aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "انگلستان"
ہندوستان کتاب گھر، لکھنؤ
ناشر
ہندوستان پرنٹنگ ورکس، دہلی
ہندستان آرٹ پریس
ہندوستان پبلشنگ ہاؤس، دہلی
ہندوستان پریس، لاہور
ہندوستان پریس، امرتسر، پنجاب
ہندوستان بکڈپو، لکھنؤ
ہندوستان پبلیکیشنز، غازی آباد
ہندوستان الیکٹرک ورکس، دہلی
ہندوستان پرنٹرس، ممبئی
ہندوستان لیتھو پریس، دہلی
ہندوستان آرٹ پرنٹر، حیدرآباد
ہندوستان پریس، رامپور
ہندوستان پبلی کیشنز، دہلی
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گےوہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اس گفتگو کے دوران میں مغنی یہ کہہ رہا تھا، ’’انگلستان میں ایک آدمی ہے جو ایک نظر دیکھ لینے کے بعد فوراً بتا دیتا ہے کہ اس قطعہ زمین کا طول و عرض کیا ہے۔۔۔رقبہ کتنا ہے ۔۔۔اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنی اس خداداد صلاحیت سے تنگ آ گیا ہے۔ وہ جب بھی کہیں باہر،کھلے کھیتوں میں نکلتا ہے تو ان کی ہریالی اور ان کا حسن اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جات...
مجھے سخت حیرت ہوئی کیونکہ پنسلین اس وقت بہت ہی قلیل مقدار میں تیار ہوتی تھی۔ امریکہ اور انگلستان میں جتنی بنتی ہے، تھوڑی تھوڑی ملٹری ہسپتالوں میں تقسیم کردی جاتی تھی۔ چنانچہ میں نے نرائن سے پوچھا،’’یہ تو بالکل نایاب چیز ہے، تمہیں کیسے مل گئی؟‘‘اس نے مسکرا کر جواب دیا،’’بچپن میں گھر کی تجوری کھول کر روپے چرانا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ آج دائیں ہا...
ہندوستانی ترقی کرتے کرتے تعلیم یافتہ جانور ہی کیوں نہ ہوجائے اس سے اس کی چارپائییت نہیں جدا کی جاسکتی۔ اس وقت ہندستان کو دو معرکے در پیش ہیں۔ ایک سوراج کا دوسراروشن خیال بیوی کا۔ دراصل سوراج اور روشن خیال بیوی دونوں ایک ہی مرض کی دوعلامتیں ہیں۔ دونوں چارپائیت میں مبتلا ہیں۔ سوراج تووہ ایساچاہتا ہے جس میں انگریز کو حکومت کرنے اورہندستانی کوگالی دینے...
لیکن اگر ہم کھلے خزانے یہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سی عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال کی بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ وتقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ چوبی بساط جیتنے وا...
ممتاز جدید شاعر اور افسانہ نگار، ہندوستان میں جدید اردو نظم کے فرو غ کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔
منشی نول کشور نے 1857 کے غدر کے بعد ہندوستان کی تہذیب، ادب اور علمی ورثے کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1858 میں قائم ہونے والا ان کا پریس مختلف موضوعات جیسے مذہب، تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس اور فنون پر تقریباً چھ ہزار کتابیں شائع کر چکا تھا۔ یہ پریس 1950 میں خاندانی تنازعات کے باعث بند ہو گیا، مگر اس کے تاریخی کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ریختہ کے پاس منشی نول کشور پریس سے شائع ہونے والی کتابوں کا ایک قیمتی ذخیرہ موجود ہے، جہاں ہر موضوع پر کتابیں دستیاب ہیں۔
ہندوستانی تاریخ پر اردو کی منتخب کتابیں یہاں پڑھیں۔ ان کتابوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی پھر پور عکاسی گئی ہے۔ آپ اس صفحہ پر ہندوستانی تاریخ پر اردو کی سرفہرست کتابیں تلاش کر سکتے ہیں، جسے ریختہ نے اردو ای بک کے قارئین کے لیے منتخب کیا ہے۔ ریختہ ای بکس سائٹ پر ہندوستان کی تاریخ پر مبنی بہترین ای بکس ہیں۔
इंग्लिस्तानانگلستان
England
عجائبات فرنگ
یوسف خاں کمبل پوش
سفر نامہ
ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کا حصہ
محمد مظفرالدین فاروقی
ہندوستانی تاریخ
تاریخ انگلستان
سید ہاشمی فریدآبادی
تاریخ
ہندوستان پر مغلیہ حکومت
شوکت علی فہمی
خلافت عباسیہ اور ہندوستان
اطہر مبارکپوری
تاریخ اسلام
معاشی تاریخ انگلستان
پرسی جارڈن
معاشیات
آئین انگلستان کی الف بے
الیاس احمد
عالمی
اصول قانون معاہدہ انگلستان
سر ولیم آنسن
دستور
عہد وسطی کا ہندوستان
ستیش چندر
ہندوستان
ول ڈیورانٹ
جدید ہندستان
بپن چندرا
بھارت کی لوک کتھائیں
محمد قاسم صدیقی
افسانہ
ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری
گوپی چند نارنگ
شاعری تنقید
قدیم ہندوستان کی ثقافت و تہذیب تاریخی پس منظر میں
ڈی۔ ڈی۔ کوسمبی
بچھڑے دوستوں سے بھی مل کے کیسی خوشی ہوتی ہے! بس خود آپ ہی اندازہ کر لیجئے۔ آخرکار آپ کا بھی تو کوئی دوست بچھڑ گیا ہوگا۔ اور پھر آپ سے اچانک آ ملا ہوگا۔ آپ ہی فرمائیے کیا شادی مرگ کا خوف نہیں ہو جاتا۔ میری بھی واللہ، ایک ہفتہ ہوا یہی کیفیت ہوئی۔ اتفاق سے ایک کام کے باعث میرا جانا علی گڑھ ہو گیا۔ میں کالج کے دیکھنے کا عرصہ سے مشتاق تو تھا ہی۔ اس موقع...
پھر وہ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں انہوں نے سر محمد شفیع کے ساتھ مل کر سائمن کمیشن سے تعاون کیا اور ۱۹۳۲ء میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے لئے سرکاری نمائندے کی حیثیت سے انگلستان تشریف لے گئے۔ اقبال کی ۶۱ سالہ زندگی میں صرف ۸ سال ایسے نکلتے ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی شاعری کے عام رجحان سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اسی کی ...
دعوت میں کئی ادیب شریک تھے۔ میں سوچنے لگا۔ ہندوستان کی آزادی کے متعلق اِن ہیٹ پہننے والے ادیبوں سے زیادہ مدد کی امید نہ رکھنی چاہیے اور براؤ ننگ کا خیال۔۔۔ ’’چند چاندی کے سکوں کے عوض وہ ہمیں چھوڑ گیا۔۔۔!‘‘ میرے ذہن میں پھیلتا چلا گیا۔ ان رجعت پسندوں کو یہ گمان کیسے ہو گیا کہ وہ ترقی پسند ادب کا چرچا کرکے سننے والوں کی آنکھوں میں دھول ڈال سکتے ہیں؟ ...
نواب صاحب نے کہا، ’’بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن ایسا کیوں نہ کریں۔۔۔ اوپر کھانا بڑے اطمینان سے کھائیں اور ایروز میں پکچر دیکھیں۔ ‘‘مسز لوجوائے نے تھوڑی دیر سوچا،’’ جی ہاں۔۔۔ ایروز میں ایک اچھی پکچر دکھائی جارہی ہے۔ گڈ ارتھ۔۔۔ میری چند سہلیوں نے دیکھی ہے۔ بہت تعریف کررہی تھیں۔۔۔ کہتی تھیں پال منی نے اس میں کمال کردیا ہے۔ ‘‘نواب صاحب اور مسز لوجوائے ایروز پہنچے۔ اوپر کی منزل پر لفٹ کے ذریعے سے پہنچے۔ ڈانسنگ ہال میں مشہور موسیقار بیتھون کی ایک سمفنی بجائی جارہی تھی۔ نواب صاحب نے مینودیکھا اور کھانے کے لیے آرڈر دیا۔ جو کچھ دیر بعد سروکردیاگیا۔ لیکن اس سے پہلے وہ دو پیگ وسکی کے ختم کرچکے تھے اور مسز لوجوائے نے شیری کا ایک گلاس پیا تھا۔ وہ دونوں ہلکے ہلکے سُرور میں تھے۔ جب ڈنر سے فارغ ہوئے تو ڈانس شروع ہوگیا۔ نواب صاحب کو انگلستان کا وہ زمانہ یاد آگیا جب ان کا دل جوان تھا اور انھوں نے انگریزی رقص کی باقاعدہ تعلیم لی تھی۔ اس یاد نے انھیں اکسایا کہ وہ بھی تھوڑی دیر کے لیے ذرا ناچ لیں۔ چنانچہ انھوں نے مسز لوجوائے سے کہا، ’’کیا آپ میری پارٹنر بن سکتی ہیں؟‘‘ مسز لو جوائے نے جواب دیا، ’’مجھے کوئی عذر نہیں۔‘‘
آدمی جس قدر کہ دوسرے پر بھروسے کرتے جاتے ہیں، خواہ اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کا بھروسہ گورنمنٹ ہی پر کیوں نہ کریں (یہ امر بدیہی اور لا بدی ہے) وہ اسی قدر بے مدد اور بے عزت ہوتے جاتے ہیں۔ اے میرے ہم وطن بھائیو! کیا تمہار ا یہی حال نہیں ہے؟ ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ یورپ کے لوگ ...
اسی کھڑکی میں سے میں برسوں سے ایک عجیب و غریب خاندان کو دیکھتی آئی ہوں۔ یہیں بیٹھ کر میری جیکسن سے پہلی مرتبہ بات چیت ہوئی تھی۔ سن بیالیس کا ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کا ہنگامہ زوروں پر تھا۔ گرانٹ روڈ سے دادر تک کا سفر ملک کی بے چینی کا ایک مختصر مگر جاندار نمونہ ثابت ہوا تھا۔ منگٹن روڈ کے نالے پر ایک بڑا الاؤ جل رہی تھا۔ جس میں راہ چلتوں کی ٹائیاں...
آخر کار ہم جیتے اور مولوی صاحب ہارے، کہنے لگے، خدا محفوظ رکھے! تم جیسے شاگرد بھی کسی کے نہ ہوں گے۔ شاگرد کیا ہوئے، استاد کے استاد ہو گئے۔ اچھا بھئی میں ہارا، میں ہارا۔ اچھا خدا کے لئے کتاب اٹھا لاؤ اور سبق پڑھ کر میرا پنڈ چھوڑو۔ دیکھئے کون سا دن ہوتا ہے کہ میرا تم سے چھٹکارا ہوتا ہے۔ میں جا کر صحن میں سے کتاب اٹھا لایا اور مولوی صاحب جیسے تھے ویس...
اکبر کی شہرت و مقبولیت کی سب سے بڑی نقیب ان کی ظرافت تھی، ان کے نام کو قہقہوں نے اچھالا، ان کی شہرت کو مسکراہٹوں نے چمکایا۔ ہندوستان میں آج جو گھر گھر ان کا نام پھیلا ہوا ہے، اس عمارت کی ساری داغ بیل ان کی شوخ نگاری و لطیفہ گوئی ہی کی ڈالی ہوئی ہے۔ قوم نے ان کو جانا مگر اسی حیثیت سے کہ وہ روتے ہوئے چہروں کو ہنسا دیتے ہیں۔ ملک نے ان کو پہنچانا مگر ...
ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ سنسکرت میں Epigrammatic شاعری کی کثرت ہے۔ اس میں کوئی مقولہ، کوئی خیال، کوئی تاثر، کوئی رائے، محض چند لفظوں میں نچوڑ کر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ شاعری نہ مربوط خیالات کا مجموعہ ہوتی ہے اور نہ کسی خیال کو آغاز، ترقی اور انتہا کے منازل سے گزارتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جاپانی شاعری کا بڑا حصہ محض اشاروں پر مبنی نظموں پر مشتمل ہ...
داراب کاظم زادہ: (کلپڈ برطانوی لہجے میں) مس زری والا نے اپنے مکان کا فون نمبر بھی دیا تھا۔ ہم لوگ ایئر پورٹ پر ہوٹل سینٹور میں ٹھہرے ہیں۔ وہاں سے فون کیا مگر بارش کی وجہ سے لائن خراب تھی۔ شام کو ٹیکسی لے کر مکان ڈھونڈنے نکلے۔ (رودابہ چائے کی ٹرے لیے کمرے میں واپس آتی ہے) ہم دونوں۔۔۔ کزن گلچہر اور میں۔۔۔ چھٹیوں میں ہندوستان کی سیاحت کے لیے آئے ہیں...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books