aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "بنی_نوع_انسان"
مثلاًبنی نوع انسان
وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنےسے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘
بنی نوع انسانتمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ
بیسویں صدی کی بہترین ایجاد، کیا بلحاظ فوائد بنی نوع انسان اور کیا بلحاظ آرام و آسائش، اگر ہے تو ٹیلی فون ہے۔(۱)
خدا جانے کیا اصلیت غیر کی ہےدکھے ہے بنی نوع انسان کر کے
دوستی کا جذبہ ایک بہت پاک اور شفاف جذبہ ہے ۔ اس سے انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کو جاننے ، سمجھنے اور ایک دوسرے کیلئے جینے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ شاعروں نے اس اہم انسانی جذبے اور رشتے کو بہت پھیلاؤ کے ساتھ موضوع بنایا ہے ۔ دوستی پر کی جانے والی اس شاعری کے اور بھی کئی ڈائمینشن ہیں ۔ دوستی کب اور کن صورتوں میں دشمنی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہے ؟ ہم سب اگرچہ اپنی عام زندگی میں ان حالتوں سے گزرتے ہیں لیکن شعوری طور پر نہ انہیں جان پاتے ہیں اور نہ سمجھ پاتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور ان انجانی صورتوں سے واقفیت حاصل کیجئے ۔
احسان کرنا ،احسان کرکے اس کا بدلہ چاہنا ،احسان فراموش ہوجانا ، احسان کے پردے میں تکلیف پہنچانا یہ سارے تجربے روز مرہ کے انسانی تجربے ہیں ۔ ہم ان سے گزرتے بھی ہیں اور اپنی عام زندگی میں ان کا گہرا احساس بھی رکھتے ہیں ۔ لیکن شاعری ان تمام تجربوں کی جس گہری سطح سے ہمیں روشناس کراتی ہے اس سے زندگی کا ایک نیا شعور حاصل ہوتا ۔ عشق و عاشقی کے بیانیے میں احسان کی اور بھی کئی مزے دار صورتیں سامنے آئی ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
بھروسے کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا دکھ اور اس کی پائیداری سے حاصل ہونے والا اعتماد دونوں ہی تجربے بہت اہم انسانی تجربے ہیں ۔ انسان اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی زندگی میں رشتوں کے ایک جال میں پھنسا ہوتا ہے ، جہاں وہ کسی پر بھروسہ کرتا بھی ہے اور اس پر بھروسہ کیا بھی جاتا ہے ۔ شاعروں نے زندگی کی بہت چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا ہے ، بھروسے اور اس کی مختلف شکلوں کو مشتمل یہ شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے ۔
बनी-नौ-ए-इंसानبنی نوع انسان
humanity
ایک اخبار فروش چلا چلا کر کہہ رہا ہے۔ ’’طہران میں بنی نوع انسان کے تین بڑے رہنماؤں کا اعلان، ایک نئی دنیا کی تعمیر!‘‘ایک نئی دنیا کی تعمیر!
’’ہم معلوم تاریخ کے ہزاروں غیرمتعین سال۔۔۔اور پھر متعین کردہ سالوں کے دو ہزار یئے کے اوپر چھٹے سال کے اختتام پر کھڑے ہو کر اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپارہے ہیں کہ بنی نوع انسان کے لیے کیا ضروری ہے اور کیا ۔۔۔‘‘۔وہ بولتے بولتے اچانک خاموش ہو گیا۔ اسے لگا وہ دلدل پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
’’اس کائنات کے مالک رب العالمین نے فرمایا، کُن! ہوجا، ظاہر ہوجا، وجود میں آجا۔ کُن فیکون! ہوجا اور وہ ہوگیا۔ تب سے بنی نوع انسان کٹھ پتلیوں کی طرح اس کے اشارے پر ناچ رہے ہیں۔ ڈورے نظر نہیں آتے۔ لیکن ڈوروں کے وجود کا کون منکر ہوگا۔ وہ انگلیاں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ عقب سے اپنے فنی کمالات دکھاتی رہتی ہیں۔۔۔ او ران انگلیوں کی حرکت و ارتعاش کا محرک۔۔...
مرشد نے بہت غور سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ کچھ دیر کے لیے انہوں نے آنکھیں موند لی تھیں اور پھر آنکھیں کھول کر گویا ہوئے تھے۔ ’’اب تم پر واجب ہے کہ اپنی ذات سے بنی نوع انسان کو فیض پہنچاؤ۔ خدا کی بنائی ہوئی یہ زمین تنگ نہیں ہے۔ اس کے چپے چپے پر اس کا نام لینے والے آباد ہیں۔ میں تم سے مشرق کی طنابیں مغرب سے ملانے نہیں کہتا اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ شمال کے سرے کو جنوب سے ملاؤ۔ تمہیں صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنی ذات کو انسانوں کے لیے فیض و برکت اور عنایت کا سرچشمہ بناؤ۔‘‘
اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی۔ گو زندان ایسی مشقت نے ہم سب کو وحشی درندوں سے بدتر بنا دیا تھا مگر ہم پھر بھی انسان تھے۔اور بنی نوع انسان کی طرح ہم بھی بغیر کسی کی پرستش کئے زندہ نہ رہ سکتے تھے ہمارے لئے اس کی ذات سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور شے نہ تھی۔ اس لئے کہ بیسیوں انسانوں میں سے جو اس عمارت میں رہتے۔ ایک صرف وہی تھی۔ جو ہماری پرواہ کیا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ہر روز اس کیلئے بسکٹ مہیا کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے۔
اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی۔ گو زندان جیسی مشقّت نے ہم سب کو وحشی درندوں سے بدتر بنا دیا تھا مگر پھر بھی ہم انسان تھےاور بنی نوع انسان کی طرح ہم بھی بغیر کسی پرستش کئے زندہ نہ رہ سکتے تھے۔ ہمارے لئے اس کی ذات سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور شے نہ تھی۔ اس لئے کہ بیسیوں انسانوں میں سے جو اس عمارت میں رہتے، ایک صرف وہی تھی جو ہماری پروا کیا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ہر روز اس کے لیے بسکٹ مہیا کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے۔۔۔
پانچ ہزار برس گزرے ایسی ہی ایک تہذیب دجلہ و فرات کی وادی میں ابھری اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے مشرق قریب میں پھیل گئی۔ بنی نوع انسان کی در اصل یہ پہلی منظم تہذیب تھی۔ اس تہذیب کا سکہ ڈھائی ہزار برس تک بحر روم سے بحرعرب تک چلتا رہا۔ تب فارس کے آتش کدوں میں مؤیدین زرتشت کے زمزمے بلند ہوئے اور ہخامنشی فرماں رواؤں نے بابل ونینوا کے ملبوں پر ایرانی تہذیب...
ہم لوگ خوش قسمت ہیں کیونکہ ایک حیرت انگیز دور سے گزر رہے ہیں۔ آج تک انسان کو ترقی کرنے کے اتنے موقعے کبھی میسر نہیں ہوئے، پرانے زمانے میں ہرایک کو ہرہنرخود سیکھنا پڑتا تھا، لیکن آج کل ہر شخص دوسروں کی مدد پر خواہ مخواہ تلا ہوا ہے اوربلاوجہ دوسروں کو شاہراہ ِکامیابی پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔اس موضوع پربیشمارکتابیں موجودہیں۔اگرآپ کی مالی حالت مخدوش ہےتو فوراً ’لاکھوں کماؤ‘ خرید لیجئے۔ اگر مقدمہ بازی میں مشغول ہیں تو ’رہنمائے قانون‘ لےآئیے۔اگربیمارہیں تو ’گھر کا طبیب‘ پڑھنے سے شفا یقینی ہے۔ اس طرح ’’کامیاب زندگی‘‘، ’’کامیاب مرغی خانہ‘‘، ’’ریڈیو کی کتاب‘‘، ’’کلید کامیابی‘‘، ’’کلید مویشیاں‘‘ اور دوسری لاتعداد کتابیں بنی نوع انسان کی جو خدمت کر رہی ہیں، اس سے ہم واقف ہیں۔
’’داستان کی کائنات میں انسان کے وجود کا مقصد اس کے مرتبے اور منصب کے لحاظ سے متعین ہوتا ہے۔ عام طور سے بنی نوع انسان کا مقصود وجود یہ ہے کہ وہ محبت کرے لڑے مرے اور اپنی سچائی کا اعلان کرے۔ باطل پرست، ساحر اور خودپرست اور شجرپرست، آفتاب پرست، اپنے کو خدا کہنے والے یہ سب اپنی اپنی طرح کی سچائی کا اعلان کرتے ہیں اور خداپرست (اہل اسلام یا کوئی اور) اپن...
’’بتا ہاجرہ! میں آخری بار پوچھ رہی ہوں۔ آخری بار۔ بتا ہماری خوشیوں سے کھیلنے والا کون ہے؟‘‘میری ساس بےچاری مامتا کی ماری ہوئی کیسے سمجھ پاتی کہ جب سے دنیا بنی ہے، ایک ہی کھیل انسان کا سچا اور اصلی کھیل رہا ہے۔ اگر لوگوں نے اس کھیل کے ساتھ عزت کو نتھی نہ کیا ہوتا تو بنی نوع انسان ہنستے کھیلتے بہت دور نکل جاتے۔ اب تو بندھے ٹکے اصولوں سے کوئی رتی بھر بھٹکا اور عزت کے لالے پڑ گئے۔ خدا جانے پہلے پہل کس کافر نے عشق کیا اور افزائش نسل کے کھیل کے ساتھ عزت کا تصور تعویز کے طور پر باندھ دیا۔ پتا نہیں کس صدی میں کس نئی سوچ والے نے مذہب عشق اور جسمانی تعلقات کی ضرورت کو یکجا کر کے حدیثِ عشق تیار کی۔ اب تو عزت اعضائے جنس اور محبت عجیب قسم کے تکون بن گئے ہیں جن کا ہر زاویہ صلیب کی طرح زاویہ قائمہ اور ہر ضلع قیامت سے بھی لمبا تھا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books