aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "چھ"
محمد افروز قادری چر یا کوٹی
born.1979
مصنف
لیو شاؤ چی
چغ پبلیکیشن، دہلی
چت پریہ رائے
جامعہ ایّوبیہ نصیر چک، پاتے پور، ویشالی
ناشر
موہن لال چھا
چی ہیرو فوجی
ایش پریم دھر چت
الف چ
چس پریس، حیدرآباد
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اٹھا ہواسینہ، تیز آنکھیں، بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔ایشر سنگھ گوسرنیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔سرپر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہورہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے تھے، تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے، مگر اس کے قدوقامت اور خدوخال سے پتہ چلتا تھا کہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔
ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا، ’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا، ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے...
سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا۔۔۔؟ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی۔۔۔؟ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہوگیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کرلے گیے؟سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہوگیے تھے۔چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا، ’’گورارنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔ عمر سترہ برس کے قریب ہے۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔ بال سیاہ، داہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لاؤ۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والامیں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگیے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں، جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین ...
منشی نول کشور نے 1857 کے غدر کے بعد ہندوستان کی تہذیب، ادب اور علمی ورثے کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1858 میں قائم ہونے والا ان کا پریس مختلف موضوعات جیسے مذہب، تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس اور فنون پر تقریباً چھ ہزار کتابیں شائع کر چکا تھا۔ یہ پریس 1950 میں خاندانی تنازعات کے باعث بند ہو گیا، مگر اس کے تاریخی کارنامے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ریختہ کے پاس منشی نول کشور پریس سے شائع ہونے والی کتابوں کا ایک قیمتی ذخیرہ موجود ہے، جہاں ہر موضوع پر کتابیں دستیاب ہیں۔
یہ کلیکشن مرزا غالب کی ان لازوال غزلوں پر مشتمل ہے، جنہیں جگجیت سنگھ نے اپنی دل نشین اور روح کو چھو لینے والی آواز میں گایا ہے۔ ان منتخب غزلوں میں عشق کی شدت، ہجر کا کرب، اور زندگی کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہوئی فکر کی وہ لطیف پرتیں شامل ہیں جو دل و دماغ کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں۔ یہ انتخاب سننے والوں کو کلاسیکی اردو شاعری کے جمال اور غزل گائیکی کی لطافت سے آشنا کرتا ہے — ایک ایسا امتزاج جو دل کو چھو جائے، اور دیر تک ذہن میں گونجتا رہے۔ آیئے، اس نایاب انتخاب کو پڑھیے، سنیے، غزل اور آواز کی اس خوبصورت ہم آہنگی میں ڈوب جائیے۔
محبوب کے لبوں کی تعریف وتحسین اور ان سے شکوہ شکایت شاعری میں عام ہے ۔ لبوں کی خوبصورتی اور ان کی نازکی کے مضمون کو شاعروں نے نئے نئے دڈھنگ سے باندھا ہے ۔ لبوں کے شعری بیان میں ایک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان پر ایک گہری چپ پڑی ہوئی ہے ، وہ ہلتے نہیں عاشق سے بات نہیں کرتے ۔ یہ لب کہیں گلاب کی پنکھڑی کی طرح نازک ہیں تو کہیں ان سے پھول جھڑتے ہیں ۔اس مضمون میں اور بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
छेچھ
six
چھ رنگیں دروازے
منیر نیازی
مجموعہ
چھ سو برس پہلے کا ہندوستان
مقبول احمد سیوہاروی
تہذیبی وثقافتی تاریخ
کامیابی صرف چھ قدم پر
دنیش وھورا
خواتین کی تحریریں
ایک کہانی چھ ادیبوں کی زبانی
صادق الخیری
افسانہ
چپ کی داد
الطاف حسین حالی
نظم
چپ
ممتاز مفتی
چھ مزیدار کہانیاں
خاکی حیدرآبادی
جگنو اور اقبال کی دیگر چھ نظمیں
انجمن اقبال، حیدرآباد
ایک چپ سو دکھ
آدم شیر
شرح مثنوی پس چہ باید کرد مع مسافر
خواجہ حمید یزدانی
شرح
بولو مت چپ رہو
حسین الحق
ناول
چھ باتیں
محمد عاشق الٰہی
سووئٹ نظام کی چھ کنجیاں
برٹرم ڈی وولف
تاریخ
فتحنامۂ سندھ المعروف بہ چچ نامہ
علی بن حامد
شہر میرے ساتھ چل تو
ندا فاضلی
میں ان آنکھوں کا ذکر کررہا تھا جو مجھے بے حد پسند تھیں۔پسند کا معاملہ انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے اگر آپ یہ آنکھیں دیکھتے تو آپ کے دل و دماغ میں کوئی رد عمل پیدا نہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سے اگر ان کے بارے میں کوئی رائے طلب کی جاتی تو آپ کہہ دیتے،’’نہایت واہیات آنکھیں ہیں۔‘‘ لیکن جب میں نے اس لڑکی کو دیکھا تو سب سے پہلے مجھے اس کی آنکھو...
اس کا منہ میری طرف تھا کہ ایک اور فائر ہوا۔ پلٹ کر اس نے گوروں کی طرف دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا۔۔۔ بھائی جان نظر تو مجھے کچھ نہیں آنا چاہیے تھا، مگر میں نے دیکھا کہ اس کی سفید بوسکی کی قمیص پر لال لال دھبے تھے۔۔۔ وہ اورتیزی سے بڑھا، جیسے زخمی شیر۔۔۔ ایک اور فائر ہوا۔ وہ لڑکھڑایا مگر ایک دم قدم مضبوط کرکے وہ گھڑ سوار گورے پر لپکا اور چشم زدن میں ...
اس کی سانس تیزی سے چل رہی تھی، پھر رک جاتی، پھر تیزی سے چلنے لگتی۔ اس نے میرے شانے کو اپنی انگلیوں سے چھوا اور پھر اپنا سر وہاں رکھ دیا اور اس کے گہرے سیاہ بالوں کا پریشان گھنا جنگل دور تک میری روح کے اندر پھیلتا چلا گیا اور میں نے اس سے کہا، ’’سہ پہر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘اس نے ہنس کر کہا، ’’اب رات ہو گئی ہے، بڑی اچھی رات ہے۔‘‘ اس نے اپنا کمزور ننھا چھوٹا سا ہاتھ میرے دوسرے شانے پر رکھ دیا اور جیسے بادام کے پھولوں سے بھری شاخ جھک کر میرے کندھے پر سو گئی۔
رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اکسانے والی تھیں۔ اس کے جی میں آئی کہ بزن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو انھوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے گالیاں لڑھکانا شروع کردیں۔۔۔ رب نواز کے لیے اس قسم کی لڑائی بالکل نئی چیز تھی۔ اس نے جوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کے لیے کہا، مگر گ...
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہوگاچھ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہوگا
ایسی یخ بستہ تعبیروں کے ہر دن سے اچھی ہیں اور سچی بھی ہیںجس میں دھندلا چکر کھاتا چمکیلا پن چھ اطراف کا روگ بنا ہے
حامد اندر جا کر امینہ سے کہتا ہے، "تم ڈرنا نہیں امّاں! میں گاؤں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گاؤں کے بچے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جا رہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔ اس بھیڑ بھاڑ میں کہیں کھو جائے تو کیا ہو؟ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان۔ تین کوس چلے گا تو پاؤں میں چھالے نہ پڑ جائیں گے؟مگر وہ چلی جائے تو یہاں سوّیاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیا اس وقت سوّیاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہیمن کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لئے لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے، دینے پڑے۔ حامد کے لئے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کل دو آنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں۔ یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑاپار کرے گا۔ دھوبن مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔سب کو سیویّاں چاہئیں۔ کس کس سے منہ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے۔ ان کی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے بچّے کو خدا سلامت رکھے یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔
باورچی خانہ میں گرم مصالحہ کوٹتے وقت جب لوہے سے لوہا ٹکراتا اور دھمکوں سے چھت میں ایک گونج سی دوڑ جاتی تو مومن کے ننگے پیروں کو یہ لرزش بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ پیروں کے ذریعے سے یہ لرزش اس کی تنی ہوئی پنڈلیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی، جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی طرح کانپنا شروع کر دیتا۔مومن کی عمر پندرہ برس کی تھی۔ شاید س...
یہ مسئلہ کوئی مہینے بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے سے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کو خرید لینا چاہئے اور انہیں رہنے کے لیے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہئے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نا فرمانی کر کے بھاری جرمانے اور قیدیں بھگتیں مگر بلدیہ کی...
علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سرکھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے، بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ، ’’کتا وفادار جانور ہے۔‘‘ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books