aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "कटोरा"
مطبع مجددی امرتسر، کٹرہ
ناشر
شہر سے دو روزانہ، تین ہفتہ وار اور دس ماہانہ رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ ان میں چار ادبی، دو اخلاقی و معاشرتی و مذہبی، ایک صنعتی، ایک طبی، ایک زنانہ اور ایک بچوں کا رسالہ ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں بیس مسجدیں، پندرہ مندر اور دھرم شالے، چھ یتیم خانے، پانچ اناتھ آشرم اور تین بڑے سرکاری ہسپتال ہیں جن میں سے ایک صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ شروع شروع میں کئی سال تک یہ شہر اپنے رہنے والوں کے نام کی مناسبت سے ’’حسن آباد‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا مگر بعد میں اسے نامناسب سمجھ کر اس میں تھوڑی سی ترمیم کر دی گئی۔ یعنی بجائے ’’حسن آباد‘‘ کے ’’حسن آباد‘‘ کہلانے لگا۔ مگر یہ نام چل نہ سکا کیونکہ عوام حسن اور حسن میں امتیاز نہ کرتے۔ آخر بڑی بڑی بوسیدہ کتابوں کی ورق گردانی اور پرانے نوشتوں کی چھان بین کے بعد اس کا اصلی نام دریافت کیا گیا، جس سے یہ بستی آج سے سیکڑوں برس قبل اجڑنے سے پہلے موسوم تھی اور وہ نام ہے ’’آنندی۔‘‘
’’آپ ہم سے خفا ہو گئیں؟‘‘ راحت نے پانی کا کٹورا لے کر میری کلائی پکڑ لی۔ میرا دم نکل گیا اور بھاگی تو ہاتھ جھٹک کر۔’’کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ بی آپا نے شرم و حیا سے گھیل ہوئی آواز میں کہا۔ میں چپ چاپ ان کا منہ تکنے لگی۔
دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔جاننا چاہئے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہر اس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پا یا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔
آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضباور اسی میں شراب سرخی پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی
’’تو پھر تو یہ کیوں پوچھتی ہے کہ وہ کدھر گئی۔‘‘اور مائی نے اپنے سینے پر اس زور کا دوہتڑ مارا جیسے چودھری فتح دین کی حویلی کا دروازہ ٹوٹا ہے۔ وہ دھپ سے بیٹھ کر اونچی آواز میں رونے لگی۔ وارث علی نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ’’کسی نے سن لیا تو آ جائےگا۔‘‘ وہ بولا۔ پھر اسے بڑی مشکل سے کھینچ کر اٹھایا۔ ’’تو میری حالت دیکھ رہی ہے مائی۔ میں صرف اپنے خدا کی قدرت اور اپنے ایمان کی طاقت سے زندہ ہوں ورنہ میرے اندر کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ میں گلیوں میں سے لاشیں گھسیٹ گھسیٹ کر ایک گڑھے میں جمع کر رہا ہوں۔ ابھی مجھے فتح دین اور لال دین اور نور الدین اور ماسی جنت کی لاشیں وہاں پہنچانی ہیں۔ پھر میں ان پر مٹی ڈال کر ان کا جنازہ پڑھوں گا اور مر جاؤں گا۔ مائی بےجنازہ نہ مر۔ لاہور چلی جا۔۔۔ ہندوستانی فوج ادھر سے آ گئی ہے۔ تو ادھر کھیتوں میں چھپتی چھپاتی نکل جا میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ دیکھ لو میرے تو جوتے بھی خون سے بھر گئے ہیں۔‘‘
कटोराکٹورا
bowls
ایک بار بیگو موچھیل نے چھیڑا تو بولی، ’’میں موچی کی بیٹی ہوں کھال اتار لیتی ہوں۔‘‘ بیگو کو اتنی شرم آئی کے سیدھا نائی کے پاس گیا اور مونچھوں کی نوکیں کٹوا دیں۔ سب ہنسنے لگے اور دیر تک ہنستے رہے۔ میں نے کہا، ’’اگر وہ اتنی محنتی لڑکی ہے تو اس کی عزت کرنی چاہیے۔‘‘
’’بس ایک فکر ہے مجھے۔۔۔‘‘جاڑے کے بادلوں میں سورج نے پہلی بار شکل دکھائی۔
ستارہ کو زہرہ بے حد غیرلگی۔ وہ انتہائی بے دلی سے کرسی پر بیٹھ گئی جیسے اب اسے کسی بات سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ زہرہ جو ابھی لمحہ بھر پہلے الاؤ میں گرے ہوئے سوکھے پتے کی طرح چرمرا کر سربلند ہوگئی تھی، اب پھر راکھ کی طرح پرسکون ہوگئی۔’’میں تمہیں کیا کیا بتاتی میری ستو۔۔۔ تمہیں یاد ہے اسی دن مجھے زرد کپڑے پہنائے گئے تھے اور تم سب نے میرے ہاتھ پیروں پر مہندی لگائی تھی، رات کتنی دیر تک ڈھولک بجی تھی۔ تم سب نعیم کا نام لے کر مجھے چھیڑ رہی تھیں اور مجھے لگتا کہ تم سب ریاض کا نام لے رہی ہو۔ میں اس رات جیسے ریاض کی دلہن بن گئی تھی۔‘‘ زہرہ جیسے پھر خواب میں بول رہی تھی۔
دیش کا ایک اک نین کٹوراسارے جہاں پر ڈالے ڈورا
’’اتنی ٹھنڈی کیوں پڑگئی لیمو‘‘، بہت پیار آتا تو چھمن میاں حلیمہ سے لیمہ اور لیمہ سے لیمو کہتے۔چھمن نے اسے رضائی میں سمیٹ لیا اور لمبی لمبی سانسیں بھر کر سونگھنے لگے۔ کیسی مہکتی ہے لیمو جیسے پکا ہوا دسہری، جی نہیں بھرتا، پانی کا چھلکتا کٹورہ روز پیو، روز پیاس تازہ، مگر اتنا پیار کرنا خود غرضی ہے۔ مرجھائی جاتی ہے۔ نہیں اب وہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگائیں گے۔ اے وقت یہیں ٹھہر جا، نہ پیچھے مڑ کر دیکھ، نہ آگے نظر ڈال کر پیچھے چھوٹا اندھیرا ہے اور آگے؟ آگے کیا بھروسہ ہے۔
کٹورا ہی نہیں ہے ہاتھ میں بس فرق اتنا ہےجہاں بیٹھے ہوئے ہو تم کھڑے ہم بھی وہیں بابا
ادھر کسی کو یہ سوجھی کی بقرعید کے لئے جو بھیڑیں گھر میں آئی ہوئی ہیں، وہ ضرور بھوکی ہوں گی۔ چلو لگے ہاتھوں انہیں بھی دانہ کھلا دیا جائے۔ دن بھر کی بھوکی بھیڑیں دانے کا سوپ دیکھ کر جو سب کی سب جھپٹیں، تو بھاگ کر اپنا آپ بچانا مشکل ہو گیا۔ لشتم پشتم تختوں پر چڑھ گئے۔ پر بھیڑچال مشہور ہے۔ ان کی نظریں تو بس دانے کے سوپ پر جمی ہوئی تھیں۔ پلنگوں کو پھل...
ننھی کی نانی کا ماں باپ کانام تو اللہ جانے کیا تھا۔ لوگوں نے کبھی انہیں اس نام سےیاد نہ کیا۔ جب چھوٹی سی گلیوں میں ناک سڑسڑاتی پھرتی تھیں تو بفاطن کی لونڈیا کے نام سے پکاری گئیں۔ پھر کچھ دن ’’بشیرے کی بہو‘‘ کہلائیں پھر ’’بسم اللہ کی ماں‘‘ کےلقب سے یاد کی جانےلگیں۔ اور جب بسم اللہ چاپے کے اندر ہی ننھی کو چھوڑ کر چل بسی تو وہ ’’ننھی کی نانی‘‘ کے نام ...
گھمنڈی کو پتہ چل گیا کہ ماں سے کسی بات کا چھُپانا عبث ہے۔ ماں۔ جو چوبیس سال ایک شرابی کی بیوی رہی ہے۔ گھمنڈی کا باپ جب بھی دروازے پر دستک دیا کرتا، ماں فوراً جان لیتی کہ آج اس کے مرد نے پی رکھی ہے۔ بلکہ دستک سے اسے پینے کی مقدار کا بھی اندازہ ہو جاتا تھا۔ پھر گھمنڈی کا باپ بھی اسی طرح دبکے ہوئے داخل ہوتا۔ اسی طرح پچھوا کے شور کو شرمندہ کرتے ہوئے۔ ا...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books