aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "بزاز"
پنڈت پریم ناتھ بزاز
مصنف
محمد تراب علی خان باز
چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک ٹٹ پونجیے بساطی نے جس کی دکان شہر میں چلتی نہ تھی، بلکہ اسے دکان کا کرایہ نکالنا بھی مشکل ہو جاتا تھا، شہر کو خیر باد کہہ کر اس بستی کا رخ کیا۔ یہاں پر اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کے طرح طرح کے لونڈر، قسم قسم کے پاؤڈر، صابن، کنگھیاں، بٹن، سوئی، دھاگا، لیس، فیتے، خوشبودار تیل، رومال، منجن وغیرہ کی خوب بکری ہونے لگی۔ اس بستی کے رہنے والوں کی سرپرستی اور ان کے مربیانہ سلوک کی وجہ سے اسی طرح دوسرے تیسرے روز کوئی نہ کوئی ٹٹ پونجیا دکاندار، کوئی بزاز، کوئی پنساری، کوئی نیچہ بند، کوئی نانبائی مندے کی وجہ سے یا شہر کے بڑھتے ہوئے کرایے سے گھبرا کر اس بستی میں آ پناہ لیتا۔
’’وہ۔۔۔ وہ کسی اور سے محبت کرتی تھی۔‘‘’’کس سے۔۔۔ کس اُلو کے پٹھے سے۔۔۔ ایک پھیری والے بزاز سے جس کو نہ تو غالب کے شعر یاد تھے نہ کرشن چندر کے افسانے۔ جو آپ کے مقابلے میں لونڈر لگے رومال سے نہیں بلکہ اپنے میلے تہمد سے ناک صاف کرتا تھا۔‘‘ پرکاش ہنسا۔ ’’چودھری صاحب قبلہ !مجھے یاد ہے آپ بڑی محبت سے اسے خط لکھا کرتے تھے۔ ان میں آسمان کے تمام تارے نوچ کر آپ نے چپکا دیے۔ چاند کی ساری چاندنی سمیٹ کر ان میں پھیلا دی مگر اس پھیری والے بزازنے آپ کی لونڈیا کو جس کی ذہنی رفعت کے آپ ہر وقت گیت گاتے تھے، جس کی نفاست پسند طبیعت پر آپ مرمٹے تھے، ایک آنکھ مار کر اپنے تھانوں کی گٹھری میں باندھا اور چلتا بنا۔۔۔ اس کا جواب ہے آپ کے پاس؟
بات پکی ہو گئی اور شادی کا سامان ہونے لگا۔ ٹھاکر صاحب ان اصحاب میں سے تھے جنہیں اپنے اوپر بھروسہ نہیں ہوتا۔ ان کی نگاہ میں پرکاش کی ڈگری اپنے ساٹھ سالہ تجربے سے زیادہ قیمتی تھی۔ شادی کا سارا انتظام پرکاش کے ہاتھوں میں تھا۔ دس بارہ ہزار روپے خرچ کرنے کا اختیار کچھ تھوڑی عزت کی بات نہیں تھی۔ دیکھتے دیکھتے ایک خستہ حال نوجوان ذمہ دار منیجر بن بیٹھا۔ ک...
دیوانہ بنانا ہے دیوانہ بنادےاس غزل نے اسے دیوانہ بنا دیا تھا،جہاں جاؤ’’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘‘ الاپا جارہا ہے۔ آخر کیا مطلب ہے کو ٹھے پر چڑھو تو کانا اسمٰعیلی ایک آنکھ سے اپنے اڑتے ہوئے کبوتروں کی طرف دیکھ کر اونچے سُروں میں گارہا ہے’’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘‘ دریوں کی دوکان پر بیٹھو تو بغل کی دوکان میں لالہ کشوری مل بزاز اپنے بڑے بڑے چو تڑوں کی گدیوں پر آرام سے بیٹھ کر نہایت بھونڈے طریقے سے گانا شروع کر دیتا ہے،
ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہوگا۔ وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی۔ اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی اس کے خدوخال بے عیب ہیں۔ مگر وہ تازگی وہ شگفتگی وہ نظرفریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے ہوئے زمانہ ہوگیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہ...
انتظار کی کیفیت زندگی کی سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیتوں میں سے ایک ہوتی ہےاوریہ کیفیت شاعری کےعاشق کا مقدر ہے وہ ہمیشہ سے اپنے محبوب کے انتطار میں لگا بیٹھا ہے اور اس کا محبوب انتہائی درجے کا جفا پیشہ ،خود غرض ، بے وفا ، وعدہ خلاف اوردھوکے باز ہے ۔ عشق کے اس طے شدہ منظرنامے نے بہت پراثر شاعری پیدا کی ہے اور انتظار کے دکھ کو ایک لازوال دکھ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور انتظار کی ان کفیتوں کو محسوس کیجئے ۔
معشوق کی ایک صفت اس کا فریبی ہونا بھی ہے ۔ وہ ہر معاملے میں دھوکے باز ثابت ہوتا ہے ۔ وصل کا وعدہ کرتا ہے لیکن کبھی وفا نہیں کرتا ہے ۔ یہاں معشوق کے فریب کی مختلف شکلوں کو موضوع بنانے والے کچھ شعروں کا انتخاب ہم پیش کر رہے ہیں انہیں پڑھئے اور معشوق کی ان چالاکیوں سے لطف اٹھائیے
बज़्ज़ाज़بزاز
cloth merchant
آزاد کشمیر
باز گوئی
سریندر پرکاش
تمثیلی/ علامتی افسانے
شاعر انسانیت
مضامین
صدائے باز گشت
ذکیہ مشہدی
کہانیاں/ افسانے
باز گشت
بانو قدسیہ
خواتین کی تحریریں
کلیات نبض و بول و براز
سید حبیب الرحمٰن
طب
جاں باز مسلم
خواجہ حسن نظامی
تاریخ
جاں باز ثریا
نذر سجاد حیدر
باز یافت
محمود الٰہی
تحقیق و تنقید
گنجفہ باز خیال
وارث علوی
فکشن تنقید
باز اور کوا
طاہر اختر میمن
افسانہ
سوانح سر سید ایک باز دید
شافع قدوائی
جاں باز ترک
صادق حسین صدیقی
تاریخی
روپ متی اور باز بہادر
محشر عابدی
باز آؤ اور زندہ رہو
محمد حنیف رامے
زبان و ادب
’’یہ بھی حسن اتفاق تھا۔‘‘ مولانا بولے۔ ’’میں گھنٹہ گھر سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک بزاز کی دکان پر پڑی۔ دیکھا کہ زربفت کے تھانوں کے ڈھیر سامنے لگے ہیں۔ اور حضرت ہیں کہ سب کو ناپسند کرتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے دیکھا تو پہچانا تھوڑا ہی۔۔۔‘‘’’بھئی مولانا صاحب۔‘‘ میر صاحب قطع کلام کرکے بولے، ’’میں پھرکہتا ہوں معاف کرنا۔ میں پہلے واقعی آپ کو نہیں پہچان سکا تھا۔‘‘
فیاض کچھ دیر گردن جھکائے ہوئے سوچ میں ڈوبا رہا۔ جب اس نے سر اٹھایا تو سب سے پہلے اس کی نظر چلمن پر پڑی۔ حیدری خاں کی طرح اصغری بھی اس کے جواب کی منتظر تھی۔’’خاں صاحب!‘‘ اس نے دھیمی آواز مگر فیصلہ کن لہجے میں کہا، ’’مجھے آپ کی تینوں شرطیں منظور ہیں۔ آج سے آپ میرے استاد ہیں۔‘‘ اسی شام حیدری خاں اپنا بوریا بدھنا لے فیاض کے ہاں اٹھ آیا۔ یہ بوریا بدھنا کیا تھا، ٹین کا ایک ٹرنک جس کا روغن اڑا ہوا اور کنڈا غائب تھا۔ حیدری خاں نے اسے بند کرنے کے لیے رسی باندھ رکھی تھی۔ ایک مٹی کا سڑا سا حقہ تھا اور ایک پیالہ۔ اصغری کے دل کو چوٹ تو لگی اور اس نے کچھ آنسو بھی بہائے۔ مگر وہ طبعاً ان اطاعت گزار بیویوں میں سے تھی جو شوہر کو مجازی خدا سمجھتی ہیں اور ہر حال میں ان کی خوشنودی کی جویا رہتی ہیں۔ موسیقی سے میاں کے اس جنون کی حد تک بڑھے ہوئے شوق کو دیکھ کر اس نے زیادہ مزاحمت نہ کی۔ اور حیدری خاں کا اپنے ہاں رہنا منظور کر لیا۔ دوچار ہی دن میں اسے حیدری خاں کی سرشت کا اندازہ بھی ہو گیا۔ وہ نشہ باز تو تھا مگر بدنظر ہرگز نہ تھا۔ پرائی بہو بیٹیوں کو تانکنے جھانکنے کی اسے عادت نہ تھی۔ وہ اصغری کو ہمیشہ بہو یا بیٹی کہہ کر پکارتا اور جب تک فیاض باہر رہتا، گھر کے نزدیک نہ چلتا۔
کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤںکہ بزاز و خیاط کا بل چکاؤں
بجلی پہلوان کے متعلق بہت سے قصے مشہور ہیں، کہتے ہیں کہ وہ برق رفتار تھا۔ بجلی کےمانند اپنے دشمنوں پر گرتا تھا اور انھیں بھسم کر دیتا تھا لیکن جب میں نے اسے مغل بازار میں دیکھا تو وہ مجھے بے ضرر کدو کے مانند نظر آیا، بڑا پھسپھس سا،توند باہر نکلی ہوئی، بند بند ڈھیلے، گال لٹکے ہوئے، البتہ اس کا رنگ سرخ و سفید تھا۔وہ مغل بازار میں ایک بزاز کی دکان پر آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا، میں نے اس کو غور سے دیکھا، مجھے اس میں کوئی غنڈہ پن نظر نہ آیا، حالانکہ اس کے متعلق مشہور یہی تھا کہ ہندوؤں کا وہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ وہ غنڈہ ہو ہی نہیں سکتا تھا، اس لیے کہ اس کے خدوخال اس کی نفی کرتے تھے۔ میں تھوڑی دیر سامنے والی کتابوں کی دکان کے پاس کھڑا اس کو دیکھتا رہا۔ اتنے میں ایک مسلمان عورت جو بڑی مفلس دکھائی دیتی تھی، بزاز کی دکان کے پاس پہنچی، بجلی پہلوان سے اس نے کہا، ’’مجھے بجلی پہلوان سے ملنا ہے۔‘‘
لطفے کن و باز آکہ خرابم بہ عتابتدیکھنے والوں نے دیکھا کہ زہرۂ مصری کی حویلی کے پٹ کھلے، ایک بوڑھا دربان باہرآ یا اور بایزید شوقی کو اندر بلا لے گیا۔ وہاں بایزید نے کیا دیکھا، کیا سنا، یہ کسی کو نہیں معلوم، لیکن جب اس کا طائفہ شہر نخجوان سے کوچ کرنے لگا تو بایزید اس میں نہ تھا۔ وہ رہتا کہاں تھا، یہ بھی کسی کو نہ معلوم ہوا۔ اتنا ضرور تھا کہ ہر صبح زہرۂ مصری کی حویلی کا پھاٹک کھلنے کے پہلے ہی وہ سامنے کے چوک پر پہنچ کر کبھی مولوی اور کبھی حافظ کی غزل گاتا، تاآنکہ اس کی طلبی اندر سے نہ آ جاتی۔ دوتین برس یوں ہی گزر گئے۔ بایزید نے کسی اور طائفے کی سنگت بھی نہ اختیار کی تھی اور نہ وہ کہیں کسی کے گھر میں یا کسی تقریب کے موقعے پر گانے ہی کے لیے جاتا تھا۔ شروع شروع میں اس کی طلبیاں بہت تھیں، لیکن پھر سب ہی نے سمجھ لیا کہ اب وہ صرف اپنے لیے اور لبیبہ خانم کے لیے گاتا ہے۔
میں حافظ جی کو ان کے پاس لے کر گیا تو انہوں نے دوکانوں کا پتہ ان کو بتایا۔ ایک چٹ پر لکھ کر دیا اور کہا، ’’منشی منٹو کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ اور جو کچھ اسے چا ہیئے لے دو۔‘‘ میں حافظ جی کے ساتھ ہو لیا۔ ہم موٹر میں ایک بزاز کی دکان پر پہنچے وہاں سے دو ساڑھیاں لیں، سیٹھ آرڈیشر کے ذاتی اکاؤنٹ میں۔ دوسری دکان جوہری کی تھی۔ وہاں سے ایک آدمی میرے ساتھ کر د...
ناظم کی نیت قطعاً نیک نہیں تھی۔ اس کی طبیعت کو اس عورت نے جو صرف بنیان اور پیٹی کوٹ پہنتی اور اس وقت جب کہ ناظم نہانے میں مصروف ہوتا اس قسم کی انگڑائیاں لیتی تھی کہ دیکھنے والے مرد کی ہڈیاں چٹخنے لگیں، اس نے اسے اکسادیا تھا مگر وہ ڈرپوک تھا۔ اس کی شریف فطرت اس کو مجبور کرتی کہ وہ اس سے زیادہ آگے نہ بڑھے، ورنہ اسے یقین تھا کہ اس عورت کو حاصل کرنا ک...
ڈالن والا کی سڑکیں عموماً خاموش پڑی رہتی تھیں۔ اکا دکا راہگیر یا موٹروں اور تانگوں کے علاوہ کبھی کبھار کوئی سکھ جوتشی ہاتھ میں سرٹیفکیٹوں کا میلا سا پلندہ سنبھالے ادھر ادھر تاکتا سامنے سے گزر جاتا تھا۔ یا موٹے موٹے ’چائینا مین‘ زین میں بڑی نفاست سے بندھے ہوئے بے حد وزنی گٹھر سائیکلوں پر لادے چکر کاٹا کرتے تھے، یا کشمیری قالین فروش یا بزاز یا قیمتی ...
(۳)ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزاز سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بےحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بےچین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل! کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا، اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ ’’ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ حال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور آج یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔
لغت، آنکھوں پر غفلت کا پردہ پڑنا، پردے پڑنا (آنکھوں پر پردہ۔ پردے پڑنا پہلے درج کر چکے ہیں) آنکھ کا اندھا، آنکھوں کی اندھی، آنکھ کا، کی کیچڑ (اس کی جگہ ’’کیچڑ‘‘ کی تقطیع میں ہونا چاہیے تھا) آنکھ کی سیل، آنکھوں کی سیل (ان کی جگہ’’سیل‘‘ کی تقطیع میں تھی)۔ آنکھ کی گردش۔ آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو ٹپکنا، چلنا، گرنا۔ آواز باز گشت (اس کی جگہ ’’باز گشت...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books