aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "عجائب"
عجائب گھر، لاہور
ناشر
عجائب چترکار
مصنف
مہاراجہ گ سے ریس کورس پر اشوک کی ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔مہاراجہ گ کو ریس کے گھوڑے پالنے کا شوق ہی نہیں خبط تھا۔ اس کے اصطبل میں اچھی سے اچھی نسل کا گھوڑا موجود تھا۔ اور محل میں جس کے گنبد ریس کورس سے صاف دکھائی دیتے تھے، طرح طرح کے عجائب موجود تھے۔اشوک جب پہلی بار محل میں گیا تو مہاراجہ گ نے کئی گھنٹے صرف کرکے اسکو اپنے تمام نوادر دکھائے۔ یہ چیزیں جمع کرنے میں مہاراجہ کو ساری دنیا کا دورہ کرنا پڑا تھا۔ ہر ملک کا کونہ کونہ چھاننا پڑا تھا۔ اشوک بہت متاثر ہوا۔ چنانچہ اس نے نوجوان مہاراجہ گ کے ذوقِ انتخاب کی خوب داد دی۔
ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی،جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ قدیم شعرا بقول مولانا...
نئی چیز لاتی تھی اس کے حضورعجائب، غرائب پرستان کے
قربان پری مکھ پہ ہوئی چوب سی جل کریہ بات عجائب مہ تاباں سوں کہوں گا
پچاس اور مارے گئے۔ تکشیلا کے عجائب گھر میں اتنے خوبصورت بُت تھے اتنے حسن سنگ تراشی کے نادر نمونے، قدیم تہذیب کے جھلملاتے ہوئے چراغ۔
अजाइबعجائب
wonders
विचित्रताएँ, आश्चर्यजनक बातें
‘अजीब' का बहुः, विचित्रताएँ, अजीब बातें ।
فسانۂ عجائب
رجب علی بیگ سرور
داستان
فسانہ عجائب
عجائب القصص
آفتاب شاہ عالم ثانی
افسانوی ادب
عجائب الاسفار
ابن بطوطہ
سفر نامہ
فسانۂ عجائب کا تنقیدی مطالعہ
سید ضمیر حسن
فکشن تنقید
فسانہ عجائب با تصویر
عجائب المخلوقات اردو
تنقید
ارتضٰی کریم
انتخاب فسانۂ عجائب
رستہ رستہ ایک عجائب گاہ مظفرؔہنستی آنکھوں سے جانا ششدر آ جانا
تاریخ اور شعر کا فرق ایک مثال کے ذریعہ سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ ایک شخص جنگل میں جا رہا ہے۔ کسی گوشہ سے ایک مہیب شیر ڈکارتا ہوا نکلا، اس کی پر رعب گونج، بھیانک چہرہ، خشمگیں آنکھوں نے اس شخص کے دل کو لرزا دیا، یہ شخص کسی کے سامنے شیر کا حلیہ اور شکل و صورت جن مؤثر لفظوں میں بیان کرے گا، وہ شعر ہے۔علم الحیوانات کا ایک عالم کسی عجائب خانہ میں جاتا ہے، وہاں ایک شیر کٹہرہ میں بند ہے، یہ عالم شیر کے ایک ایک عضو کو علمی حیثیت سے دیکھتا ہے، اور علمی طریقہ سے کسی مجمع کے سامنے شیر پر لکچر دیتا ہے، یہ سائنس، تاریخ یا واقعہ نگاری ہے۔
ٹرین مغربی جرمنی کی سرحد میں داخل ہوچکی تھی۔ حدِنظر تک لالہ کے تختے لہلہارہے تھے۔ دیہات کی شفاف سڑکوں پر سے کاریں زناّٹے سے گذرتی جاتی تھیں۔ ندیوں میں بطخیں تیر رہی تھیں۔ ٹرین کے ایک ڈبے میں پانچ مسافر چپ چاپ بیٹھے تھے۔ ایک بوڑھا جو کھڑکی سے سر ٹکائے باہر دیکھ رہا تھا۔ ایک فربہ عورت جو شاید اس کی بیٹی تھی اور اس کی طرف سے بہت فکر مند نظر آتی تھی۔ غالباً وہ بیمار تھا۔ سیٹ کے دوسرے سرے پر ایک خوش شکل طویل القامت شخص، چالیس سال کے لگ بھگ عمر، متبسم پر سکون چہرہ ایک فرنچ کتاب کے مطالعہ میں منہمک تھا۔ مقابل کی کرسی پر ایک نوجوان لڑکی جو وضع قطع سے امریکن معلوم ہوتی تھی، ایک با تصویر رسالے کی ورق گردانی کر رہی تھی اور کبھی کبھی نظریں اٹھا کر سامنے والے پرکشش شخص کو دیکھ لیتی تھی۔ پانچویں مسافر کا چہرہ اخبار سے چھپا تھا۔ اخبار کسی ادق اجنبی زبان میں تھا۔ شاید ناردیجین یا ہنگیرین، یا ہو سکتا ہے آئس لینڈک۔ اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آئس لینڈک میں باتیں کرتے ہیں۔ پڑھتے لکھتے اور شعر کہتے ہیں۔ دنیا عجائب سے خالی نہیں۔
عشق حاضر ہے عشق غائب ہےعشق ہی مظہر عجائب ہے
’’دہلی سے تین سومیل کے فاصلے پر لاہور ہے۔ میں ضلع لاہور کارہنے والا ہوں۔ ہمارا علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ پچھلے سال بارشیں کم ہوئی تھیں۔ اس لیے فصلیں اچھی نہ ہوئیں، اس سال گورومہاراج کی کرپا ہے۔ نہر میں بھی پانی خوب رہا اور بارشیں بھی اچھی ہوگئیں، امید ہے کہ گیہوں کی فصل اچھی رہے گی۔ لاہور کی بہت سی چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ مثلاً شاہی مسجد، مہاراجہ رنجیت سن...
ان حالات میں چغتائی کے جینے کاامکان بہت کم ہے۔ کوئی بات "سچ"بھی ہوتی ہے اس کی تصویروں میں؟ درخت تک تو مجنوں کی انگلیاں معلوم ہوتے ہیں۔ اور پھر انسانوں کی تصویریں بنانے سے بھی تو وہ نہیں چوکتا اور صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی۔ غزال چشم، سینہ چاک اور بعض اوقات محرم کے بند تک دکھائی دے جاتے ہیں۔ گو یقین سے کچھ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ چغتائی کی تص...
تعصب اور غصہ کے جذبات عموماً تنگ نظری کی بنا پر پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کی نظر جوں جوں وسیع ہوتی جاتی ہے، دل میں ہمدردی، رواداری، دوسروں کی ہوا خواہی زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے۔ البتہ فطرت کی نیرنگیوں، مشیت تکوینی کی عجائب کاریوں، علم مطلق کے مظہروں کو دیکھ کر حیرت ضرور طاری ہوتی رہتی ہے۔شیخ جی کی نظر میں میں ہوں فقط
میرے چہرے پر منقش اس طرح تاریخ ہےجیسے اک کہنہ عجائب گھر کا باشندہ ہوں میں
بڑی بھاوج ان سے کہتیں۔۔۔ دیوانے ہوئے ہو۔ بٹیا کو کب تلک اپنے پاس بٹھلاؤ گے۔ آج نہ گئی کل گئی۔ جانا تو اسے ہے ہی ایک دن۔ یہاں اس کے لیے اب کون سے رشتے رکھے ہیں۔ سارے اچھے اچھے لڑکے ایکو ایک پاکستان چلے گئے اور وہاں ان کی شادیاں بھی دھبا دھب ہو رہی ہیں۔ یہ اصغرعباس کے پاس پہنچ جاتی تو وہ اسے بھی کوئی ڈھنگ کا لڑکا دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتا۔۔۔ بڑی بھا...
ننگی عورتوں کی تصویریں بنائی جاتی تھیں، ننگی عورتوں کے مجسمے تراشے جاتے تھے۔ اسی پر موقوف نہیں، ان کو بڑے پیار سے عجائب خانوں میں سجایا جاتا تھا۔ ان کے بنانے والوں کو انعام و اکرام دیے جاتے تھے۔۔۔ جی ہاں، انعام و اکرام۔۔۔ وظیفے دیے جاتے تھے، القاب عنایت کئے جاتے تھے کہ واہ مصور صاحب، آپ نے ننگی عورت کی تصویر کیا خوب کھینچی ہے۔۔۔ یہ پستان۔۔۔ لا حول ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books