Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھروسہ پر اشعار

بھروسے کے ٹوٹنے اور

بکھرنے کا دکھ اور اس کی پائیداری سے حاصل ہونے والا اعتماد دونوں ہی تجربے بہت اہم انسانی تجربے ہیں ۔ انسان اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی زندگی میں رشتوں کے ایک جال میں پھنسا ہوتا ہے ، جہاں وہ کسی پر بھروسہ کرتا بھی ہے اور اس پر بھروسہ کیا بھی جاتا ہے ۔ شاعروں نے زندگی کی بہت چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا ہے ، بھروسے اور اس کی مختلف شکلوں کو مشتمل یہ شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے ۔

دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے

اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

احمد فراز

نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید

مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا

فراق گورکھپوری

مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن

مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر

عمر انصاری

عادتاً تم نے کر دیے وعدے

عادتاً ہم نے اعتبار کیا

گلزار

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

تمام رات قیامت کا انتظار کیا

داغؔ دہلوی

آپ کا اعتبار کون کرے

روز کا انتظار کون کرے

داغؔ دہلوی

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

مرزا غالب

مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں

میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا

عاصم واسطی

عشق کو ایک عمر چاہئے اور

عمر کا کوئی اعتبار نہیں

جگر بریلوی

میں اب کسی کی بھی امید توڑ سکتا ہوں

مجھے کسی پہ بھی اب کوئی اعتبار نہیں

جواد شیخ

ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا

جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا

جوش ملیح آبادی

مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی

غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج

احمد حسین مائل

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے

یا اپنی محبت پہ بھروسا نہیں ہم کو

شہریار

دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

اظہر فراغ

اے مجھ کو فریب دینے والے

میں تجھ پہ یقین کر چکا ہوں

اطہر نفیس

ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر

یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے

جاں نثار اختر

بھولی باتوں پہ تیری دل کو یقیں

پہلے آتا تھا اب نہیں آتا

آرزو لکھنوی

مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ

کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا

اختر نظمی

میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں

ہزار بار جسے آزما لیا میں نے

مخمور سعیدی

جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا

دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا

شارق کیفی

بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے

بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں

اختر سعید خان

یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا

ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ

فانی بدایونی

کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح

لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح

فرید پربتی

ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے

نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا

وحید قریشی

وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری

یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے

آسی غازی پوری

درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ

اس کو کب اعتبار آتا ہے

محمد علی خاں رشکی

یہ اور بات کہ اقرار کر سکیں نہ کبھی

مری وفا کا مگر ان کو اعتبار تو ہے

علیم اختر مظفر نگری

جب نہیں کچھ اعتبار زندگی

اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا

امداد امام اثر

مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن

تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے

اختر شیرانی

جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں

زندگانی کا کیا بھروسا ہے

خاں آرزو سراج الدین علی

اس کی خواہش پہ تم کو بھروسا بھی ہے اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے

لطف آیا تمہیں گمرہی نے کہا گمرہی کے لئے ایک تازہ غزل

عرفان ستار

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے