پر آرہے ہیں۔ سردار جعفری بذات خود ترقی پسند ادب کی تاریخ ہیں۔ بنّے بھائی کی بے وقت موت کے بعد سردار جعفری ہی ایک ایسی شخصیت رہ گئے ہیں جو ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں کہے جاسکتے ہیں۔ وہ دوٹوک بات کہنے کے عادی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’اگر ادب کو عوام تک لے جانا ہے تو اس کی سطح دوسری ہوگی۔ اس میں رمزی اور علامتی اظہار کا رنگ گہرا نہیں ہوسکتا۔ ترقی پسندوں نے ایسی شاعری کے کامیاب تجربے کیے ہیں۔ انقلابی شاعروں میں پبلو نرودا، مایا کو فسکی اور نذرالاسلام کی شاعری بھی بڑی حدتک راست اظہار کی شاعری ہے، جسے عوام سمجھتے آئے ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر اجمل اجملی ابھی بھی باہر سے ہال میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے سے تھکان ظاہر ہے۔ ایک بار دل کا دورہ پڑچکا ہے۔ ڈاکٹر نے ان کو زیاد جسمانی محنت کرنے کی سختی سے ممانعت کر رکھی ہے۔ لیکن وہ صبح سے بھاگے پھر رہے ہیں۔ سیمینار شروع ہونے سے پہلے قمر رئیس، رئیس مرزا اور میں اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ کچھ دیر آرام کرلیں، لیکن وہ دل سے زیادہ اپنے عقیدوں سے محبت کرتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کی نئی زندگی نے ان کے اندر بھی نئی زندگی کی لہر دوڑادی ہے۔ چہرہ تھکان سے مرجھایا ہوا ضرور ہے لیکن حوصلے بلند ہیں۔ عزائم آہن شکن ہیں۔ اس وقت ان کی کیفیت دیکھ کر مجھے ان پر غصہ بھی آرہا ہے اور پیار بھی مگر میں جذبہ کی طوفان خیز موجوں کو احتیاط کے کناروں میں کیسے قید کرسکتا ہوں۔

    اب مائک پرڈاکٹر سید محمد عقیل ہیں۔

    سر میں کچھ تانبا جھلکنے لگا ہے، آنکھوں میں بے چینی سی رہتی ہے جیسے کسی جلوے کی متلاشی ہوں۔ انداز بیان میں ٹھہراؤ ہے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی ہے توچہرہ اور زیادہ سنجیدہ ہوجاتا ہے۔

    وہ خود نقاد ہیں اس لیے نقادوں کے لیے سینہ سپر ہیں، وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’عوام کی زبان میں ادب کی تخلیق ممکن نہیں۔ ہر تخلیقی تجربہ اپنی زبان آپ لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ادیب کا کام یہ ہے کہ عوامی زندگی کے مسائل کو اپنی تخلیقات میں برتے اور پیش کرے۔‘‘

    بحث ترقی پسند ادب کے مختلف پہلو اجاگر کر رہی ہے۔ مختلف پرت کھول رہی ہے۔ ترقی پسند ادب ارتقا کی نئی منزل میں داخل ہو رہا ہے۔ اس لیے نئی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔ نئے نئے امکانات پر غور کیا جارہا ہے۔

    بحث کے وقت ایسا لگتا ہے جیسے یہ لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ لیکن دراصل ان سب کے سینے میں ایک ہی آگ روشن ہے۔ ان سب کے ذہنوں میں ایک بجلی ہے۔ سب کی منزل ایک ہے۔ اسی لیے آج سب اکٹھے ہوئے ہیں۔

    قمر رئیس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں، عینک درست کر رہے ہیں۔ کاغذات کا وہ پلندہ اپنی سیٹ پر چھوڑ آئے ہیں جن پر وہ مقررین کے نوٹس لیتے رہے ہیں۔ میں جلدی سے قلم کاغذ سنبھالتا ہوں تاکہ ان کی تقریر کے اقتباسات محفوظ کرلوں۔ ڈاکٹر قمر رئیس کا انداز بالکل ایسا ہے جیسے وہ کلاس میں پرھا رہے ہوں، ٹھہرا ہوا پرسکون لہجہ۔ ایک ایک لفظ تول تول کر بولتے ہیں، تاکہ سننے والا کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے، وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’ترقی پسند نظریۂ حیات اور ادب کو محنت کش عوام تک لے جانے کی بحث دلچسپ ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے، لیکن شاید ڈاکٹر محمد حسن کا یہ مدعا نہیں تھا، جو بہت سے ساتھی سمجھ رہے ہیں۔‘‘ قرۃ العین حیدر اور دوسرے حضرات اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ہم اپنے ادب میں جو کچھ کہتے ہیں اسے محنت کش عوام تک کیسے پہنچائیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے ہماری متوسط طبقہ کی ذہنیت اور رعونت کارفرما ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ہمارے تجربات اور خیالات اتنے وقیع ہیں کہ انہیں عوام تک پہنچنا چاہیے، حالانکہ محمد حسن صاحب کا مدعا اس کے برعکس تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ محنت کش عوام کے پاس بھی ہمیں دینے کے لیے بہت کچھ ہے، ہم محنت کش عوام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

    بحث اتنی دلچسپ ہے کہ وقت گزرتا محسوس بھی نہ ہوا۔ آٹھ بج چکے ہیں، نو بجے فلسطینی جانبازوں کی جانب سے مندوبین کا ڈنر ہے۔ تاباں صاحب نے پانچ بجے ہی مجھے ٹائپ شدہ اپیل کے کچھ کاغذات دے دیے تھے، یہ اپیل فلسطینی مجاہدوں کی تائید میں ہے۔ میں ان کاغذات پر ہال میں موجود سب لوگوں کے دستخط کرا چکا ہوں۔ یہ کاغذات ہندوستانی عوام کی رائے ہیں اور یو۔ این۔ او میں بھیجے جائیں گے۔ نو بجے یہ کاغذات پی۔ ایل۔ او مشن کو پیش کردیے جائیں گے۔

    سب سے آخر میں پروفیسر محمد حسن دوسری بار اسٹیج پر آتے ہیں۔ وہ اپنے مقالہ پر کی گئی تنقیدوں کا جواب دینا چاہتے ہیں لیکن وقت بہت کم ہے، اس لیے وہ بہت مختصر طور پر اپنی بات کہتے ہیں۔

    ’’یہ سوچنا کہ عوام صرف راست شاعری ہی سمجھتے ہیں رمزیہ اور علامتی شاعری نہیں، یہ غلط ہے۔ ان کی شاعری اور ان کا ادب علامتوں اور اساطیر سے بھرا پڑا ہے۔‘‘

    اس کے بعد غلام ربانی تاباں جلسے کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں اور دوسرے دن کے پروگرام کے بارے میں بتاتے ہیں۔ صبح آٹھ بجے سے مندوبین کا اجلاس ہوگا۔ دس بجے ’’ترقی پسند شاعری کے چالیس سال‘‘کے موضوع پر ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی اور عمیق حنفی مقالے پڑھیں گے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر وحید اختر کو بھی مقالہ پڑھنا تھا لیکن وہ علالت کی بناپر آنہیں سکے۔

    ساڑھے آٹھ بج چکے ہیں لیکن باہر سے آئے مہمانوں کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کو کس طرف جانا ہے۔ لوگ ٹکڑیاں بناکر دن بھر کی کارروائی پر تبصرے کر رہے ہیں۔

    اچانک پیچھے سے میرے کاندھے پر کوئی ہاتھ رکھ دیتا ہے میں پلٹ کر دیکھتا ہوں، مالیگاؤں کے عتیق احمد عتیق کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’اظہار بھائی مجھے کس طرف جانا ہے۔‘‘

    شاہد ندیم، پیام فتح پوری بھی قریب کھڑے ہیں۔ وہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ کہاں جانا ہے۔ میں ان کو سمجھاتا ہوں کہ منزل یہاں سے قریب ہے۔ سندر نگر مارکیٹ کے پاس پی۔ ایل۔ او کا دفتر ہے۔

    رئیس مرزا بھی یہی فرض انجام دے رہے ہیں۔ ’’حیات‘‘ کے ایڈیٹر مہدی عابدی اس موقع سے فائدہ اٹھاکر ۱۹/اپریل کے لیے دعوت نامے تقسیم کر رہے ہیں۔ وہ دفتر ’’حیات‘‘ میں کانفرنس کے مندوبین کو استقبالیہ دینا چاتے ہیں۔

    جسمانی اعتبار سے محنتی قسم کے آدمی ہیں۔ چہرے پر تجربات اور زندگی کے سرد و گرم کے نقوش نمایاں ہیں۔ بہت حلیم الطبع ہیں۔ گفتگو میں میدان میں بہتی ہوئی ندی کی نرم روی ہے۔ مسکرا مسکراکر دعوت نامے بھی دے رہے ہیں اور وعدے بھی لے رہے ہیں کہ آنا ضروری ہے۔

    آخر دھیرے دھیرے لوگ سندر نگر کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کانفرنس کا پہلا یادگار دن غروب ہوا۔

    ۱۷/اپریل ۱۹۷۶ء کو بھی سورج مشرق سے ہی نکلا۔ صبح اسی پرانے انداز میں نمودار ہوئی لیکن ترقی پسند تحریک سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ صبح عام صبح ہونے کے باوجود ایک خصوصیت کی حامل ہے۔ شاید اگر سورج مشرق کی بجائے مغرب سے بھی نکلتا تو اس صبح کی اہمیت کم نہ ہوتی۔

    ساڑھے آٹھ بجے مندوبین کا خصوصی اجلاس شروع ہوا۔ اس اجلاس میں مجلس صدارت کی جانب سے کچھ تجاویز پیش کی گئیں اور مندوبین سے درخواست کی گئی کہ کوئی تجویز پیش کرنا چاہیں تو مجلس صدارت کو پہنچادیں۔

    آج بھی میں سامعین اور مجلس صدارت کے درمیان ’’چٹھی رساں‘‘ کی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر سید محمد عقیل نے سجاد ظہیر، مہندر ناتھ، ڈاکٹر احتشام حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، سلام مچھلی شہری، شمیم کرہانی اور سرلا دیوی کے بچھڑ جانے کے غم میں درخواست کی کہ دومنٹ خاموش رہ کر اپنے رنج و غم کا اظہار کریں۔

    اس کے بعد سردار جعفری نے پہلی تجویز پڑھ کر سنائی جس میں فلسطین اور چلی کے مجاہدین جنگ آزادی اور ادیبوں کی تائید اور خراج عقیدت پیش کیا۔ احمد جمال پاشا نے اسی وقت مائک پر آکر کہا کہ اس تجویز میں روڈیشیا اور جنوبی افریقہ کے نام بھی شامل کرلیے جائیں۔ ان کی ترمیم فوراً سب نے منظور کرلی۔ اس کے بعد اختر سعید نے مجلس صدارت کی جانب سے اردو کے بارے میں ایک تجویز پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اردو ملک کی قومی زبان ہے، لہٰذا اس کو آئین کی رو سے اس کا جائز حق دیا جائے، اور سرکاری زبان کا درجہ دے کر ثانوی زبان تسلیم کیا جائے۔

    یہ تجویز بھی متقہ رائے سے قبول کرلی گئی۔ میں نے ’’ماہنامہ شاہراہ‘‘ کے ساتھ تعاون کرنے کے سلسلے میں ایک تجویز پیش کی۔ رئیس مرزا نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اردو کے پروگرام بڑھانے اور اردو سے انصاف کرنے کے بارے میں تجویز رکھی۔ یہ دونوں تجویزیں بھی منظور کرلی گئیں۔

    اب سردار جعفری ایک نکتہ کی وضاحت کرنے کے لیے مائک پر آئے ہیں۔ کل کے اجلاس میں آنند نرائن ملا نے سوشلسٹ اسٹیٹوں پر تشدد کا الزام لگایا تھا۔ یہ بات تمام ترقی پسند اذہان میں چبھ رہی تھی۔ سردار جعفری ملا صاحب کی اس تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں،

    ’’ملا صاحب نے سوشلسٹ اسٹیٹ کے قیام کے سلسلے میں تشدد کی مذمت کی تھی۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ تشدد کا استعمال کب اور کن حالات میں ہوا۔‘‘

    ۱۹۱۷ء میں روس کی انقلابی پارٹی جو انقلاب لائی تو ایک امریکی صحافی کے قول کے مطابق وہاں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا تھا۔ لیکن مغرب کو چودہ سامراجی طاقتوں نے سات سال تک اس انقلابی حکومت کو ختم کرنے کے لیے جنگ کی جس کا مقابلہ روسیوں نے فاقے کرکے اور مصیبتیں اٹھاکر کیا۔

    ویت نامیوں نے امریکی مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے جو جنگ کی اس کی حمایت پنڈت نہرو، وزیر اعظم اندرا گاندھی اور خود ملا صاحب نے بھی کی ہے۔

    تو کیا ویت نامیوں نے امریکی فاشسٹ حکومت کا مقابلہ کرکے تشدد کیا ہے؟ کیا چلی کے باشندے جنگ آزادی لڑتے ہیں تو تشدد کرتے ہیں؟ کیا فلسطینی مجاہد زندہ رہنے کا حق لینے کے لیے جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ تشدد ہے؟‘

    ملا صاحب کے اس الزام سے صرف سردار جعفری یا میرا ہی دل نہیں دکھا تھا بلکہ تمام مندوبین کو صدمہ پہنچاتھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’تشدد‘‘ کیا ہے۔ ملاصاحب تشدد کے کیا معنی سمجھتے ہیں؟

    میں نے ہاتھ اٹھاکر اشارہ کیا۔ فوراً ہی سردار جعفری نے میرے نام کا اعلان کردیا، میں نے ڈائس پر پہنچ کر کہا،

    ’’ملا صاحب کی صدارتی تقریر پر اگرچہ اعتراض کرنا عجب سا لگتا ہے، لیکن چوں کہ اس کے انداز بیان سے ظاہر ہے کہ وہ تشدد کو اپنے طور پر کچھ الگ معنی پہناتے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں آئیے ہم سیاسی معاملات کو چھوڑ کر ذرا مذہبی نقطۂ نظر سے تشدد کے معنی سمجھنے کی کوشش کریں۔

    اسلام میں نبوت کے اعلان کے بعد کچھ عرصہ تک رسول اکرمؐ اور صحابہ خاموشی سے مخالفوں کے ظلم سہتے رہے لیکن جب مظالم انتہا سے گزرنے لگے، تو آنخصور پر وحی نازل ہوئی اور جہاد کا حکم ملا۔

    ’’اے محمدؐ اب تم ان ظالموں کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہو۔۔۔‘‘ تو کیا ملا صاحب کی نظر میں ظالموں اور جابروں کے خلاف جنگ کرنا تشدد ہے۔۔۔ مہابھارت کی جنگ میں جب ’’ارجن‘‘ اپنے رشتہ داروں پر تیر چلانے سے انکار کردیتے ہیں تو بھگوان کرشن اس وقت ارجن کو یہ اپدیش دیتے ہیں کہ ظلم اور جھوٹ کے خلاف تلوار نہ اٹھانا گناہ ہے۔

    کیا اس وقت ان کا سچائی اور اپنے حق کے لیے لڑنا تشدد تھا؟

    ان الفاظ میں، میں اپنے غصے کا اظہار کرکے واپس آجاتا ہوں۔

    اس اجلاس میں کل ہند ترقی پسند مصنفین کے عہدہ داروں کا انتخاب بھی عمل میں آیا اور ایک سکریٹری کے نام کے علاوہ سارے نام اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ عہدہ داروں کا انتخاب حسب ذیل ہے،

    صدر: علی سردار جعفری۔

    مجلس صدارت: عصمت چغتائی، کیفی اعظمی، کرشن چندر، غلام ربانی تاباں، ڈاکٹر محمد حسن، سہیل عظیم آبادی، رضیہ سجاد ظہیر۔

    جنرل سکریٹری: ڈاکٹر قمر رئیس۔

    (ڈاکٹر قمر رئیس کے انتخاب پر حاضرین نے پرجوش انداز میں تالیاں بجائیں، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سب کے چہیتے ہیں)

    سکریٹریز: ڈاکٹر سید محمد عقیل، اختر سعید، راشد آذر، ڈاکٹر اجمل اجملی، ڈاکٹر افصح احمد ظفر۔

    خازن: ڈاکٹر سلامت اللہ۔

    اس کے علاوہ اکتیس افراد پر مشتمل ایک مجلس عاملہ کا انتخاب عمل میں آیا جس میں نوجوان ادیبوں کی اکثریت ہے۔

    مندوبین کا یہ اجلاس ختم ہوا۔

    اب گیارہ بج رہے ہیں۔ ہال کھچاکھچ بھرا ہوا ہے۔ آج کے اجلاس میں عورتوں کی تعداد کل سے زیادہ ہے۔ شاید اس لیے کہ یہ اجلاس شاعری کے بارے میں ہے۔

    عصمت آپا آج ہلکے سبز رنگ کی ساڑھی میں ہیں اور بقول عصمت آپا عینی، یعنی قرۃ العین حیدر آج بھی شوخ رنگ کی پھولدار ساڑھی میں ملبوس ہیں۔ ان کو شاید پھولوں سے بہت پیار ہے۔

    قرۃ العین حیدر نہٹور ضلع بجنور کے رہنے والی ہیں۔ میرا وطن قصبہ کرت پور ضلع بجنور ہے۔ ان سے مل کر مجھے ایسا لگا جیسے عرصہ کے بعد میں کسی بچھڑے ہوئے قریبی عزیز سے ملا ہوں۔ ہم دیر تک وطن کی باتیں کرتے رہے تھے۔ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ میں ’’فری لانس‘‘ رہ کر ادیب کی حیثیت سے زندہ ہوں اور زندگی سے نالاں نہیں ہوں۔ اردو کے ایک ادیب کااس طرح زندہ رہنا، معجزہ ہی تو ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں ادیب اردو کا ہوں اور ہندی میں چھپتا ہوں۔ چار مختلف ناموں سے ہندی میں سائنسی، جاسوسی اور سوشل ناول لکھتا ہوں۔ تخلیقی کام میری شاعری ہے، اور شوق کے لیے سائنس کے جدید نظریات کو عام فہم اردو زبان میں منتقل کر رہا ہوں۔

    میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ کیفی اعظمی اپنے ایک مفلوج ہاتھ کو سنبھالے ہوئے مائک پر ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی کے نام کا اعلان کر رہے ہیں۔ میں گھوم کر ہال پر ایک طائرانہ نظر ڈالتا ہوں۔ سارے ہال میں رنگوں کے دھبے سے بکھرے ہوئے ہیں، یہ خواتین ہیں۔ باہر برآمدہ میں غالب اکیڈمی کے سکریٹری ذہین نقوی سیاح قسم کے کچھ لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ وہ بار بار ہال کی جانب اور کپڑے کے بینر کی جانب اشارے کر رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کانفرنس اور سیمینار کے بارے میں اجنبیوں کو کچھ بتارہے ہیں۔

    صدیق الرحمن قدوائی عینک سنبھالے ہوئے ڈائس پر آچکے ہیں۔ مقالہ شاید انہوں نے رواداری میں لکھا ہے۔ انہوں نے کہا، ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور میں غزل کو نظر انداز کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مزاجاً ریزہ خیالی اور رمزیہ اظہار کا فن ہے، غزل بیانیہ شاعری کبھی نہیں ہوسکتی۔ سماجی فکر کے واضح اظہار کے لیے غزل کے مقابلہ میں نظم زیادہ موزوں ہے۔ ترقی پسند شعرا ۱۹۵۰ء کے بعد غزل کی طرف واپس آئے تو ایک نیا لہجہ لے کر آئے جس میں احساس یاسیت کے ساتھ ایک گہرے طنز کی پھیل جانے والی کیفیت تھی۔ اس میں ضبط اور ٹھہراؤ بھی بہت تھا۔ نئی غزل نے اس باغیانہ کردار کو جو ترقی پسند کردار تحریک کے ساتھ ابھرا تھا زیادہ فروغ دیا۔ یہ غزل ایک اضطراری کیفیت لے کر زبان اور علامتوں کے نئے تجربات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ آج کی غزل میں سوچنے، اداس ہونے اور تڑپنے کے لیے عشق کے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ ترقی پسند شعرا میں شروع میں صرف فیض اور تاباں نے غزل کے امکانات دریافت کرنے کی کوشش کی اور حال ہی میں جان نثار اختر نے اسے کامیابی سے ذریعہ اظہار بنایا۔ لیکن مجموعی طور پر تحریک کے زیر اثر غزل کو پنپنے کا موقع نہ مل سکا۔‘‘

    ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی کے بعد عمیق حنفی اپنا مقالہ پڑھ رہے ہیں۔

    ’’بیانیہ شاعری بھی بڑی شاعری ہوسکتی ہے۔ بیانیہ نظم میں فکری شاعری کا نقطۂ کمال اقبال کی شاعری ہے۔ ترقی پسندوں کے یہاں نظم کی فکری سطح اور تعمیری شعور اقبال کے مقابلہ میں بہت پست رہا ہے۔ جوش کی شاعری لفاظی اور دریدہ دہنی کے سوا کچھ نہیں۔ سردارجعفری کی بعض نظموں میں خطابت کے باوجود فکری صلابت کا احساس ملتا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ سردار جعفری نے جوش کی بجائے اقبال سے زیادہ فیض اٹھایا ہے۔ جن شاعروں نے نظم کو نئی جہتوں اور نئے معیاروں سے آشنا کیا ہے ان میں ن۔ م۔ راشد، اختر الایمان اور فیض کی شخصیات نمایاں ہیں۔‘‘

    حقیقت یہ ہے کہ دونوں مقالوں میں موضوع کے ساتھ پورا انصاف نہیں کیا گیا۔ مجھے صدیق الرحمن قدوائی کی کئی باتوں پر اعتراض ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں۔ ہاتھ کا اشارہ کرتا ہوں لیکن مجھ سے پہلے راج بہادر گوڑ پر سردار جعفری کی نظر پڑجاتی ہے۔ اور وہ گوڑ صاحب کو بلالیتے ہیں۔

    راج بہادر گوڑ بہت اچھے مقرر ہیں۔ وہ کبھی کوئی بات دلیل اور منطق کے بغیر نہیں کہتے۔ دونوں مقالوں پر بحث کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔۔۔ ’’اردو شعرا کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقہ سے رہا ہے۔ اس کی شاعری کا مواد اور موضوع بھی متوسط طبقہ ہے۔ تیلگو، مراٹھی اور بنگالی کی طرح اس کا اپنا لوک ادب نہیں جس سے زبان، قوت، مواد اور الفاظ کا ذخیرہ اخذ کرتی ہے۔ اردو اس سے محروم ہے لیکن اس نے ابھرتے ہوئے متوسط طبقہ کی زندگی سے جو کچھ اخذ کیا ہے اسے فخر حاصل ہونا چاہیے۔ اس کا آغاز حالی سے ہوا ہے۔ اس طبقہ کے جو سیاسی اور سماجی حوصلے تھے وہ راست انداز شاعری کا موضوع ہے۔ غزل میں نئی جان حسرتؔ نے پھونکی۔ ترقی پسندوں نے شہری عوام کی زندگی، ذہن اور زبان سے شاعری کو ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کی۔ انہوں نے مقامی کو آفاقی اور تخصیص کو تعمیم کا رنگ دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی احساس کو قومی احساس میں ڈھالا۔

    ’’آج سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک نئے نظام کی کھوج جاری ہے۔ ہمارا نوجوان سرمایہ داری کے ٹوٹے آئینہ کے سامنے کھڑا ہے۔ اس میں اسے اپنا مسخ شدہ عکس نظر آتا ہے۔ اس کا حال دھندلا ہے او رمستقبل بھی صاف نہیں۔ اسے صاف اور واضح کرناترقی پسند ادیبوں کا کام ہے۔ گذشتہ چالیسں سالوں میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اور لکھا ہے وہ آگے بڑھنے کے لیے ٹھوس بنیاد ہے۔‘‘

    راج بہادر گوڑ کی صاف اور شستہ تقریر نے سامعین پر خاصہ اثر کیا ہے۔ وہ اب واپس اپنی کرسی پر جارہے ہیں۔ سردار جعفری میرے نام کا اعلان کر رہے ہیں۔

    ’’اب اظہار اثر صاحب اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔‘‘ میں چونک پڑا۔ اتنی دیر میں وہ پوائنٹس مجھے بھول گئے ہیں جو میں کہنا چاہتا تھا۔ بہرحال میں اسٹیج کی چار سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اپنی یادداشت کو ٹٹولتا ہوں، مجھے یاد آجاتا ہے کہ مجھے صدیق الرحمن قدوائی کی چند باتوں کا جواب دینا ہے۔ میں کہتا ہوں،

    ’’ارتقا کے ہر موڑ پر ایک دور ایسا آتا ہے جسے عبوری دور کہا جاتا ہے۔ عبوری دور میں انسان خلا میں ہاتھ پاؤں چلاتا ہے۔ کچھ نئے نظریات، نئے زاویے، نئے خیالات پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ کچھ نئے روشن پہلو ایک مقام پر ٹھہرے ہوئے نظر آتے ہیں اور نئی منزلوں کا تعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ مجھے صدیق صاحب کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ترقی پسندوں نے غزل کے بجائے نظم کو اس لیے ذریعۂ اظہار بنایا کہ غزل بیانیہ انداز کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ درست ہے کہ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور میں جو ارتقاء کا نیا موڑ تھا کچھ شعرا نے نظم کو ذریعۂ اظہار اس لیے بنایا تھا کہ نظم میں وہ اپنی بات زیادہ آزادی سے کہہ سکتے تھے لیکن بعد میں فیض، مجروح، تاباں، جذبی، حسن نعیم، خلیل الرحمن اعظمی اور بہت سے شعرا نے ثابت کردیا کہ غزل میں بھی اپنی بات بھرپور انداز میں کہی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ غزل کا کینواس بہت چھوٹا ہے لیکن اس میں اتنی گہرائی اور گیرائی ہے اور اس کا لہجہ اس قدر نوکیلا ہے کہ بڑی سے بڑی بات صرف ایک شعر میں کہی جاسکتی ہے۔‘‘

    آج ہم ارتقاء کے پھر ایک نئے موڑ پر ہیں۔ اب سے دس سال پہلے جدیدیت کے نام پر جو دھند پھیلی ہوئی تھی وہ اب چھٹتی جارہی ہے۔ نئی منزلوں کا تعین ہوچکا ہے، نئی غزل ابھر کر سامنے آئی ہے اس لیے یہ کہنا کہ غزل کو ترقی پسند شعرا کسی مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے نظرانداز کرتے آئے ہیں، قطعی غلط ہے۔

    میرے بعد کوثر چاند پوری، حیات اللہ انصاری اور اختر سعید نے بھی بحث میں حصہ لیا۔ کوثر چاندپوری کو عمیق حنفی کا مقالہ سن کر مایوسی ہوئی ہے۔ کوثر صاحب کو ان سے اس عہد کی شاعری کے زیادہ جامع اور زیادہ منصفانہ مطالعہ کی توقع تھی۔

    حیات اللہ انصاری نے اپنے مخصوص اعتراضات کو دہرایا جو وہ ترقی پسند تحریک اور ادب پر ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس تحریک کے رہنما کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں (یہی غم ماہنامہ تحریک کو بھی ہے) وغیرہ وغیرہ۔

    اختر سعید کی نظر میں عمیق حنفی نے جوش پر دریدہ دہنی کا جو الزام لگایا ہے وہ غلط ہے۔ نیز یہ کہ ان کا جائزہ یک رخا اور ادھورا ہے۔ انہوں نے چند مثالیں دے کر بتایا کہ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۷ء تک اردو کے جن ادیبوں اور شاعروں نے ملک کے قومی مسائل اور تحریک آزادی کو اپنے فن کا موضوع بنایا ان میں ترقی پسند ادیب پیش پیش تھے۔ آزادی کے بعد بھی ملک کے سامنے جو مسائل آئے خواہ وہ سماجی مسائل ہوں یا اقتصادی یا فسادات کا مسئلہ ہو، ترقی پسند ادیبوں نے تخلیقی حسن کے ساتھ ادب میں ان کو برتا ہے۔

    اختر سعید تالیوں کے درمیان واپس جارہے ہیں۔ میرے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک ادھیڑ عمر خاتون شاید اپنے شوہر سے کہہ رہی ہیں،

    ’’یہ شاعر اور ادیب جہاں بھی ہوں آپس میں لڑتے ضرور ہیں۔‘‘

    میں گھوم کر دیکھتا ہوں۔ فوراً ہی مائک پر ڈاکٹر اجمل اجملی کا نام پکارا جاتا ہے۔ میری توجہ پھر اسٹیج پر چلی جاتی ہے۔ عصمت آپا ٹانگ پر ٹانگ دھرے اس طرح بیٹھی ہیں جیسے عدالت کر رہی ہوں۔

    گواہ گزر رہے ہیں۔ فیصلہ تمام گواہوں کے بیانات سن کر کیا جائے گا۔

    اجمل اجملی مسکراتے ہوئے مائک پر پہنچ چکے ہیں۔ کل کی تھکان دور ہوچکی ہے، اب چہرے پر تازگی ہے اور آنکھوں میں چمک۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’یہ عجیب بات ہے کہ ترقی پسند شاعری کا جائزہ لیا جاتا ہے تو تحریک کی نسبتاً کمزور شاعری کو سامنے رکھ کر فتوے صادر کیے جاتے ہیں۔ ہر شاعر کی طرح ترقی پسندوں نے بھی اچھی اور کمزور دونوں طرح کی شاعری کی ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ جائزہ لیتے ہوئے پوری شاعری کو نظر میں رکھا جائے۔‘‘

    ’’آج مایوسی، بیزاری اور بے یقینی کی شاعری پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تو جدید نقاد کہتے ہیں کہ آج کے حالات میں جب اقدار اپنا بھرم کھو چکی ہیں، جب ہر چیز پر سے یقین اٹھ چکا ہے تو اسی طرح کی شاعری کی جاسکتی ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، مگر یہ ضرور چاہتا ہوں کہ ہماری ’’نعرہ بازی‘‘ کی شاعری پر حکم صادر کرتے ہوئے بھی اس زمانے کو سامنے رکھا جائے۔‘‘

    ’’ہم سے یہ سوال بھی کیا گیا ہے کہ کیا ترقی پسند ادب صرف چالیس سال کا ہے جو اس کی چالیسویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔۔۔ ہمارا جواب ہے کہ ترقی پسند ادب ہر دور میں پیدا ہوا ہے، ہم صرف چالیس سال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ چالیسویں سالگرہ ہماری انجمن کی ہے، ترقی پسند ادب کی نہیں۔‘‘

    ڈاکٹر اجمل اجملی کے بعد عنوان چشتی ڈائس پر آئے ہیں۔ ان کے خیال میں ترقی پسند شاعری کا بڑا حصہ راست بیانیہ اور ہنگامی واقعات کی شاعری ہے۔ اور فیض کی شاعری ان کی نظر میں اسی لیے پراثر ہے کہ وہ رمزیہ پیرایہ کی شاعری ہے۔

    رفعت سروش کا غصہ کچھ سرد ہوچکا ہے، اس وقت وہ پرسکون لہجہ میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں،

    ’’اقبال کی فکری شاعری کو ترقی پسندوں نے آگے بڑھایا ہے۔ سردار جعفری کی شاعری فکری شاعری ہے۔‘‘

    ’’مقالوں میں اور بحث میں بھی طویل نظم میں ترقی پسندوں کے کارناموں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ سردار جعفری، سلام مچھی شہری اور دوسرے شعراء نے کامیاب طویل نظمیں لکھیں ہیں۔‘‘

    لنچ کا وقت ہوچکا ہے۔ سامعین کی نظریں اب گھڑیوں کی طرف اٹھنے لگی ہیں۔ مقررین بھی بھوک کا شکار نظر آتے ہیں۔ چند منٹ میں ہی اپنی اپنی بات ختم کرکے جارہے ہیں۔

    سید جمال الدین کے خیال میں ترقی پسند شعرا بالخصوص سردار جعفری اور فیض کے یہاں جہاں جہاں فکر احساس میں ڈھل گئی ہے اور نظریہ، نظر بن گئی ہے وہاں بلند اور بڑی شاعری وجود میں آئی ہے۔

    آخر میں ہندی کے مشہور شاعر شمشیر بہادر کو دعوت دی جارہی ہے۔ کچھ لوگ حیران ہیں کہ ہندی شاعر اردو کی شاعری کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے۔ یا کیا کہے گا؟ شمشیر بہادر صاف ستھری ہندوستانی زبان میں کہہ رہے ہیں،

    ’’ایسا لگتا ہے کہ آج نئی او پرانی پیڑھی کا تصادم ہے۔ فن کی سطح پر دیکھیے تو صرف اردو ہی نہیں یوروپ کے بڑے بڑے شاعر بھی اپنی زبان اور اس کی وسعت اور اس کی روایت کا بھرپور شعور رکھتے ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نئی پیڑھی کے شاعر کس حدتک اس شرط کو پورا کرتے ہیں۔‘‘

    اچانک دروازہ میں رئیس مرزا نمودار ہوتے ہیں اور چلمن سے جھانکتی ہوئی کسی حسینہ کی طرح مجھے چپکے سے باہر آنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ میں اٹھ کر باہر جاتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں،

    ’’بس اب ختم بھی کراؤ یار۔ دو بج رہے ہیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے۔‘‘ کھانے کا ذکر سن کر میری بھوک جاگ اٹھتی ہے۔ میں پوچھتا ہوں،

    ’’آج کا مینو کیا ہے؟‘‘

    ’’قورمہ، بریانی اور کھیر۔‘‘

    میں ابھی الفاظ سے لذت ہی لے رہا ہوں کہ تاباں صاحب شکریہ کے ساتھ اجلاس کے خاتمہ کااعلان کردیتے ہیں۔ دوسرا اجلاس کھانے کے فوراً بعد شروع ہونا ہے۔ کیوں کہ رات کو آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز کی جانب سے اردو مشاعرہ بھی ہے۔ اس اجلاس میں نثری ادب کی الگ الگ صنف پر مقالے پڑھے جائیں گے۔

    تفصیل اس طرح ہے:

    (۱) ترقی پسند تحریک اور افسانہ (ڈاکٹر ظفر احمد نظامی)

    (۲) ترقی پسند تحریک اور ڈرامہ (سید ضمیر حسن)

    (۳) ترقی پسند تحریک اور طنز و مزاح (احمد جمال پاشا)

    (۴) ترقی پسند تحریک اور ناول (ڈاکٹر قمر رئیس)

    سیمینار کا دوسرا اجلاس کس وقت شروع ہوا مجھے علم نہیں کیوں کہ ڈاکٹر قمر رئیس اور ڈاکٹر اجمل اجملی نے میرے ذمہ ایسی ڈیوٹی لگادی تھی جس سے مجھے ساڑھے چھ بجے چھٹکارا ملا۔ ساڑھے چھ بجے میں ہانپتا کانپتا ہال میں داخل ہوا تواوپندر ناتھ اشک کو اسٹیج پر پایا۔ اگلی صف میں صرف ایک سیٹ خالی تھی۔ میں جلدی سے اس سیٹ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ میرے بائیں جانب سردار جعفری ہیں۔ ان کی یہ ادا بڑی پیاری لگتی ہے۔ جب وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے لمبے لمبے بالوں کو سمیٹ کر پیچھے کی جانب اچھالتے ہیں۔ میں آواز دباکر سردار جعفری سے پوچھتا ہوں،

    ’’کتنے مقالے پڑھے جاچکے ہیں؟‘‘

    ’’سب پڑھے گئے۔‘‘ وہ جواب دیتے ہیں، ’’اوپندر ناتھ اشک پہلے شخص ہیں جنہوں نے بحث کا آغاز کیا ہے۔‘‘

    اوپندر ناتھ کبھی اردو کے ادیب تھے، اب ہندی میں لکھتے ہیں۔ مرنجان مرنج آدمی ہیں۔ کھدر کا کرتا پائجامہ اور جاکٹ پہنے گلے میں تھیلا ہے۔ ’’ہائی پچ‘‘ کی آواز ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’مقالے بھرپور اور جامع نہیں تھے۔ امتیاز علی تاج اور منٹو کا ذکر زیادہ مناسب ڈھنگ سے ہونا چاہیے تھا۔‘‘

    ’’انگارے‘‘ کی کہانیوں سے اس نئی تحریک کا آغاز ہوا جس نے ہم سب کو متاثر کیا تھا۔ لیکن آج انگارے جیسی کہانیاں نظر نہیں آتیں۔

    ہندی کے نثری ادب نے زیادہ ترقی کی ہے۔‘‘

    میرے برابر والی سیٹ خالی ہوجاتی ہے اوپندر ناتھ تقریر ختم کرکے میرے برابر والی کرسی پر آجاتے ہیں۔

    اس اجلاس کی صدارت عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر قاضی عبدالستار اور پروفیسر محمد حسن کر رہے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن رتن سنگھ کا نام پکارتے ہیں۔

    ایک لمبا چوڑا کڑیل سکھ اسٹیج پر آتا ہے۔ رتن سنگھ جسمانی اعتبار سے ادیب سے زیادہ فوجی کرنل معلوم ہوتے ہیں۔ جب وہ اسٹیج پر آئے تو ایسا لگا جیسے ابھی تمام حاضرین کو ’’اٹین شن‘‘ کرادیں گے۔ لیکن جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو لہجہ بہت نرم تھا وہ خود سلجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں بھی سلجھی ہوئی ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’آزادی کے چند سال بعد جب میں نے لکھنا شروع کیا تو لکھنو میں ترقی پسند ادیبوں کا حلقہ چھایا ہوا تھا۔ ان کی محفلوں میں، میں نے اور میری پود نے بہت سے ادیبوں سے بہت کچھ سیکھا۔ ہم نے سوچا کہ آخر آزادی کے کیا معنی ہیں؟ وہ کس کے لیے ہے۔۔۔ اگر عوام کے لیے ہے تو اس کا رخ اس جانب موڑنے میں ہم کیا رول ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح کے بہت سے اجتماعی مسائل کی جانب ترقی پسند ادیبوں نے ہماری توجہ مبذول کرائی۔‘‘

    میرے پیچھے سانولی سلونی دو لڑکیاں بیٹھی ہیں جو مقررین یا ادھر سے گزرنے والوں پر چپکے چپکے ’’ریمارکس‘‘ کس رہی ہیں۔ ان کی باتیں سن کر میری توجہ بٹ جاتی ہے۔ ادھر ڈائس پر اب پروفیسر محمد حسن کہہ رہے ہیں، ’’چونکہ وقت بہت ہوچکا ہے اور اس کے بعد مشاعرہ شروع ہونا ہے اس لیے میں درخواست کروں گا کہ مقرر پانچ منٹ سے زیادہ وقت نہ لیں۔ اور اب میں بلراج مین را صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

    چھریرا بدن، گرواسا کرتا، دماغ کی گہرائیوں میں اترجانے والی آنکھوں پر عینک، چہرہ پر جلال (دوپیگ پینے کے بعد یہ جلال اور بڑھ جاتا ہے) یہ ہیں بلراج منیرا۔ اس وقت بغیر پئے ہی جلال ’’ہائیسٹ ڈگری پر‘‘ ہے۔ کیوں کہ پروفیسر محمد حسن نے پانچ منٹ کی قید لگادی ہے اور وہ بھی مشاعرہ کی وجہ سے۔ مین را کو بولنے کے لیے کم از کم ایک گھنٹہ تو ملنا ہی چاہیے تھا۔ وہ بہت پرجوش مقرر ہیں۔ ڈائس پرپہنچ کر حسب توقع گھونسے تانتے ہوئے کہہ رہے ہیں،

    ’’میں اجتجاجاً بحث میں حصہ نہیں لوں گا۔ کہا جارہا ہے کہ مشاعرہ کی خاطر کچھ دیر بعد یہ اجلاس ختم ہوجائے گا۔ گویا ایک ’’ڈی جنریٹڈ‘‘ مشاعرہ اس بحث سے زیادہ اہم ہے۔

    میرے پیچھے بیٹھی لڑکی اپنی ساتھی سے کہہ رہی ہے،

    ’’شاید مرچیں کھا کر آئے ہیں۔‘‘

    مین را یہ الفاظ کہہ کر ایک فاتح جنرل کی طرح واپس اپنی سیٹ پر واپس جارہے ہیں۔ قاضی عبدالستار کو بھی کچھ جلال آگیا ہے۔ وہ بھی شاعری سے کچھ پرخاش رکھتے ہیں۔ وہ اٹھ کر مائک پر کہہ رہے ہیں،

    ’’میرے نزدیک مشاعرے اور مجرے اور قوالی میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ اس بات کے جواب میں ایک دو تقریروں کے بعد ہی علی جاوید نے قاضی عبدالستار سے سوال کیا تھا،

    ’’آپ علی گڑھ یونیورسٹی میں استاد ہیں۔ جب آپ کلاس میں غزل یا نظم پڑھاتے ہیں تو وہ مجرے کے انداز میں پڑھاتے ہیں یا قوالی کے انداز میں۔‘‘

    اس پر ہال قہقہوں اور تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ قاضی عبدالستار جھینپ کر مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔

    باہر سے رئیس مرزا پھر مجھے اشارے کر رہے ہیں۔ میں باہر جاتا ہوں وہ اپنے مخصوص لہجہ میں کہتے ہیں۔۔۔ ’’یار جلدی سے ختم کراؤنا۔ مشاعرہ آٹھ بجے شروع ہونا ہے۔ دس بجے تک مشاعرہ ختم کرانا ہے تاکہ مہمان کو وقت پر کھانا کھلایا جاسکے۔‘‘

    رئیس مرزا کا ایک سر ہے جس میں ہزار نہیں لاکھوں سودے ہیں۔ میں ان کو تسلی دے کر واپس اپنی سیٹ پر آتا ہوں۔ یوگیش کمار ڈائس پر آرہے ہیں۔

    سانولا رنگ، ذرا لمبا قد، چنیوں جیسی مونچھیں، یعنی جو ہونٹوں کے کونوں سے زاویہ قائمہ بناتی ہوئی ٹھوڑی کی طرف چلی جاتی ہیں۔ یوگیش کمار صاف ستھرے ذہن کے پرجوش انسان ہیں۔ مگر مجھے ان کے بات کرنے کا انداز ہمیشہ دل کش بھی لگتا ہے اور عجیب بھی۔ بہت ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہیں۔ جب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے چھوٹے بھائیوں کی غلطیاں نظرانداز کرکے آئندہ غلطی نہ کرنے کے بارے میں سمجھا رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’مجھے اعتراف کرنا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے ترقی پسند افسانہ میں کچھ تعطل آیا ہے۔ لیکن اگر ہمیں اس سے دلچسپی ہے کہ ترقی پسند افسانہ کی روایت آگے بڑھے تو پھر اس سمت میں کوشش کرنا ہوگی۔ عصمت چغتائی نے ہندوستانی عورت کو اپنی دنیا آپ بنانے کا پیغام دیا تھا۔ ان کے یہاں عورت آج کی زندہ اور بدلتی ہوئی عورت ہے۔ بیدی کی عورت (اس پر حاضرین ایک قہقہہ لگاتے ہیں۔ یوگیش جلدی سے کہتے ہیں) بیدی کے افسانوں کی عورت وفاشعار و ایثار و قربانی کے جذبات پیش کرتی ہیں لیکن اس کا ملنا دشوار ہے۔‘‘

    میرے پیچھے بیٹھی ہوئی ایک لڑکی دوسری لڑکی سے کہتی ہے،

    ’’ایسی ٹیڑھی مونچھوں پر وفاشعار عورت کا ملنا واقعی مشکل ہے۔‘‘ دبی دبی ہنسی۔ ان کے برجستہ فقرو ں سے مجھے اپنی سماعت پر گدگدیاں سی محسوس ہوتی ہیں۔

    اسٹیج پر کشمیری لال ذاکر ہیں۔ ان کے نام کے آدھے حصے سے ان کے کشمیری ہونے کا دھوکا ہوتا ہے۔ اور باقی آدھے حصے سے مرثیہ گو ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ ان دونوں میں سے کچھ نہیں۔ صرف اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا خیال ہے اردو ادب میں کم از کم افسانہ کا معیار دوسری زبانوں کے افسانے سے کسی حالت میں پست نہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ نئی پود کے افسانے نگار مشق اور محنت سے گھبراتے ہیں۔

    ڈاکٹر محمد حسن اب عصمت چغتائی کے نام کا اعلان کر رہے ہیں۔

    عصمت آپا اسٹیج پر آئی ہیں۔ کالی عینک اتار کرایک طرف رکھتی ہیں۔ پورے ہال پر ایک طائرانہ نظر اس طرح ڈالتی ہیں جس طرح آپائیں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو مشفقانہ نظروں سے دیکھتی ہیں اس کے بعد کہنا شروع کرتی ہیں،

    ’’میں نے ترقی پسند تحریک کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور آج میں اپنے کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اس کی چالیسویں سالگرہ دیکھ رہی ہوں۔ (عجیب بات ہے عورتیں تو ہمیشہ اپنی عمر چھپاتی ہیں) ہم نے جب لکھنا شروع کیا تو بزرگ ادیب ہمیں گالیاں دیتے تھے اور رسالوں کے ایڈیٹر منت اور اصرار کرکے ہماری چیزیں مانگتے اور چھاپتے تھے لیکن نئی پود کے لوگ اس کے برعکس بزرگوں پر برستے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑتے ہیں۔ ادب پر مقالے لکھے جارہے ہیں، لیکن کوئی یہ نہیں دیکھتا ادیب کون ہے، کیسی زندگی بسر کر رہا ہے، کن حالات میں لکھ رہا ہے۔ دوسرے ملکوں میں ادیبوں کو طرح طرح کی سہولتیں دی جاتی ہیں، ان کے لیے آرام دہ مکان بنائے جاتے ہیں۔ میں کہتی ہوں اگر لڑائیاں ہی لڑنا ہیں تو بڑی لڑائیاں لڑو۔ حکومت سے مطالبہ کرو کہ ہمیں سارے ملک میں سفر کرنے کی سہولت دی جائے۔ ہمارے لیے آرام گھر ہوں، پبلشنگ ہاؤس بنیں تاکہ ہماری محنت کا استحصال نہ ہوسکے۔‘‘

    عصمت آپا اس وقت واقعی ادیب سے زیادہ پرجوش لیڈر لگ رہی ہیں۔ ہال کئی بار تالیوں سے گونجا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ روایات سے بغاوت کی ہے، اس کا نفرنس میں بھی انہوں نے لڑنے کی روایت سے بغاوت کی ہے۔

    عصمت چغتائی کے بعد سردار جعفری اسٹیج پر آئے ہیں۔ وقت بہت ہو چکا ہے۔ باہر بھیشم ساہنی بے چینی سے ٹہل رہے ہیں کیوں کہ مشاعرہ انہیں کے زیر اہتمام ہے۔ مشاعرہ کا جو وقت دیاگیا تھا اس سے پون گھنٹہ دیر ہوچکی ہے۔ سردار جعفری نئی تنظیم کے صدر کی حیثیت سے مہانوں کا اور بحث میں حصہ لینے والے حضرات کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں،

    ’’آئندہ ہم ایسے سیمینار کریں گے جو ادب کی صرف ایک صنف یا ایک خاص موضوع تک محدود ہوں تاکہ کھل کر بات ہوسکے۔‘‘

    ہم اس لیے کمزور ہیں کہ ہماری کتابیں ہزار آٹھ سو سے زیادہ نہیں چھتیں۔ ہماری آواز دور تک نہیں پہنچتی۔ اپنی کتابوں کی اشاعت اور تقسیم کا کام بھی دیکھنا ہوگا۔

    آخر میں مجلس صدارت کے صدر ڈاکٹر محمد حسن مائک پر آئے ہیں۔ وہ بحث کی تلخیوں میں کچھ شیرینی ملانے کے انداز میں کہہ رہے ہیں،

    ’’نثر کے خلاف تعصب کا شکوہ کیا گیا ہے۔ دراصل نثر کا عروج صنعتی فروغ سے وابستہ ہے۔ جیسے جیسے صنعت کاری بڑھے گی نثر کا فروغ ہوگا اور وہ شاعری کے عناصر سے آزاد ہوتی جائے گی۔‘‘

    ’مجرا یعنی موسیقی اور رقص بھی فنون لطیفہ ہیں ان کے بارے میں تحقیر کا رویہ کیوں؟ (قاضی عبد الستار چھت کو تک رہے ہیں)

    ’’آج کے دور میں ترقی پسندی کی دریافت کے لیے آویزش اور ٹکراؤ ضروری ہے۔ تلخی، تندی، اختلافات یا انحراف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اسی سے نئی ترقی پسندی کی راہیں کھلیں گی۔‘‘

    ان کی تقریر کے اختتام پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ لوگ اٹھ اٹھ کر باہر جانے لگتے ہیں۔ باہر بھیشم ساہنی کی جگہ آب حیات کے ایڈیٹر مہدی عابدی نے لے لی ہے۔ وہ ایک ایک شاعر کے پاس جاکر مشاعرہ میں شرکت اور جلد پہنچنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ مشاعرہ ایوان غالب میں ہے۔ یعنی شعرا کو غالب اکیڈمی سے نکل کر ایوان غالب پہنچنا ہے۔ ہر جگہ غالب غالب ہے۔ اجمل اجملی، قمر رئیس، رئیس مرزا اور میں شاعروں کو ٹیکسیوں میں بھر بھر کر روانہ کر رہے ہیں۔

    آخر آدھے گھنٹے کے اندر اندر اختر سعید، عتیق احمد عتیق، اویس احمد دوراں، پیام فتح پوری، شاہد ندیم، رفعت سروش، قمر رئیس، اجمل اجملی، ع-حامد اور میں مشاعرہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں۔

    مشاعرہ شروع ہوتا ہے۔ قمر رئیس مشاعرہ کنڈکٹ کر رہے ہیں۔ ابھی ایک دو شاعروں نے ہی پڑھا تھا کہ اچانک بوٹے سے قد کی ایک لڑکی گلے میں دوپٹہ ڈالے چست پاجامے اور کرتے میں ملبوس نہایت بے باکانہ انداز میں اسٹیج پر آتی ہے۔ تمام شاعروں کی نظریں لڑکی پر جم جاتی ہیں۔ لڑکی ایک شاعر سے کچھ پوچھ کر شاعروں کے پیچھے بیٹھ جاتی ہے۔ کچھ دیر بعد سردار جعفری اور عصمت آپا ساتھ آتے ہیں۔ لڑکی سردار جعفری سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ تمام شاعر حسد کی نظروں سے سردار جعفری کو دیکھ رہے ہیں۔ میں رفعت سروش سے پوچھتا ہوں،

    ’’یہ لڑکی کون ہے۔ جس انداز سے اس نے اسٹیج پر انٹری لی ہے، وہ ضرورت سے زیادہ ماڈرن ہے۔‘‘

    عصمت آپا میری بات سن لیتی ہیں۔ فوراً مسکراکر جواب دیتی ہیں،

    ’’تم یہاں اسٹیج پر چوبیس اوباش مرد بیٹھے ہو۔ ایک لڑکی تم جیسی آئی تو تم سے برداشت نہیں ہو پارہا ہے۔‘‘

    بات معقول ہے۔ ہم مرد کسی آزاد خیال لڑکی کو دیکھ کر فوراً اس کے کیرکٹر کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل پرانے زمانے کے شاعرانہ گریبان لباس میں نہیں ہوتے۔

    سامعین شاعروں کے انتظار سے بور ہوچکے ہیں۔ اس لیے زیادہ تر اونگھ رہے ہیں۔ اور داد دینے میں بخیلی سے کام لے رہے ہیں۔ لیکن اسٹیج سے ہر شاعر کو جی بھر کے داد مل رہی ہے۔ آخر ایک بجے کے قریب مشاعرہ ختم ہوتا ہے۔ مشاعرہ کے اختتام پر سردار جعفری دوسرے دن بارہ بجے مجلس عاملہ کی میٹنگ کا اعلان کرتے ہیں اور مہدی عابدی پھر مندوبین کو تین بجے ’حیات‘ کے دفتر ’’اجے بھون‘‘ پہنچنے کے لیے کہتے پھر رہے ہیں۔ رئیس مرزا باہر پھاٹک پر کھڑے ہیں تاکہ مہمانوں کو گھیر کر قیام گاہ پر لے جائیں اور انہیں کچھ کھلائیں پلائیں۔ وہ مجھ سے بھی اصرار کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چل کر کھانا کھاؤں لیکن وقت بہت ہوچکا ہے، تھکن سے جسم ٹوٹ رہا ہے۔ اس لیے میں انکار کردیتا ہوں۔ میں چلنے لگتا ہوں تو شاہد ندیم مجھے روک کر کہتے ہیں،

    ’’اظہار صاحب ہماری واپسی کا بندوبست نہیں ہوسکا۔ اگر ہوسکے تو کل ہمارے لیے بمبئی کے ٹکٹ ریزرو کرا دیجیے۔‘‘

    دلی جیسے شہر میں دن کے دن ٹرین کا ریزرویشن کرانا جو ئے شیر لانے سے کم نہیں پھر بھی میں ان سے وعدہ کرلیتا ہوں۔

    ’’آپ صبح میرے مکان پر آجائیے، پہلے ہم ٹکٹوں کا بندوبست کریں گے پھر ساتھ ہی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں چلیں گے۔‘‘

    وہ صبح میرے یہاں آنے کا وعدہ کرکے چلے جاتے ہیں۔

    دوسرے دن گیارہ بجے پیام فتحپوری، شاہد ندیم، عتیق احمد عتیق، رشید عارف میرے یہاں آجاتے ہیں۔ میں دو تین جگہ فون کرتا ہوں۔ عجیب اتفاق ہے کہ جن دوستوں کے ذریعہ ٹکٹ ملنے کی توقع تھی وہ سب شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ اسی بھاگ دوڑ میں ایک بج جاتا ہے۔ ہم ٹیکسی لے کر مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے بھاگتے ہیں۔

    مجلس عاملہ کی میٹنگ ایک گھنٹہ رہی۔ دوبجے میٹنگ ختم ہوئی۔ تین بجے ہمیں ’’اجے بھون‘‘ پہنچنا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک گھنٹہ کہاں گزارا جائے۔ تھوڑی سی بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ بہادر شاہ ظفر مارگ پر انڈین ایکسپریس کے کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی جائے اور وقت گزارا جائے۔

    گرمی اپنے شباب پر ہے۔ دھوپ جسم کے جس حصہ پر پڑتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے انگارہ رکھ دیا گیا ہو۔ ہم پانچوں ہانپتے کانپتے انڈین اکسپریس کے پیچھے ایک ڈھابہ میں جابیٹھتے ہیں۔ چائے بہت عمدہ ہے۔ باتوں میں وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ ایک گھنٹہ ’’پانچ منٹ‘‘ میں گذر جاتا ہے۔

    ٹھیک تین بجے ہم اجے بھون میں داخل ہوجاتے ہیں۔

    اجے بھون کمیونسٹ پارٹی کا ہیڈکوارٹر ہے۔ یہ جدید طرز کی کئی منزلہ عمارت ہے، سب سے اوپر کی منزل میں آڈیٹوریم ہے۔

    مہدی عابدی وہاں استقبال کے لیے موجود ہیں۔ لفٹ سے ہم اوپر پہنچے ہیں۔ دھیرے دھیرے مہان آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ساڑھے تین بجے تک ہال بھر جاتا ہے۔

    مہدی عابدی جلسہ کی باقاعدہ کارروائی شروع کرتے ہیں۔ صدارت کے لیے بزرگ کامریڈ ادھیکاری کے نام کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ نظمیں پڑھی جاتی ہیں۔ کچھ تقریریں ہوتی ہیں۔ عمدہ چائے اور کھانے کے لیے مٹھائی بکسٹ وغیرہ حاضرین کو دیے جاتے ہیں۔ اور ہم سب آل انڈیا پروگریسیو رائٹرز فیڈریشن کے چالیس سالہ جشن میں شرکت کرنے کے لیے پیارے لال بھون کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ اجے بھون سے نکل کر ہم پیارے لال بھون کی طرف جاہی رہے تھے کہ مجھے ایک صاحب مل جاتے ہیں اور مجھے روک کر کہتے ہیں،

    ’’اظہار صاحب کیا آپ کو معلوم ہے ترکمان گیٹ پر کچھ گڑبڑ ہوجانے کے باعث پورے جامع مسجد کے علاقہ میں کرفیو لگ گیا ہے؟‘‘

    کرفیو کا ذکر سن کر میں جامع مسجد کے علاقہ میں ایک دوست کو فون کرتا ہوں اس سے تصدیق ہوجاتی ہے کہ واقعی کرفیو لگ گیا ہے۔ میں حالات معلوم کرنے کے لیے دوستوں سے اجازت لے کر چل دیتا ہوں۔ اس وقت مجھے بزرگوں کا یہ معقولہ یاد آجاتا ہے کہ ہر مسرت کے ساتھ ایک غم وابستہ ہے۔ دو دن کی اتنی کامیابی اتنی حوصلہ پرور کانفرنس کے بعد یہ حادثہ!

    میرے لیے کانفرنس کا یہ عجیب و غریب اختتام ہے۔ مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ میں دوستوں کو باقاعدہ رخصت نہیں کرسکوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم پھر انہیں حوصلوں کے ساتھ ملیں گے اور ملتے رہیں گے، کبھی کانپور میں کبھی بمبئی میں، کبھی لکھنؤ میں، کبھی پٹنہ میں، کبھی مالیگاؤں میں۔ ہر شہر ہمارے لیے کھلا ہے۔ ہر منزل ہمارے لیے باہیں پھیلائے کھڑی ہے۔ ترقی پسند تحریک حرکت کی تحریک ہے اور حرکت زندگی ہے۔ اسی لیے تو ترقی پسند طاقتوں کے دشمن ہم سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ ہم ہزارہا امتحانوں سے گزرے ہیں، ہم نے شکستیں بھی دیکھیں ہیں فتحیں بھی۔ حادثے ہماری راہوں میں آنکھیں بچھاتے ہیں، طوفان ہمارے راستے روکنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہم پہاڑوں کی طرح سربلند کیے مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔ ایک روشن مستقبل کی جانب۔ ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، ہمیں کوئی نہیں مار سکتا۔ ترقی پسند تحریک زندہ باد ترقی پسند اذہان پائندہ باد۔

    مأخذ:

    اردو میں رپور تاژ نگاری (Pg. 285)

    • مصنف: عبدالعزیز
      • ناشر: ساقی بک ڈپو، دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے